جسٹس منیر سے لے کر گڈ ٹو سی یو تک ججز کا ضمیر نہیں جاگا، ہمیں فرشتے بننے کا کہتے ہیں، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ خود پر بہت کنٹرول کر رہا ہوں کہ جو جج خط لکھ رہے ہیں کسی دن میڈیا پر بیٹھ کر ان کے ماضی پر بھی نظر دوڑاؤں۔
ایک ٹی وی شو میں ججز کی طرف سے خطوط پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ججز ہم سیاستدانوں سے بڑے سیاستدان ہیں، پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ دیکھیں، جسٹس منیر سے لے کر گڈ ٹو سی یو تک ان کا ضمیر نہیں جاگا۔
یہ بھی پڑھیے: اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے بغیر جمہوریت ممکن نہیں، خواجہ آصف
خواجہ آصف نے کہا کہ ججز ایک معیار کا اطلاق ہم پر کرتے ہیں لیکن اس کا اپنے اوپر اطلاق نہیں کرتے، سیاستدانوں کو فرشتہ بننے کا کہتے ہیں جو کہ ممکن نہیں ہے، ملک میں آج تک جو کچھ ہوا سب کے ہاتھ بندھے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ججز خواجہ آصف سپریم کورٹ عدلیہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خواجہ ا صف سپریم کورٹ عدلیہ خواجہ آصف
پڑھیں:
جسٹس (ر)جواد ایس خواجہ،27ویں آئینی ترمیم لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردی
اسلام آباد: (دنیا نیوز) جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ نے ستائیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست دائر کر دی۔
جواد ایس خواجہ نے سپریم کورٹ میں درخواست 184 تھری کے تحت دائر کی، درخواست میں فیڈریشن ،وزارت قانون انصاف کو فریق بنایا گیا۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے آئینی دائرہ اختیار کو کم نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ کا آئینی دائرہ اختیار کسی اور عدالت یا فورم کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔
جواد ایس خواجہ نے موقف اختیار کیا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات ختم کرنا غیر آئینی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت آئین میں ایسی کسی ترمیم کو کالعدم قرار دے جو سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار کم کرے۔
انہوں نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ اعلان کرے کہ وہ خود آئینی ترامیم کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے، آئینی عدالت یا کسی اور فورم کو سپریم کورٹ کے اختیارات دینا آئین سے متصادم ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ ک مطابق ستائیسویں آئینی ترمیم کے تحت ہائی کورٹ ججز کی منتقلی سے متعلق شقیں بھی کالعدم کی جائیں، درخواست کے فیصلے تک ستائیسویں ترمیم کے متنازعہ حصوں پر عملدرآمد روکا جائے۔