آئی ایل ٹی 20 سیزن 4 کا آغاز؛ شائقین عالمی کرکٹ کے ایک اور شاندار سیزن کے منتظر WhatsAppFacebookTwitter 0 1 December, 2025 سب نیوز


دبئی :ڈی پی ورلڈ آئی ایل ٹی 20 سیزن 4 ایک نئی توانائی اور بھرپور جوش و خروش کے ساتھ کل سے آغاز کر رہا ہے، دفاعی چیمپئن دبئی کیپیٹلز اور ڈیزرٹ وائپرز کے درمیان دبنگ اوپننگ میچ کھیلا جائے گا۔ ٹورنامنٹ کا آغاز 2 دسمبر کو یومِ اتحاد (یو اے ای نیشنل ڈے) کے موقع پر دبئی انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں ہوگا، جبکہ ٹکٹس ورجن میگا اسٹور کے ٹکٹنگ پلیٹ فارم سے دستیاب ہیں۔

اس بار لیگ میں پہلی بار سیزن 4 پلیئر آکشن ہوا ہے اور سعودی عرب و کویت کے کھلاڑیوں کی شمولیت نے مقابلوں کو مزید رنگین بنا دیا ہے۔ ٹورنامنٹ سے قبل چھوں فرنچائزز کے کپتانوں اور نمایاں کھلاڑیوں نے پریس کانفرنس میں اپنے عزائم اور سیزن کے لیے توقعات کا اظہار کیا۔دبئی کیپیٹلز کے آل راؤنڈر گلبدین نائب نے کہا کہ یہاں آکر ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔

پچھلے سال ہم نے ٹائٹل جیتا، اس بار بھی اسی عزم کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔ ڈیزرٹ وائپرز کے کپتان لوکی فرگوسن نے ٹیم کے ماحول اور متوازن اسکواڈ پر اعتماد ظاہر کیا اورکہا کہ یہ ٹیم ایک خاندان جیسی ہے۔ پچھلے سیزن میں ہم فائنل تک پہنچے اور اس بار اس سے بہتر کارکردگی کا عزم رکھتے ہیں۔ ابوظہبی نائٹ رائیڈرز کے کپتان جیسن ہولڈر نے کہا کہ ہمارا ہدف سادہ ہے جیتنا۔

۔گلف جاینٹس کے اسٹار آل راؤنڈر معین علی نے کہا کہ ٹیم نئے کمبی نیشن کے ساتھ بہتر واپسی کے لیے پرعزم ہے،معیار پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ ایم آئی ایمریٹس کے نئے کپتان کیرون پولارڈ نے کہا کہ یو اے ای ہمیشہ ایک شاندار کرکٹ مقام رہا ہے۔ ہم نے پلاننگ کے مطابق وہی ٹیم بنائی ہے جو ہمیں چاہیے تھی۔ مقابلہ سخت ہے کیونکہ یہاں دنیا کے بہترین کھلاڑی آتے ہیں۔ ڈی پی ورلڈ آئی ایل ٹی 20 سیزن 4 عالمی معیار کی کرکٹ، بڑے مقابلے اور سخت ٹائٹل ریس کے ساتھ ایک مرتبہ پھر شائقین کو زبردست کرکٹ کا تحفہ دینے کے لیے تیار ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجیل کی ملاقات مشاورت کیلئے ہوتی ہے، اداروں کیخلاف سازشوں کیلئے نہیں، عطا تارڑ اگلی خبرپی ٹی آئی کی مشترکہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس، خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی خبروں کی شدید مذمت معین علی بھی آئی پی ایل چھوڑ کر ایچ بی ایل پی ایس ایل کھیلنے کے لیے تیار یو اے ای بُلز پہلی بار ابوظہبی ٹی10 لیگ کی چیمپئن بن گئی انڈر 17 ایشین کپ کوالیفائر: پاکستان نے گوام کیخلاف تاریخی فتح حاصل کرلی روومن پاول کی طوفانی بیٹنگ، یو اے ای بلز نے عجمان ٹائٹنز کو ایلیمینیٹر میں باہر کردیا ابوظہبی ٹی 10 لیگ: اسپن اسٹالینز نے کوئٹہ کیولری کو شکست دے کر فائنل میں جگہ بنا لی کیرون پولارڈ کی دھواں دار اننگز، بُلز نے ٹائٹنز کو تین وکٹ سے شکست دی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ا ئی ایل ٹی 20 سیزن 4

