افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیکا میں پاکستان کی مبینہ فضائی کارروائی کے نتیجے میں 3 افغان کرکٹرز سمیت کم از کم 8 افراد ہلاک ہو گئے۔ افغانستان کرکٹ بورڈ (اے سی بی) کے مطابق ہلاک ہونے والے کھلاڑیوں کی شناخت کبیر، صبغت اللہ اور ہارون کے نام سے ہوئی ہے۔

اے سی بی کا الزام اور مذمتی بیان
انٹرنیشنل میڈیا رپورٹ کے مطابق افغانستان کرکٹ بورڈ نے بیان میں کہا کہ یہ کھلاڑی ارگون سے شرنہ گئے تھے جہاں وہ ایک دوستانہ میچ میں حصہ لے رہے تھے۔ واپسی کے بعد ارگون میں ایک اجتماع کے دوران وہ پاکستان کے فضائی حملے کا شکار ہوگئے۔

Statement of Condolence

The Afghanistan Cricket Board expresses its deepest sorrow and grief over the tragic martyrdom of the brave cricketers from Urgun District in Paktika Province, who were targeted this evening in a cowardly attack carried out by the Pakistani regime.

In… pic.twitter.com/YkenImtuVR

— Afghanistan Cricket Board (@ACBofficials) October 17, 2025

سہ ملکی سیریز سے دستبرداری
واقعے کے بعد افغانستان نے پاکستان اور سری لنکا کے ساتھ اگلے ماہ شیڈول سہ ملکی سیریز سے بطور احتجاج دستبرداری کا اعلان کیا ہے

افغان کھلاڑیوں کا ردعمل
افغانستان کی ٹی 20 ٹیم کے کپتان راشد خان نے کہا کہ یہ سانحہ اُن نوجوان کھلاڑیوں کی جانیں لے گیا جو ایک دن اپنے ملک کی نمائندگی کے خواب دیکھ رہے تھے۔

پاک افغان سرحد پر کشیدگی میں اضافہ
افغان میڈیا کے مطابق پاکستان نے جمعہ کے روز پکتیکا کے ارگون اور برمل اضلاع میں فضائی کارروائیاں کیں، جن میں شہری جانی نقصان ہوا۔

کابل حکومت نے الزام لگایا ہے کہ یہ حملے دونوں ملکوں کے درمیان موجود نازک جنگ بندی کی خلاف ورزی ہیں۔

یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا جب دونوں ممالک کے درمیان 48 گھنٹے کی جنگ بندی نافذ تھی۔ پاکستانی حکام نے دوحہ میں جاری مذاکرات کے اختتام تک جنگ بندی میں توسیع کی درخواست کی تھی، جس پر افغان حکومت نے بظاہر اتفاق کیا ہے۔ دو طرفہ مذاکرات ہفتہ کے روز شروع ہونے کا امکان ہے۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

پاک افغان کشیدگی، خواب ریزہ ریزہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251203-03-7
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کی موجودہ لہر صرف دو ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والا روایتی تناؤ نہیں بلکہ یہ خوابوں کے شیش محل کی کرچیاں ہیں۔ وہ خواب جو افغانستان میں ایک دوست حکومت کے قیام کے ساتھ وابستہ تھے۔ جب یہ بتایا جا رہا تھا کہ جب افغانستان میں پاکستان دوست حکومت قائم ہو گی تو دونوں ملک کر خطے میں طاقت کا نیا توازن قائم کریں گے۔ افغانستان میں دوست حکومت کے قائم ہوتے ہی طاقت کا توازن یوں قائم ہوگا کہ پاکستان اپنی مغربی سرحد کے معاملے میں ہر قسم کی پریشانی سے آزاد ہوگا اور یوں اس کی ساری توانائیاں مشرقی سرحد پر لگتی چلی جائیں گی۔ خوابوں کا یہ ٹھیلہ پانچ دہائیوں سے وقت کے بازار میں گردش کرتا رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں خوابوں کا یہ ٹھیلہ سجتا رہا اور جنرل ضیاء الحق بھٹو دور کی ہر پالیسی کی نفی کو جزو ایمان بنائے رہے مگر ان کی افغان پالیسی کو انہوں نے من وعن نہ صرف سینے سے لگایا بلکہ خوابوں کے اس ٹھیلے کے اصل وارث بھی بن بیٹھے اور اسے لے کر گلی گلی صدائیں دے کر خواب فروخت کرتے رہے۔ ان خوابوں کا عنوان تھا اسٹرٹیجک ڈیپتھ۔ یہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا فوجی ڈاکٹرائن تھا۔ ضیاء الحق خود کہتے رہے کہ افغان مجاہدین ہمارے محسن ہیں ہمارے ہیرو ہیں۔ آپ افغان مہاجرین اور مجاہدین کی عملی مدد نہیں کر سکتے تو کم ازکم ان کی کامیابی کے لیے دست ِ دعا تو بلند کرسکتے ہیں۔ وہ افغان پالیسی کو اس طرح سینے سے چمٹائے ہوئے تھے کہ امریکا کو انہیں افغان پالیسی سے الگ کرنے کے لیے خاصی محنت کرنا پڑی یہاں تک اس عمل میں ان کا سفیر بھی کام آیا۔ اس دور میں تصویری نمائشوں اور میڈیا مہمات کے ذریعے افغان جہاد کو گلیمرائز کیا جاتا رہا۔ مظفر وارثی مرحوم کی ترنم سے پڑھی گئی نظمیں آج بھی حافظے کی لوح پر تازہ ہیں۔

