ماہرہ اور فواد خان کی ‘نیلوفر‘ کب ریلیز ہوگی؟ تاریخ سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
پاکستانی سنیما کے مداحوں کےلیے انتظار کی گھڑیاں اختتام کو پہنچ گئی ہیں۔ سپر اسٹار ماہرہ خان اور فواد خان کی مشترکہ فلم ’نیلوفر‘ کی ریلیز کی تاریخ کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا ہے۔
مداحوں کی پسندیدہ جوڑی کی فلم 28 نومبر 2025 کو دنیا بھر کے سنیما گھروں میں ریلیز کی جائے گی۔
یہ فلم نہ صرف ماہرہ خان اور فواد خان کو ایک بار پھر بڑی اسکرین پر اکٹھا دکھائے گی بلکہ اس میں مدیحہ امام، بہروز سبزواری، عتیقہ اوڈھو، سمیعہ ممتاز، نوید شہزاد، فیصل قریشی اور گوہر رشید جیسے نامور اداکار بھی اپنے اپنے کرداروں میں نظر آئیں گے۔
فلم میں ماہرہ خان ایک یادگار کردار ادا کر رہی ہیں، جبکہ فواد خان پروفیسر کے روپ میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائیں گے۔ فواد خان نہ صرف اس فلم کے مرکزی اداکار ہیں بلکہ وہ اس کے پروڈیوسر بھی ہیں۔
یہ جوڑی پاکستانی ٹیلی ویژن اور سینما کے مداحوں میں خاصی مقبول ہے، اور ان کی یہ فلم ان شائقین کے لیے ایک خاص تحفہ ثابت ہوگی جو برسوں سے ان دونوں اداکاروں کو ایک ساتھ بڑی اسکرین پر دیکھنے کے منتظر تھے۔ فلم کی دنیا بھر میں ہونے والی ریلیز سے پاکستانی سنیما کی بین الاقوامی سطح پر مقبولیت میں اضافے کی توقعات ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فواد خان
پڑھیں:
سیاست اور کھیل
کھیل انسان کی فطرت کا حصہ ہیں۔ دوڑنے، بھاگنے، تیر چلانے اور نشانہ باندھنے سے لے کر آج کے زمانے کے کرکٹ اور فٹ بال تک یہ سب انسان کی جسمانی قوت، ذہنی تیزی اور تخلیقی رجحان کے مظہر ہیں۔ کھیلوں سے صحت بہتر ہوتی ہے، برداشت جنم لیتی ہے اور اجتماعی طور پر ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملتا ہے، مگر جب کھیل کے میدان کو سیاست کے داؤ پیچ میں جکڑ دیا جاتا ہے تو یہ نامناسب ہے۔
28 ستمبر کو ایشیا کپ کا فائنل تھا۔ پاکستان اور بھارت آمنے سامنے تھے۔ کروڑوں آنکھیں اس منظر پر جمی تھیں، بھارت جیت گیا، پاکستان ہار گیا۔ میدان میں ایک ٹیم نے کامیابی حاصل کی اور دوسری شکست سے دوچار ہوئی مگر میدان سے باہر یہ کھیل ایک اور طرح کا تھا۔ کبھی کھلاڑیوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا، کبھی کسی نے پرانی جنگوں اور طیارے گرانے کے اشارے دیے، گویا کھیل کا اصل مقصد کہیں کھوگیا اور یہ کھیل بھی رنجش اور نفرت کی نظر ہوگیا۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کھیل اور تماشے ہمیشہ سے حکمرانوں کے ہتھیار رہے ہیں۔ روم کی سلطنت اپنے عروج پر تھی، گلیڈیئیٹرز کی لڑائیاں بڑے بڑے میدانوں میں کرائی جاتیں۔
شیر اور انسان کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جاتا، تلوار ٹکراتی، خون بہتا اور ہزاروں لوگوں کی تالیوں اور نعروں سے فضا گونج اٹھتی مگر کیا ان تماشوں سے عوام کی بھوک مٹتی تھی؟ کیا غربت کم ہوتی تھی؟ کیا مظلوم کی فریاد سنائی دیتی تھی؟ نہیں۔ حکمران جانتے تھے کہ اگر لوگ روٹی مانگیں گے، انصاف کا مطالبہ کریں گے تو تخت لرز جائیں گے۔ اس لیے انھیں کھیل تماشے اور خون کی ہولی میں الجھا دو تاکہ اصل سوال دب جائیں۔
روم کی تاریخ میں یہ قول مشہور ہوا Bread and Circuses یعنی روٹی اور تماشا، عوام کو اتنا اناج دے دو کہ وہ زندہ رہیں اور اتنا کھیل دکھا دو کہ وہ سوال نہ کریں۔ یہی ترکیب آج بھی نظر آتی ہے۔ جب غربت بیروزگاری اور ناانصافی اپنے عروج پر ہوتی ہے تو کھیلوں کو سیاست کی ڈھال بنا دیا جاتا ہے۔ ہمارے خطے میں بھی یہی روش ہے۔