پڑھیں:

کرکٹ کا سچا خادم اور ماجد خان

کرکٹ سے وابستہ کسی غیر ملکی شخصیت کی کتاب میں میری ایک دلچسپی یہ ہوتی ہے کہ اس میں پاکستانی کرکٹروں کا تذکرہ کس پیرائے میں کیا گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر اپنے محبوب کرکٹر کے بارے میں جاننے کی چیٹک ہوتی ہے۔

اگر کتاب میں ایسے کرکٹر کا ذکر آجائے جن سے ذاتی تعلق ہو تو لطف دو چند ہوجاتا ہے۔ میرے ذوق و شوق کے یہ تینوں سلسلے ماجد خان سے ملتے ہیں۔ اس لیے گزشتہ دنوں کرکٹ کے ممتاز امپائر ڈکی برڈ کی کتاب ’وائٹ کیپ اینڈ بیلز‘ میں پاکستانی کرکٹرز کے تذکرے میں ماجد خان سے متعلق ان کے تأثرات پڑھ کر جی شاد ہوگیا۔

اس ذاتی خوشی کی چمک نے کرکٹ کے ایک اور سچے خادم پر کچھ لکھنے کی راہ بھی سجھائی۔

یہ ذکر ہے سرل کوٹ کا جو کہنے کو ایک گراؤنڈ مین تھے لیکن انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی کے میدان کو بہترین پچز ہی نہیں ان پر کھیل کر نام پیدا کرنے والے کھلاڑی بھی دیے۔

ہمارے لیے یہ بڑے فخر کی بات ہونی چاہیے کہ سرل کوٹ جیسے کرکٹ کے جوہر شناس دنیا میں جن 2 کرکٹروں کا سب سے زیادہ دم بھرتے تھے وہ ہمارے اپنے تھے، یعنی ڈاکٹر جہانگیر خان اور ان کے بیٹے ماجد خان۔

ماجد خان کیمبرج یونیورسٹی اور گلمورگن کے بلے باز کی حیثیت سے انگلینڈ میں ہر دل عزیز تھے۔ ایک دفعہ ڈکی برڈ کیمبرج یونیورسٹی میں امپائرنگ کرنے گئے تو وہاں کے گرم و سرد چشیدہ گراؤنڈ مین سرل کوٹ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ڈکی برڈ نے ان سے پوچھا کہ کیمبرج یونیورسٹی کی کرکٹ گراؤنڈ فینرز میں انہوں نے کسے بہترین بلے باز پایا؟

سرل کوٹ نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ’ڈکی اس کے لیے مجھے سوچنے کی ضرورت نہیں۔ میرے نزدیک ماجد خان بہترین بلے باز تھے‘۔

سرل کوٹ کا یہ کہنا بڑی بات تھی کیونکہ وہ پیٹر مے، ڈگ انسول اور ٹیڈ ڈیکسٹر ایسے معروف کھلاڑیوں کا کھیل دیکھ چکے تھے۔ ڈکی برڈ کی نظر میں پیٹر مے دوسری عالمی جنگ کے بعد انگلینڈ کے بہترین بلے باز تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ڈکی برڈ نے پیٹر مے پر ماجد خان کو ترجیح دینے کی سرل کوٹ کی رائے کو شاندار ستائش گردانا ہے۔ ڈکی برڈ نے لکھا کہ ماجد خان حقیقی معنوں میں عمدہ اور ولولہ خیز بلے باز تھے۔

اتفاق سے یہ مضمون لکھنے کے دوران پیٹر مے کی طرف سے ماجد خان کے کھیل کو سراہنے کا حوالہ بھی میسر آگیا۔

