Jasarat News:
2025-11-12@02:13:44 GMT

سندھ حکومت ای چالان کے نام پر بھتا وصول کرنے لگی،منعم ظفر

اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251112-01-12
کراچی(اسٹاف رپورٹر)امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہاہے کہ پیپلز پارٹی نااہلی ،بدانتظامی اور کرپشن کا بدترین امتزاج ہے ، سندھ حکومت شہر کا انفرااسٹرکچر درست کرنے کے بجائے اہل کراچی سے ای چالان کے نام پر بھتا وصول کرنے لگی ہے ، حکومت شہریوںکو معیاری ٹرانسپورٹ تو دیتی نہیں لیکن چالان دبئی کے طرز پر لگادیے گئے ہیں، پچھلے 17 برس میں کراچی میں صرف 300 بسیں لائی گئی ،40 لاکھ سے زاید لوگ موٹر سائیکل پرسفر کرنے پر مجبور ہیں، کراچی ملک کی معاشی شہ رگ ہے ، ملک کی معیشت کا 60 فیصد سے زاید حصہ یہ شہر دیتا ہے لیکن یہاں پر عوام کو بنیادی سہولتیں حاصل نہیں ، جماعت اسلامی نے ای چالان کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے ، ایک ہی ملک میں 2نظام چل رہے ہیں ،لاہور میں جو جرمانہ 200 روپے ہے وہی جرمانہ کراچی میں 5 ہزار کا ہے ، یہ ظلم وزیادتی ہرگز قبول نہیں کی جائیگی، امید ہے کہ عدالت عالیہ شہریوں کے حق میں فیصلہ دے گی ۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے مین کینٹ بازار ڈرگ روڈ اور سعود آباد ملیر میں منعقدہ ممبرز کنونشن سے علیحدہ علیحدہ خطاب کر تے ہوئے کیا ۔ کنونشن سے امیر ضلع ائر پورٹ محمد اشرف ، رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق و دیگر ذمے داران نے بھی خطاب کیا ۔ کنونشن میں جماعت اسلامی کی قائم کردہ عوامی کمیٹیوں کے ممبران ، جماعت اسلامی کے کارکنوں اور علاقہ مکینوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔منعم ظفر نے مزید کہا کہ دین ایک نظام کا نام ہے ، اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ، جو معیشت ،معاشرت ، لین دین ، سیاست ،اخلاقیات سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے ، 21،22،23نومبر کو مینار پاکستان کے مقام پر ایک عظیم الشان اجتماع عام منعقد ہونے جارہا ہے ، ہم اہل کراچی سے اپیل کرتے ہیں کہ اس اجتماع عام میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ بھرپور شرکت کریں ، اجتماع عام نظام ظلم کے خاتمے کا پیغام ثابت ہوگا ، ظلم کے نظام کا خاتمہ کرے گا، انہوں نے کہا کہ دنیا کے بڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ ،مونو ریل چلتی ہیں لیکن کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہرکے شہری چنگ چی جیسی سواری پر سفر کرنے پر مجبور ہیں ، کراچی میں کوئی منصوبہ مکمل ہونے کا نام نہیں لیتا، کریم آباد انڈر پاس 2سال میں مکمل ہونا تھا لیکن3 سال ہوچکے ہیں منصوبہ نا مکمل ہے ، ریڈ لائن منصوبہ مکمل ہونے کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے ، جس کے باعث وہاں کے شہری شدید جسمانی و ذہنی اذیت سے دوچار ہیں، اس سال 5مرتبہ ناتھا خان کا برج ٹوٹ چکاہے ، جماعت اسلامی کے 9ٹائونز میں محدود اختیارات اور وسائل کے باوجود ترقی اور خدمت کا سفر جاری ہے ، ہمارے منتخب نمائندے دن رات اپنے اپنے علاقوں کی تعمیر وترقی میں مصروف ہیں،صوبائی حکومت کے کام بھی جماعت اسلامی کررہی ہے ، سڑک بنانے سے پہلے سیوریج اور پانی کا کام کے ایم سی کی ذمے داری ہے لیکن یہ کام بھی ہم کررہے ہیں ِ ،تاکہ لوگوں کو ریلیف مل سکے ، ہماری عوامی کمیٹیاں مستقل لوگوں سے رابطے میں ہیں ، ان کے مسائل حل کررہی ہیں، گزشتہ دنوں ہم نے نیو کراچی کے اندر 600گلیوں کی تعمیر کے منصوبے کاآغاز کیا ہے ، ہم نے حیدری مارکیٹ کو ماڈ ل بناکر ڈسٹرکٹ سینٹرل کو زبردست تحفہ دیا ہے ، ہم اہل کراچی کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ، ہم نہ ماضی میں پیچھے ہٹے تھے نہ آئندہ پیچھے ہٹیں گے ، ہم ان ظالم حکمرانوں سے اپنے حقوق لے کر دم لیں گے، امیر ضلع ائر پورٹ محمد اشرف نے کہا کہ ملیر ہالٹ سے کینٹ چوک تک سڑک تعمیر کرنا قابض میئرمر تضیٰ وہاب کی ذمے داری ہے لیکن انہوں نے ابھی تک نہیں بنائی ،گزشتہ 5 ماہ سے جماعت اسلامی اس سڑک سے ہیوی ٹریفک کے گزرنے کے خلاف احتجاج اور جدو جہد کر رہی ہے جس کے نتیجے میں ڈی آئی جی ٹریفک نے یہ فیصلہ کیا کہ اس سڑک سے ہیوی ٹریفک نہیں گزرے گی ،اس سڑک پر ٹریفک حادثات روزانہ کا معمول تھا ۔ محمد فارو ق نے کہا کہ جماعت اسلامی اہل کراچی کے ہر مسئلے پر سندھ اسمبلی اور اسمبلی کے باہر آواز اُٹھاتی ہے ، جماعت اسلامی کے الیکٹرک کے خلاف اہل کراچی کی ایک مؤثر آواز ہے ، عوام کے حق اور مسائل کے حل کے لیے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔

امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان، امیر ضلع ایئر پورٹ محمد اشرف، رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق مین کینٹ بازار ڈرگ روڈ اور سعود آباد ملیر میں منعقدہ ممبرز کنونشنز سے خطاب کر رہے ہیں

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی اہل کراچی کہا کہ نے کہا

پڑھیں:

دو مئیر؛ دو کہانیاں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251112-03-8

 

میر بابر مشتاق

دنیا کے ہر بڑے شہر کی پہچان وہاں کا مئیر ہوتا ہے۔ مئیر دراصل اس شہر کی انتظامی روح، شہری خوابوں کا نگہبان اور عوامی خدمت کا علامتی چہرہ سمجھا جاتا ہے۔ نیویارک، لندن، پیرس، استنبول یا ٹوکیو — ہر شہر کی ترقی کا مرکز اس کا بااختیار بلدیاتی نظام اور عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ لیکن جب بات کراچی کی ہو تو یہاں مئیر کا ذکر ہوتے ہی عوام کے چہروں پر طنز بھری مسکراہٹ آجاتی ہے۔ کیونکہ یہاں مئیر کے پاس خواب تو ہوتے ہیں مگر اختیارات نہیں، وعدے تو ہوتے ہیں مگر وسائل نہیں۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق جو نیویارک اور کراچی جیسے دو بڑے شہروں کے درمیان حائل ہے۔ نیویارک کی آبادی تقریباً 85 لاکھ ہے، مگر وہاں کا مئیر اتنا بااختیار ہے کہ شہر کے ہر بڑے فیصلے میں اس کی رائے حتمی ہوتی ہے۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر رہائش، تعلیم سے لے کر امن و امان تک، ہر دائرے میں میونسپل حکومت کو فیصلہ سازی کا حق حاصل ہے۔ اسی لیے وہاں کے لوگ اپنے مئیر کو ایک leadership icon سمجھتے ہیں۔

مگر کراچی… ساڑھے تین کروڑ کی آبادی رکھنے والا پاکستان کا معاشی دل، وہ شہر جو پورے ملک کو چلاتا ہے، مگر خود اپاہج انتظامی ڈھانچے میں سسک رہا ہے۔ یہاں کا مئیر بااختیار نہیں، کاغذی نمائندہ ہے۔ سندھ کی وڈیرہ حکومت کے سامنے ایک سیاسی تماشا۔ عوام کے لیے مئیر ایک نزاکت ہے، اور حکمرانوں کے لیے ایک کھلونا۔ سندھ کی سیاست دراصل طاقت کے اس کھیل کا نام ہے جہاں اختیارات کی مرکزیت کو ہی اقتدار کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ اندرون سندھ کے وڈیرے، جو صدیوں پرانی جاگیردارانہ سوچ کے امین ہیں، آج بھی عوام کو ’’پانچ ہزار سالہ تاریخ‘‘ کا چورن بیچ کر حال کے دکھ بھلا دیتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو جمہوریت کے نام پر فرعونیت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ وہ خود اقتدار میں آ کر عوام پر خدائی دعویٰ کرتے ہیں، اور جب کوئی شہری نمائندہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے تو اس کا انجام سیاسی تنہائی، مالی مشکلات اور قانونی جکڑ بندیوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

