سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے حق میں دائر انٹرا کورٹ اپیلوں پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا، آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کے مطابق محفوظ فیصلہ اسی ہفتے سنایا جائے گا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی، جہاں اٹارنی جنرل منصور اعوان نے اپنے دلائل مکمل کیے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو دن 3 بجے سے شام تک 39 جگہوں پر حملہ کیا گیا، پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی دی گئی لیکن ردعمل میں اس پارٹی نے وہ نہیں کیا جو 9 مئی کو ہوا تھا، جمہوریت بحالی تحریک میں ساری جماعتوں پر پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل: آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے، سلمان اکرم راجہ کا موقف
اٹارنی جنرل کے مطابق ایم آر ڈی کی تمام قیادت پابند سلاسل تھی، اصغر خان 3 ساڑھے 3 سال تک نظر بند رہے، اس دوران بھی 9 مئی جیسا قدم کسی نے نہیں اٹھایا، 9 مئی کو اگر ری ایکشن میں بھی یہ سب کچھ ہوا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اٹارنی جنرل کا مؤقف تھا کہ پاکستان ایک عام ملک نہیں ہے، جیوگرافی کی وجہ سے اسے کافی خطرات کا سامنا رہتا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا، آپ اپیل کی طرف آئیں اپیل کا بتائیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ سوال نہ بھی موجود ہو اس پر بات کرنا ضروری ہے، جناح ہاؤس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی، 3 اعلیٰ افسران کو بغیر پینشن اور مراعات ریٹائر کیا گیا، جن میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک برگیڈیئر، اور ایک لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل،سیکشن 94 کا اطلاق ان پر ہوگا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں، جسٹس جمال مندوخیل
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا مطلب ہے انہیں مزید کوئی ترقی نہیں مل سکتی، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ کیا فوج نے کسی افسر کیخلاف فوجداری کارروائی بھی کی۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ فوجداری کارروائی تب ہوتی جب جرم کیا ہوتا، محکمانہ کارروائی 9 مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ واضح ہے کہ محکمانہ کارروائی کےساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پنجاب میں 23، خیبرپختونخوا میں 8، سندھ میں 7 اور بلوچستان میں ایک واقعہ ہوا، جی ایچ کیو لاہور ،ایئر بیس میانوالی سمیت آئی ایس آئی کے دفاتر پر حملے ہوئے، 9 مئی کو رونما ہونیوالے تمام واقعات اتفاقیہ نہیں تھے۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: عام شہری کے گھر گھسنا بھی جرم ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 5:40 سے شام 9 بجے تک پوری کور غیر فعال ہوچکی تھی، 9 مئی کو اگر لاہور پر بیرونی جارحیت ہوتی تو جواب نہیں دیا جاسکتا تھا،
جسٹس اظہر رضوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو کی پھانسی کے وقت لوگ گرفتاریاں دیتے تھے،
لوگوں نے خودسوزیاں کیں کیں کسی نے اس وقت پراپرٹی کو آگ نہیں لگائی، اٹارنی جنرل بولے؛ میرے والد نے خود بطور سیاسی کارکن مقدمات بھگتے، کبھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا کہ پبلک پراپرٹی کوجا کر نقصان پہنچائیں۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیخلاف فیصلہ پر اپیل: اٹارنی جنرل اصل فیصلہ میں غلطی دکھائیں، جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا جناح ہاوس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا تھا؟ اگر اندر سے کسی نے کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا، جس پر منصور اعوان بولے؛ میں اس کو چیک کر کے بتاؤں گا کیسے ہوا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا کیا جرم کی نیت سے ہی ہوا، کیا نیت احتجاج ریکارڈ کرانے کی تھی یا حملہ کرنے کی، ہوسکتا ہے نیت احتجاج کی ہوئی ہو مگر معاملہ حد سے تجاوز کرگیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا مؤقف تھا کہ 9 مئی کو جو ہوا جرم ہی تھا، اس موقع پر جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہ آپ غلط راستے پر چل پڑے ہیں، ہم نے 9 مئی واقعہ کی میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی.