ستمبر 1967 کے سپورٹائمز، لاہور کے شمارے میں الیاس بیگ نے اپنے مضمون ’ماجد جہانگیر —ایک عظیم نو عمر‘ کے آغاز سے پہلے اپنے نوٹ میں لکھا: ’1963 میں پی آئی اے ایگلٹس کی ٹیم انگلستان کے دورے پر گئی۔ انگلستان کے مدبر کھلاڑی پیٹر مے نے ایک نوعمر کھلاڑی کے جاذب نظر کھیل سے متاثر ہوکر کہا کہ انہوں نے اتنی چھوٹی عمر کا اس سے زیادہ دلکش کھلاڑی کبھی نہیں دیکھا! کرکٹ کے ایک کہنہ مشق کھلاڑی کی نظر رسا اس جوہر کو پرکھنے میں کہاں تک کامیاب رہی؟ ماجد جہانگیر کے حالیہ کارنامے اس پیشگوئی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔‘

ڈکی برڈ نے ماجد کی کپتانی کی بھی تعریف کی ہے جو وہ اپنے مخصوص پرسکون انداز میں کرتے تھے۔

ان کے مطابق بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ شاید ماجد کچھ زیادہ ہی بھلے مانس تھے جبکہ گلمورگن کی کپتانی کے لیے سخت ڈسپلن اور ری اسٹرکچنگ کی ضرورت تھی۔

ماجد خان کا دھیما اور ٹھنڈا مزاج اک حقیقت سہی لیکن ان کے کرکٹ کیریئر میں ایسے موقعے ضرور آئے جب ان کی طبیعت کا جلالی رخ بھی سامنے آیا۔

ڈکی برڈ نے لکھا ہے کہ ڈربی شائر کے خلاف میچ میں آؤٹ ہونے پر وہ اس قدر بگڑے کہ آری سے بلے کے 2 ٹکڑے کرکے دم لیا۔

بلے کے ساتھ ماجد خان کے اس ‘حسنِ سلوک‘ کے بارے میں ڈکی برڈ کی کتاب سے پہلے میں نے اسٹیو ڈولمین کی کتاب ’ان دیئر اون ورڈز‘ میں پڑھا تھا۔

اس کتاب میں ڈربی شائر سے وابستہ کھلاڑیوں کے انٹرویوز شامل ہیں۔ اس میں ایلن ہل نے بہترین بلے بازوں کے بارے میں سوال پر جو نام گنوائے ان میں ماجد خان شامل تھے۔

انہوں نے ماجد کے بلے کو آری سے چیرنے کے بارے میں لکھتے ہوئے بتایا کہ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اس زمانے میں کرکٹروں کو سازو سامان کے لیے پلّے سے پیسے خرچ کرنا پڑتے تھے۔

ایلن ہل نے لکھا کہ ہم سب بے یقینی سے ماجد خان کو دیکھ رہے تھے جو آری چلاتے ہوئے یہ فقرہ بڑبڑاتے رہے:

‘This bat is a piece of shit’

اس واقعے کی تحریری شہادتیں موجود ہیں۔ 2 کتابوں سے حوالہ آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔ اس کی بصری شہادت موجود نہیں لیکن 1978 میں پاکستان میں انڈیا کے خلاف ٹیسٹ میچ میں ماجد خان کے غصے میں آنے کی ویڈیو موجود ہے جس میں کپیل دیو کے لیگ اسٹمپ سے باہر گیندیں کرنے سے زچ ہوکر ماجد خان نے مڈل اسٹمپ اکھاڑ کر اس جگہ پر رکھی جہاں انڈین فاسٹ باؤلر گیند پھینک رہے تھے۔

ڈکی برڈ نے ماجد خان کی 2 اننگز کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ 1969 میں ورسسٹر شائر کے خلاف ماجد خان نے 156 رنز بنا کر گلمورگن کو کاؤنٹی چیمپیئن شپ جتوانے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

1967 میں ماجد خان نے پاکستان کی طرف سے گلمورگن کے خلاف شاندار سنچری اسکور کی تھی۔

سرل کوٹ سے ڈکی برڈ نے بہترین بلے باز کا پوچھا تو انہوں نے ماجد خان کا نام لیا لیکن اگر وہ اس عظیم گراؤنڈ مین سے بہترین اننگز کا پوچھتے تو وہ اس سلسلے میں بھی ماجد خان کی ایک اننگز کا حوالہ دیتے۔

