25 سالہ افغان شہری عدنان خان (فرضی نام) گزشتہ 2 دہائیوں سے پنجاب کے شہر راولپنڈی میں مقیم تھے۔ تاہم پنجاب میں افغان باشندوں کی واپسی کے حکومتی احکامات کے بعد ان کا خاندان افغانستان واپس چلا گیا، لیکن عدنان پشاور آگئے اور اب یہیں رہائش پذیر ہیں۔

صرف عدنان خان ہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں افغان باشندے جو ملک کے دیگر حصوں میں رہتے تھے، واپسی سے بچنے کے لیے پشاور کا رخ کر چکے ہیں جہاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں ان کی واپسی کی رفتار نسبتاً سست ہے۔ عدنان خان کہتے ہیں ’پشاور میں جلد شناخت نہیں ہوتی‘۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان دہشتگردی کا سرپرست، ایسے عناصر کا زمین کے آخری کونے تک پیچھا کریں گے، خواجہ آصف

سرکاری حکام کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں افغان باشندوں کی واپسی میں تیزی آئی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کو وطن واپسی کے احکامات اور مہاجر کیمپوں کے خاتمے کے فیصلے کے بعد واپسی کا عمل تیز ہوا ہے۔

پنجاب اور سندھ سے بڑی تعداد میں افغان شہری واپس جا چکے ہیں تاہم خیبر پختونخوا میں واپسی کی رفتار سست ہے۔

عدنان خان نے بتایا کہ پنجاب اور سندھ میں تقریباً تمام افغان باشندے واپس جا چکے ہیں یا عارضی طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان منتقل ہوئے ہیں۔ ان کے بقول پنجاب اور سندھ میں کریک ڈاؤن جاری ہے۔ پولیس گھر آتی ہے۔ گرفتاری اور قانونی کارروائی کے ڈر سے لوگ واپس جا رہے ہیں۔

عدنان کہتے ہیں کہ وہ راولپنڈی میں سبزی کا کاروبار کرتے تھے اور اب پشاور کے بورڈ بازار میں اپنے کزن کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق میرے والدین، بہن بھائی سب افغانستان واپس چلے گئے، لیکن میں پشاور آگیا۔

یہ بھی پڑھیں:کیڈٹ کالج وانا پر حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی، شواہد مل گئے

ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں ان کی شناخت آسانی سے ہو جاتی تھی، پولیس فوراً پہچان لیتی تھی کہ وہ افغان شہری ہیں اور گرفتاری کے امکانات زیادہ تھے، جبکہ پشاور میں صورتِ حال مختلف ہے۔

پشاور میں گرفتاری یا پولیس کارروائی کا زیادہ خوف نہیں رہتا۔ پشتو ہماری بھی زبان ہے، شکلیں بھی ایک جیسی ہیں، اس لیے ڈر کم ہوتا ہے۔

پشاور افغان باشندوں کا گڑھ

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق خیبر پختونخوا میں 8 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین مقیم ہیں جن میں سب سے بڑی تعداد پشاور میں ہے۔

سرکاری حکام کے مطابق 2024 سے افغان باشندوں کی واپسی کی مہم تیز ہونے کے بعد دیگر صوبوں سے تو واپسی میں اضافہ ہوا، لیکن پشاور میں افغان شہریوں کی تعداد میں الٹا اضافہ دیکھا گیا ہے، جن میں اکثریت غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی ہے۔

پشاور پولیس کے ایک سینیئر افسر کے مطابق ان کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیگر صوبوں سے افغان باشندے پشاور منتقل ہوئے ہیں، تاہم ان پر پولیس اور دیگر اداروں کی کڑی نظر ہے۔

ان کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ افغان باشندے پشاور میں رہائش پذیر ہیں۔

بورڈ بازار کو ’چھوٹا کابل‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں افغان باشندوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ اسی طرح حیات آباد، صدر، حاجی کیمپ اور چارسدہ روڈ کے علاقوں میں بھی افغان شہری بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:افغان طالبان رجیم اور فتنہ الخوارج نفرت اور بربریت کے علم بردار، مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب

وفاقی حکومت کے احکامات کے باوجود پشاور کے مہاجر کیمپ تاحال مکمل طور پر خالی نہیں کیے گئے۔

بورڈ بازار میں سبزی فروش حاجی خان کا کہنا ہے کہ میری پیدائش بھی پشاور کی ہے اور میں واپس نہیں جانا چاہتا۔ جب تک زبردستی واپس نہیں بھیجا جاتا، تب تک یہی رہوں گا۔

ان کے مطابق جو واپس گئے تھے وہ بھی کسی نہ کسی طرح واپس آ رہے ہیں اور اب ان کی ترجیح پشاور ہے۔

خیبر پختونخوا میں افغان باشندوں کی واپسی کم کیوں؟

حکام کے مطابق خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے افغان باشندوں کی واپسی کا عمل جاری ہے۔ چترال سمیت کچھ اضلاع میں مہاجر کیمپ بند کر دیے گئے ہیں اور وہاں آباد افغان شہری وطن واپس چلے گئے ہیں۔

پشاور سے واپسی کم ہونے کی کئی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ پشاور میں تعینات ایک اعلیٰ پولیس افسر نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی ہدایت کے مطابق افغان باشندوں کی “باعزت اور رضاکارانہ” واپسی کا عمل جاری ہے۔

