سات سال شوہر کے بارے میں پتہ نا چلے تو خاتون آزاد ہو جاتی ہے، سندھ ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
سات سال شوہر کے بارے میں پتہ نا چلے تو خاتون آزاد ہو جاتی ہے، سندھ ہائیکورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 9 December, 2025 سب نیوز
کراچی(سب نیوز)سندھ ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ سات سال شوہر کے بارے میں پتہ نا چلے تو خاتون آزاد ہو جاتی ہے۔جسٹس یوسف علی سعید کی سربراہی میں جسٹس عبد المبین لاکھو پر مشتمل آئینی بینچ کے روبرو 14 سال سے لاپتا شہری کی بازیابی کیلئے درخواست کی سماعت ہوئی۔
سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ نے دائر کیس میں لاپتا شہری کی اہلیہ کو طلب کرلیا، عدالت نے کہا کہ درخواستگزار آکر بتائیں کہ کیا اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود وہ درخواست کی پیروی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔درخواستگزار کے وکیل سید ندیم الحق ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ عبد الرحمان کی کلفٹن میں دوپٹوں کی دکان تھی۔ 28 نومبر 2011 کو کاروباری ڈیل کے نام پر عبد الرحمان کو فون کال کے ذریعے مزار قائد بلایا گیا۔ اس کے بعد درخواستگزار کے شوہر کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ لاپتا شخص کی گمشدگی و اغوا کی 2017 میں بریگیڈ تھانے میں ایف آئی آر بھی درج ہوچکی ہے۔جسٹس یوسف علی سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ تو سپریم کورٹ بھی ہو آئے، اب ہم کیا کرسکتے ہیں۔ درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ہم ہر فورم پر گئے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا، عبد الرحمن کا سراغ نہیں ملا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اتنی انکوائریاں ہو رہی ہیں، جے آئی ٹی تشکیل دی گئی اور کیا کیا جائے۔ جسٹس عبد المبین لاکھو نے استفسار کیا کہ لاپتا شہری کے کتنے بچے ہیں۔ درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ لاپتا شہری کے 3 بچے ہیں، ان کی اہلیہ نے درخواست دائر کی ہے۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ 7 سال شوہر کے بارے میں پتہ نا چلے تو خاتون آزاد ہو جاتی ہے۔ وکیل نے موقف اپنایا کہ ہم بازیابی کے لیے عدالت آئے ہیں، خاتون کی قانونی حیثیت کے تعین کے لیئے نہیں۔عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ خاتون کی رائے جاننا ہوگی اس لیے انہیں پیش کریں۔ عدالت نے درخواست کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعمران خان کی بہنوں نے ملاقات کی اجازت نہ دینے پر اڈیالہ جیل کے قریب دھرنا دیدیا عمران خان کی بہنوں نے ملاقات کی اجازت نہ دینے پر اڈیالہ جیل کے قریب دھرنا دیدیا بشری بی بی بانی پی ٹی آئی کو دھوکا دینے کا سوچ بھی نہیں سکتیں،بہن مریم وٹو نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور ایرانی وزیر خارجہ میں رابطہ، علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال ملک مزید انتشار اور کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا، سیاست سے لفظ کشیدگی ختم ہونا چاہئے، بیرسٹر گوہر ای سی سی نے گاڑیوں کی درآمد کے طریقہ کار میں تبدیلی کی منظوری دیدی بھارتی درآمدی اشیا پر مزید ٹیرف عائد کرینگے، ٹرمپ نے مودی کو متنبہ کردیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: درخواستگزار کے سندھ ہائیکورٹ لاپتا شہری عدالت نے
پڑھیں:
ڈگری تنازع کیس: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست قابل سماعت قرار
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف مبینہ جعلی ڈگری کیس میں اہم پیشرفت کرتے ہوئے درخواست کو قابل سماعت قرار دے دیا۔
چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 3 روز میں جواب طلب کرلیا ہے۔
عدالت میں دلائل کے دوران درخواست گزار میاں داؤد ایڈوکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ جسٹس جہانگیری نے جعلی فارم پر امتحانی انرولمنٹ جمع کرائی اور ابتدائی طور پر وکیل بننے کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کرتے تھے۔
ان کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات نے ابتدائی تصدیق فراہم کی کہ لیٹر درست نہیں ہے اور ڈگری جعلی ہے، جس کی بنیاد پر درخواست کو ہائیکورٹ میں دائر کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 1989 میں جسٹس طارق محمود جہانگیری پر یو ایف ایم کمیٹی کی جانب سے 3 سال کی پابندی عائد کی گئی تھی، جبکہ پابندی کے دوران انہوں نے جعلی انرولمنٹ سے امتحان دیا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ اب بارِ ثبوت جسٹس جہانگیری پر ہے کہ وہ اپنی ڈگری کی اصلیت ثابت کریں۔
دوسری جانب اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار اور اسلام آباد بار کونسل نے عدالت میں استدعا کی کہ یہ معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور ہائیکورٹ کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
وکلا نے عدالت کو باور کرایا کہ ڈگری اور وکالت کے معاملات کی تصدیق اور فیصلہ متعلقہ بار کونسلز کریں، جبکہ جوڈیشل کمیشن جج کے تقرر کے معاملات دیکھتا ہے۔
عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ خان نے دلائل پیش کرتے ہوئے بھارتی اور سپریم کورٹ کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا۔ چیف جسٹس نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
عدالت نے واضح کیا کہ یہ کیس ہائیکورٹ کے جج کی اہلیت اور ڈگری کی سچائی کے معاملے پر ہے اور تمام فریقین کو 3 روز میں اپنی جانب سے جواب جمع کرانا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس طارق محمود جہانگیری جعلی ڈگری چیف جسٹس سرفراز ڈوگر