Jasarat News:
2025-12-09@23:30:42 GMT

بابری مسجد، تاریخ کی درستی یا تاریخ کا زخم؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بھارت کے مسلمان راہنما کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن لوک سبھا بیرسٹر اسد الدین اویسی نے حیدرآباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان چھے دسمبر کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ مہاتما گاندھی کے قتل، اندرگاندھی کے قتل کے ردعمل میں سکھوں کے قتل عام کی طرح بابری مسجد کا انہدام بھی بھارت کا یوم سیاہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی عدالت عظمیٰ نے یہ تسلیم کیا تھا کہ مندر توڑ کر مسجد تعمیر کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ انہوں نے نریندر مودی کے اس بیان پر بھی افسوس کا اظہار کیا جس میں انہوں نے کہا کہ تھا کہ رام مندر کی تعمیر سے پانچ سو سال کے زخم مندمل ہونے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ انہوں نے یہ بات رام مندر پر پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔ بابری مسجد کی تینتیسویں برسی پر ایودھیا میں سخت حفاظتی انتظاما ت کیے گئے تھے۔ مسلمانوں نے اس دن یوم سیاہ منانے کا اعلان کر رکھا تھا جبکہ ہندو انتہا پسند اس دن کو شوریہ دوس کے نام سے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا تھا۔ تینتیس سال قبل چھے دسمبر کو بھارتی شہر ایودھیا میں مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے دور میں تعمیر ہونے والی تاریخی بابری مسجد کو ہندو بلوائیوں نے شہید کردیا تھا۔ بابری مسجد جب شہید کی جارہی تھی اس سے برسوں پہلے ہندووں نے یہ موقف اختیار کرکے کہ یہاں رام کی جنم بھومی اور ایک مندر تھا جسے بابر نے مسمار کرکے مسجد تعمیر کی تھی، بابری مسجد کو متنازع بنا کر تالے لگوا دیے تھے۔ دہائیوں سے بے آباد مسجد بھی ہندو انتہا پسندوں کی آنکھوں میں خار کی مانند کھٹکتی رہی اور ایک روز انتہا پسندوں نے بال ٹھاکرے، کلیان سنگھ، ایل کے اڈوانی کی قیادت میں ڈنڈوں، کدالوں برچھوں اور ترشولوں سے حملہ کر کے بابری مسجد کو مسمار کر کے یہاں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔

بھارتی مسلمانوں نے اسے اپنی تاریخ اور ثقافت اور مذہبی شناخت پر حملہ قرار دے کر احتجاج کیا تو ہندو انتہا پسندوں نے پورے بھارت میں مسلمانوں پر جابجا حملے شرو ع کردیے اور مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ ان مسلم کش فسادات میں تین ہزار مسلمان جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر کسی بھی شخص کو گرفتار کیا گیا نہ سزا دی گئی۔ بعد میں جو لوگ اشک شوئی کے طور پر گرفتار کیے گئے تھے عدالتوں نے انہیں بھی ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا۔ گویا کہ بابری مسجد انسانوں کے بجائے جنات نے گرائی تھی۔ بابری مسجد کی شہادت بھارت کی سیاست میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی۔ بابری مسجد کے ملبے پر ہندو انتہا پسندوں کی سیاست میں دھوم دھڑکے سے شرکت کا آغاز ہو گیا۔ اس واقعے سے پہلے بھارت میں سیاست کی ایک مرکزی کھلاڑی گاندھی اور نہرو سے منسوب اور سیکولر اور سوشلسٹ خیالات کی پرچارک کانگریس تھی جبکہ اس کا مقابلہ کبھی جنتا پارٹی اور جنتا دل جیسے بائیں بازو کے کسی اتحاد کے ساتھ ہوتا تھا۔ کمونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی پوری قوت سے کئی ریاستوں اور قومی سیاست کے میدان میں موجود تھی۔ بھارت کے انتہا پسند ہندو یا تو انہی جماعتوں میں شامل تھے یا پھر وہ ان جماعتوں کو ہرانے یا جتوانے کے لیے پریشر گروپ کا کردار ادا کرتے تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارتی انتہا پسندوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے ایک محاذ بنا کر قومی سیاست میں اپنا پہلا قدم رکھا۔ رفتہ رفتہ ہندو انتہا پسند بھارت میں سیاسی پیش رفت کرتے چلے گئے یہاں تک وہ فیصلہ سازی پر حاوی ہوگئے۔ مسلمان جو بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں اس صورت حال پر پیچ و تاب کھا کر رہ گئے مگر بی جے پی کی سیاست میں آمد اور اْبھار کے بعد ان کے آپشن محدود ہو تے جا رہے تھے۔ مسلمانوں نے بی جے پی مخالف محاذوں کی طرف لڑھکنے کی کوشش کی مگر یہ بے سود رہی کیونکہ بی جے پی کی لہر نے کانگریس اور باقی جماعتوں کو بھی مسلمانوں کے حوالے دے دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیا تھا۔

