چرچل کا انجام، زرداری کا انعام
اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وہ لمحہ جب لندن کی فضا میں دھواں، چیخیں اور بموں کی گونج تھی۔ تب اْس کے الفاظ اہل ِ برطانیہ کے دلوں میں حوصلے کے چراغ جلا رہے تھے۔ وہ ونسٹن چرچل تھا۔ ایک ایسا سیاستدان جس نے اپنی زبان کو تلوار، اور اپنے عزم کو ڈھال بنا لیا۔ جب ساری دنیا سمجھ چکی تھی کہ نازی لشکر برطانیہ کو نگل جائے گا، تب اْس نے کہا: ’’ہم ساحلوں پر لڑیں گے، کھیتوں میں لڑیں گے، مگر ہار نہیں مانیں گے!‘‘ اْس کے یہ الفاظ لندن کی ویران گلیوں میں گونجے۔ ملبے تلے دبے لوگ بھی ایک دوسرے سے کہنے لگے: ’’ہم ہار نہیں مانیں گے!‘‘ چرچل نے اپنی قوم کو ہار سے بچا لیا، مگر وہ خود ووٹ کی طاقت سے ہار گیا۔
جنگ عظیم دوم ختم ہوئی تو برطانیہ بچ گیا، مگر 26 جولائی 1945ء کے عام انتخابات نے وہ منظر دکھایا جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یعنی برطانوی عوام نے اپنے ہیرو کو سلام تو کیا، مگر اقتدار اس سے چھین لیا۔ لیبر پارٹی کا کلیمنٹ ایٹلی وزیراعظم بنا اور چرچل اپنے گھر لوٹ گیا۔ خاموش، مگر سر بلند۔ یہ واقعہ جمہوریت کی معراج تھا۔ برطانوی قوم نے بتادیا کہ ہیرو کا احترام الگ، قانون کی بالادستی الگ ہے۔ جمہوریت تاج نہیں جو کسی کے سر پر ہمیشہ کے لیے رکھا جائے۔ یہ امانت ہے جو صرف عوام کی مرضی سے دی جاتی ہے۔ چرچل نے اپنی فوج کی فتح کے باوجود خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھا اور باشعور عوام نے بھی اْسے تخت سے اُتار کر یہ پیغام دیا کہ قومیں اس وقت زندہ ہوتی ہیں جب وہ اپنے محبوب رہنما کو بھی قانون کے دائرے میں رکھیں۔
اب ذرا ہم اپنی سرزمین پر نظر ڈالیں جہاں ایک صاحب نے دوسری جنگ عظیم کی طرح کوئی جنگ تو نہیں جیتی مگر وہ آئین میں اپنے لیے دائمی تحفظ کے تمغے اپنے سینے پر سجانے کے خواہش مند ہیں۔ اقتدار سے چمٹے رہنے والے ہمارے رہنما یہ بھول گئے ہیں کہ جب حکمران عوام سے کٹ جاتے ہیں، تو پھر کوئی آئین اْنہیں تاحیات بچا نہیں سکتا۔ کیونکہ جو لوگ آج ان کے لیے ستائیسویں ترمیم منظور کرواتے ہیں، وہی کل اٹھائیسویں ترمیم لا کر ان تمام مراعات اور قانونی تحفظات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ زرداری صاحب شاید بھول گئے ہیں کہ قوموں کی تاریخ میں عزت اْنہیں ملتی ہے جو عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، نہ کہ اْنہیں جو آئین سے بالاتر اور قانون سے محفوظ رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ چرچل جنگ جیت کر بھی قانون کے سامنے سر جھکا گیا اور ہمارے یہاں یہ رہنما مقدمات میں گھر کر بھی قانون سے بھاگنا چاہتے ہیں۔
