Express News:
2025-12-02@07:35:05 GMT

نئے چیلنجز

اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT

سابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی بطور وزیر اعلی تبدیلی ناگزیر تھی اور واضح نظر آرہا تھا کہ ان کے اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان حکمت عملی اور سیاسی ایشو پر ٹکراؤ تھا۔ بانی پی ٹی آئی نے انھیں ہٹانے کا فیصلہ صادر کیا ۔ سہیل آفریدی کو بطور وزیر اعلی نامزد کردیا،اس فیصلے پر دیگر سیاسی جماعتوں ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے لوگ بھی حیران ہوگئے ۔مجھے بھی کافی حیرانگی دیکھنے کو ملی۔

 سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ بنوا کر بانی پی ٹی آئی نے ثابت کیا کہ وہ جسے چاہیں ہٹا سکتے ہیں اور جسے چاہیں، وزیراعلیٰ بنا سکتے ہیں، پی ٹی آئی کی قیادت اور پارلیمنٹرینز میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ کرسکیں۔ علی امین گنڈا پور جو علیمہ خان کے ساتھ اختلافات کے دوران کہا کرتے ہیں کہ جس میں ہمت ہے، وہ اس کے خلاف عدم اعتماد لے آئے لیکن جیسے ہی نئے وزیراعلیٰ کی نامزدگی ہوئی، ان کے پاس سوائے تعمیل حکم کے کوئی چارہ کار نہیں تھا۔

علی امین گنڈا پور کی تبدیلی کی تین وجوہات سامنے آئیں۔اول، بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مسلسل حکم کے باوجود وزیر اعلی اپنے صوبے میں جاری دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بند کرانے میں ناکام رہے بلکہ کھل کر مخالفت بھی نہ کرسکے ۔ بانی پی ٹی آئی کے بقول وہ پارٹی سے زیادہ جھکاؤ اسٹیبلیشمنٹ کی طرف رکھتے ہیں ۔دوئم، وہ بطور وزیر اعلی اور صوبائی قیادت بانی پی ٹی آئی کی حمایت میں کوئی ایسی بڑی احتجاجی تحریک چلانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ، جس کی وجہ سے وفاقی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو دباؤ میں لایا جا سکے۔

اسی طرح علی امین گنڈا پور اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان رابطہ کاری بھی بانی پی ٹی آئی کو مقدمات میں کوئی بڑا ریلیف نہیں دے سکی۔سوئم، ایک طرف علی امین گنڈا پور کی صوبائی سطح پر پارٹی میں قبولیت اور کردار پر سخت تنقید ہورہی تھی تو دوسری طرف بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان پر جو سنگین الزامات عائد کیے گئے، اس سے بھی علی امین گنڈا پور کو پارٹی میں بھی اور بانی پی ٹی آئی کے سامنے سیاسی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ایک دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنی جماعت میں مزاحمت کی سیاست کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور صوبہ خیبر پختونخوا کو عملا اس مزاحمت کی تحریک کا مرکز بنا کر وفاقی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ پر بڑے دباؤ کی سیاست پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن علی امین گنڈا پور بانی کا یہ ہدف پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