مرد کہسار سن، آگ سے پھول چْن، خم نہ ہو سر تیرا
دشمن پر تیرا خوف طاری رہے، جنگ جاری رہے

اس کے بعد بھی خوابوں کا یہ ٹھیلہ پررونق رہا اور نگر نگر گھومتا رہا۔ افغانستان میں ایک پاکستان دوست حکومت کا قیام ان خوابوں کا مرکزی خیال تھا مگر خوابوں کو تعبیر دینا بھی ایک فن ہوتا ہے۔ کسی میں یہ بدرجۂ اَتم موجود ہوتا ہے اور کوئی اس فن سے عاری ہو تو خواب کی تعبیر کی دہلیز ہر پہلا قدم رکھ کر لڑھک جاتا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات کا المیہ یہ ہے کہ یہ بڑے اور وسیع تناظر کے حامل خوابوں کی تعبیر تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے خواب نگر کو ریت کے گھروندے کی طرح اُڑا دیتے ہیں۔ صبغت اللہ مجددی، احمد گیلانی، برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کو گل بدین حکمت یار پر قربان کیا جاتا رہا اور جب حکمت یار کو آگے بڑھا کر مقصد حاصل کرنے کا وقت آیا تو انہیں طالبان نامی نئے تجربے پر قربان کر دیا گیا۔ یوں طالبان پاکستان کا آخری خواب اور آخری تجربہ تھے۔ ان سے نباہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ تاجک ازبک ہزارہ اور قوم پرست پشتون پاکستان سے دور جا چکے تھے اب صرف طالبان جو پشتون غلبے اور قوت کی علامت تھے آخری سہارا اور آخری چارہ تھے۔ اسی لیے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے زمانے میں امریکا کی تنقید اور تنقیص سہہ کر اور دنیا بھر میں دہشت گردی برآمد کرنے والے ملک کا الزام برداشت کرکے طالبان کی درپردہ مدد جاری رکھی۔ گوکہ یہ پاکستان کا تنہا فیصلہ نہیں تھا بلکہ چین اور روس جیسے کھلاڑی کو اس خطے سے امریکا کو نکال باہر کرنا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لیے طالبان ہی ان کے پاس واحد آپشن تھا کیونکہ وہی افغانستان کی مزاحتمی قوت تھی۔

طالبان کی پہلی حکومت خواب کی تعبیر تھی مگر اس حکومت کو گرانے کے لیے پاکستان نے لاجسٹک سمیت ہر قسم کی مدد فراہم کی۔ سولہ سالہ لڑائی کے بعد طالبان دوبارہ کابل پر کنٹرول قائم کرچکے تو یہ پرانے خوابوں کی نئی تعبیر تھی کیونکہ ان سولہ برسوں میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کو ماضی بعید کی افغان حکومتوں کا تسلسل یعنی بھارتی پراکسیز کہہ کر فاصلہ بنائے رکھا گیا۔ طالبان ان حکومتوں کو گرا کر طاقت میں آئے تو یہ دیرینہ خواب کی تعبیر تھی۔ طالبان کے اندر بھی کچھ خوابوں کے کچھ ایسے سودا گر تھے جو سمجھتے تھے کہ اب پاکستان اور افغانستان کی طاقت یکجا ہو کر طاقت کا علاقائی توازن بحال کرے گی۔ کابل کا اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی ان کے اہم نمائندے سلطان محمود غزنوی کے مزار پر جاپہنچے۔ محمود غزنوی وہی تھے جن کے نام پر پاکستان نے میزائل بھی تیار کیا ہے اور اسے مسلم برصغیر کی تاریخ کا ہیرو بھی قرار دیا جارہا ہے۔ جس کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ سومناتھ کے مندر پر سترہ حملے کیے اور آخری حملہ کامیاب ہوا۔ طالبان نمائندے کا غزنوی کے مزار پر جانا تھا کہ بھارتی میڈیا اور سخت گیر عناصر کی چیخیں ساتوں آسمان تک بلند ہونے لگیں۔ یوں لگ رہا تھا

