بھارت اور برطانیہ کی شراکت عالمی استحکام کی بنیاد، مودی
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اکتوبر 2025ء) برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر، وزیر اعظم کے طور پر 125 رکنی وفد کے ہمراہ پہلی بار بھارت آئے ہیں۔
اسٹارمر نے جمعرات کو ممبئی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ اس کے بعد دونوں رہنماؤں کی طرف سے مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔
نریندر مودی نے کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ''اہم پیش رفت‘‘ ہوئی ہے، اور دونوں نے ''بے مثال‘‘ اقتصادی مواقع کے دروازے کھولنے کا عہد کیا ہے۔
مودی نے کہا، موجودہ عالمی غیر یقینی صورتحال کے دوران بھارت اور برطانیہ کے درمیان یہ بڑھتی ہوئی شراکت عالمی استحکام اور اقتصادی ترقی کی ایک اہم بنیاد بنی ہوئی ہے۔
وزیراعظم مودی نے کہا، ''اقتصادی اور تجارتی معاہدے پر دستخط کے چند ہی ماہ بعد برطانیہ کے وزیراعظم اسٹارمر کی بھارت آمد، جس کے ساتھ اب تک کا سب سے بڑا تجارتی وفد آیا ہے، بھارت-برطانیہ شراکت میں نئے جوش کی علامت ہے۔
(جاری ہے)
‘‘مودی نے ہندی میں اسٹارمر سے کہا، ہم مل کر دونوں ممالک کے عوام کے لیے روشن مستقبل تعمیر کریں گے۔
کیئر اسٹارمر نے کیا کہا؟برطانیہ کے وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے بھی دونوں ممالک کے درمیان جولائی میں ہونے والے اقتصادی اور تجارتی معاہدے کو اہم قرار دیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ برطانیہ میں بالی وڈ فلمیں بنانے کے لیے ایک معاہدہ ہوا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ برطانوی یونیورسٹیاں بھارت میں اپنے کیمپس قائم کریں گی، جس سے برطانیہ یہاں اعلیٰ تعلیم کا سب سے بڑا بین الاقوامی فراہم کنندہ بن جائے گا۔
اسٹارمر نے کہا، ''بھارت کی ترقی کی کہانی قابلِ تعریف ہے‘‘، اور نوٹ کیا کہ نئی دہلی کی 2028 تک دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی خواہش ہے۔
اسٹارمر نے کہا، ''میں نے یہاں جو کچھ بھی دیکھا ہے وہ مجھے بالکل یقین دلاتا ہے کہ آپ اس میں کامیاب ہونے کے راستے پر ہیں۔
اس لیے ہم اس سفر میں شراکت دار بننا چاہتے ہیں۔‘‘ برطانیہ بھارت آزاد تجارتی معاہدہبین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، بھارت2022 میں دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن گیا، جب اس کی مجموعی ملکی پیداوار نے برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ توقع ہے کہ یہ رواں سال کے آخر میں جاپان کو پیچھے چھوڑ کر چوتھی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔
بھارت اور اس کا سابق نوآبادیاتی حکمران باہمی تجارت میں تقریباً 54.
برطانیہ-بھارت آزاد تجارتی معاہدہ جس پر جولائی 2024 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی برطانیہ آمد کے دوران دستخط ہوئے، ایک سنگ میل سمجھا جاتا ہے، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سالانہ 25.5 بلین پاؤنڈ تک تجارت کو فروغ دینا ہے۔
مودی نے کہا، ''یہ معاہدہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان درآمدی لاگت کم کرے گا، نوجوانوں کے لیے نئی ملازمتیں پیدا کرے گا، تجارت میں اضافہ کرے گا، اور ہماری صنعت اور صارفین دونوں کو فائدہ پہنچائے گا۔‘‘
اس معاہدے کے تحت، بھارت برطانوی مصنوعات جیسے وہسکی، کاسمیٹکس اور طبی آلات پر درآمدی محصولات کم کرے گا، جبکہ برطانیہ بھارت سے آنے والے کپڑے، جوتے اور خوراک مصنوعات، بشمول منجمد جھینگے، پر محصولات کم کرے گا۔
ادارت: صلاح الدین زین
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دونوں ممالک کے مودی نے کہا اسٹارمر نے کے درمیان کرے گا
پڑھیں:
مودی سرکار کاکشمیری طلباء سے ناروا سلوک
ریاض احمدچودھری
صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ بھارت کے مختلف تعلیمی اداروں میں کشمیری طلباء کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کا جائزہ لینے کیلئے ہم چند واقعات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے سی آئی ایم ایس میڈیکل کالج میں زیر تعلیم کشمیری طلبا پر بھارتی انتہا پسند ہندووں نے حملہ کر کے کئی طلبا کو زخمی کر دیا ۔ ڈیرہ دھون اترا کھنڈ علاقے میں قائم سی آئی ایم ایس میڈیکل کالج میں زیر تعلیم طلبا کے بقول انہیں کالج میں گھس کر غنڈوں نے مارا پیٹا جس کی وجہ سے کالج میں کئی ایک طلبا زخمی ہو گئے ہیں۔ کشمیری طالب علموں کی ایک غیر کشمیری طالب علم کے ساتھ کسی بات پر توں توں میں میں ہوئی جس کو بعد میں کالج میں زیر تعلیم طلبا نے آپس میں مل بیٹھ کر معاملہ حل کیا۔ کشمیری طلبا کا کہنا تھا غنڈوںکی ایک جماعت کالج میں داخل ہو کر کشمیری طلبا کو چن چن کر مارنے لگی جس کے ساتھ ہی اکثر طلبا نے کمروں کے دروازے بند کر دئیے جبکہ کئی اساتذہ جو کشمیری طلبا کو بچانے کی کوشش کررہے تھے، کو بھی نہیں بخشا گیا۔ پولیس نے تمام طالب علموں کو کالج سے نکال کر انکی عارضی رہائش گاہوں تک پہنچایا۔
