سعودی پاک جوائنٹ بزنس کونسل کے چیئرمین سعودی شہزادہ منصور بن محمد آل سعود کی قیادت میں 30 رکنی وفد نے وزیراعلیٰ ہاؤس کراچی کا دورہ کیا ہے، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اپنی کابینہ کے اراکین شرجیل میمن، ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو، سعید غنی، ناصر شاہ، اکرم دھاریجو اور چیف سیکریٹری کے ہمراہ وفد کا پرتپاک خیرمقدم کیا۔

سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید احمد المالکی اور 30 سے زائد ممتاز کاروباری شخصیات و سرمایہ کار بھی وفد میں شامل تھے۔

ترجمان وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق وفد میں توانائی، انفراسٹریکچر، زراعت، لائیواسٹاک، کان کنی، تعمیرات، لاجسٹکس اور سرمایہ کاری کے مختلف شعبوں سے وابستہ شخصیات شامل تھیں، اجلاس میں پاکستان بزنس کونسل، اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) اور سعودی سفارتخانے کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تاریخی و برادرانہ تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں، سندھ پاکستان کی معاشی ترقی کا گیٹ وے بننے کے لیے تیار ہے، ہم نے زمینوں کے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کیا ہے اور سرمایہ کاری کے طریقہ کار کو آسان بنایا ہے، سرمایہ کار دوست اور اصلاحات پر مبنی ماحول سندھ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ ہماری شراکت داری خطے کے معاشی مستقبل کے لیے نہایت اہم ہے، جبکہ سندھ حکومت سعودی وژن 2030 کے اہداف کے ساتھ مکمل ہم آہنگ ہے۔

انہوں نے سندھ کے 12 ترجیحی سرمایہ کاری کے شعبوں پر روشنی ڈالتے ہوئے سعودی کمپنیوں کو زراعت، توانائی، انفراسٹریکچر، لاجسٹکس اور صنعتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔

مراد علی شاہ نے بتایا کہ حیدرآباد سکھر موٹروے، کراچی کی بلیو اور ییلو لائن ٹرانزٹ سسٹمز، ماہی گیری، لائیو اسٹاک اور اسپیشل اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ فریقین نے مختلف شعبوں میں مشترکہ ورکنگ گروپس کے قیام پر اتفاق کیا تاکہ تعاون کے تسلسل کو یقینی بنایا جاسکے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ صوبائی حکومت وفاقی اداروں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی میں کام کر رہی ہے، وفاقی وزارت سرمایہ کاری، اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان سے قریبی روابط قائم ہیں تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فزیبلٹی سے لے کر عملی نفاذ تک سہولت فراہم کی جاسکے۔

انہوں نے سعودی قیادت کے وژن اور تعاون پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سندھ و پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں سعودی شہزادہ منصور بن محمد آل سعود کی دلچسپی قابلِ تحسین ہے۔

تقریب میں عوامی و نجی شعبوں میں تعاون کے فروغ پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، سعودی شہزادہ منصور بن محمد آل سعود نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی میزبانی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ سطحی بزنس وفد کے ساتھ آیا ہوں جس سے دونوں ممالک میں نئی شراکت داری قائم ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ہر شعبے میں ذیلی کمیٹیاں قائم کر کے عمل درآمد کا آغاز کیا جائے گا۔

شہزادہ منصور نے کہا کہ کراچی ایک پورٹ سٹی ہے جہاں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع ہیں، وزیراعلیٰ سندھ نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت سندھ نے سرمایہ کاری کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں اور سعودی سرمایہ کاروں سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پورے خطے میں تجارت کا دروازہ ہے اور سیاحت کے لحاظ سے بھی بے پناہ امکانات رکھتا ہے۔ ہمارے ساتھ تمام شعبوں کے سرمایہ کار آئے ہیں جو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے پرعزم ہیں۔ شہزادہ منصور نے کہا کہ پاکستان کی نجکاری پالیسی ہمارے لیے ایک موقع ہے جس سے ہم دونوں ممالک کی معیشت کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news پاکستان سعودی عرب مشترکہ بزنس کونسل.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان مشترکہ بزنس کونسل سرمایہ کاری کے مراد علی شاہ سرمایہ کار نے کہا کہ انہوں نے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

سعودی سرمایہ اور امریکی دلال لابی

اسلام ٹائمز: لبنانی اخبار، الاخبار کے مطابق بن سلمان کے امریکی دورے سے خطے کے لیے کوئی بڑا تغیر ممکن نہیں، لیکن یہ دورہ دونوں فریقوں، ٹرمپ اور بن سلمان کے لیے بہت اہم ہے۔ اس کی وجہ سیدھی ہے کہ ٹرمپ کو پیسہ چاہیے اور بن سلمان کے پاس بے تحاشا پیسہ ہے۔ ٹرمپ ایک تاجر، قمارباز اور پیسے کا دیوانہ شخص ہے۔ بن سلمان اس کے لیے مثالی شراکت دار ہے۔ اگرچہ ٹرمپ خود براہِ راست معاہدوں میں شامل نہ ہو، لیکن اس کے بیٹے، داماد اور کاروباری پارٹنر سب کے مفادات خلیجی تیل سے مالا مال ریاستوں سے جڑے ہوتے ہیں، خاص طور پر سعودی عرب سے۔ ٹرمپ نے اپنے منصوبوں کو اپنے انتہائی مالدار رشتہ داروں اور دوستوں کے حوالے کیا ہے، جو اس کی صدارت ختم ہونے کے بعد بھی ان منصوبوں کو آگے بڑھاتے ہیں اور اسی چیز کی ٹرمپ کو شدید ضرورت ہے۔ خصوصی رپورٹ:

جب کئی ممالک میں ڈونلڈ ٹرمپ کی خوشامد اور اس کے خودپسند ذہن کو خوش کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ایسے میں محمد بن سلمان کا واشنگٹن کا دورہ ہوا ہے۔ 18 نومبر 2025 کو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محمد بن سلمان کا غیر معمولی گرمجوشی سے استقبال کیا، حتیٰ کہ صحافیوں کے جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سخت سوالات پر بھی بن سلمان کا دفاع کیا۔ یہ ملاقات موسیقی، گھڑ سوار دستوں کے مارچ اور فوجی طیاروں کی پروازوں کے درمیان ہوئی اور اس موقعے پر بڑے معاشی و عسکری معاہدات کا اعلان کیا گیا، جن میں امریکہ میں سعودی عرب کی ایک ٹریلیَن ڈالر سرمایہ کاری اور ریاض کو ایف-35 جنگی طیارے دینے کے وعدے شامل تھے۔

اسٹریٹجک دوستی کے نام پر امریکی سود خوری؟
یہ دورہ امریکہ سعودیہ تعلقات کی گہرائی کو ظاہر کرنے سے زیادہ، امریکی پالیسی کی روایتی، یک‌ طرفہ اور مفاد پرستانہ نوعیت کو پھر نمایاں کرتا ہے، خصوصاً خلیجی ریاستوں کے ساتھ کیے جانے والے ہر سمجھوتوں اور تعلقات میں یہ زیادہ جھلکتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ سب ایسے ماحول میں ہو رہا ہے جہاں کئی "تابع" ریاستیں ٹرمپ کی خوشنودی کے لیے حد سے زیادہ مبالغہ کر رہی ہیں۔ ماضی کے تجربات گواہ ہیں کہ امریکہ اپنے خلیجی "اتحادیوں"،  چاہے انہیں ’’اہم غیر نیٹو اتحادی‘‘ کا لقب ہی کیوں نہ دے، ان کے ساتھ تعلقات میں ہمیشہ اپنے معاشی، عسکری اور جیوپولیٹیکل مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ عرب ممالک کو دیے جانے والے وعدے زیادہ تر علامتی اور کاغذی ہوتے ہیں، جن کا مقصد ان ممالک کو مزید امریکی انحصار میں جکڑنا ہے۔

قطر کی مثال: 
امریکہ کی اس پالیسی کی واضح مثال قطر ہے۔ 2022 میں واشنگٹن نے قطر کو اہم غیرنیٹو اتحادی قرار دیا تھا۔ یہ درجہ دوحہ کے لیے خاص عسکری و سلامتی فوائد کا وعدہ رکھتا تھا۔ لیکن ستمبر 2024 میں دنیا نے دیکھا کہ قطر نے اربوں ڈالر کے امریکی ہتھیار خریدے، خصوصی شاہانہ طیارہ ٹرمپ کو تحفے میں دیا، پھر بھی اسرائیل نے قطر کی سرزمین پر کھلم کھلا حملہ کیا اور امریکی دفاعی نظام پیٹریاٹ اور تھاڈ نے ایک بھی وارننگ سائرن نہیں بجایا۔ یہ اس لیے کہ یہ نظام مکمل کنٹرول امریکی افواج کے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ قطر کے پاس صرف ملکیت ہے، کنٹرول نہیں۔

یعنی سازوسامان قطر کا ہے لیکن یہ جدید مشینیں اس قدر ہوشیار ہیں کہ قطر کی بات نہیں مانتیں۔ امریکہ کی واحد مستقل پالیسی اسرائیل کی فوجی برتری ہے، جس کے تحت ہر بڑے ہتھیار کی فروخت میں امریکہ لازماً جانچتا ہے کہ کہیں اسرائیل کی عسکری برتری متاثر تو نہیں ہو رہی۔ اوباما، ٹرمپ اور بائیڈن، تینوں حکومتوں نے اس اصول کی سختی سے پابندی کی۔ 2016 میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان 38 ارب ڈالر کی 10 سالہ فوجی امداد کا معاہدہ بھی اسی مقصد کے لیے تھا۔

سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ معاہدے کی طرف دھکیلنا:
بن سلمان کے ساتھ ٹرمپ کی ملاقات کا ایک بڑا ہدف اسرائیل کے مفادات کو آگے بڑھانا ہے، خصوصاً سعودی عرب کو ابراہیمی معاہدوں میں شامل کرنے کی کوشش۔ ٹرمپ اپنے پہلے دور میں امارات اور بحرین کو اسرائیل سے معمول کے تعلقات پر مجبور کر چکا ہے۔ دوسرے دور میں اس کا سب سے بڑا ہدف سعودی عرب ہے۔ ٹرمپ نے کھلے لفظوں میں کہا ہے کہ سعودی اسرائیلی نارملائزیشن مشرقِ وسطیٰ میں کامیابی کی کلید ہے۔ اور ایف-35 کی فروخت کو اسی ترقی سے مشروط قرار دیا۔ حال ہی میں جیرڈ کشنر اور دیگر امریکی اہلکاروں نے بھی سعودی حکام سے کئی خفیہ و علانیہ ملاقاتیں کیں تاکہ ریاض کو اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات کی طرف دھکیلا جا سکے۔ واشنگٹن میں طاقتور اسرائیلی لابیاں سعودی عرب کو اسرائیل کے فائدے کے لیے ایک ٹول کے طور پر دیکھتی ہیں، امریکی انہیں کوئی برابر کا شراکت دار نہیں سمجھتے۔

ٹرمپ لابی کے ذاتی مالی مفادات:
لبنانی اخبار، الاخبار کے مطابق بن سلمان کے امریکی دورے سے خطے کے لیے کوئی بڑا تغیر ممکن نہیں، لیکن یہ دورہ دونوں فریقوں، ٹرمپ اور بن سلمان کے لیے بہت اہم ہے۔ اس کی وجہ سیدھی ہے کہ ٹرمپ کو پیسہ چاہیے اور بن سلمان کے پاس بے تحاشا پیسہ ہے۔ ٹرمپ ایک تاجر، قمارباز اور پیسے کا دیوانہ شخص ہے۔ بن سلمان اس کے لیے مثالی شراکت دار ہے۔ اگرچہ ٹرمپ خود براہِ راست معاہدوں میں شامل نہ ہو، لیکن اس کے بیٹے، داماد اور کاروباری پارٹنر سب کے مفادات خلیجی تیل سے مالا مال ریاستوں سے جڑے ہوتے ہیں، خاص طور پر سعودی عرب سے۔ ٹرمپ نے اپنے منصوبوں کو اپنے انتہائی مالدار رشتہ داروں اور دوستوں کے حوالے کیا ہے، جو اس کی صدارت ختم ہونے کے بعد بھی ان منصوبوں کو آگے بڑھاتے ہیں اور اسی چیز کی ٹرمپ کو شدید ضرورت ہے۔

کھوکھلی سکیورٹی: 
سعودی عرب اربوں ڈالر دے گا لیکن اصل طاقت امریکہ کے ہاتھ میں ہی رہے گی۔ سعودی عرب کے پاس پہلے سے موجود امریکی ہتھیار نہ تو یمن جنگ میں اس کا کام آئے، نہ ایران کے مقابلے میں۔ اسی لیے آخرکار بن سلمان نے ایران سے تعلقات بہتر بنائے۔ اگرچہ بن سلمان کا دورۂ واشنگٹن امریکی رہنماؤں کی گرمجوشی میں لپٹا ہوا ہے، اصل سوال یہ ہے، کیا یہ تعلقات خطے کے امن و استحکام کو بڑھائیں گے یا پھر صرف امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کی خدمت کرتے رہیں گے؟۔ خلیجی ممالک سمجھتے ہیں کہ امریکہ سے اپنی حیثیت بڑھانے کے لیے انہیں بڑے مالیاتی وعدے کرنے ہوں گے۔ لیکن جب تک طاقت کا توازن یک‌طرفہ ہے، یہ ممالک اسٹریٹجک پارٹنر تو کہلائیں گے، مگر عالمی پالیسی سازی پر ان کا اثر ہمیشہ محدود ہی رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی ایکسپورٹ امپورٹ بینک کا پاکستان، مصراوریورپی منصوبوں کیلئے 100 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کا اعلان
  • سعودی ولی عہد کا دورہ امریکا ، F35اور فلسطین
  • شہزادہ سعود بن مشعل آل سعود خالد الزرعونی کو یادگاری شیلڈ پیش کیا
  • سعودی عرب میں غیرملکیوں کو جائیداد خریدنے کی اجازت دے دی گئی
  • وزیراعلیٰ سندھ مرادشاہ احسن آباد میں جامعۃ الرشید کے سالانہ کنونشن سے خطاب کررہے ہیں دوسری جانب بچوں کے عالمی دن کے موقع پر آگاہی واک کی قیادت کررہے ہیں
  • وزیراعلیٰ سندھ کی سی ویو پر بچوں کے عالمی دن کے موقع پر آگاہی واک کی قیادت
  • سعودی سرمایہ کاری اور معاشی اعدادوشمار سے روپے کی قدر میں مسلسل بہتری
  • پاکستان اقتصادی استحکام اور ترقی کی راہ پر عزم و ہمت کے ساتھ گامزن
  • سعودی سرمایہ اور امریکی دلال لابی
  • امارات کا کینیڈا میں 50 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان