اسلام آباد ہائیکورٹ کا کچی آبادی مسلم کالونی میں سی ڈی اے آپریشن روکنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ کا کچی آبادی مسلم کالونی میں سی ڈی اے آپریشن روکنے کا حکم WhatsAppFacebookTwitter 0 9 December, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:(آئی پی ایس)
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی کچی آبادی مسلم کالونی میں سی ڈی اے آپریشن روکنے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے سی ڈی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 16 دسمبر تک جواب طلب کرلیا۔
متاثرین کے وکیل کا کہنا تھا کہ کچی آبادی میں ہزاروں افراد رہائش پذیر ہیں، کچی آبادی بری امام کا علاقہ ہے جو 1960 سے قائم ہے، کبچی آبادیوں سے متعلق سپریم کورٹ نے میکنزم بنانے کی ہدایت کر رکھی ہے۔
وکیل نے بتایا کہ مسلم کالونی میں نور پور اور بری امام کا علاقہ شامل ہے، سی ڈی اے بغیر آگاہی بغیر نوٹس کے گھروں کو منہدم کر رہا ہے، سی ڈی اے کا آپریشن بلا جواز ہے عدالت آپریشن روکنے کے احکامات دے۔
عدالت نے سی ڈی اے کو آپریشن روکنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کردی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرالیکشں کمیشن نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا الیکشں کمیشن نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا ایبٹ آباد: مقتول ڈاکٹر سپرد خاک، مرکزی ملزمہ کی نشاندہی پر مزید 3 ملزمان گرفتار درگاہ شاہ عبدالطیف بھٹائی پر چورگیٹ توڑ کر چاندی لے اڑے قومی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل طاہر حسین مستعفی مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر کی دوبارہ شادی کی خبریں زیر گردش، دلہن کون ہیں؟ یورپی یونین کا پاکستان کے ساتھ سکلز ڈویلپمنٹ تعاون جاری رکھنے کا اعلانCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائیکورٹ آپریشن روکنے کا حکم مسلم کالونی میں کچی آبادی سی ڈی اے
پڑھیں:
جسٹس طارق محمود جہانگیری کیخلاف جعلی ڈگری کیس قابل سماعت قرار، فریقین کو نوٹس جاری
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جسٹس طارق محمود جہانگیری کیخلاف جعلی ڈگری کیس قابل سماعت قرار دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاق کو بذریعہ وزارت قانون اور صدر مملکت کو بذریعہ پرنسپل سیکرٹری نوٹس جاری کیے، سیکرٹری جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرر اور ایچ ای سی اور کراچی یونیورسٹی کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کے تنازعے میں تین دن میں جواب طلب کرلیا، چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے سماعت کی۔
عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ عدالت میں موجود تھے جب کہ میاں داؤد ایڈووکیٹ نے عدالت سے رجوع کررکھا ہے۔
دوران سماعت ایچ ای سی اور کراچی یونیورسٹی کے تحریری جواب داخل کیے گئے، عدالت نے وکلاء کو بیٹھنے کی ہدایت کی، درخواست گزار میاں داؤد ایڈووکیٹ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس قابل سماعت ہونے پر پہلے درخواست گزار پھر بار اس کے بعد عدالتی معاون کو سنوں گا،درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ آئین کے آرٹیکل 193 کے تحت ہائیکورٹ جج کے لیے وکیل ہونا لازم ہے، اخبار میں اس حوالےسے خبر شائع ہوئی ، کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات نے تصدیق کی کہ لیٹر درست ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی کے لیٹر میں کہا گیا گیا جج کی ڈگری فیک ہے، 1998 سے طے ہے ملک اسد علی کیس ہے، اس کیس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کیا کسی ہائیکورٹ کے جج کے خلاف اسی ہائیکورٹ میں پٹیشن قابل سماعت ہے یا نہیں، ہائیکورٹ کے جج کے خلاف اسی ہائیکورٹ میں کو وارنٹو پٹیشن قابلِ سماعت ہے۔
درخواست گزار وکیل میاں داؤد نے کہا کہ ہم کووارنٹو کی رٹ میں پوچھ رہے ہیں کہ آپ وکیل یا جج بننے کے اہل نہیں تھے، اس بات کو طول دینے کے بجائے وہ آ کر بتا دیں کہ ان کی ڈگری اصل ہے یا جعلی ہے۔
درخواست گزار وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت نے عدالتی معاون کو طلب کر لیا، بیرسٹر ظفر اللہ نے بطور عدالتی معاون دلائل کا آغاز کیا۔
وکیل اسلام آباد بار نےمؤقف اپنایا کہ پہلے بار کو اس کیس میں سنا جائے اس کے بعد عدالتی معاون کو سنا جائے ، میں آٹھ ہزار وکلا کا نمائندہ ہوں مجھے پہلے سنا جائے، اسلام ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے درخواست دائر کی ہے۔
