جماعت اسلامی عام آدمی کی حقیقی آواز
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جماعت اسلامی پاکستان کی سیاست میں آج بھی وہ واحد آپشن ہے جو اخلاقیات، سیاست، خدمت اور دین کو یکجا کرتی ہے، پاکستان کی سیاست میں جماعت اسلامی ایک منفرد، نظریاتی، اصول پسند اور نظم و ضبط رکھنے والی ایسی تحریک ہے جو اپنے قیام (1941ء) سے لے کر آج تک سیاست، دین، علم اور خدمت کو ایک دوسرے کا جزوِ لازم سمجھتی ہے۔ برصغیر کے فکری منظرنامے میں جماعت اسلامی وہ پہلی منظم جماعت تھی جس نے اسلام کو محض عبادات اور اخلاق تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک مکمل، جدید، ہمہ گیر، قابل ِ عمل ریاستی اور سیاسی نظام کے طور پر پیش کیا اور قرآن اور سنت کی روشنی میں سید مودودیؒ نے یہ ثابت کیا کہ اسلام جدید ریاست، قانون، حکومت، شریعت، معیشت اور تمدن؛ ہر میدان کے لیے جامع سیاسی فلسفہ۔
یہ پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے نہ کبھی موروثیت کو جگہ دی، نہ شخصیت پرستی کو، نہ سرمایہ داری کے سہارے سیاست کی، اور نہ ہی طاقت کے غیر آئینی راستے اختیار کیے۔ جماعت اسلامی کی پہچان یہ ہے کہ یہ نظریاتی بھی ہے سیاسی بھی جمہوری بھی آئینی بھی پرامن بھی سماجی خدمت میں بھی سب سے آگے اور جدید فکری سوالات کا جواب دینے میں بھی سب سے موثر بانی جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جدید تعلیم یافتہ اور مغربی فکر سے متاثر طبقے کو عقلی و علمی استدلال سے قائل کیا۔ استعماری دور میں مغربیت، روشن خیالی، سیکولر ازم اور عقلیت پسندی نے مسلمان نوجوانوں کو فکری طور پر متاثر کیا تھا۔ ایسے میں جماعت اسلامی پہلی تحریک تھی جس نے سائنسی انداز، منطقی زبان، جدید علمی استدلال اور معروضی فکری گفتگوکے ذریعے اس طبقے کو دوبارہ اسلام کی طرف متوجہ کیا۔
سید مودودیؒ نے اسلام کو عقل، منطق، دلیل اور جدید سیاسی فلسفوں کے مقابلے میں برتر فکری نظام کے طور پر پیش کیا۔ پاکستان کا سیاسی منظرنامہ موروثیت، شخصیت پرستی، جذباتی نعرے بازی، برادری نظام اور میڈیا بیانیے سے بنا ہے۔ یہاں اصولوں، نظریے اور دلیل کی سیاست کمزور پڑ جاتی ہے، جبکہ جذباتی اور وقتی بیانیے مقبول ہو جاتے ہیں۔ ایسی فضا میں جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو اصولوں پر قائم ہے، نظریاتی ہے، موروثیت سے پاک ہے، مالی بدعنوانی سے پاک ہے، فکری گہرائی رکھتی ہے اور حقیقی جمہوری ڈھانچے کی حامل ہے لیکن اس سب کے باوجود سوال اپنی جگہ موجود ہے: جماعت اسلامی عوام کی بڑی سیاسی قوت کیوں نہیں بن سکی؟ اور یہ اپنے اصولوں کے ساتھ رہتے ہوئے عوام کی آواز کیسے بنے؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے؟
جماعت اسلامی کی فکری بنیاد؛ اسلام بطور جدید سیاسی نظام: جماعت اسلامی برصغیر کی پہلی تحریک تھی جس نے اسلام کو جدید سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کے طور پر پیش کیا۔ سید مودودیؒ نے مغرب زدہ ذہن کے لیے عقلی استدلال جدید انسان کے لیے سائنسی فکر تعلیم یافتہ طبقے کے لیے مدلل جواب نوجوانوں کے لیے منطقی گفتگو کے ذریعے اسلام کو ایک ہمہ گیر، مکمل اور قابل ِ عمل نظام کی صورت میں واضح کیا۔ یہ وہ قوت تھی جس نے جماعت اسلامی کو ایک انقلابی فکری تحریک کی حیثیت دی۔ نصف صدی سے زائد عرصہ سے جماعت اسلامی عالمی اسلامی احیا کی چند بڑی تحریکوں میں شامل ہے۔ اس کا فکری اثر پورے عالم ِ اسلام کی جدید اسلامی سیاسی فکر میں نمایاں ہے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کا سیاسی تشخص ایک جمہوری اور منظم جماعت کے طور پر تسلیم شدہ ہے پاکستان کی واحد غیر موروثی سیاسی جماعت پاکستان میں جہاں سیاسی جماعتیں خاندانوں میں چلتی ہیں وہاں جماعت اسلامی امیر ِ جماعت، صوبائی امراء، ضلعی امراء، ذمے داران سب کو ووٹ کے ذریعے منتخب کرتی ہے۔ یہ حقیقی جمہوری روایت ہے جو صرف جماعت اسلامی میں ملتی ہے۔ سب سے زیادہ منظم اور شفاف سیاسی جماعت ہے۔ جس کے پاس مضبوط تنظیم تربیت یافتہ کارکن شفاف مالی ڈھانچہ خدمت کے بڑے ادارے (الخدمت) نوجوانوں کی نرسری اسلامی جمعیت طلبہ موجود ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود جماعت اسلامی جو کہ جمہوریت اور ووٹ کے ذریعہ تبدیلی پر یقین رکھتی ہے اور یہی نعرہ نئے امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن نے بدل دو نظام کے تحت نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے لگایا ہے، ایسے میں پاکستانی سیاست میں جماعت اسلامی کی قیادت کو ان بڑے چیلنجز جن کا جائزہ لینا چاہیے اور پھر ان چیلنجز سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے تاکہ اپنے مقصد ووٹ کے ذریعہ نظام کو بدلا دیا جائے ایسے میں جبکہ ووٹر جذباتی ہے، جماعت دلیل سے بات کرتی ہے۔ جماعت کا بیانیہ عوامی زبان میں کم سمجھا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل اور میڈیا جنگ ذرائع ابلاغ میں جماعت کمزور رہی ہے۔ جماعت کا قدرتی ووٹر بکھرا ہوا ہے ایسے میں برادری اور الیکٹ ایبل سسٹم انتخابی کامیابی میں رکاوٹ بنتا ہے انتخابات میں پیسے کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں جہاں کوئی نظریہ نہیں اپنے امیدواروں کا انتخاب کرتی ہیں نعرے جتنے بھی دلنشین ہوں عملی طور پر صرف اور صرف پیسے کا راج ہے۔
ایسے میں اجتماعِ عام جماعت اسلامی کے نئے سیاسی دور کا آغاز: اجتماع لاہور نے واضح کر دیا کہ جماعت: • عوام تک پہنچ سکتی ہے۔ • نوجوان اس کے ساتھ ہیں۔ • خواتین اس کی طرف مائل ہیں۔ • تنظیمی قوت بہت مضبوط ہے۔ یہ اجتماع جماعت کے لیے عوامی سیاست کا آغازِ نو ثابت ہو سکتا ہے۔ اب اصل سوال: جماعت اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے عوام کی آواز کیسے بنے؟ اصولوں پر ڈٹے رہتے ہوئے عوام کی زبان کیسے بنیں؟ جماعت اسلامی کی آئندہ سیاسی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے اپنے اندازِ تخاطب، دعوت کے اسلوب، عوام سے رابطے اور سیاسی بیانیے کو وقت کی ضرورت کے مطابق بدلے۔ حافظ نعیم الرحمن نے اس سمت ایک واضح تبدیلی کا آغاز کیا ہے؛ مگر اصل تبدیلی اُس وقت آئے گی جب جماعت کا نچلا ڈھانچہ محلہ، زون، علاقہ، حلقہ اور ضلعی سطح کے کارکن بھی اسی عوامی، سادہ، نرم اور قابل ِ فہم اسلوب کو اپنائیں۔ عوام اُس وقت ووٹ دیتے ہیں جب وہ محسوس کریں کہ یہ جماعت ہماری زبان بول رہی ہے، ہمارے مسائل سمجھتی ہے، ہمارے دکھ سنتی ہے، اور ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ جماعت کے کارکنوں کو چاہیے کہ وہ دعوت کے اسلوب کو آسان بنائیں، عام لوگوں کی زبان میں گفتگو کریں، ان کے اندر گھل مل جائیں، ان کے گھروں، محلوں، گلیوں میں موجود ہوں، ان کی تکلیف میں شریک ہوں۔ لاہور اجتماع میں خواتین کی غیر معمولی شرکت حوصلہ افزا ہے، لیکن جماعت اسلامی کی خواتین اور اسلامی جمعیت طالبات کو اپنے دروازے عام خواتین کے لیے مزید کھولنے ہوں گے تاکہ وہ خود کو جماعت کا حصہ محسوس کریں، اجنبیت نہ ہو بلکہ اپنائیت ہو۔ ’’خواتین کو سیاسی فرنٹ پر لانا بھی ضروری ہے، اسلوب کو آسان بنائیں، عام لوگوں کی زبان میں گفتگو کریں، ان کے اندر گھل مل جائیں، ان کے گھروں، محلوں، گلیوں میں موجود ہوں، ان کی تکلیف میں شریک ہوں۔ لاہور اجتماع میں خواتین کی غیر معمولی شرکت حوصلہ افزا ہے، لیکن جماعت اسلامی کی خواتین اور اسلامی جمعیت طالبات کو اپنے دروازے عام خواتین کے لیے مزید کھولنے ہوں گے تاکہ وہ خود کو جماعت کا حصہ محسوس کریں، اجنبیت نہ ہو بلکہ اپنائیت ہو۔ ’’خواتین کو سیاسی فرنٹ پر لانا بھی ضروری ہے انہیں سیاسی نمائندگی اور مضبوط کردار دینا چاہیے اور سیرت پاک میں جس کی روشن مثالیں ہیں‘‘ اسلامی تاریخ میں خواتین کا کردار کبھی پس منظر کا حصہ نہیں رہا بلکہ عملی میدان میں نمایاں رہا ہے، انہیں سیاسی نمائندگی اور مضبوط کردار دینا چاہیے اور سیرت پاک میں جس کی روشن مثالیں ہیں‘‘ اسلامی تاریخ میں خواتین کا کردار کبھی پس منظر کا حصہ نہیں رہا بلکہ عملی میدان میں نمایاں رہا ہے۔ غزوات میں اُمّ عمارہ نسیبہ بنت کعبؓ جیسی مجاہدانہ شخصیت موجود ہے جنہوں نے غزوۂ اُحد میں نبی کریم ؐ کا دفاع کرتے ہوئے تلوار کے وار روکے، خود بارہ شدید زخم کھائے اور مسند احمد کی صحیح روایت کے مطابق رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’اُحد کے دن نسیبہ سے بڑھ کر کوئی میرے کام نہیں آیا‘۔ اسی طرح اُمّ سلیم بنت ملحانؓ غزوۂ حنین میں خنجر لے کر شریک تھیں (مسلم)، اُمّ عطیہؓ سات غزوات میں شریک رہیں اور خود فرماتی ہیں کہ: ہم زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے اور فوج کی خدمت کرتے‘ (مسلم)، جب کہ صفیہ بنت عبدالمطلبؓ نے مدینہ کے قلعے میں دشمن کا سر قلم کر کے دفاع کا عملی کردار ادا کیا۔ یہ روشن مثالیں بتاتی ہیں کہ اسلامی تحریکیں اُس وقت ہی مضبوط ہوتی ہیں جب خواتین اُن میں عملی، فکری، تنظیمی اور قیادتی کردار ادا کریں۔
جماعت اسلامی کی خواتین جس منظم انداز میں اجتماعِ لاہور میں شریک ہوئیں، وہ اسی تاریخی وراثت کا تسلسل ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت اسلامی اپنی خواتین تنظیمات خصوصاً حلقہ خواتین اور اسلامی جمعیت طالبات کو عام خواتین کے لیے مزید کھولے تاکہ آج کی عورتیں بھی اُمّ عمارہؓ اور اُمّ عطیہؓ کی طرح خود کو اس تحریک کا فعال حصہ محسوس کریں، نہ کہ اجنبی۔ خواتین پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہیں۔ جماعت
اسلامی کی خواتین پہلے ہی منظم ہیں لاہور اجتماع میں خواتین کی غیر معمولی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ جماعت کے لیے خواتین کا میدان نہایت اہم ہے۔ جماعت کو چاہیے: خواتین کے دروازے عام خواتین کے لیے کھولے، دعوتی ماحول میں اجنبیت کو ختم کرے، عوامی سیاست کے لیے جماعت اسلامی کی عملی حکمت ِ عملی نیا عوامی بیانیہ آسان زبان، مختصر پیغام، نوجوانوں کو فرنٹ لائن پر لانا، کرشماتی اور میڈیا فرینڈلی قیادت، الخدمت کی قوت کو ووٹ میں تبدیل کرنا الخدمت کی مقبولیت کو سیاسی قوت میں بدلنا۔ الخدمت پر عوام کا اعتماد جماعت کے ووٹ میں تبدیل ہونا چاہیے۔ خدمت اخلاقی قیادت، سیاسی اعتماد آج کے مروجہ ذرائع ابلاغ ٹک ٹاک، یوٹیوب، میڈیا پر مکمل حکمت عملی اور خواتین کو جماعت کا مضبوط ستون بنانا۔
جماعت اسلامی پاکستان کی واحد اصولی پارٹی ہے، مگر اب اسے عوامی زبان اور عوامی انداز میں ان اصولوں کو بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پورے تجزیے کا اصل مقصد یہ سمجھنا ہے کہ جماعت اسلامی، جو پاکستان کی سب سے منظم، بااصول اور مضبوط نظریاتی سیاسی جماعت ہے، وہ اپنے بنیادی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے عامہ الناس کی حقیقی آواز کیسے بن سکتی ہے؟ عوامی سیاست جذبات، زبان، اندازِ تخاطب اور معاشرتی نفسیات کے ادراک کا تقاضا کرتی ہے۔ جماعت اسلامی کا پیغام مضبوط، مدلل اور اخلاقی ہے، مگر اس پیغام کو عوام کے دلوں تک پہنچانے کے لیے زبان کو آسان، انداز کو مقامی، اور دعوت کے اسلوب کو عوامی بنانا ناگزیر ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے جماعت اسلامی اپنے اصولوں سے ہٹے بغیر عام پاکستانیوں کی زبان، امید اور آواز بن سکتی ہے، اور یہی اس مضمون کا بنیادی مقصود بھی ہے۔