پی ٹی آئی یا بانی پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کے جاری آپر یشن رکوانا چاہتے ہیں ، اس کے علاوہ وہ چاہتے تھے کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ افغانستان جاکر خود براہ راست طالبان کے ساتھ معاملات طے کریں لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ ادھر یہ واضح ہوچکا ہے کہ وفاقی حکومت بالخصوص اسٹیبلیشمنٹ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کو دہشت گردی کے ایشو پرکوئی ڈھیل دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ اس معاملے پر مذاکرات کی حامی ہے اور اس نے فیصلہ کرلیا ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے داخلی اور خارجی سہولت کاروں اور ہینڈلر و فنانسرز کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نبٹا جائے گا۔ نئے وزیر اعلی سہیل آفریدی نے اپنی پہلی تقریر میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگیں یا طاقت کا استعمال مسائل کا حل نہیں سمجھا جاتا لیکن یہ بات بھی پیش نظر رکھنی ہوگی کہ افغانستان کی سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے ۔ افغانستان کی طالبان حکومت دہشت گردوں کی سہولت کاری کررہی ہے، پاکستان کے تحفظات کے باوجود ہمیں افغان حکومت سے وہ مدد نہیں مل رہی جو ہمیں درکار ہے ۔بلکہ یہ دیکھا جارہا ہے کہ افغان قیادت بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف جارحیت پر اتر آئی ہے ۔ایسے میں مذاکرات کیسے شروع ہوںگے اور کون اس کاضامن بنے گا۔ افغانستان کی طالبان قیادت ناقابل اعتبار ہوچکی ہے۔چین کی ثالثی کا عمل بھی کمزور نظر آرہا ہے ۔

طالبان پاکستان کے تحفظات پر سنجیدگی دکھانے کے لیے تیار نہیں۔ اگر ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی جاری رہے گی تو ایسے میں مذاکرات کی بات کرنا، احمقانہ بات نظر آتی ہے۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کی وحدت،سالمیت اور سرحدوں کا تحفظ اولین ترجیح بن جاتی ہے۔ وفاقی حکومت ، صوبائی حکومتیں ، قومی اورصوبائی سیاسی و مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت پاکستان کی سلامتی،وحدت اور ملکی سرحدوں کے تقدس و تحفظ کے برعکس موقف اختیار نہیں کرسکتیں۔ سب کو دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خاتمے کے ایجنڈے پر متفق ہونا پڑے گا۔خیبر پختونخوا، بلوچستان اور دیگر صوبے میں ہونے والی دہشت گردی کے تناظر میں سیاسی تقسیم اور ٹکراؤ کی گنجائش نہیں ہے۔

ہم اپنے ملک پر کسی گروہ یا دوسرے ملک کے مفادات کو اہم قرار نہیں دے سکتے۔ایسے میں اگر ایک یا دو جماعتیں یا کسی صوبے کی حکمران جماعت اور وزیر اعلی دہشت گردی سمیت دیگر سیاسی مسائل پر وفاق سے ٹکراؤ کی پالیسی کی طرف بڑھتے ہیں تو یہ کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہوگی۔اس لیے خیبر پختونخوا کے نئے وزیر اعلی کو کسی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہیے جو مزاحمت کے نام پر کسی بڑے ٹکراؤ کو پیدا کرسکے۔کیونکہ اگر ہم داخلی طور پر کسی بڑے ٹکراؤ کی سیاست کا حصہ بنیں گے تو اس سے نہ صرف حالات اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہوںگے بلکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ بھی متاثر ہوگی اور دہشت گرد ہماری داخلی تقسیم سے فائدہ اٹھائیںگے ۔ لیکن آخری نقصان وفاق پاکستان کی پالیسی سے ٹکرانے والوں کا ہوگا۔

لہذا اس داخلی ٹکراؤ سے بچنے کی حکمت عملی پر توجہ دینی ہوگی۔کیونکہ پہلے ہی دہشت گردی سے جڑے مسائل ہمیں سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی کے تناظر میں کمزور کررہے ہیں اور یہ کمزوری کا عمل مجموعی طور پر ریاست کو درپیش ہے اور اسے صوبائی مسئلہ نہ سمجھا جائے ۔اس لیے سارے فریقین مل کر ہی مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں اور دہشت گردی یا ان کے سہولت کاروں کے خلاف کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔

حکومت جو کچھ بھی کرے جمہوری،آئینی اور قانونی فریم ورک میں رہ کر کرے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے مزاحمت کا راستہ ہی اختیار کرنا ہے تو وہ بھی جمہوری سیاسی اور آئینی و قانونی فریم ورک سے باہر نکل کر نہ کرے۔ ایسے طرز عمل سے ہی مل جل کر مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جاسکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: علی امین گنڈا پور خیبر پختونخوا بانی پی ٹی آئی دہشت گردی کے وفاقی حکومت وزیر اعلی حکمت عملی اور اس

