فرانسیسی میڈیا نے پہلگام واقعے سے متعلق بھارت کے فالس فلیگ آپریشن کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ مودی سرکار نے حقائق کو چھپانے کیلیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا۔

تفصیلات کے مطابق فرانسیسی ٹی وی فرانس 24 نیوز نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مودی سرکار پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر جھوٹی پروپیگنڈا مہم چلا رہی ہے جبکہ حقائق چھپانے کیلیے اے آئی کا استعمال کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی جھوٹی اور گمراہ کن ویڈیوز اور تصاویر کو مودی حکومتی پشت پناہی حاصل ہے، پہلگام میں منظر عام پر آنے والی ایک جوڑی کی پرانی ویڈیو کو مقتول سیاحوں سے جوڑ کر غلط بیانی کی گئی۔

ٹی وی رپورٹ کے مطابق مودی سرکار کے زیر اثر بھارتی میڈیا جھوٹی ویڈیوز کو سچ کے طور پر پیش کر رہا ہے، واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر لیفٹیننٹ نورول کی شناخت کو جھوٹے مواد سے جوڑ دیا گیا۔

فرانسیسی ٹی وی کے مطابق انٹرنیٹ پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں دکھائے گئے افراد کا واقعے سے کوئی تعلق نہیں، جھوٹا مواد بھارتی نیوز چینلز پر بھی نشر، غلط بیانی کا شکار ہوئے۔

فرانس 24 کے مطابق مودی حکومت نے پہلگام واقعے کے بعد اے آئی سے بنائی گئی تصاویر کے ذریعے ہمدردی حاصل کرنے کی دانستہ کوشش کی جس کے بعد متاثرین نے خود سامنے آ کر حقائق واضح کیے، متاثرہ خاندانوں کے جذبات سے کھیلنے پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید مذمت بھی کی۔

ٹی وی رپورٹ کے مطابق ویڈیو اور تصاویر کے حوالے سے کوئی مستند ذرائع نہ ملنا ان کے جعلی ہونے کی علامت ہیں۔

دوسری جانب ماہرین نے کہا ہے کہ اے آئی تصاویر میں جسمانی ساخت، آنکھوں اور پس منظر میں واضح خامیاں پائی گئیں ہیں۔

ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فیک ویڈیوز کے خلاف کارروائی کا مطالبہ زور پکڑ گیا، مودی سرکار سچ پر پردہ ڈالنے کے لیے اے آئی ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کر رہی ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ جعلی اے آئی تصاویر کے ذریعے مودی سرکار عوام کے جذبات بھڑکا رہی ہے تاکہ پاکستان کے خلاف نفرت پھیلائی جا سکے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پہلگام واقعے مودی سرکار سوشل میڈیا ئی تصاویر کے مطابق اے ا ئی

پڑھیں:

پی ای سی اے بل اور ہمارا آئینی امتحان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سال کے آغاز میں، 29 جنوری کو صدرِ پاکستان نے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (PECA) میں ترمیم پر دستخط کیے۔ حکومت نے اسے جعلی خبروں، ریاست مخالف بیانیے اور ڈیجیٹل انتشار سے نمٹنے کے لیے ضروری قدم قرار دیا، مگر اس بل کی منظوری کے طریقہ کار، اس کے غیر واضح الفاظ، اور بے پناہ اختیارات نے ایک بنیادی سوال کو جنم دیا: کیا ہم جمہوریت میں جی رہے ہیں یا محض ریاستی کنٹرولڈ براڈکاسٹ کے سبسکرائبر بن چکے ہیں؟
اس قانون کا پس منظر چند خوفناک سوشل میڈیا سانحات سے جڑا ہے: مشہور انفلوئنسر ثنا یوسف کا پْراسرار قتل، ٹک ٹاک اسٹارز پر بڑھتے تشدد، اور حافظ آباد میں اجتماعی زیادتی کا دل دہلا دینے والا واقعہ۔ ان جذباتی لمحوں نے سوشل میڈیا کو غصے اور بے بسی سے بھر دیا، اور ریاست نے ان ہی جذبات کی آڑ میں ایک ایسا بل منظور کر لیا جو ڈیجیٹل اظہار کی نئی تعریف طے کرتا ہے۔ اور اگرچہ یہ بل کئی مہینے پہلے منظور ہو چکا ہے، اس کے اثرات آج بھی ہماری ڈیجیٹل فضا پر گہرے سائے کی مانند چھائے ہوئے ہیں۔
آئین پاکستان قانون سازی کا واضح جمہوری طریقہ بتاتا ہے: پارلیمانی بحث، عوامی مشاورت، کمیٹی کی جانچ پڑتال، اور سینیٹ کی منظوری۔ مگر پی ای سی اے میں ان تمام مراحل کو نظرانداز کرتے ہوئے، بل کو چند منٹوں میں منظور کر لیا گیا۔ صحافیوں کو نظر انداز کیا گیا، کوئی عوامی مشاورت نہ ہوئی اور ہر قدم پر خاموشی کو ترجیح دی گئی۔ یہ عمل کسی جمہوری ریاست سے زیادہ ایک آمرانہ ’’ڈیجیٹل ڈرامے‘‘ کی قسط معلوم ہوتا ہے۔
اس قانون کے تحت ریاستی اداروں پر تنقید، مبینہ غلط معلومات، یا طنزیہ پوسٹس پر تین سال قید، جرمانہ، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بندش کی سزا ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی، ’’سوشل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی‘‘ اور سائبر کرائم ٹربیونلز جیسے ادارے تجویز کیے جا رہے ہیں جنہیں وسیع اختیارات دیے جائیں گے مگر عدالتی نگرانی نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ حکومت کے نزدیک یہ قانون نظم و ضبط کے لیے ہے، لیکن وکلا، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان اسے ’’خوف کی زبان‘‘ میں لپٹا ہوا ’’خاموشی کا قانون‘‘ سمجھتے ہیں۔
اصل خطرہ یہی ہے کہ اگر ہم اس طرح کے قوانین کو جذباتی ہنگاموں کی بنیاد پر معمول بنا لیں، تو کل کو یہی جواز آزادیِ اظہار، لباس، عقیدے یا سوچ پر پابندی کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر عوام کو ان کی آزادیوں میں تبدیلی کے وقت شریک نہ کیا جائے، تو جمہوریت صرف ایک رسمی اصطلاح بن کر رہ جائے گی۔ پی ای سی اے بل صرف ایک قانونی دستاویز نہیں بلکہ عوامی یادداشت اور آئینی حوصلے کا امتحان ہے۔ یہ ہم سے سوال کرتا ہے کہ ہم اس خاموش تجاوز پر خاموش رہیں گے یا سوال، تنقید اور اظہارِ رائے کا حق واپس لیں گے؟ کیونکہ اگلی قسط تیار ہو رہی ہے۔ کیا ہم بولیں گے، یا خاموشی ہی ہماری آئندہ شناخت بنے گی؟

متعلقہ مضامین

  • مودی، اڈانی اور اسرائیل کا خفیہ اتحاد کیسے بے نقاب ہوا؟
  • ٹرمپ، مودی رابطہ: بھارتی وزیراعظم نے پاک بھارت تنازع پر امریکی ثالثی ماننے سے انکار کردیا، بھارت کا دعویٰ
  • یہود و ہنود کا نیا گٹھ جوڑ بے نقاب: مودی، اڈانی، اسرائیل اتحاد کا پول کھل گیا
  • جی سیون اجلاس میں بھارت کو بڑی سبکی، نام اور پرچم منظر سے غائب کردیاگیا
  • جی سیون اجلاس نے بھارت کو سفارتی سطح پر تنہا ثابت کردیا
  • مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی ، مودی سرکار نے بھارتی سکھ یاتریوں کے پاکستان آنے پر پابندی عائد کر دی
  • مودی سرکار کی خارجہ پالیسی میں دوغلا پن نمایاں
  • مودی سرکار کی میک ان انڈیا پالیسی کا پردہ فاش: بھارتی مینوفیکچرنگ انڈسٹری مایوس کن حالات کا شکار
  • پی ای سی اے بل اور ہمارا آئینی امتحان
  • سوشل میڈیا ایپلی کیشن انسٹاگرام میں کیمرا کے اصل سائز کی تصویر شیئر کرنا ممکن