جماعت اسلامی اگر: • اپنی زبان آسان کرے، • عوام سے براہِ راست جڑ جائے، • خواتین و نوجوانوں کو مرکزی کردار دے، • جدید سیاسی گفتگو اپنائے • اور اپنے مضبوط اصولوں کے ساتھ عوامی لہجے میں بات کرے۔ تو وہ پاکستان میں عام آدمی کی حقیقی آواز بن سکتی ہے۔
جاوید الرحمن ترابی
سیف اللہ
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عام خواتین کے لیے اسلامی کی خواتین میں جماعت اسلامی جماعت اسلامی کی اصولوں پر قائم اسلامی جمعیت اپنے اصولوں سیاسی جماعت میں خواتین پاکستان کی جدید سیاسی رہتے ہوئے تھی جس نے کے طور پر اسلوب کو خواتین ا کے ذریعے جماعت کے جماعت کا کہ جماعت میں شریک اسلام کو جماعت ہے ایسے میں سکتی ہے کی زبان عوام کی کیسے بن کرتی ہے نظام کے کا حصہ
پڑھیں:
حافظ نعیم الرحمٰن نے 21 دسمبر کو ملک بھر میں دھرنا دینے کا اعلان کر دیا
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے 21 دسمبر کو پنجاب کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں دھرنا دینے کا اعلان کر دیا۔لاہور میں پنجاب کے بلدیاتی قانون کے خلاف مظاہرے سے خطاب میں حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ یہ پہلا ایکٹ لاتے ہیں اور اس کو چیلنج کر کے قوم کو بیوقوف بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کا بلدیاتی ایکٹ نہیں ہے، یہ کالا قانون ہے، یہ قانون شہروں کا اور یونین کونسل کا حق بھی کھا رہا ہے۔امیرِ جماعتِ اسلامی نے کہا کہ جاگیرداروں نے پورے سسٹم پر قبضہ کیا ہوا ہے، یہ لوگ ظلم کے اس نظام کو قائم رکھتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ہم 21 دسمبر کو پورے پنجاب کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں دھرنا دیں گے، یہ جو کچھ بانٹتے ہیں اپنے ہی خاندان میں دیتے ہیں۔
فوج صرف پریس کانفرنس کر کے جواب دے رہی ہے، ورنہ اس سے بہت کم گناہ کرنے پر مائیں اپنے بچوں کو ڈھونڈتی رہی ہیں، مصطفیٰ کمال
حافظ نعیم نے کہا کہ 40، 40 سال پولٹیکل ورکر محنت کرتا ہے لیکن کبھی پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا، یہاں تو چچا وزیرِ اعظم اور بھتیجی وزیرِ اعلیٰ ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سب قوم کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں، ہم نے مل کر اس نظام کا خاتمہ کرنا ہے، جماعتِ اسلامی عوام کے ساتھ اتحاد کر رہی ہے، میں حکومت سے پوچھتا ہوں کہ کوئی عوام کی آواز کے لیے بینر لگائے اور آپ اتار دیں؟امیرِ جماعتِ اسلامی نے کہا کہ تمام اختیارات بلدیاتی حکومتوں کے حوالے ہونے چاہئیں، تحصیل گورنمنٹ کا اختیار ہونا چاہیے، یہ ملکاؤ اور بادشاہوں کا نظام نہیں ہے، جس کو چاہا نواز دیا، ہم اس کے خلاف عدالت میں جائیں گے۔
عبدالعلیم خان کا پنجاب اور سندھ میں نئے صوبے بنانے کا مطالبہ
اُن کا کہنا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ان لوگوں نے عدالتوں میں بھی قبضہ کیاہوا ہے، یہ جو خاندانی پارٹیاں ہیں، یہی مضبوط ہوتی رہیں، اس حوالے سے شعور آنا بہت ضروری ہے۔حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ میں میاں نواز شریف سے پوچھتا ہوں کہ یہ کونسی ووٹ کو عزت ہے کہ حکمراں انڈر پاسز اور سڑکوں پر اپنی تختیاں لگاتے ہوئے نظر آئیں؟
مزید :