وزیر اعلیٰ پنجاب کا انسداد بدعنوانی کے عالمی دن پرپیغام
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے انسداد بدعنوانی کے عالمی دن پرپیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ بد عنوانی جرم کے ساتھ سماجی، معاشی اور معاشرتی ظلم ہے۔
تفصیلات کے مطابق انہوں نے کہا کہ روز اول سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی ہے۔ بد عنوانی کے باعث معاشرے میں بدامنی اور مایوسی پھیلتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی امور میں شفافیت، کرپشن کے خاتمے اور سروس ڈلیوری میں بہتری کی پالیسی سے عالمی سطح پر ملک کا امیج بہتر ہوا ہے۔ کے پی آئیز سسٹم نے حکومتی افسران کو مزید مستعداور متحرک بنایا جس سے عوامی خدمات میں بہتری آئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کرپشن صرف اخلاقی زوال نہیں، قوم کی ترقی کا قاتل ہے۔ کرپشن نہ صرف قومی وسائل کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی متزلزل کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں آج اس عزم کا اعادہ کرنا ہے کہ کرپشن کی لعنت کے مکمل خاتمے کیلئے نیک نیتی و ایمانداری سے آگے بڑھیں گے۔ مالی بدعنوانی کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بدعنوانی کے انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
کرپشن کم، شفافیت میں اضافہ، معیشت ترقی کی طرف گامزن
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے این سی پی ایس 2025ء سروے رپورٹ جاری کر دی۔ کرپشن کے تاثر میں واضح کمی۔ شفافیت میں اضافہ اور کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔ این سی پی ایس رپورٹ میں کہا گیا پاکستان میں بدعنوانی کے "تاثر" کو جانچنے کا ایک پیمانہ ہے۔ 66 فیصد پاکستانیوں نے بتایا کہ انہیں گزشتہ 12 ماہ میں کسی سرکاری کام کے لیے کوئی رشوت نہیں دینا پڑی۔ 60 فیصد پاکستانیوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے اور ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلنے کے ذریعے معیشت کو مستحکم کیا۔ ملکی معیشت زبوں حالی سے استحکام اور استحکام سے ترقی کی طرف گامزن ہے۔ 43 فیصد نے قوتِ خرید میں بہتری جبکہ 57 فیصد نے قوتِ خرید میں کمی کی رپورٹ دی۔51 فیصد شرکاء چاہتے ہیں کہ ٹیکس چھوٹ حاصل کرنے والے این جی اوز، ہسپتال، لیبارٹریاں، تعلیمی ادارے اور دیگر فلاحی ادارے عوام سے کوئی فیس وصول نہ کریں۔ 53 فیصد شرکاء کے مطابق ٹیکس چھوٹ یافتہ فلاحی اداروں کو اپنے ڈونرز کے نام اور عطیات کی تفصیل عوام کے سامنے ظاہر کرنا چاہیے۔ یہ سروے 22 سے 29 ستمبر 2025ء کے دوران کیا گیا۔ 2023ء میں 1600 کے مقابلے میں 2025ء میں ملک بھر سے 4000 افراد نے سروے میں حصہ لیا۔ شرکاء میں 55 فیصد مرد، 43 فیصد خواتین اور 2 فیصد خواجہ سرا شامل تھے۔ 59 فیصد شرکاء کا تعلق شہری علاقوں جبکہ 41 فیصد کا تعلق دیہی علاقوں سے تھا۔ یاد رہے یہ سروے بدعنوانی کی اصل شرح نہیں ناپتا بلکہ بدعنوانی کے بارے میں عوامی تاثر کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مطابق بدعنوانی کے تاثر میں پولیس سرفہرست ، جبکہ ٹینڈر اور پروکیورمنٹ دوسرے، عدلیہ تیسرے، بجلی و توانائی چوتھے اور صحت کا شعبہ پانچویں نمبر پر ہے۔ ادارہ جاتی سطح پر پولیس کے بارے میں عوامی رائے میں 6 فیصد مثبت رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم، زمین و جائیداد، لوکل گورنمنٹ اور ٹیکسیشن سے متعلق عوامی تاثر میں بھی بہتری آئی ہے۔ عوامی تاثر کے مطابق بد عنوانی کی بڑی وجوہات میں شفافیت کی کمی، معلومات تک محدود رسائی اور کرپشن کیسز کے فیصلوں میں تاخیر شامل ہیں۔ 59 فیصد شرکاء کے مطابق صوبائی حکومتیں زیادہ بدعنوان سمجھی جاتی ہیں۔ عوام کے مطابق کرپشن کے خاتمے کے اہم اقدامات میں احتساب مضبوط بنانا، صوابدیدی اختیارات محدود کرنا، حقِ معلومات کے قوانین کو مضبوط کرنا اور عوامی خدمات کو ڈیجیٹل بنانا شامل ہیں۔ 83 فیصد شرکاء سیاسی جماعتوں کو بزنس فنڈنگ پر مکمل پابندی یا سخت ضابطہ کاری چاہتے ہیں۔ 42 فیصد شرکاء پاکستان میں مزید مؤثر whistleblower تحفظ قوانین کے حامی ہیں۔ 70 فیصد شرکا کسی بھی سرکاری کرپشن رپورٹنگ نظام سے ناواقف ہیں۔ 78 فیصد شہری احتسابی اداروں کے اپنے احتساب کے حق میں ہیں، یعنی عوام طاقتور اداروں کو بھی قانون کے دائرے میں مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ 83 پرسنٹ شہری کاروباری سرمایہ کے ذریعے سیاست میں آنے والے پیسے کو یا تو مکمل پابندی یا سخت ضابطوں کے تحت دیکھنا چاہتے ہیں۔