شہر قائد کے علاقے لیاقت آباد  ایف سی ایریا  لال گرلز سینکنڈری اسکول کے قریب کچرے میں لگنے والی آگ پر قابو پاکر کولنگ کا عمل مکمل کرلیا گیا۔ واقعہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

کچرے میں آگ لگنے کی وجہ سے اطراف میں شدید دھواں پھیل گیا۔ مکینوں کو سانس لینا مشکل ہوگیا اور دمہ س سینہ کے امراض مِیں مبتلا مریضوں کو شدید مشکل ہوئی۔

اہل محلہ کے مطابق گذشتہ ایک ماہ قبل گورنمنٹ لال گرلز اسکول کے قریب خالی پلاٹ پر سندھ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کے اہلکاروں نے کچرا ڈال دیا تھا اور شکایات کے باوجود کچرا نہیں اٹھایا گیا۔

کئی روز قبل بھی اس کچرے میں آگ لگ گئی تھی جس کو فائر بریگیڈ نے بجھایا تھا۔منگل کو کچرے میں آگ لگنے کا دوسرا واقعہ ہوا۔

اہل محلہ کا کہنا ہے کہ غیر اعلانیہ کچرا کنڈی بنے کے سبب اسکول میں زیر تعلیم طلباء اور طالبات کو شدید مشکلات کا سامنا یے، اطراف میں مرکزی جامع مسجد یے، کچرے کے تعفن کی وجہ سے مکین نمازی اور طالب علم ذہنی کرب میں مبتلا ہیں۔

اہل محلہ نے ایم ڈی سندھ سولڈ ویسٹ منحینمنٹ بورڈ سے اپیل کی یے کہ کچرا فوری صفاف کرایا جائے۔دوسری جانب منگل کوکچرے میں لگنے والی آگ پر کے ایم سی فاٙئر بریگیڈ کو طلاع دینے پر فائر ٹینڈر نے پہنچ کر آگ پر قابو پایا۔آگ لگنے کی وجہ سے اطراف لگی جھاڑیاں اور اسکول کی عمارت متاثر ہوسکتی تھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کچرے میں

پڑھیں:

لیو ٹالسٹائی

دنیا کے عظیم ترین ناول نگاروں میں لیو ٹالسٹائی کا نام ہمیشہ سرفہرست رہے گا۔ روس کے اس بے مثال ادیب نے اپنے قلم کے ذریعے نہ صرف عالمی ادب کو نئی جہت عطا کی بلکہ انسان، اخلاقیات، معاشرت اور جنگ جیسے موضوعات کو ایسی گہرائی اور جامعیت کے ساتھ پیش کیا کہ بعد کے تمام فکشن نگار اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

ٹالسٹائی کی شخصیت ایک طلسماتی، پیچیدہ، متنوع اور ہمہ گیر دنیا رکھتی ہے—ایک ایسا ادیب جس میں فلسفیانہ گہرائی، اخلاقی سخت گیری، روحانی بے چینی، اور معاشرے کے کمزور طبقوں سے بے پناہ ہمدردی بیک وقت موجود تھیں۔ اْن کی تخلیقات — خصوصاً ’وار اینڈ پیس‘، ’اینا کارینینا‘ اور ’دی ڈیٹھ آف ایوان ایلیچ‘ — صرف ادبی شاہکار نہیں بلکہ انسان اور زندگی کے بنیادی سوالات کا ایسا تجزیہ ہیں جس میں صدیاں گزر جانے کے باوجود تازگی برقرار ہے۔

 شاہانہ پس منظر سے فکری بغاوت تک

لیو نکولاوِچ ٹالسٹائی 1828ء میں روس کے ایک بڑے اور متمول جاگیردار خاندان میں پیدا ہوئے۔ یاسنایا پالیانا ان کی جائے پیدائش ہی نہیں بلکہ زندگی بھر ان کی فکری گھٹی، تخلیقی آماجگاہ اور روحانی سکون کا مرکز رہی۔ کم سنی ہی میں ماں باپ کے سائے سے محروم ہو جانے کے باوجود گھر کا ماحول علم، تہذیب اور اشرافیانہ نزاکتوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹالسٹائی نے بچپن ہی میں مطالعہ، مشاہدہ اور تحریر کی جانب غیر معمولی دلچسپی دکھائی۔