بھارت میں مسلمانوں سے تعصب اور دشمنی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے اور اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک کالج سے 23 کشمیری طلبا کو نکال دیا گیا ہے۔ کشمیری طلبا کواس بنا پرکالج چھوڑدینے کی ہدایت کی ہے کیونکہ انسانی وسائل و ترقی کی بھارتی وزارت نے وزیراعظم اسکالر شپ اسکیم کے تحت ان کی فیس ادا نہیں کی۔ نکالے گئے طلبا کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کو وزیر اعظم اسکالر شپ کی بنیاد پرامبالہ کے کالج میں داخلہ دیا گیا تھا اور داخلے کے وقت طلبا کواس بات کی مکمل یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کے تمام اخراجات بھارتی حکومت برداشت کر لے گی۔ اسی طرح بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع لدھیانہ کے ایک پرائیویٹ کالج میں زیر تعلیم کم از کم 40کشمیری طالب علم دو طلباگروپوں میں جھڑپوں کے بعد مجبورا اپنی تعلیم ترک کر کے کشمیر واپس روانہ ہوگئے ہیں۔ کالج میں زیر تعلیم باقی کشمیر ی طلباء انتظامیہ کی یقین دہانی کے باوجود خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کٹھ پتلی انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ انہیں سیکورٹی فراہم کرے تاکہ وہ بھی اپنے گھروں کو واپس آسکیں کیونکہ صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ طالب علموں کاکہناتھا کہ انہیں بری طرح سے ہراساں کیا جارہا ہے۔بھارتی ریاست راجستھان کے شہرچتورگڑھ میں میوریونیورسٹی میں زیرتعلیم کشمیری طلبہ پر ہندو انتہا پسندوں نے گائے کا گوشت کھانے کاالزام لگاکرحملہ کردیا۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں سے وابستہ کچھ طلبا نے ہاسٹل میں ان کے کمروں اورسامان کی توڑپھوڑکی اوران پرپتھراؤکیا۔ اس کے بعد مقامی پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے4 کشمیری طلبا کو گرفتار کرلیا۔ یونیورسٹی کے انچارج طارق صوفی نے کہاکہ واقعہ اس وقت پیش آیاجب مقامی لوگوں کے ایک گروپ کوپتہ چلاکہ کشمیری طلبانے گائے گا گوشت کھایاہے۔ کشمیری طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کی زندگیوں کو خطرہ ہے اور ان پرحملہ ہوسکتا ہے کیونکہ بھارت کے دیگر علاقوںمیں بھی گائے کا گوشت کھانے والوںکونشانہ بنایاجارہاہے۔ یہ ہندو کا تعصب ہے جس کی بنیاد پر بھارت کے اندر بھی مسلمانوں کا وجود برداشت نہیں ہو پا رہا۔
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک کشمیری طالب علم آفتاب حسین کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور ہندو جاگرن منچ کے دہشت گردوں نے نوراتری گربہ کی تقریب میں داخل ہونے پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے اور ڈاکٹر ہری سنگھ گور یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالب علم آفتاب حسین کو بے رحمی سے مارا پیٹا اور گھسیٹ کر باہر نکالا۔عینی شاہدین اور میڈیا رپورٹس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آفتاب کو شدید تشدد کا نشانہ بنایاگیا اور سرعام اس کی تذلیل کی گئی۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے کشمیری طالب علم آفتاب حسین پرہندوتوا دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مجرموں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت میں کشمیری طلباء پر حملوں سے واضح ہوتاہے کہ بھارت ایک فرقہ پرست ریاست ہے جہاں کوئی کشمیری محفوظ نہیں ہے۔ حریت کانفرنس نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر سے اپنی قابض افواج اور بی جے پی کے بیوروکریٹس کو فوراً نکالے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دے۔
بھارت مقبوضہ جموںوکشمیر میں طلبا ء کو تعلیم کے حق سے محروم کررہا ہے۔حال ہی میںجاری کی گئی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق 7 دہائیوں سے زائد عرصے تک بھارت کے زیر قبضہ جموںوکشمیر میںنظام تعلیم مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ 5 اگست 2019 کوبھارت کی طرف سے مسلط کردہ غیر انسانی فوجی محاصرے سے تعلیمی بحران مزید گہرا ہوگیا ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پہلے اسکول غیر معمولی فوجی محاصرے کی وجہ سے کئی مہینوں تک بند رہے اور پھر والدین اپنے بچوں کو اس خوف سے کہ بھارتی فورسز انہیں اٹھاکر نہ لے جائیں، اسکول بھیجنے سے کتراتے رہے جس سے مقبوضہ علاقے کے طلبہ کی تعلیم متاثر ہورہی ہے۔رپورٹ میں سوال اٹھایا گیاہے کہ جب کشمیری طلبا روزانہ کی بنیاد پربھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اپنے پیاروںکو قتل ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں تو وہ تعلیم پر کس طرح توجہ دے سکتے ہیں۔ علاقے میں بھاری تعداد میں بھارتی فوجیوں کی موجودگی نے طلباء کو نفسیاتی طور پر متاثر کیاہے جبکہ متعدد طلباء بھارتی فوج کی وحشیانہ کارروائیوںکے دوران شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔ قابض حکام کی طرف سے انٹرنیٹ کی باربار معطلی سے بھی مقبوضہ علاقے میں تعلیم کا بڑی حد تک حرج ہوا ہے۔