1982 کے ‘وزڈن’ میں جے جی ڈبلیو ڈیویز نے اپنے مضمون ’سرل کوٹ – اے کیمبرج لیجنڈ‘ میں لکھا ہے کہ وہ 1972 میں ورسسٹر شائر کے خلاف ماجد خان کی 70 رنز ناٹ آؤٹ کی اننگز کو بہترین قرار دیتے تھے۔ تیز بارش کے بعد دھوپ میں وکٹ پر ٹھہرنا بلے بازوں کے لیے خاصا دشوار ہوگیا تھا لیکن ماجد نے اس وکٹ پر اسکور کیا اور کوئی باؤلر انہیں زیر نہ کرسکا۔

اس سے بشن سنگھ بیدی یاد آئے جنہوں نے ماجد خان کو خراب وکٹوں پر جم کر کھیلنے والا سب سے اچھا بلے باز قرار دیا تھا۔

سرل کوٹ کے نزدیک ماجد خان بہترین کپتان بھی تھے کیونکہ وہ کیمبرج آئے تو ٹیسٹ کرکٹ کا تجربہ ساتھ لائے تھے۔

کیمبرج یونیورسٹی نے 1971 میں ماجد خان کی کپتانی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو 10 وکٹوں سے شکست دی تھی۔ 1927 میں نیوزی لینڈ کو ہرانے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب کیمبرج یونیورسٹی نے انگلینڈ کے دورے پر آئی کسی کرکٹ ٹیم کو چت کیا تھا۔ اس میچ میں ماجد خان نے 94 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی۔

دلچسپ بات ہے کہ سرل کوٹ ماجد خان کے والد ڈاکٹر جہانگیر خان کے بھی مداح تھے۔ اس کا ‘وزڈن’ کے مذکورہ مضمون میں بھی حوالہ ملتا ہے، ماجد خان بھی اس کا تذکرہ کرتے ہیں لیکن اصل بات انگلینڈ اور گلمورگن کے سابق کپتان ٹونی لیوس نے اپنی کتاب ٹیکنگ فریش گارڈ’ میں لکھی ہے جنہیں ایک دن سرل کوٹ نے بتایا تھا کہ اگر وہ جہانگیر خان کے زمانے میں ہوتے تو ایک انٹرنیشنل کرکٹر کو دیکھتے جو ان کے بقول ’وہ دن بھر باؤلنگ کرتے، دن بھر بیٹنگ کرتے۔ ایسا کچھ بھی نہیں تھا جسے جہانگیر خان نہ کرسکتے ہوں۔‘

ماجد خان نے میرے ساتھ گفتگو میں سرل کوٹ کو ہمیشہ بڑے اچھے لفظوں میں یاد کیا اور کرکٹ سے متعلق ان کے وسیع علم سے مستفید ہونے کا اعتراف کیا۔

1971 میں گراؤنڈ مین کے طور پر سرل کوٹ کی خدمات کے صلے میں انہیں برٹش ایمپائر میڈل دیا گیا۔

سرل کوٹ گراؤنڈ مین کی ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے مائنر کاؤنٹی کرکٹ میں کھیلتے رہے تھے۔

کیمبرج یونیورسٹی سے وابستگی کے بعد وہ گراؤنڈ کی دیکھ ریکھ اور پچ کی تیاری پر دھیان دینے کے ساتھ ساتھ نوجوان کھلاڑیوں کی رہنمائی کرنے اور ان کی خامیاں دور کرنے میں ذاتی دلچسپی لیتے تھے۔ ان کی کوچنگ کرتے تھے۔ کیمبرج یونیورسٹی کی ٹیم کے انتخاب اور ٹیم کمبی نیشن بنانے میں بھی کپتان ان سے صلاح لیتے تھے۔