مزید پڑھیں:سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، تحریری حکمنامے میں کیا کہا گیا ہے؟
جسٹس نعیم اختر افغان کے مطابق میرٹ پر بات کرنے سے ٹرائل اور اپیل میں مقدمات پر اثر پڑے گا، 9 مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سے سوالات اٹھیں گے، 9 مئی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب شاید آپ کے لیے دینا ممکن نہ ہوں۔
جسٹس نعیم اختر افغان کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بغیر پینشن ریٹائر کیے گئے جنرل کور کمانڈر لاہور ہی تھے، جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے دریافت کیا کہ کیا کور کمانڈر لاہور ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ سے جب اپیل آئے گی تو عدالت کو معلوم ہوجائے گا، جس پر جسٹس نعیم اختر افغان بولے؛ یہی تو بات ہے کہ آپ جواب نہیں دے سکیں گے بہتر ہے یہ باتیں نہ کریں۔
مزید پڑھیں: سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں ترمیم مشکل کام ہے لیکن 26 مرتبہ کر لیا گیا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ایسا کیا ہے کہ اس میں آسانی سے ہونے والی ترمیم بھی نہیں کی جاتی، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوجی عدالتوں سے سزاؤں کیخلاف اپیلیں دائر ہوچکی ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان کے مطابق اب تک 86 مجرمان اپیلیں کر چکے ہیں جبکہ دیگر مجرموں کو اپیل دائر کرنے کے وقت میں رعایت دی جائے گی، اپیل کا حق دینے کے لیے سپریم کورٹ کا آئینی بینچ آبزرویشن دے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لیے کہنے کی مثال میں ایک عدالتی فیصلہ موجود ہے، سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ موجود ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ اس فیصلے میں تو پارلیمنٹ کو باقاعدہ ہدایت جاری کی گئی تھی، پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لیے 6 ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں:فوجی عدالتوں کا کیس: آئین واضح ہے ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا، جسٹس جمال مندوخیل
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ آج انہوں نے 45 منٹ مانگے تھے جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات کے تھے، 20 منٹ صرف جسٹس جمال مندوخیل کے لیے رکھے تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ انہیں اپنا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ ملک کے مستقبل کا سوچ رہے ہیں، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر اپیلوں پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
آئینی بینچ نے سربراہ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ شارٹ آرڈر کے ذریعے محفوظ فیصلہ اسی ہفتے جاری کیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ اٹارنی جنرل انٹرا کورٹ پارلیمنٹ جسٹس اظہر رضوی جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل جسٹس مسرت ہلالی سپریم کورٹ سویلینز قانون سازی کور کمانڈر لاہور ملٹری ٹرائل منصور اعوانذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اٹارنی جنرل انٹرا کورٹ پارلیمنٹ جسٹس اظہر رضوی جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل جسٹس مسرت ہلالی سپریم کورٹ سویلینز کور کمانڈر لاہور ملٹری ٹرائل منصور اعوان فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل اٹارنی جنرل منصور اعوان جسٹس نعیم اختر افغان جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل اٹارنی جنرل نے کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سویلینز کا مزید پڑھیں اپیلوں پر کے مطابق بتایا کہ میں ایک ہوئے کہ مئی کو کیا کہ کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ:’’صدر کو اختیار حاصل ہے‘‘ ججز ٹرانسفر آئین و قانون کے مطابق قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 3ججز کے تبادلے سے متعلق تاریخی مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کا تبادلہ مکمل طور پر آئین اور قانون کے مطابق کیا گیا۔