کیڈٹ اسکول اور پھر یونیورسٹی کی تعلیم ادھوری رہ گئی، لیکن عملی زندگی کا آغاز فوج سے ہوا۔ قفقاز کے محاذ پر ان کی خدمات نے انہیں جنگ کی ہولناکیوں سے روشناس کرایا، اور یہی تجربہ بعد ازاں ان کے ناولوں میں حقیقت پسندی کے ساتھ جھلکتا ہے۔ فوجی زندگی نے ایک طرف انہیں شہرت دی، دوسری طرف دل میں انسان دوستی اور ظلم کے خلاف نفرت کے نقوش مزید گہرے کیے۔

 شخصی تضادات

ٹالسٹائی کی شخصیت بظاہر تضادات سے بھری ہوئی ہے، لیکن یہی تضادات ان کی عظمت بنتے ہیں۔ وہ اشراف زادے بھی تھے اور کسانوں کے دکھ درد کے سب سے بڑے علمبردار بھی۔ وہ دنیا کے عظیم ترین ناول نگار ہیں مگر خود ناولوں اور ادب کو کبھی کبھار وقت کا ضیاع بھی کہتے رہے۔

وہ مذہب کے ناقد بھی تھے اور اخلاقی روحانیت کے داعی بھی۔ ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو انسان دوستی اور اخلاقی ذمہ داری کا شدید احساس تھا۔ ٹالسٹائی کے مطابق زندگی کا حقیقی مقصد سچائی، محبت، عدم تشدد، اور انسان کی خدمت ہے۔ یہی نظریہ آگے چل کر گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ اور دیگر تحریکوں کا فکری سرمایہ بنا۔

 ادبی عظمت اور شاہکار تخلیقات

’’وار اینڈ پیس‘‘ نہ صرف ٹالسٹائی کا بلکہ عالمی ادب کا سب سے بڑا ناول سمجھا جاتا ہے۔ نپولین کی روس پر یلغار کے پس منظر میں لکھا گیا یہ ناول جنگ، امن، محبت، خاندان، سیاست، تاریخ، اور انسانی نفسیات کے ایسے پہلو بیان کرتا ہے جو کسی اور ادیب کے بس کی بات نہیں۔ کرداروں کی نفسیاتی گہرائی، واقعات کی وسعت، اور زندگی کی حرکیات کو بیان کرنے کا انداز ٹالسٹائی کو ایک منفرد تخلیق کار ثابت کرتا ہے۔ یہ ناول صرف ایک جنگی داستان نہیں بلکہ ’’انسان کیا ہے؟‘‘ اور ’’زندگی کا مفہوم کیا ہے؟‘‘ جیسے سوالات کا ادبی تجزیہ ہے۔

’’اینا کارینینا‘‘ کو دنیا بھر میں محبت کے المناک انجام کی بہترین مثال سمجھا جاتا ہے۔ ٹالسٹائی نے اس ناول میں انسانی خواہشات، سماجی پابندیوں، ازدواجی زندگی، اخلاقی کشمکش اور معاشرتی دوغلے پن کو جس نفاست سے برتا ہے، وہ انہیں دوستوئیفسکی اور فلابیر جیسے عظیم ادیبوں کی صف سے بھی آگے لے جاتا ہے۔ ناولٹ ’’دی ڈیٹھ آف ایوان ایلیچ‘‘ دکھاتا ہے کہ انسان اپنی زندگی گزارتے گزارتے اصل زندگی سے کتنا دور ہو جاتا ہے۔

موت کے قریب پہنچ کر ایوان ایلیچ کو احساس ہوتا ہے کہ اس نے پوری زندگی سماجی معیاروں کی غلامی میں گزار دی۔ ٹالسٹائی کا پیغام واضح ہے: ’’اصل زندگی وہ ہے جو انسان سچائی اور محبت کے ساتھ گزارے۔‘‘ ٹالسٹائی نے صرف ناول نہیں لکھے بلکہ اخلاقیات، تعلیم، زراعت، مذہب اور سماجی اصلاح پر بھی بے شمار تحریریں چھوڑیں۔ ان کے مذہبی نظریات نے روسی چرچ کے ساتھ تنازع پیدا کیا، حتیٰ کہ 1901ء میں انہیں چرچ سے خارج کر دیا گیا۔

مگر ٹالسٹائی کے نزدیک سچائی چرچ سے زیادہ مقدس تھی۔

 ادبی اسلوب اور تخلیقی انفرادیت

ٹالسٹائی کے اسلوب کی چند خصوصیات بہت نمایاں ہیں۔ ان کی تخلیقات حقیقت نگاری کی اعلیٰ مثال پیش کرتی ہیں۔ وہ کرداروں کو خون، گوشت کے انسان بنا کر پیش کرتے ہیں، ان کی نفسیات، خواہشات، کمزوریاں اور تضادات سب حقیقت کے آئینے میں نظر آتے ہیں۔ان کے فکشن میں فطرت اور ماحول کی جیتی جاگتی تصویریں نظر آتی ہیں۔ روس کے میدانوں، جنگلوں اور دیہات کی منظرکشی ٹالسٹائی کا خاصہ ہے۔ ان کے الفاظ میں فطرت بھی کردار بن جاتی ہے۔ ان کی تحریر کی ایک اہم خصوصیت نفسیاتی تجزیہ بھی ہے۔ کردار کے ذہن اور دل میں کیا چل رہا ہے — ٹالسٹائی اسے اس باریکی سے بیان کرتے ہیں کہ قاری خود کردار کے ذہن میں داخل ہو جاتا ہے۔ ان کی ہر تحریر میں اخلاقی جہت نمایاں ہے، مگر یہ اخلاقیات خشک نہیں بلکہ انسان دوست اور فطری ہیں۔

ٹالسٹائی جب ادبی دنیا میں آئے تو روسی ادب پر گوگول، تورگینیف اور دستوئیفسکی جیسے بلند قامت نام موجود تھے۔ لیکن ٹالسٹائی نے اپنے تخلیقی دائرے اور اسلوب کی وسعت کے باعث سب سے منفرد اور ممتاز مقام حاصل کیا۔ دوستوئیفسکی انسان کی باطنی اور روحانی پیچیدگیوں کے بڑے آرٹسٹ تھے، لیکن ٹالسٹائی نے انسان کو اس کے پورے سماجی، نفسیاتی، اخلاقی اور تاریخی کردار کے تناظر میں پیش کیا۔ اگر دوستوئیفسکی ’’روح‘‘ کے ناول نگار ہیں تو ٹالسٹائی ’’زندگی‘‘ کے ناول نگار۔ تورگینیف کی نثر لطیف اور شاعرانہ ہے، مگر ٹالسٹائی کی تخلیقات میں جو وسعت، حرکیات اور زندگی کی نبض کا احساس ملتا ہے، وہ روسی ادب میں کہیں اور نہیں ملتا۔ ٹالسٹائی کو بالزاک، فلابیر، ڈکنز، اور گوئٹے جیسے عالمی ادیبوں کے برابر بلکہ ان سے آگے سمجھا جاتا ہے۔ ان کی فکری گہرائی، کرداروں کی وسعت اور انسانی تجربے کی جامعیت انہیں عالمی ادب کا سب سے بڑا حقیقت نگار بنا دیتی ہے۔