درخواست گزار وکیل نے اسلام آباد بار کے فریق بننے پر اعتراض عائد کر دیا، اسلام آباد بار کے وکیل احمد حسن نے دلائل کا آغاز کر دیا، بیرسٹر ظفر اللہ دوبارہ بیٹھ گئے، اسلام آباد بار نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
وکیل اسلام آباد بار نے کہا کہ درخواست گزرا اس کیس میں متاثرہ فریق نہیں ہے ، اگر یہ سمجھتے ہیں کوئی ایشو ہے تو ان کو بار کونسل جانا چاہیے، ہائیکورٹ کا جج بننے کیلئے دس سال وکالت کا تجربہ رکھنا ضروری ہے، وکالت کا لائسنس دینا بار کونسل کا کام ہے یہ معاملہ انہوں نے دیکھنا ہوتا ہے۔
وکیل اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار نے کہا کہ جسٹس طارق جہانگیری کی وکیل بننے کی کوالیفیکیشن میں کوئی سقم ہے تو متبادل فورم موجود ہے، جسٹس طارق جہانگیری کو جج بنانے کیلئے جوڈیشل کمیشن کا نوٹیفکیشن موجود ہے، جس جج کے خلاف کیس ہے وہ پہلے وکیل رہے، بعد میں جج بنے، ڈگری اور دیگر معاملات کا فیصلہ بار کونسل نے کرنا ہے۔
احمد احسن شاہ نے کہا کہ ڈگری غلط ہو تو معاملہ عدالت نہیں، بار کونسل لے کر جانا ہوتا ہے، اگر کسی کو ان کی دس سالہ وکالت پر اعتراض ہے تو بار کونسل میں جائے۔
اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار نے جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف کیس قابلِ سماعت قرار دینے کی مخالفت کی اور مؤقف اپنایا کہ یہ کیس اِس ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کا نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کا اختیار ہے، عدالت بار کونسل کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے۔
ڈسٹرکٹ بار نے کہا کہ جسٹس جہانگیری کے خلاف کوئی درخواست بار کو نہیں دی گئی،
بار کونسلز آزاد اور خود مختار ہیں، درخواست گزار پہلے بار کونسل جائے، وہاں درخواست جمع کرائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں عدالت اس کیس میں تحمل کا مظاہرہ کرے؟ وکیل ڈسٹرکٹ بار نے مؤقف اپنایا کہ عدالت فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ یا فیصلہ نہیں دے سکتی، عدالت سے استدعا ہے کہ اپنے ہی ساتھی جج کو ماتحت نہ سمجھا جائے۔
اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل احمد حسن کے دلائل مکمل ہوگئے، اسلام آباد بار کونسل کے ممبر راجہ علیم عباسی عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ آرٹیکل 209 کی موجودگی میں یہ ٹرینڈ عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچائے گا۔
راجہ علیم عباسی نے کہا کہ جسٹس جہانگیری کے پاس تین لائسنسز ہیں لوئر کورٹ ، ہائیکورٹ ، سپریم کورٹ ، آئینی عدالت میں آپ کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل زیر التوا ہے ، بہتر ہے یہ کیس کسی اور بینچ کو بھیج دیں، اگر ہائیکورٹ کا ایک جج دوسرے جج کے خلاف اس طرح کارروائیاں شروع کر دے گا تو نظام عدل دھرم برہم ہو جائے گا۔
راجہ علیم عباسی نے ٹرانسفر ججز کیخلاف جسٹس جہانگیری وجہی 5 ججز کی انٹرا کورٹ اپیل کا حوالہ دیا اور مؤقف اپنایا کہ آج اگر یہ نظیر قائم ہوگئی تو کل کسی کو نہیں روک سکیں گے،
یونیورسٹی کچھ بھی کہے، عدالت فیصلہ نہیں دے سکتی۔
علیم عباسی نے کہا کہ جج کا معاملہ جوڈیشل کونسل، وکالت کا معاملہ بار کونسل دیکھے گی،
یہ ہماری ہائی کورٹ ہے، اس کا تحفظ ضروری ہے۔
ڈسٹرکٹ بار کے وکیل احمد حسن شاہ پھر روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ یہ طریقہ نہیں، آپ کو وقت دیا جا چکا ہے،احمد حسن شاہ نے مؤقف اپنایا کہ یونیورسٹی سے ریکارڈ طلب کرلیا تھا بار کونسلز سے بھی ریکارڈ طلب کرلیا جائے۔
ممبر اسلام آباد بار کونسل راجہ علیم عباسی کے دلائل مکمل ہوگئے، عدالتی معاون بیرسٹر ظفراللہ خان نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اپنایا کہ میں ذاتی رائے نہیں دوں گا، صرف قانونی نکات سامنے رکھوں گا، رِٹ پیٹیشن پر بھارتی اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔
عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ نے کو وارنٹو رٹ کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیے، عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے کیس قابل سماعت ہونے کی حمایت کردی۔
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کراچی یونیورسٹی اور ایچ ای سی کا جواب پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو کراچی یونیورسٹی کی رپورٹ پڑھنے کی ہدایت کی۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ یونیورسٹی رپورٹ کے مطابق اسلامیہ کالج نے طارق محمود کو اجنبی قرار دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یونیورسٹی یہ کہہ رہی ہے کہ طارق محمود اسلامیہ کالج کے کبھی اسٹوڈنٹ ہی نہیں رہے؟