بابری مسجد کی شہادت صرف بھارت کی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت نہیں ہوئی بلکہ اس نے مجموعی طور برصغیر پاک وہند میں شدت پسندانہ اور انتہا پسندانہ رویوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھارت کے مسلمان اپنے مستقبل سے مایوس ہوگئے انہوں نے اسے صدیوں بعد ہونے والے تاریخ کے اْلٹ پھیر کے طور پر جانا۔ گویا کہ مسلمانوں کے لیے صدیوں کی بالادستی کی قیمت چکانے کی گھڑی آن پہنچی تھی۔ اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا اور دوسری مسلمان تنظیموں سے وابستہ بھارت کے بہت سے مسلمان نوجوان حالات سے مایوس ہو کر زیر زمین جانے کی تیاریاں کرنے لگے تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مایوسی اور ردعمل نے پاکستان کو بھی متاثر کیا اور پاکستان میں بھارت مخالف جذبات کو عروج حاصل ہوا۔ کئی تنظیمیں اس سوچ کا پرچار کرنے لگیں کہ بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل ہی نہیں بلکہ صدیوں کا تاریخی اور تہذیبی ورثہ بھی خطرے میں ہے۔ بابری مسجد کے بعد انتہاپسندوں کی طرف سے کئی مساجدکے گرد سرخ دائرہ کھینچنے سے ردعمل کے شعلوں کو ہوا ملتی چلی گئی۔ بابری مسجد کے بعد متھرا کی تاریخی مسجد اسی انجام کی طرف دھیرے دھیرے بڑھ رہی تھی۔ 2003 میں مجھے دہلی سے آگرہ کے سفر میں شری کرشنا کے نام سے موسوم ایک بڑے مندر کو دیکھنے کا موقع ملا۔ یہاں ہندوؤں کا کوئی تہوار چل رہا تھا اور نارنجی لباس میں سادھو ترشول اْٹھائے قافلہ در قافلہ متھرا سڑکوں پر رواں دواں تھے۔ شری کرشنا مندر کے احاطے میں ایک کونے میں ایک ویران اور بیابان عمارت اپنے عظیم ماضی اور لاچار حال کی تصویر بنی کھڑی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ وہ مسجد ہے جو بابری مسجد کے بعد انتہاپسندوں کے نشانے پر ہے۔ جہاں کبھی ایک ہی صف میں شاہ و گدا کی جبینیں جھکا کرتی تھیں اب وہاں درازوں کے باہر موٹے تالے اور اندر چڑیوں اور پرندوں کا بسیرا ہے۔

