خیبر پختونخوا میں تیل و گیس کے نئے ذخائر دریافت، یومیہ 56لاکھ مکعب فٹ گیس حاصل ہوگی WhatsAppFacebookTwitter 0 10 December, 2025 سب نیوز

پشاور (سب نیوز)خیبر پختونخوا میں تیل و گیس کے نئے ذخائر دریافت ہوگئے۔آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل)کے ترجمان نے بتایا کہ خیبر پختو نخوا میں نشپابلاک کوہاٹ سے تیل و گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔
ترجمان کے مطابق براگزئی ایکس ون کنویں سے یومیہ2280 بیرل تیل حاصل ہو گا اور یومیہ 56لاکھ مکعب فٹ گیس پیداوار بھی ہوگی۔ترجمان نے بتایا کہ نشپا بلاک میں کنگریالی فارمیشن سے یہ پہلی ہائیڈروکاربن دریافت ہے، براگزئی ایکس ون کنویں کی ڈرلنگ5170 میٹر گہرائی تک مکمل کی۔
ترجمان او جی ڈی سی ایل کے مطابق نشپا بلاک میں او جی ڈی سی بطور آپریٹر 65 فیصد ، پی پی ایل 30 اور جی ایچ پی ایل 5 فیصد کے حصے دار ہیں۔ترجمان کا کہنا ہے کہ نئی دریافت سے او جی ڈی سی ایل کے ذخائر میں مزید اضافہ ہو گا، نئی دریافت سے ملکی توانائی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکا کا ریکوڈک میں 1.

25ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان، ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا امریکا کا ریکوڈک میں 1.25ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان، ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا بینچ یا جج کی عدم دستیابی پر ڈی لسٹ ہونے والے مقدمات پر نئی پالیسی جاری مہنگے کپڑے، گاڑیوں اور گھروں کی نمائش کرنے والے ریڈار پر ہیں، چیئرمین ایف بی آر حماس کا اسرائیل پر حملوں میں کمی پر مشروط آمادگی مگر غیر مسلح ہونے سے صاف انکار صدر ن لیگ نواز شریف سے سینیٹر حافظ عبدالکریم کی ملاقات، سیاسی صورتحال پر گفتگو ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں، چیف آف ڈیفنس فورسزعاصم منیر TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ذخائر دریافت تیل و گیس کے

پڑھیں:

خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا آپشن

ڈی جی آئی ایس پی آر کی سخت پریس کانفرنس کے بعد ایسے لگتا ہے کہ مفاہمت کے امکانات عملی طور پر ختم ہوگئے ہیں ۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی ٹکراؤ کی پالیسی پر گامزن نظر آرہے ہیں ۔ایک منطق یہ دی جا رہی ہے کہ اس ٹکراؤ کی بنیادی وجہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی پالیسی ہے جس کے تانے بانے بانی پی ٹی آئی سے جڑتے ہیں جو مزاحمت اور ٹکراؤ چاہتے ہیں ۔

اسی وجہ سے پی ٹی آئی کے مخالفین ان کی جماعت کو عملاً صوبائی حکومت کے ساتھ دہشت گردی یا دہشت گردوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی بنیاد پر دیکھ رہے ہیں ۔ان کے بقول ملکی سطح پر سے دہشت گردی کے عملاً خاتمہ کرنے میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت رکاوٹ ہے یا اسے سیاسی طور پر لگام دیے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ۔حکومت کے بہت سے وزراء کے پی کے کی صوبائی حکومت کوآڑے ہاتھوں لے رہے ہیں یا ان کا طرز عمل سخت اور جارحانہ ہے ۔

بعض سیاست دان، صحافی یا اینکرز بھی ہمیں یہ کہانی سنا رہے ہیں کہ صوبہ کا واحد حل گورنر راج ہے۔ان لوگوں کے بقول اگر کے پی کے کی صوبائی حکومت و وزیر اعلیٰ نے خود کو بانی پی ٹی آئی کی سیاست سے علیحدہ نہ کیا تو پھر گورنر راج ہی واحد آپشن ہے۔وفاقی وزیر قانون کے بقول گورنر راج کا نفاذ آئینی راستہ ہے اور اس سے یہ مراد لینا کہ یہ کوئی مارشل لا کی شکل ہے درست نہیں ۔

یہ خبریں بھی عام ہیں کہ ایک طرف وفاقی حکومت کے سامنے صوبہ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جہاں گورنر راج کا آپشن ہے تو وہیں یہ بھی سوچا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے اور ان کے خلاف سخت گیر اقدامات کی بنیاد پر نئے گورنر کی تقرری بھی آپشن ہے تاکہ نئے گورنر کی مدد سے معاملات حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی پر مختلف نوعیت کے سنگین الزامات، ریاست مخالف سرگرمیوں اور ان کی نااہلی کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں ۔حکومت سمجھتی ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی کی خواہش پر پی ٹی آئی کوئی نئی مہم جوئی کرتی ہے تو اس میں نئے وزیر اعلیٰ کا اہم کردار ہوگا ۔

اسی بنیاد پر وفاقی حکومت گورنر راج سمیت پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے خلاف مختلف آپشن کو اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔اسی بنیاد پر وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کو بھی ممکن نہیں بنایا جارہا ۔ایسے لگتا ہے کہ معاملات مفاہمت کے بجائے ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہے ہیں اور بانی پی ٹی آئی کے اپنے بیانات بھی ٹکراو کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔لیکن اس کشیدگی کو کم یا ختم کرنے میں ہمیں کہیں سے بھی کوئی مثبت کردار دیکھنے کو نہیں مل رہا ۔