ان کے مطابق اس وقت کوئی کریک ڈاؤن یا سخت کارروائی نہیں ہو رہی۔ حکومت چاہتی ہے کہ واپسی رضاکارانہ اور باعزت ہو۔

افسر نے مزید کہا کہ پشاور میں افغان باشندوں کی تعداد زیادہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں ابھی کوئی سخت کارروائی شروع نہیں کی گئی۔

پولیس حکام کے مطابق کچھ غیر قانونی افغان باشندے جرائم میں بھی ملوث ہیں، جن میں قتل، موبائل چوری، ڈکیتی اور بھتہ خوری شامل ہیں، جبکہ بعض افغان گروہ اس نوعیت کے جرائم میں سرگرم ہیں۔

اب تک کتنے افغان باشندے واپس جا چکے ہیں؟

حکومتِ پاکستان کے مطابق افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ حالیہ سرحدی کشیدگی اور بارڈر بند ہونے کی وجہ سے واپسی کا عمل عارضی طور پر متاثر ہوا تھا، تاہم اب دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:باعزت واپسی کا سلسلہ جاری، 16 لاکھ 96 ہزار افغان مہاجرین وطن لوٹ گئے

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک روز کے دوران تقریباً 11 ہزار 600 افغان باشندے افغانستان واپس بھیجے گئے، جبکہ مجموعی طور پر اب تک 16 لاکھ 96 ہزار مہاجرین وطن واپس جا چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغان باشندے افغان مہاجرین پاکستان پشاور پنجاب.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان باشندے افغان مہاجرین پاکستان پشاور افغان باشندوں کی واپسی میں افغان باشندوں کی واپس جا چکے ہیں خیبر پختونخوا افغان مہاجرین حکام کے مطابق افغان باشندے واپسی کا عمل یہ بھی پڑھیں ان کے مطابق افغان شہری پشاور میں بڑی تعداد وطن واپس سے افغان جاری ہے اور میں

پڑھیں:

امن جرگہ، یہاں بم پھٹتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کس پارٹی سے ہے، وزیراعلیٰ کے پی

امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے سہیل آفریدی نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب نے قربانیاں دی ہیں، اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک مشترکہ پالیسی اپنائی جائے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل خان آفریدی نے کہا ہے کہ یہاں بم پھٹتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کس پارٹی سے ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب نے قربانیاں دی ہیں، اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک مشترکہ پالیسی اپنائی جائے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں منعقدہ امن جرگے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سہیل خان آفریدی نے کہا کہ دہشت گردی کا ناسور پچھلے 20 سال سے صوبے کو کھا رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم امن کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگوں کو برا لگتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جب بند کمروں میں فیصلے ہوتے ہیں تو امن نہیں آتا، اس پالیسی میں اب تبدیلی آنی چاہیے۔

سہیل آفریدی نے کہا کہ ہمیں دوسروں کو عقلمند سمجھ کر فیصلے کرنے ہوں گے، شارٹ ٹرم نہیں بلکہ ’’وَنس فار آل پالیسی‘‘ بنانی ہوگی۔ خیبر پختونخوا کے عوام نے امن کے لیے 80 ہزار سے زائد قربانیاں دی ہیں اور ان قربانیوں کا تقاضا ہے کہ صوبے کو اس کا جائز حق دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کا 6.14 بلین شیئر بنتا ہے اور نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع کو شامل کرنے کے بعد یہ حصہ 19 فیصد بنتا ہے، مگر ہمیں وہ حصہ نہیں دیا جا رہا۔ وفاقی حکومت ہماری قرض دار ہے، نیٹ ہائیڈل منافع کی مد میں 200 ارب روپے واجب الادا ہیں، ہمیں ہمارا حق دیا جائے۔ وزیراعلیٰ نے وفاق سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک نہ کیا جائے، اور تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ صوبے کے حقوق کے لیے متحد ہو جائیں۔

افغانستان سے متعلق گفتگو میں سہیل خان آفریدی نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے بہت سے مشترکہ اقدار ہیں، ہم پاکستانی ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان تعلقات کو بگاڑا نہ جائے۔ جنگ ہمیشہ آخری آپشن ہونی چاہیے۔ امن جرگے میں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، مذہبی شخصیات، عمائدین اور پارلیمنٹرینز نے شرکت کی۔ اجلاس میں صوبے میں دیرپا امن، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور بین الپارٹی اتفاقِ رائے کے لیے تجاویز پر غور کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ تیز، 24 گھنٹوں میں ساڑھے 11 ہزار مہاجرین کو واپس بھیجا گیا
  • خیبر پختونخوا میں قیام امن کیلئے اہم جرگہ
  • اسلام آباد دھماکے میں افغان شہری کے ملوث ہونے کی تصدیق کے بعد سرچ آپریشن تیز
  • مزید تین لوگ بھی ووٹ دینے کو تیار ہیں، سینیٹر فیصل واوڈا کا اہم انکشاف
  • افغان مہاجرین  کی وطن واپسی کا سلسلہ تیزی سے جاری
  • امن جرگہ، یہاں بم پھٹتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کس پارٹی سے ہے، وزیراعلیٰ کے پی
  • خیبر پختونخوا حکومت کا امن جرگہ آج پشاور میں منعقد ہوگا
  • وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی زیرصدارت پختونخوا کابینہ کا پہلا اجلاس  طلب، ایجنڈا جاری
  • بلوچستان میں پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی کا نوٹیفکیشن واپس؛حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کی ہدایت