ناران میں نکاح نامے کے بغیر داخلے کی پابندی کی خبر جھوٹی قرار
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
ویب ڈیسک: خیبرپختونخوا کے مشہور سیاحتی مقام ناران میں نکاح نامے کے بغیر داخلے پر پابندی سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبر جھوٹی نکلی ہے۔ اس معاملے پر ڈی پی او مانسہرہ عمر طارق نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی پابندی نہ لگائی گئی ہے اور نہ ہی زیر غور ہے۔
ڈی پی او کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر جس میں مبینہ طور پر نکاح نامے کے بغیر داخلے پر پابندی کا بینر دکھایا گیا ہے کسی دوسرے ملک کی ہے اور پاکستان یا ناران سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تصویر اور اس کے ساتھ کیا جانے والا پروپیگنڈا غلط اور گمراہ کن ہے اور ہم اس فیک خبر کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
بھارت میں ایشیا کپ فائنل 100 سے زائد سینما گھروں میں دکھائے جانے کا اعلان
ڈی پی او عمر طارق نے کہا کہ ناران سمیت خیبرپختونخوا کے تمام سیاحتی مقامات ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لیے مکمل طور پر کھلے ہیں۔سیاحوں کی سہولت اور سکیورٹی کے لیے فول پروف انتظامات کیے گئے ہیں۔پولیس کی کوشش ہے کہ سیاحوں کو پرامن، محفوظ اور خوشگوار ماحول فراہم کیا جائے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں ایک بینر پر لکھا گیا تھا کہ "نکاح نامہ دکھائے بغیر ناران میں داخلے کی اجازت نہیں"۔ اس تصویر کے ساتھ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ پالیسی ناران میں نافذ کی گئی ہے جس پر عوام اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تاہم اب پولیس حکام نے اس خبر کی مکمل تردید کر دی ہے۔
ہربنس پورہ کے علاقے میں مبینہ پولیس مقابلہ، ملزم ہلاک
سیاح ناران اور دیگر علاقوں کا رخ بغیر کسی خدشے کے کر سکتے ہیں، نکاح نامے سے متعلق کوئی شرط یا پابندی نہیں لگائی گئی۔ حکام نے سوشل میڈیا صارفین سے اپیل کی ہے کہ غیر مصدقہ خبروں پر یقین نہ کریں اور صرف سرکاری ذرائع سے جاری شدہ معلومات پر بھروسہ کریں۔
دوسری جانب وادی ناران کے ہوٹل مالکان نے عالمی یوم سیاحت کے موقع پر سیاحوں کے لئے پچاس فیصد رعایتی پیکج کا اعلان کردیا۔ تفصیلات کے مطابق سیاحتی مقام ناران قدرتی اور اپنے طلسماتی حسن کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا مسکن رہتا ہے۔ عالمی یوم سیاحت کے موقع ہر ناران ہوٹل مالکان کی جانب سے سیاحوں کے لئے ہوٹل کمروں اور جیب کے کرایوں میں پچاس فیصد رعایت کا اعلان کردیا ہے۔ ناران آنے والے سیاحوں نے رعایتی پیکج کو خوش آئیند قرار دیا ہے، غیر ملکی خاتون سیاح بھی عالمی یوم سیاحت کے موقعے پر ناران میں موجود ہیں جہاں ان کی موج مستیاں جاری ہیں۔
پاکستان نے سوریا کمار کے بعد ایک اور بھارتی کھلاڑی کیخلاف آئی سی سی میں شکایت کردی
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا نکاح نامے
پڑھیں:
مسٹر بیسٹ کا ہم شکل امریکی پارلیمنٹ تک پہنچ گیا
امریکہ کے سیاست میں ایک نیا چہرہ سامنے آیا ہے، جس نے نہ صرف سیاسی حلقوں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی توجہ حاصل کی ہے۔ 22 سالہ بریڈی پینفیلڈ نے جو ویسکانسن کے رہائشی ہیں، حال ہی میں ریاستی اسمبلی میں حصہ لینے کے لیے امیدوار کا اعلان کیا۔ دلچسپی صرف اس بات میں نہیں تھی کہ وہ ایک نئی سیاسی شخصیت ہیں، بلکہ اس کے انداز اور ظاہری شکل کی وجہ سے وہ سوشل میڈیا پر خاصے مقبول ہو گئے۔