پاکستان اور بھارت جب کرکٹ کھیلتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے میدان میں گیارہ گیارہ کھلاڑی نہیں بلکہ دونوں ممالک کی پوری تاریخ آمنے سامنے کھڑی ہے۔ جیت کو قوم کی فتح اور ہارکو قومی المیہ بنا دیا جاتا ہے۔ جذبات اتنے بھڑکائے جاتے ہیں کہ تعلیم، بھوک، بیماری اور سیلاب زدگان سب پس منظر میں چلے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک عام مزدور جو شام کو گھر آکر بجلی کے بل اور آٹے کی قیمت کے بوجھ تلے دبا ہوتا ہے، اگلے دن کرکٹ میچ کی جیت یا ہار پر اپنی جھوٹی تسلی ڈھونڈتا ہے۔
یہ کھیل صرف کھیل نہیں رہتے بلکہ ایک نفسیاتی ہتھیار بن جاتے ہیں۔ عوام کو خواب دکھائے جاتے ہیں، جیسے اگر میچ جیت لیا تو سب کچھ سنور جائے گا، مگر کیا ایک چھکا مارنے سے فیکٹری کے مزدور کی اجرت بڑھتی ہے؟ کیا ایک وکٹ لینے سے بیوہ کا چولہا جلتا ہے؟ کیا ایک فائنل جیتنے سے ہزاروں اسکول کھل جاتے ہیں؟ نہیں مگر عوام کو بہلانے کے لیے یہ فریب بار بار دہرایا جاتا ہے۔
یونان کی تاریخ بھی ہمیں بتاتی ہے کہ اولمپکس کھیلوں کا مرکز تھے۔ وہاں بھی حکمران جانتے تھے کہ کھیل انسانوں کو متحد کرسکتے ہیں اور سوالوں کو موخرکرسکتے ہیں لیکن یونان اور روم کے زمانے میں کھیل کم از کم جسمانی قوت اور انسانی صلاحیت کی نمایندگی کرتے تھے۔ آج کھیل کے ساتھ میڈیا،کارپوریٹ سرمایہ اور سیاست کی گٹھ جوڑ نے اسے ایک صنعت میں بدل دیا ہے۔ ایک کھلاڑی کی شرٹ پر چھپی کمپنی کے اشتہار سے کمپنی اربوں کماتی ہے مگر وہی ملک اپنے اسپتالوں میں دوائیں فراہم نہیں کر پاتا۔
کھیل ہمیں دشمنی نہیں سکھاتا، بلکہ کھیل تو ہمیں سکھاتا ہے کہ جیتنے اور ہارنے کے باوجود وقار سے کھڑے رہنا چاہیے، لیکن یہ کھیل جب نفرت سیاست اور سرمایہ دارانہ منافع کے ہتھیار بن جاتے ہیں تو ان کا حسن کھو جاتا ہے۔
آج پاکستان میں لاکھوں بچے بھوک کا شکار ہیں، لاکھوں نوجوان تعلیم کے دروازے سے باہر کھڑے ہیں، ہزاروں خاندان سیلاب کے بعد خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ایسے میں کروڑوں روپے کرکٹ پر خرچ کیے جاتے ہیں اور ہم سب اپنی ساری توانائی اس پر لگا دیتے ہیں کہ کون جیتا اورکون ہارا جیسے ہماری ساری زندگی کی کامیابی یا ناکامی اسی ایک نتیجے پر منحصر ہو۔ تاریخ ہمیں بار بار یہ سکھاتی ہے کہ اصل کھیل وہ ہے جو انسانیت کے میدان میں کھیلا جاتا ہے۔ وہ کھیل جس میں ایک ڈاکٹر دیہات کے بچوں کو مفت دوائیں دیتا ہے، ایک استاد غریب طالب علم کو پڑھاتا ہے، ایک مزدور اپنی محنت سے شہرکو زندہ رکھتا ہے، یہی وہ کھلاڑی ہیں جن کی جیت ساری قوم کی جیت ہے۔
ہمارے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم کھیلوں کو کھیل رہنے دیں۔ انھیں سیاست اور نفرت کا ہتھیار نہ بنائیں اور اپنی اصل جنگ بھوک، جہالت اور بیماری کے خلاف لڑیں، اگر ہم نے صرف کھیل کو سب سے بڑا معرکہ سمجھ لیا تو کل ہماری تاریخ بھی روم کی تاریخ کی طرح لکھی جائے گی کہ ایک قوم بھوک سے مر رہی تھی لیکن اس کے حکمران اور عوام کھیل اور تماشے میں مگن تھے۔
اگر ہم کھیل سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اس محبت کو مثبت رخ دینا ہوگا۔ کھیل کو انسانوں کے بیچ دیوار نہیں پل بنانا ہوگا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم کھیلوں کو ایک بہتر سماج کے لیے استعمال کریں، نہ کہ ایک ایسے ہتھیار کے طور پر جو ہمیں اصل جنگ یعنی بھوک لاعلمی اور غربت سے غافل رکھے۔