کراچی کے لوگ جب ووٹ دیتے ہیں تو ان کے سامنے خواب ہوتا ہے؛ ایک صاف ستھرا، منظم، اور ترقی یافتہ شہر۔ مگر انتخاب کے بعد وہی خواب تلخ حقیقت بن جاتا ہے۔ کیونکہ سندھ حکومت بلدیاتی اداروں کو اختیار دینے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہے۔ آئینی طور پر بلدیاتی ادارے تیسری سطح کی حکومت سمجھے جاتے ہیں، مگر سندھ میں انہیں چوتھی، پانچویں یا شاید غیر موجود سطح پر دھکیل دیا گیا ہے۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں مئیر شہر کی صفائی کے لیے بھی حکومت ِ سندھ سے اجازت مانگتا ہے، سڑک پر لائٹ لگانے کے لیے نوٹیفکیشن درکار ہوتا ہے، اور پانی کی لائن بچھانے کے لیے کئی محکموں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے سندھ کے حکمرانوں کے نزدیک بلدیاتی ادارے کوئی جمہوری ضرورت نہیں بلکہ سیاسی خطرہ ہیں۔ کیونکہ اگر کراچی کا مئیر بااختیار ہوگیا تو عوام کا اعتماد کسی اور طرف منتقل ہو جائے گا، اور وڈیروں کی قائم کردہ طاقت کی بنیادیں ہل جائیں گی۔

نیویارک کا مئیر زہران ممدانی اس وقت دنیا بھر میں گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے۔ ایک مسلمان، افریقی نژاد، محنت کش گھرانے سے تعلق رکھنے والا نوجوان، جس نے نیویارک جیسے شہر کی میئر شپ جیت کر تاریخ رقم کی۔ اس نے شہریوں سے کہا کہ ’’مایوس نہ ہو، ہم خواب دیکھیں گے اور انہیں سچ کریں گے‘‘۔ دوسری طرف کراچی ہے، جہاں مئیر حافظ نعیم الرحمن کو عوام کا بے پناہ اعتماد حاصل ہے، مگر سندھ حکومت کے سامنے وہ مسلسل دیوار سے سر ٹکرا رہے ہیں۔ عجیب تضاد ہے! نیویارک کا مئیر اپنے شہریوں کو خواب دیتا ہے، کراچی کا مئیر اختیارات مانگتا ہے۔

دنیا کے مہذب معاشروں میں بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی بنیاد کہا جاتا ہے۔ مگر سندھ میں یہ بنیاد ہی کھوکھلی کر دی گئی ہے۔ یہاں اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کا مطلب ہے۔ ’’وڈیرہ سیاست کے زوال کا آغاز‘‘۔ اس لیے ہر حکومت، چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو یا کوئی اور، بلدیاتی اداروں کو صرف نمائشی حیثیت میں رکھتی ہے۔ کراچی کے مئیر کو اگر صفائی کا اختیار دے دیا جائے تو شاید شہر کا کچرا صاف ہو جائے، مگر تب سندھ حکومت کے کئی محکموں کی ’’آمدنی‘‘ رک جائے گی۔ اگر پانی، سیوریج اور ٹرانسپورٹ کے ادارے شہر کے منتخب نمائندوں کو دے دیے جائیں تو اربوں روپے کے ٹھیکوں پر کنٹرول ختم ہو جائے گا۔ اور یہ بات وڈیرہ ذہنیت کو کسی طور قبول نہیں۔ کراچی کے عوام کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ وہ ایک ایسے سیاسی نظام میں پھنسے ہوئے ہیں جس میں صوبائی حکومت کو تو مکمل اختیار ہے، مگر وفاق یا شہر کے نمائندے بے اختیار ہیں۔ کراچی کی سڑکیں ٹوٹی ہیں، نالے اُبل رہے ہیں، بجلی اور پانی کا بحران مستقل ہے، مگر سندھ حکومت کو صرف ایک چیز کی فکر ہے۔ ’’اختیار کسی اور کو نہ ملے‘‘۔ یہی وہ نظام ہے جس نے کراچی کو مافیا کے حوالے کیا۔ کبھی ڈمپر مافیا، کبھی ٹرانسپورٹ مافیا، کبھی واٹر ٹینکر مافیا؛ سب طاقتور، مگر مئیر بے بس۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ آخر ہمارا ووٹ کس کام کا، جب ہمارا منتخب نمائندہ کچھ کر ہی نہیں سکتا؟ یہ طنز نہیں حقیقت ہے کہ نیویارک کا مئیر 85 لاکھ شہریوں کے لیے پالیسی میکر ہے، جبکہ کراچی کا مئیر ساڑھے تین کروڑ لوگوں کے لیے بس سوشل میڈیا کا کردار بن گیا ہے۔ ایک طرف دنیا کی جدید جمہوریت ہے جہاں مئیر کی آواز ایوانوں تک پہنچتی ہے، دوسری طرف سندھ کی جاگیردارانہ جمہوریت ہے جہاں مئیر کی فائلیں محکموں کی درازوں میں سڑ جاتی ہیں۔

کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہے، قومی آمدنی کا 60 فی صد اور ریونیو کا 70 فی صد یہی شہر دیتا ہے۔ لیکن جب بھی ترقیاتی بجٹ بنتا ہے، کراچی کو محض دکھاوے کے منصوبے دیے جاتے ہیں۔ سڑکیں، سیوریج، کچرا، پانی، ٹرانسپورٹ۔ سب مسائل ایک ہی بنیادی نکتے پر جا کر ٹھیرتے ہیں: اختیار کا فقدان۔ اگر نیویارک کے مئیر کے پاس اتھارٹی ہے تو وہ جواب دہ بھی ہے۔ کراچی کے مئیر کے پاس اختیار نہیں، اس لیے جواب دہی بھی بے معنی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ مئیر کون ہے، سوال یہ ہے کہ مئیر کو اختیار کب ملے گا؟ یہ سوال کراچی کے ہر شہری کے ذہن میں ہے، مگر سندھ حکومت کے کانوں میں پڑے روئی کے گالے اس آواز کو دبا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کا نوجوان ہجرت پر سوچتا ہے، سرمایہ دار بیرون ملک منتقل ہوتا ہے، اور عام آدمی اپنے ہی شہر میں اجنبی محسوس کرتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس فرسودہ نظام کو بدلا جائے۔ کراچی کے عوام کا مینڈیٹ صرف نمائندگی نہیں، خدمت کا حق بھی ہے۔ اگر ملک کے معاشی دل کو ہی بے اختیار رکھا گیا تو پاکستان کے جسم میں جان کیسے رہے گی؟ سندھ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ اختیار بانٹنے سے اقتدار کم نہیں ہوتا بلکہ مضبوط ہوتا ہے۔ مگر شاید وہ دن ابھی دور ہے۔ جب کراچی کا مئیر واقعی ’’شہر کا سربراہ‘‘ ہوگا، نہ کہ ’’وڈیروں کی مرضی کا مہرہ‘‘۔ نیویارک کا مئیر خواب دکھا رہا ہے، امید جگا رہا ہے۔ کراچی کا مئیر حقیقت بتا رہا ہے، اختیار مانگ رہا ہے۔ فرق صرف نظام کا نہیں، نیت کا ہے۔

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • دو مئیر؛ دو کہانیاں
  • ای چالان کے خلاف فریقین سے 25 نومبر تک جواب طلب
  • پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بدانتظامی، نااہلی اور کرپشن کا بدترین امتزاج بن چکی ہے، منعم ظفر
  • اجتماع عام نظام ظلم کے خاتمے کا پیغام ثابت ہوگا، منعم ظفر
  • بھاری جرمانوں پر عوامی ردعمل کے بعد حکومت سندھ کا ای چالان کی رقم میں کمی پر غور
  • ای چالان کیخلاف کیس پرفریقین کونوٹس جاری کردیے گئے
  • منعم ظفر آئندہ 3 سال کیلیے جماعت اسلامی کراچی کے امیرمقرر، کل حلف اٹھائیں گے
  • اجتماع عام ظلم کے نظام کیخلاف ایک نئی اور منظم تحریک کا آغاز ہوگا‘ منعم ظفر خان
  • حکومتِ سندھ کی جانب سے ای چالان اور مزدور