پینفیلڈ کی مسٹر بیسٹ، یعنی جمی ڈونلڈسن سے غیر معمولی مماثلت نے انٹرنیٹ صارفین کو حیران کر دیا۔ جیسے ہی انہوں نے ایکس پر اپنی تصویر شیئر کی، تب سے صارفین کے تبصرے جاری ہیں، جن میں کسی نے کہا کہ وہ ”مسٹر بیسٹ سے بہت زیادہ شباہت رکھتے ہیں“ اور کسی نے مذاق میں پوچھا، ”مسٹر بیسٹ، تم نے سیاست شروع کر دی؟“ اس طرح کی مماثلت کی خبروں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کس حد تک ہم بصری مماثلت کو حقیقت کے ساتھ جوڑتے ہیں اور اس کا انسانی رویے پر کیا اثر پڑتا ہے۔
بریڈی پینفیلڈ نے اس شباہت کو تسلیم کیا اور کہا کہ کئی لوگوں نے یہ بات ان سے کہی ہے۔ وہ یونیورسٹی آف ویسکانسن ریور فالز کے فارغ التحصیل ہیں، جہاں انہوں نے کالج ریپبلکنز چپٹر کی بنیاد رکھی اور اس کی قیادت کی۔ ان کا سیاسی پس منظر ٹرننگ پوائنٹ ایکشن کے فیلڈ نمائندے کے طور پر کام کرنے اور طلبہ و اساتذہ کے ایک وسیع نیٹ ورک کو بنانے پر مشتمل ہے۔
اپنے تعارف میں پینفیلڈ نے بتایا کہ وہ ایک ڈیموکریٹک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ہائی اسکول کے تیسرے سال، 2020 میں، کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران کنزرویٹو نظریات کو اپنانا شروع کیا۔ یہ ایک دلچسپ پہلو ہے، جو نوجوانوں میں سیاسی رجحانات کی تبدیلی اور وقت کے اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے ذریعے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ کس طرح ذاتی تجربات اور عالمی حالات نوجوان ذہنوں میں سیاسی سمت متعین کرتے ہیں۔
Ain’t no way bro https://t.co/vx4DaYCP91 pic.twitter.com/t428L8GJg4
— Bx (@bx_on_x) November 8, 2025
مسٹر بیسٹ، یعنی جمی ڈونلڈسن، ایک مشہور یوٹیوبر، کاروباری شخصیت اور فلاحی کارکن ہیں۔ وہ اپنے وائرل چیلنجز، بڑے پیمانے پر انعامات، اور فلاحی سرگرمیوں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی نمایاں مہمات میں ”ٹیم ٹریز“ کے تحت لاکھوں درخت لگانا اور ”فیڈنگ امیریکا“ کے ذریعے خوراک کی فراہمی شامل ہے۔ اس کے ذریعے وہ نوجوانوں اور سوشل میڈیا صارفین کو مثبت اثر ڈالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
یہ مماثلت ہمیں ایک دلچسپ سوال بھی دیتی ہے، آج کے دور میں میڈیا اور عوامی تاثر کس طرح کسی شخصیت کے بارے میں رائے قائم کرتا ہے؟ جب ایک نوجوان سیاستدان اور ایک یوٹیوبر کے ظاہری فرق کو کم کر کے لوگ فوری طور پر شناخت کر لیتے ہیں، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بصری تاثر کس حد تک ہماری سوچ اور توقعات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
بریڈی پینفیلڈ کی مثال اس بات کا عکاس ہے کہ نوجوان سیاستدان صرف سیاسی ایجنڈا ہی نہیں، بلکہ اپنی شخصیت، طرزِ بیان اور یہاں تک کہ ظاہری شکل کے ذریعے بھی عوام کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، سوشل میڈیا کے اس اثر نے یہ واضح کیا کہ آج کے دور میں سیاست اور تفریح کے درمیان سرحدیں کتنی دھندلی ہو چکی ہیں۔
آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا پینفیلڈ اس شباہت کو اپنی سیاسی شناخت کے لیے استعمال کرتے ہیں یا پھر صرف ایک تفریحی مباحثہ بن کر رہ جائے گا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت آج ہر نئے سیاسی اور عوامی چہرے کے لیے ایک اہم عنصر بن چکی ہے، جو نہ صرف ان کی شناخت بلکہ عوام کے ردعمل کو بھی شکل دیتی ہے۔