کرکٹ کے ناموروں کا کھیل قریب سے دیکھنے اور ان سے میل جول سے سرل کوٹ میں کرکٹ کی گہری سوجھ بوجھ پیدا ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر جہانگیر خان اور ماجد خان کے کھیل سے ان کی دلچسپی کا احوال آپ کی نظر سے گزر چکا ہے۔ انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ کرکٹر فل ایڈمنڈ نے ان کی ہر طرح سے مدد اور حوصلہ افزائی کا اعتراف کیا اور سابق کپتان مائیک بریرلی نے انہیں لیجنڈری گراؤنڈ مین قرار دیا۔

انگلینڈ کے مایہ ناز بلے باز اور کپتان ٹیڈ ڈیکسٹر کی ترقی میں سرل کا بنیادی کردار تھا۔ انہوں نے جن 3 شخصیات کو اپنے ٹیسٹ کرکٹر بننے کا کریڈٹ دیا ہے، ان میں پہلا نمبر سرل کوٹ کا ہے جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ کوئی نوجوان کھلاڑی انہیں قابلِ قدر نظر آتا تو وہ اس کی نجی حیثیت میں کوچنگ اپنے ذمے لے لیتے تھے۔

ٹیڈ ڈیکسٹر کے خیال میں وہ کرکٹ کے بہت بڑے پارکھ تھے۔ ایک دن وہ ٹیڈ ڈیکسٹر کے پاس آئے اور کہنے لگے ’جو تم کررہے ہو وہ ٹھیک ہے لیکن اگر تم عظیم کھلاڑی بننا چاہتے ہو تو پھر تم کو بیک فٹ پر کھیلنا بھی لازمی سیکھنا ہوگا‘۔

سرل کوٹ زبانی جمع خرچ نہیں کرتے تھے بلکہ نوجوانوں کے ساتھ جان مارتے تھے۔ اس لیے انہوں نے نیٹ پر ٹیڈ ڈیکسٹر کو بیک فٹ پر کھیلنے کی مشق کروائی اور انہوں نے فرنٹ فٹ کی طرح بیک فٹ پر کھیلنے کا ہنر سیکھا اور اس طرح ان کے انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کا حصہ بننے کی راہ ہموار ہوئی۔

صاحبو! کرکٹ کے روشن ستارے تو سب کو نظر آتے ہیں لیکن ان کی چمک دمک کے پیچھے گمنام کرداروں کو دنیا کم ہی جانتی ہے۔ حنیف محمد کو حنیف محمد بنانے میں کسی ماسٹر عبدالعزیز کا ہاتھ ہوتا ہے۔ سچن ٹندولکر کو سچن ٹندولکر بنانے میں رماکانت اچریکر کی محنت رنگ لاتی ہے اور ٹیڈ ڈیکسٹر کو کوئی سرل کوٹ مل جاتا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ ان تینوں نے کرکٹ میں عظمت حاصل کرنے کے بعد بھی اپنے محسنوں کو یاد رکھا اور کرکٹ سے وابستہ اپنی یادوں کو ان کے تذکرے سے منور کیا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کرکٹ کا سچا خادم اور ماجد خان
  • بی پی ایل کے آئندہ سیزن کیلئے 11 پاکستانی کھلاڑی مختلف ٹیموں کا حصہ بن گئے
  • آئندہ سیزن گندم کا سرکاری ریٹ 3500 روپے من مقرر کیئے جانے کا امکان
  • محکمہ اقلیتی اموروانسانی حقوق کاکرسمس سیزن کوبھرپورانداز میں منانےکافیصلہ
  • ٹیلر سوئفٹ کی دنیا بھر میں شاندار بیچلوریٹ پارٹیوں کی تیاری
  • خیبر پی کے کی ٹوٹی سڑکیں اور کھنڈر ہسپتال وزیراعلیٰ کے منتظر ہیں، مریم اورنگزیب  
  • پی ٹی آئی کو پشاور اور کے پی جانے کا اعلان کرنا چاہیے، مریم اورنگزیب
  • خیبر پختونخوا کی ٹوٹی سڑکیں اور کھنڈر اسپتال وزیراعلیٰ کے منتظر ہیں، مریم اورنگزیب
  • فاف ڈو پلیسی کا آئی پی ایل چھوڑ کر پی ایس ایل میں حصہ لینے کا فیصلہ