یہ وہ فرق ہے جس نے ایک قوم کو دنیا کی جمہوریت کا قائد بنا دیا،اور دوسری کو مراعات یافتہ اور اور مفاد پرستوں کا غلام۔ کاش ہمارے حکمران یہ سمجھ پاتے کہ جمہوریت اْن کے نام پر نہیں، اْن کے کردار پر زندہ رہتی ہے۔ اور وہ دن کسی بھی قوم کے لیے سب سے اندوہناک ہوتا ہے جب اس کا قانون کمزور اور حکمران ناقابل ِ گرفت ہو جائے۔ چرچل کا انجام جمہوریت کی سربلندی تھا، اور زرداری کا انعام قانون کی بے بسی۔ یہی فرق ہے ایک نے قوم کو تاریخ کا فخر دیا، دوسرا تاریخ کو شرمندگی کا ایک اور باب دینے کا خواہش مند ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا نہیں
پڑھیں:
یہ سنگدل مائیں اور بیویاں
میاں بیوی کے جھگڑے جب شدت اختیار کرجاتے ہیں تو اس کا نتیجہ شوہر کے ہاتھوں بیوی کا قتل، عام بات تھی اور ذمے دار ہمیشہ بیوی کو ہی ٹھہرایا جاتا تھا۔ ان پڑھ معاشرے اور پس ماندہ علاقوں میں خواتین کا قتل، ان کے آشنا سے تعلقات کو قتل کا لائسنس تو نہیں دیتا مگر نام نہاد غیرت کے نام پر ملک میں بدچلنی کا الزام لگا کر عورت اور مرد کو کاروکاری قرار دے کر موت کے گھاٹ اتارنے والوں کو کبھی موت کی سزا نہیں ہوتی اور مجرم چند سال کی سزا کاٹ کر بری ہو جاتا ہے اور معاشرہ اسے مطعون بھی نہیں کرتا جس کی وجہ سے کاروکاری کے تحت قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے کیونکہ مجرم کو قتل کی دیگر وارداتوں کی طرح زیر دفعہ 302 کبھی پھانسی کی سزا نہیں ملتی جس سے کاروکاری کے الزام میں قتل کم نہیں ہو رہے اور ان میں بہت سے قتل بے گناہوں کے بھی ہو رہے ہیں اور بعض جگہ یہ قتل تعلیم یافتہ لوگ بھی کر رہے ہیں جن میں ایسے بھی ہیں جو بیوی سے چھٹکارا پانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
کچھ عرصے سے اب شوہروں کا بیوی کے ہاتھوں قتل بھی بڑھنے لگا ہے جس کی ایک وجہ بیوی پر شوہر کے بہیمانہ مظالم تو ہوتے ہی ہیں مگر مہنگائی و بے روزگاری کے باعث شوہروں کا غصہ بیویوں پر نکلتا ہے اور میاں بیوی کی لڑائی میں کبھی کبھی شوہر بھی قتل ہو جاتا ہے اور جذبات اور غصے میں اپنا ہی گھر اجاڑ لیا جاتا ہے اور اپنے بچوں کا بھی خیال نہیں کیا جاتا اور تحمل و برداشت کا مظاہرہ نہ کرنے والے دونوں فریق یہ نہیں سوچتے کہ جھگڑے میں اگر کوئی قتل ہو جائے تو دوسرے کا مقدر جیل ہوتا ہے مگر ان کے اس اقدام کی سزا ان کے بچے بھگتتے ہیں جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا اور ماں باپ کے جھگڑوں میں وہ در بدر ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ میاں بیوی سے اور بیوی شوہر سے جان چھڑانے کے لیے قتل کے منصوبے بناتے ہیں جن میں کامیابی کم ہوتی ہے اور کرائے کے قاتل بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں۔