کہ افغان نمائندے نے بھارت کی دْم پر پائوں رکھ دیا ہے۔ بھارتی میڈیا چیخ رہا تھا کہ اب جمال الدین افغانی کے پین اسلام ازم کے تصورات کو عملی شکل دینے کا وقت آگیا ہے اور بھارت کو پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ مہمات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ نجانے کیا ہوا طالبان اچانک محمود غزنوی کے مزار سے سومناتھ کی طرف چل پڑے۔ یہ وہ مقام جہاں سطحی جذباتیت اور سرکاری بیانیہ سازی سے ہٹ کر ان اسباب وعوامل کا عمیق جائزہ لینا ضروری ہے کہ طالبان غزنوی کے مزار سے سومناتھ کی طرف کیوں چل پڑے؟

گزشتہ دو تین برسوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو مساوی بنیادوں پر سنجیدگی سے حل کرنے کی کوششیں نہیں ہوئیں۔ جس سے طالبان اور پاکستان کے تعلقات میں ایک خلا پیدا ہوا اور اس خلا کو بھارت نے اپنے ماضی کے موقف سے مکمل یوٹرن لیتے ہوئے پْر کر لیا۔ بنگلا دیش میں پاکستان کو کچھ اسپیس دے کر افغانستان سے لڑانے کا کامل بندوبست کیا گیا۔ بنگلا دیش پڑوسی کا پڑوسی ہے اور اسی معاملے میں پاکستان کے قریب آیا ہے۔ افغانستان پڑوسی ہے اور پڑوسی کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ طالبان پاکستان کا آخری آپشن تھے کچھ قوتوں کی خواہش ہو گی کہ پاکستان ان سے ترک تعلقات کرکے ازبک تاجک اور قوم پرست پشتون لیڈروں کو اعتبار اور وقار دینے دے کر اپنے خوابوں کی قیمت چکائے۔ ایسا عین ممکن ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ انہیں اعتبار عطا کر سکیں مگر جس دن انہیں اعتبار مل گیا تو ان میں طالبان کی روح حلول کر جائے گی کیونکہ مسئلہ باہر کے بجائے اندر کی پالیسیوں میں ہے جو استحکام اور پاکستان کی داخلی ضرورت کے احساس سے عاری ہیں۔ امیر ِ کارواں میں خوئے دلنوازی کسی بازار میں دستیاب نہیں ہوتی۔

عارف بہار سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان کشیدگی، خواب ریزہ ریزہ
  • اسرائیل کی غزہ پر مکمل قبضے اورخصوصی فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی
  • شمالی وزیرستان میں 2 کارروائیوں کے دوران 7 خوارج ہلاک
  • سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات ؟
  • اسرائیل کی خصوصی فوجی آپریشن اور غزہ پر مکمل قبضے کی منصوبہ بندی
  • ملکی سالمیت سب سے مقدم، معرکہ حق میں فیلڈ مارشل نے قائدانہ کردار ادا کیا، ایئر چیف
  • اسلامی ممالک کابل، اسلام آباد کشیدگی میں مؤثر ثالث بن سکتے ہیں،افغان سفیر
  • ہم انشاءاللہ دوبارہ پاکستان آئیں گے، سکندر رضا کا وطن واپسی پر ٹوئٹ
  • ٹرائی سیریز فائنل: امپائر کے غلط فیصلے پر پاکستانی کھلاڑیوں کی تھرڈ امپائر سے طنزیہ اپیل
  • صدرِ مملکت کی قوم اور کھلاڑیوں کو سہ ملکی سیریز میں فتح پر مبارکباد