پڑھیں:

لندن والے بانی نے کراچی کو بوری بند لاشوں، بھتے کی پرچیوں کے سوا کچھ نہ دیا، شرجیل میمن

کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران سندھ کے سینئر وزیر نے کہا کہ کراچی کو منصوبہ بندی کے تحت الطاف نامی شخص کے حوالے کیا گیا، کراچی میں ہیروئن کلچر، بھتہ کلچر اور بوری بند لاش کلچر آیا لیکن اب کراچی کا کچرہ اٹھایا جا رہا ہے اور پانی کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ کراچی کو منصوبہ بندی کے تحت الطاف نامی شخص کے حوالے کیا گیا اور لندن والے بانی نے کراچی کو اسلحہ، بوری بند لاشوں اور بھتے کی پرچیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کی اقتدار میں آنے کی سوچ اور انداز الگ ہوتے ہیں، بلاول بھٹو زرداری جب بھی وزیر اعظم بنیں گے تو عوامی طاقت سے بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کل پیپلز پارٹی کی بنیاد کو اٹھاون سال پورے ہو رہے ہیں پورے ملک میں 100 سے زائد جگہوں پر پیپلز پارٹی کے اجتماعات کیے جا رہے ہیں اور ملک بھر میں اسکرینوں کے ذریعے بلاول بھٹو کا خطاب براہِ راست نشر کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سوچ ہمیشہ جمہوری رہی ہے پیپلز پارٹی کا بیانیہ اور جدوجہد ہمیشہ اس ملک کے لیے رہی ہے، ہمیں فخر ہے کہ ہم پیپلز پارٹی کے کارکن ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے کہا کہ کس کی شیروانی بن رہی ہے، معلوم نہیں گورنر کی تبدیلی وفاقی حکومت کا معاملہ ہے۔ عمران خان سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کیا ہوا ہے، وہ جیل میں اچھا کھانا کھا رہے ہیں اور تمام سہولیات حاصل ہیں لیکن آپ شروع دن سے ملک کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں عمران خان پر جیل میں کوئی تشدد نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو منصوبہ بندی کے تحت الطاف نامی شخص کے حوالے کیا گیا، لندن والے بانی نے کراچی کو اسلحہ، بوری بند لاشوں اور بھتے کی پرچیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ مزید کہا کہ کراچی میں ہیروئن کلچر، بھتہ کلچر اور بوری بند لاش کلچر آیا لیکن اب کراچی کا کچرہ اٹھایا جا رہا ہے اور پانی کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دھمکیاں دینے سے ایوان فتح نہیں ہوتے؛ وفاقی وزیرِ قانون
  • ملاقات ہونے تک!
  • علی لاریجانی اور حکان فیدان کا علاقائی چیلنجز کو حل کرنے کیلئے باہمی تعاون پر زور
  • بین الاقوامی میڈیا سے بانی سے متعلق تشویش ناک خبریں آرہی ہیں: وزیر اعلیٰ کے پی سہیل آفریدی
  • لندن والے بانی نے کراچی کو بوری بند لاشوں، بھتے کی پرچیوں کے سوا کچھ نہ دیا، شرجیل میمن
  • افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات: وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا بیان
  • پاک افغان سرحدی علاقوں میں سیاسی و دہشت گرد عناصر کا خطرناک گٹھ جوڑ، خیبر اور تیراہ میں انتظامی خلا: آئی ایس پی آر
  • شرجیل میمن: لندن والے بانی نے کراچی کو بوری بند لاشوں اور بھتے کی پرچیوں کے سوا کچھ نہیں دیا
  • اسحٰق ڈار: مسلم اُمہ کو متحد ہو کر عصری چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا
  • ملکی نظام چلانے کیلیے قرآن سے سبق لینا ضروری ہے، فساد اور دہشت گردی کو ختم کرنے کا حکم ہے: اسحاق ڈار