یاجوج ماجوج نے پی ٹی آئی ورکرز کے گھروں میں جو توڑ پھوڑ کی ان کی ٹریننگ مکمل ہو گئی ہوگی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 03 مئی 2025ء ) پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء اور اپوزیشن لیڈر عمرایوب کا کہنا ہے کہ یاجوج ماجوج نے پی ٹی آئی ورکرز کے گھروں میں جو توڑ پھوڑ کی اب ان کی ٹریننگ مکمل ہو گئی ہوگی، امید ہے اب یہ ویگو ڈالوں پر بمب بارود لوڈ کرکے ہندوستان کے ٹینکوں کے ساتھ ٹکرائیں گے اور وہاں پہ ہمیں جوہر دکھائیں گے یہ کتنے بہادر ہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان نے بھارت کو للکارا اور کہا کہ ہم حملہ پہلے کریں گے اور سوچیں گے بعد میں جب کہ شہباز شریف نے انڈیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے، انڈیا جنگی مشقیں کر رہا ہے لیکن شہباز شریف نے تقریر کی کہ پاکستان اس واقعے میں ملوث نہیں ہے، بھارت کو جو امیسج جانا چاہے تھا وہ نہیں گیا حالاں کہ ہمیں واضح پیغام دینے ہوگا کہ اگر انڈیا نے ادھر آنے کی کوشش کی تو بھرپور جواب دیا جائے گا، ہم اپنے نیوکلیئر پروگرام سے جواب دیں گے، اگر انڈیا نے کسی ہمارے علاقے میں حملہ کیا تو اس علاقے میں آنے والے جنگی جہازوں کو تباہ کرکے دم لیں گے۔(جاری ہے)
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا کہنا ہے کہ ملک کی صورتحال دیکھیں محب وطن شہریوں پر مقدمات بنائے گئے ہیں، ہمارے لیڈر عمران خان سمیت دیگر اسیران جیلوں میں ہیں وہ جیلوں میں کیوں ہیں ان کی ایک غلطی ہے؟ عمران خان، بشریٰ بی بی، شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری، عمر سرفراز چیمہ، سالار خان کاکڑ کل رہا ہوئے ان تمام قیدیوں کا گناہ ہے کہ انہوں نے پاکستان اور جمہوریت کیلئے آواز اٹھائی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان نے یوکرائن کو 85 کروڑ ڈالر کے شیل بیچے، وزارت دفاع نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا کہ یہ خفیہ راز ہے جو ساری دنیا کو معلوم ہے لیکن یہ رجیم اسے خفیہ رکھنا چاہتی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں جناح ہاؤس سمیت دیگر جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات کی سماعت ہوئی جہاں اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب اور پی ٹی آئی رکن پنجاب اسمبلی حافظ فرحت عباس کی عبوری ضمانتوں پر سماعت کی گئی، اے ٹی سی عدالت کے جج منظر علی گل نے عبوری ضمانتوں پر سماعت کی، عمر ایوب نے عدالت کے روبرو پیش ہوکر حاضری مکمل کروائی۔ دوران سماعت پراسکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ ’جناح ہاؤس سمیت دیگر مقدمات کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں ہے‘، جج اے ٹی سی نے استفسات کیا کہ ’کیا ملزمان شامل تفتیش ہوئے ہیں اور تفتیش مکمل ہے؟‘، عمر ایوب کے وکیل نے جواب دیا کہ ’ہم متعدد بار شامل تفتیش ہوچکے ہیں‘، جج نے کہا کہ ’تفتیش مکمل ہونے کی حد تک ہم ریکارڈ دیکھ لیتے ہیں‘، اس کے ساتھ ہی عدالت نے عبوری ضمانتوں میں 26 مئی تک توسیع کردی اور آئندہ سماعت پر مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا گیا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