عدالت عظمیٰ کے اکثریتی فیصلے میں عدالت نے واضح کیا کہ ججز کے تبادلے کو کسی طور پر نئی تقرری نہیں سمجھا جا سکتا اور نہ ہی اس پر اعتراض کی کوئی قانونی گنجائش موجود ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ ایک طویل قانونی بحث کے بعد سامنے آیا ہے جس میں عدالتی خودمختاری، آئینی اختیارات اور ججز کی سنیارٹی جیسے اہم نکات زیر غور آئے۔
سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس آصف اور جسٹس خادم حسین سومرو کے تبادلے کے نوٹیفکیشنز کو کالعدم قرار نہیں دیا جا رہا۔ اس کے ساتھ ہی سنیارٹی سے متعلق معاملات صدر مملکت کو بھیج دیے گئے ہیں تاکہ وہ جلد از جلد اس معاملے کو نمٹا سکیں۔ جب تک سنیارٹی کا فیصلہ نہیں ہوتا، جسٹس سرفراز ڈوگر قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔
فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 200 کو بنیادی حوالہ بنایا گیا ہے، جس کے تحت صدر پاکستان کو ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری میں منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ اختیار مکمل طور پر آزاد ہے اور کسی قانون کے تحت اس پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ آرٹیکل 200 کے تحت دیا گیا تبادلے کا میکانزم جج کی رضا مندی سے مشروط ہے اور اس کے بعد متعلقہ دونوں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت لازمی ہے۔
عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ اگر جج تبادلے کے لیے رضامند نہ ہو تو یہ عمل وہیں رک جاتا ہے۔ جب جج آمادہ ہو جائے تو تبادلہ ممکن ہے، لیکن اس کے باوجود چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی رائے ضروری ہے تاکہ عدالتی مفاد، انتظامی ضروریات اور عوامی بھلائی کو مدنظر رکھا جا سکے۔
عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کر دیا کہ جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ نئی تقرری کے مترادف ہوتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تقرری اور تبادلہ آئینی طور پر 2الگ معاملات ہیں اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا دائرہ کار صرف تقرریوں تک محدود ہے۔ اس کے برعکس، تبادلے کا اختیار آئینی طور پر صدر کو حاصل ہے، جو جوڈیشل کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کی دفعہ 3 کے تحت ججز کی زیادہ سے زیادہ تعداد کا تعین ضرور کیا گیا ہے، تاہم عدالت نے قرار دیا کہ یہ قانون آئینی اختیارات کو محدود نہیں کر سکتا۔ یعنی صدر کے پاس تبادلے کے جو اختیارات ہیں، وہ اس ایکٹ کی کسی شق سے مشروط یا محدود نہیں ہو سکتے۔
دوسری جانب جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے رائے دی کہ ججز کے تبادلے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کے مترادف ہے اور اسے آئینی دائرہ کار سے تجاوز تصور کیا جانا چاہیے۔ اختلافی فیصلے میں اس مؤقف کو بھی تقویت دی گئی کہ ججز کو سزا کے طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل کیا گیا، جو عدالتی آزادی پر حملہ ہے۔
جسٹس افغان نے اختلافی رائے سناتے ہوئے ایک شعر بھی پڑھا:
امن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
واضح رہے کہ یہ فیصلہ اس وقت سنایا گیا جب سپریم کورٹ نے طویل سماعتوں کے بعد آج کیس کا فیصلہ محفوظ کیاتھا۔ سماعت کے دوران وکیل ادریس اشرف نے آئین کے آرٹیکل 175 اور 200 میں ہم آہنگی کی درخواست کی، جب کہ اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ ججز کے تبادلے کا مکمل طریقہ آئین میں دیا گیا ہے اور وزیر اعظم یا صدر کا کردار محدود نوعیت کا ہے۔
دلائل کے دوران سابق اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت تبادلے کو نئی تقرری سے تعبیر نہ کرے،تاہم عدالت نے نشاندہی کی کہ ان کی پٹیشن میں ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ کہا گیا ہے، جو آئینی طور پر غلط تصور کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5ججز نے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جن میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل تھے۔ اس کے علاوہ بانی پی ٹی آئی اور کراچی بار کی جانب سے بھی اس معاملے پر الگ الگ درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