بابری مسجد کی شہادت نے جہاں پورے خطے کے مسلمانوں کو مایوس اور ردعمل کا شکار کیا وہیں اس نے بھارت میں انتہا پسندوں نے اسے اپنا کامیاب سیاسی ٹیک آف جانا۔ اس پہلی کامیابی نے انہیں اعتماد اور حوصلہ عطا کیا اور وہ زیادہ تیز رفتاری سے بھارت کا مجموعی ماحول اور سیاسی کلچر بدلنے کی اپنی راہ پر گامزن ہو تے چلے گئے۔ ایک رائے یہ ہے کہ بابری مسجد کا سانحہ نہ ہوتا تو شاید یہ خطہ ردعمل اور انتقام در انتقام کی موجودہ کیفیت کا شکار نہ ہوتا۔ مسجد کے ملبے پر ہندو انتہا پسندوں نے اپنی دیوہیکل سیاسی عمارت کے لیے ایک بنیاد تو ڈال دی مگر اس کے نتیجے میں ردعمل اور کشمکش کی جو آگ بھڑک اْٹھی آج پاکستان، بنگلا دیش اور بھارت میں مختلف صورتوں میں اس کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بابری مسجد ایک مدت تک پاکستان میں بہت سے سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کی تقاریر کا اہم موضوع بنی رہی۔ بھارت کے مسلمان اس واقعے کو اب تک اپنے سینے کا داغ سجھ کر زندہ اور تازہ رکھے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ بابری مسجد سے شروع ہونے والے ہندو انتہا پسندوں کا نقطہ عروج ہے۔ اب بھارت کا سیکولرازم جو پہلے ہی برائے نام تھا ماضی کا کہانی بنتا جا رہا ہے۔ بھارت سیکولرازم کے بینر اور نام تلے ایک کٹر ہندو ریاست کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بابری مسجد سے نہرو اور گاندھی کے سیکولر انڈیا کے سردار پٹیل اور بال ٹھاکرے کے ہندو انڈیا میں بدلنے کا جو سفر شروع ہوا تھا تینتیس سال گزرنے کے بعد اس میں تیزی اور شدت آگئی ہے۔ بھارت اس نئی شبیہ اور شناخت کے ساتھ اپنا وجود کس حد تک برقرار رکھ سکتا ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

 

عارف بہار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بابری مسجد کی شہادت ہندو انتہا پسندوں انتہا پسندوں نے بابری مسجد کے سیاست میں کے مسلمان بھارت میں بھارت کے انہوں نے کی سیاست میں ایک کے بعد

پڑھیں:

پشاور کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ شام کے اوقات میں سماعت کا آغاز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پشاور: پشاور کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ شام کے اوقات میں سماعت کاآغاز کردیا گیاہے ۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے باضابطہ افتتاح کیا ۔ اس موقع پر رجسٹرار پشاورہائی کورٹ محمد زیب، پرنسپل سیکریٹری ٹو چیف جسٹس عادل مجید، ڈسٹرکٹ سیشن جج پشاور انعام اللہ وزیر، سینئر سول جج ارشد علی مہمند اور دیگر جوڈیشل افسران بھی موجود تھے۔

چیف جسٹس نے مذکورہ عدالت کا معائنہ بھی کیا اور ڈیوٹی پر موجود ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج سے مختلف عدالتی امور پر بات چیت کی اور ججوں کو ہدایت کی کہ وہ سائلین کو فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائے تاکہ زیرالتوا مقدمات جلد نمٹائے جاسکیں۔

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ سب سے پہلے شام کی عدالتیں ایبٹ آباد میں شروع کی گئیں، اب سیکنڈ شفٹ کی دو عدالتیں پشاور میں فعال کر دی گئی ہیں۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • دسمبر کی تلخ گواہی
  • پشاور کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ شام کے اوقات میں سماعت کا آغاز
  • بی جے پی کا میرٹ پر حملہ: کشمیری مسلم طلبہ کے داخلوں پر مذہبی اعتراضات
  • لاہور میں پاکستانی تاریخ کا سب سے دلچسپ مقدمہ درج
  • شام: سعودی ولی عہد کے پیش کردہ غلاف کعبہ کے تحفے کی مسجد اموی میں نمایش
  • مسجد کےلیے مختص زمین پر قبضہ کرکے رہائشی مقاصد کےلیے استعمال کیےجانے کا انکشاف
  • لوگو ، جاپان سے ہمیشہ چوکس رہو
  • مدینہ منورہ میں گرج چمک کے ساتھ بارانِ رحمت، مسجد نبویؐ اور گنبدِ خضریٰ پر خوبصورت مناظر
  • حیدرآباد: نگینہ جامع مسجد میں ماہانہ محفل ذکر مصطفی ﷺ سے علامہ محمد ابراہیم طاہری ودیگر خطاب کررہے ہیں