 فکری تحریک اور عالمی اثرات

ٹالسٹائی کے افکار نے ادب، فلسفے، سیاست اور سماجیات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان کے عدم تشدد کے نظریات نے مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور نیلسن منڈیلا جیسے رہنماؤں کی تحریکوں کو سمت دی۔ وہ انسانوں کے درمیان مساوات اور بھائی چارے کے سب سے بڑے مبلغ تھے۔ روس کے عام کسانوں کے لیے ان کی ہمدردی نے انہیں عوامی محبوبیت بھی عطا کی۔ ان کی تعلیمات آج بھی معاشرتی انصاف، اخلاقی ترقی اور روحانی سکون کے باب میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹالسٹائی صرف ایک ادیب نہیں بلکہ ایک عالمی اخلاقی رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔

زندگی کے آخری برسوں میں ٹالسٹائی مکمل سادگی اختیار کر چکے تھے۔ شاہانہ زندگی ترک کر کے وہ ایک مسافر کی طرح روس بھر میں گھومتے پھرتے، انسانوں میں بھائی چارے اور اخلاقی اصلاح کا پیغام دیتے۔

1910ء میں بیماری کے باعث ایک ریلوے اسٹیشن آسٹاپو میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی موت بھی ان کی زندگی کی طرح ایک علامت بن گئی — ایک ایسا مسافر جو پوری زندگی سچائی کی تلاش میں رہا۔ ٹالسٹائی نے جو وراثت چھوڑی ہے، وہ صرف ناولوں اور کہانیوں کی صورت میں نہیں بلکہ ایک ایسے انسانی نظریے کی شکل میں ہے جو انسانیت، محبت، اخلاقیات اور انصاف کا درس دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹالسٹائی آج بھی جیتا جاگتا، بولتا ہوا ادیب ہے — جس کے ہر لفظ میں زندگی کی سانسیں محسوس ہوتی ہیں۔

لیو ٹالسٹائی کا شمار اْن چند ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ادب کو صرف تفریح یا جمالیاتی اظہار تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے انسانی شعور کی ترقی، اخلاقی بیداری اور معاشرتی اصلاح کا وسیلہ بنا دیا۔ ان کی تخلیقات میں زندگی کا تنوع، انسان کی پیچیدگی، اور فطرت کی ہم آہنگی ایک ایسے ہمہ گیر انداز میں نظر آتی ہے کہ وہ آج بھی ہر نسل، ہر معاشرے اور ہر قاری کے لیے نئے معانی پیدا کرتی ہیں۔ اپنے وقت کے ادیبوں میں ٹالسٹائی اس لیے منفرد ہیں کہ انہوں نے دنیا کو صرف کہانی نہیں، بلکہ ’’انسان‘‘ دکھایا — اس کی کمزوریوں، عظمتوں، ناکامیوں اور امیدوں سمیت۔ ان کا مقام اس لیے بلند ہے کہ وہ صرف ایک بڑے ناول نگار نہیں بلکہ ایک عہد ساز مفکر بھی تھے۔

متعلقہ مضامین

  • پولیس کو دھمکیاں،علیمہ خان نے اڈیالہ جیل والی سڑک کی سکیورٹی درہم برہم کردی
  • بانی پی ٹی آئی سے آج ملاقات کا دن، اڈیالہ جیل کے اطراف سیکیورٹی ہائی الرٹ
  • عمران خان سے ملاقات کا دن، اڈیالہ جیل کے اطراف غیر معمولی سیکورٹی، کاروبار اورتعلیمی ادارے بند
  • کراچی، سہراب گوٹھ میں کپڑے کے گودام میں لگنے والی آگ پر قابو پا لیا گیا
  • لیو ٹالسٹائی
  • بھارت: گوا کے نائٹ کلب میں آگ لگنے سے 23 افراد ہلاک
  • قصور، کھانا پکانے کے دوران کپڑوں میں آگ لگنے خاتون بری طرح جھلس گئی
  • چند ننھی منی سوچ بدل دینے والی کہانیاں
  • ماسکو: یونیورسٹی نے 25 پاکستانی طلبہ کے ویزے ری نیو کرنے سے انکار کردیا، طلبہ پریشان