انتہائی شرم ناک مقام تو یہ آگیا ہے کہ تعلیم یافتہ اولاد ہی باپ کی دشمن بن جاتی ہے اور ناخلف اولاد باپ کی ماننے کے بجائے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے کرائے کے قاتلوں سے باپ کا قتل کرانے سے بھی گریز نہیں کرتی، تاکہ باپ کی جائیداد ہتھیا کر من پسند شادی یا من مانیوں میں آزاد ہو جائیں انھیں اپنی آخرت کالی کرنے کا بھی خوف نہیں ہوتا اور گنہگار الگ ہوتے ہیں۔
کچھ عرصے سے بعض وجوہات، شوہروں کے رویے، غربت اورگھریلو جھگڑوں کے باعث مائیں اتنی سنگدل ہو گئی ہیں کہ اپنا غصہ اپنی اولاد پر اتارتی ہیں جس کی وجہ سے معصوم بچے اپنی سنگدل ماؤں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں جب کبھی اپنا سوچا بھی نہیں جاتا تھا کیونکہ ماں اپنے بچوں سے باپ کے مقابلے میں زیادہ محبت کرتی ہے اور ماں سے اپنے کسی بچے کی معمولی تکلیف بھی برداشت نہیں ہوتی اور بیٹی ہو یا بیٹا ماں کے نزدیک اسے دونوں ہی پیارے ہوتے اور وہ بچوں کی تکلیف دیکھ کر اپنی تکلیف بلکہ بیماری تک بھول جاتی ہے۔ ماں خود بھوکا رہ لیتی ہے، مگر بچے کی بھوک کو خود پر ترجیح دیتی ہے۔
بعض سنگدل ماؤں نے کسی وجہ سے اپنے بچوں کو نہروں اورکنوؤں میں پھینکا اور خود بھی کود کر جان دے دی لیکن انھوں نے ایسا غیر معمولی حالات یا مجبوری میں کیا مگر حال ہی میں خیرپور میرس سندھ میں ایک ماں نے جس کے بچے دو سے 8 سال کی عمر کے تھے نے رات کو کھانے میں شوہر اور اپنے چار کمسن بچوں کو بے ہوشی کی دوائیں کھلا دیں جس سے وہ بے ہوش ہو گئے اور انتہائی سنگدل ماں نے شوہر کے ریوالور سے پہلے شوہر پر اور بعد میں چاروں بچوں پر فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا اور بعد میں ایک وڈیو بیان ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا کہ میرا شوہر دوسری شادی کر رہا ہے، اس لیے میں نے شوہر اور اپنے چاروں بچوں کو قتل کر دیا ہے اور میں خود بھی خودکشی کر رہی ہوں اور بعد میں اس گھر سے 6 لاشیں برآمد ہوئیں۔
راقم نے ایسی ماں بھی دیکھی جس نے شوہر کے فوت ہونے کے بعد اکلوتے شادی شدہ بیٹے کو بیٹیوں سے مل کر گھر سے نکال دیا اور سامان تک نہیں دیا کیونکہ گھر شوہر اس کے نام کرگیا تھا۔ ظالم ماں کو پھر بھی چین نہیں آیا بلکہ اپنے بیٹے کو اس کی سرکاری ملازمت سے بھی نکلوانے کی مذموم کوشش کرتی رہی۔
ایک اور سنگدل ماں نے اپنے بیٹے کی خود شادی کرائی پھر اپنی بہو کو اس قدر تنگ اور مارا پیٹا کہ وہ ذہنی توازن کھو بیٹھی جس پر بیٹے نے اپنا گھر ماں کے مظالم پر چھوڑ کر کرائے کے گھر میں رہنا شروع کر دیا اور ماں کرائے کے گھر میں بہو کو مارنے پہنچ گئی۔ ستم کی حد ہے کہ ماں نے اپنے شوہر کے فوت ہونے پر باپ کا منہ دیکھنے نہیں دیا اور بہو کو میت والے گھر سے باہر نکلوا دیا اور اپنے بیٹوں کو کہا کہ اپنے بھائی سے تعلق رکھو اور نہ اسے گھر میں داخل ہونے دو۔