 ٹکراؤ کی ایک بڑی وجہ دہشت گردی اور سیکیورٹی کے بدترین حالات سمیت افغانستان یا کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی آپریشن کی مخالفت ہے ۔وزیر اعلیٰ نے ارکان اسمبلی سمیت تمام صوبائی جماعتوں ،صوبائی گورنر اور دیگر اہم صوبائی سیاست دانوں ،قبائلی عمائدین اور میڈیا کی مدد سے امن جرگہ کیا تھا اور اس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا تھا۔اس امن جرگہ کا مشترکہ اعلامیہ ظاہر کرتا ہے کہ صوبائی حکومت کی حکمت عملی مرکز سے مختلف ہے ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتحال یا ٹکراؤ کا نتیجہ صوبہ میں گورنر راج کی صورت میں سامنے آنا چاہیے؟ کیا گورنر راج صوبہ میں بدامنی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرسکے گا؟یا فوجی آپریشن کے نتیجے میں حالات کو درست یا بہتری کی طرف لے جایا جا سکتا ہے؟ ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا سیاسی تقسیم مزید نہیں بڑھے گی؟ وفاقی حکومت کا یہ کہنا بجا ہے کہ کوئی ایک صوبہ وفاقی حکومت یا ریاست پر اپنا ایجنڈا جبر کی بنیاد پر مسلط نہیں کرسکتا اور قومی سلامتی کے معاملات پر کمزوری دکھانا وفاق کے لیے ممکن نہیں ۔لیکن اسی حکمت عملی کے ساتھ صوبے کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا بھی وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے اور ایک اہم صوبہ جو براہ راست دہشت گردی کا شکار ہے اس کی حکومت کو نظر انداز کرنا بھی کوئی دانش مندی نہیں ۔بالخصوص گورنر راج لگانے سے صوبے کی سیاست جو پہلے ہی پی ٹی آئی کے کنٹرول میں ہے اس کا ردعمل سخت ہوگا جو مزید ٹکراؤ کی سیاست پیدا کرے گا۔

اس لیے اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان بڑھتا ہوا ٹکراؤ اور کشیدگی کا ماحول حالات کو اور زیادہ خرابی کی طرف لے کر جائے گا۔اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ صوبے میں گورنر راج کے آپشن پر سنجیدگی بھی دکھائی دیتی ہے ۔یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک پہلے ہی سیاسی ،معاشی اور سیکیورٹی کے تناظر میں کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہے ۔پہلے ہی اس ملک کے جمہوری،سیاسی آئینی اور قانونی سطح کے معاملات پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات زیر بحث ہیں اور بہت سے لوگ موجودہ صورتحال سے ناخوش بھی ہیں ۔ایسے میں ہمارے بھارت اور افغانستان سے بگڑتے تعلقات خود ہماری سیکیورٹی کے لیے نئے خطرات کو جنم دے رہے ہیں ۔ایسے میں ہماری داخلی سیاست کا ٹکراؤ ہماری تشویش میں اور زیادہ اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے اس تاثر کی بھی نفی ہونی چاہیے اور یہ ذمے داری وفاقی حکومت پر ہی آتی ہے کہ وہ معاملات کو بہتر کرنے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی اختیار کرے ۔پہلے ہی پی ٹی آئی کے لیے سیاسی سطح پر راستے محدود ہیں اور ان کی صوبائی حکومت کو دہشت گردی کا سامنا ہے ۔

یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ مسئلہ محض پی ٹی آئی تک محدود نہیں بلکہ دیگر جماعتیں جے یو آئی اور اے این پی کی پالیسی وفاقی حکومت کی پالیسی سے مختلف ہے بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کی صوبائی قیادت بھی وفاقی حکومت کی پالیسی سے بہت زیادہ خوش نہیں ۔اسی طرح جب صوبائی حکومت کے بارے میں دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کی بنیاد پر بیانیہ بنایا جائے گا تو اس پر ردعمل کا پیدا ہونا بھی فطری امر ہے ۔اس لیے جہاں صوبائی حکومت کو زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہے وہیں وفاقی حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ سیاست سے بالاتر ہوکر صوبائی حکومت کے ساتھ اتفاق کی بنیاد پر آگے بڑھے اور اس میں صوبائی حکومت کو وفاق کے ساتھ تعاون کے امکانات کو بڑھانا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • خوشخبری: کوہاٹ میں تیل و گیس کے نئے ذخائر دریافت
  • خیبر پختونخوا میں تیل و گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت
  • خیبر پختونخوا سے تیل و گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت
  • کوہاٹ، OGDCLنشپا بلاک سے تیل و گیس کے نئے ذخائر دریافت
  • وفاق صوبائی حکومت سے مل کر پالیسی بنائے تو وہ پائیدار ہوگی(سہیل آفریدی)
  • خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا آپشن
  • وفاق صوبائی حکومت سے مل کر پالیسی بنائے تو وہ پائیدار ہوگی، وزیراعلیٰ سہیل آفریدی
  • وفاق پالیسی صوبائی حکومت سے مل کر بنائے تو وہ پائیدار ہوگی، سہیل آفریدی
  • دریاؤں اور آبی ذخائر میں پانی کی صورتحال پر رپورٹ جاری