اسلام آباد:

عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نےرواں مالی سال25-2024 میں پاکستان کی معاشی شرح نمو 2.6 فیصد اور نئے مالی سال میں معاشی شرح نمو 3.6 فیصد تک جانے کی پیش گوئی کردی ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی معیشت سے متعلق کنٹری رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس میں  کہا گیا ہے کہ 27-2026 میں پاکستان کی معاشی شرح نمو4.

1 فیصد تک پہنچ جائے گی جبکہ  2027 تا 2030 معاشی شرح نمو 4.5 فیصد رہنے کی پیش گوئی ہے۔

عالمی ادارے نے کہا ہے کہ  اگلے مالی سال 26-2025 کے دوران پاکستان میں افراط زر کی شرح 7.7 رہنے کا امکان ہے جبکہ رواں مالی سال کے دوران مہنگائی 5.1 فیصد تک محدود ہے۔

افراط زر کے حوالے سے بتایا گیا کہ 2026 تا 2030 افراط زر 6.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال قرض ٹو جی ڈی پی تناسب میں کمی کا امکان ظاہر کیا ہے اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 26-2025 میں قرض ٹو جی ڈی پی تناسب 71.9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

اسی طرح 27-2026 میں قرض ٹو جی ڈی پی تناسب 70 فیصد تک، 2030 تک قرض ٹو جی ڈی پی تناسب 61 فیصد تک آنے کا امکان ہے۔

حکومت نےآئی ایم ایف کو ترقیاتی فنڈز اور دیگر اخراجات میں کٹوتی کی یقین دہانی کرا دی ہے اور 87 ارب روپے پی ایس ڈی پی کے لیے مختص رقم میں سے روک لیے جائیں گے اور اس کا مقصد عدالتی مقدمات کا بروقت حل ہے تاکہ مالیاتی خلا کو پورا کیا جا سکے۔

عدالتی مقدمات کا فیصلہ مئی اور جون میں متوقع ہے اگر آمدن میں کمی ہوتی ہے تو اخراجات میں متناسب کٹوتیاں کی جائیں گی اور حکومت نے یقین دہانی کروائی کہ بنیادی اخراجات کو 15,958 ارب روپے تک محدود رکھا جائے گا۔

آئی ایم ایف کے مطابق سماجی شعبے کے اہم اخراجات کے لیے گنجائش برقرار رکھی جائے گی، غیرضروری توانائی سبسڈیوں سے 54 ارب روپے کی بچت ہوگی، ہنگامی مختص رقوم میں سے استعمال نہ ہونے والے 188 ارب روپے الگ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حکومت بنیادی خسارہ جی ڈی پی کے1.0 فیصد سرپلس کرنے کے لیے پرعزم ہے، نان ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کے 3.0 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے جبکہ ٹیکس آمدن میں اضافہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

مزید بتایا گیا ہے کہ صوبائی ٹیکس حکام نے بہتر کارکردگی دکھائی، ایف بی آر کی آمدن جی ڈی پی کے 10.6 فیصد کے مساوی ہونی چاہیے، ایف بی آر کا رواں مالی سال نظرثانی شدہ ہدف 12 ہزار 332 ارب روپے ہے۔

حکومت کے مطابق ٹیکس ایڈمنسٹریشن بہتر کی جارہی ہے تاکہ ٹیکس ادائیگیوں میں خلا کم ہو۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمپلائنس رسک مینجمنٹ، ڈیجیٹل ویلیو چین کی مانیٹرنگ کی جائے گی جبکہ سیلز ٹیکس ریٹرنز میں بے ضابطگیوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے اور کسٹمز کے نظام میں فیس لیس اسسمنٹ کو مضبوط بنایا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ 770 ارب مالیت کے زیر التوا عدالتی مقدمات کو حل کرنے کے لیے سرگرم ہیں، سپریم کورٹ میں 43 ارب روپے مالیت کے مقدمات زیر التوا ہیں، اسلام آباد، سندھ اور لاہور ہائی کورٹس میں 217 ارب روپے کے ٹیکس کیسز ہیں، ان لینڈ ریونیو ایپلٹ ٹربیونل میں 104 ارب روپے کے کیسز شامل ہیں۔

مزید بتایا گیا کہ سپریم کورٹ نے ابتدائی سماعت مکمل کر لی ہے، ایک مثبت فیصلہ ان مقدمات میں سے تقریباً 120 ارب روپے کےکیسز کو حل کر سکتا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قرض ٹو جی ڈی پی تناسب کا امکان ہے آئی ایم ایف پاکستان کی بتایا گیا گیا ہے کہ ارب روپے مالی سال ڈی پی کے فیصد تک کے لیے

پڑھیں:

عوام پر بھاری ٹیکسوں کے بوجھ کے باوجود ٹیکس ہدف حاصل نہ ہوا

اسلام آباد:

عوام پر اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے باوجود حکومت 129 کھرب روپے سے زائد ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی، مجموعی طور پر محصولات میں گزشتہ سال کی نسبت 26 فیصد یا24.3 کھرب روپے زائد اضافہ ہوا۔

وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب نے بغیر منی بجٹ129کھرب سے زائد وصولیاں یقینی بنانے کا عندیہ دیا تھا، مبصرین کے مطابق منی بجٹ کے بغیر محصولات کے ہدف کا حصول ممکن نہیں تھا۔

عبوری اعدادوشمار کے مطابق ایف بی آر نے ختم ہونیوالے مالی سال میں117.3 کھرب روپے کی وصولیاں کی، جو ہدف سے تقریباً 12 کھرب روپے کم ہیں۔

حکومت نے مالی سال2024-25 کے دوران ٹیکس جی ڈی پی تناسب10.6 فیصد تک بڑھانے کا آئی ایم ایف سے وعدہ کیا، جوکہ 10.2 فیصد رہا۔ ٹیکس حکام کے مطابق بجٹ میں13 کھرب کے اضافی ٹیکس عائد کرنے کے باوجود وصولیاں ہدف سے12 کھرب روپے کم رہیں۔

اس ناکامی نے سابق چیئر مین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ کی پیش گوئی درست ثابت کی کہ تمام تر کوششوں کے باوجود وصولیاں118 کھرب سے بڑھ نہیں سکتیں۔

حکومت نے 129.7 کھرب کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کیلئے تنخواہ دار طبقے پر اضافی بوجھ، پیکٹ دودھ سمیت لگ بھگ تمام اشیائے ضرورت پر ٹیکس لگایا، مگر غیر حقیقی ٹیکس ہدف، معاشی سست روی اور شرح مہنگائی میں مسلسل کمی محصولات میں26 فیصد اضافہ ممکن نہ بنایا جا سکا،تاجر دوست سکیم کے تحت دکان داروں سے50 ارب روپے انکم ٹیکس حاصل نہ ہوا۔

متعلقہ مضامین

  • مالی سال 25-2024 کے دوران تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس ادائیگی میں 178 ارب روپے کا اضافہ
  • نئے مالی سال میں 7000 آئٹمز پر ٹیکس اور ڈیوٹی میں نمایاں کمی ،  نوٹیفکیشن جاری
  • 7 ہزار درآمدی اشیاء پر ٹیکس و ڈیوٹی میں کمی، ایف بی آر کا بڑا فیصلہ
  • وفاقی ٹیکس محصولات میں 42 فیصد تاریخی اضافہ، وزیراعظم کی ایف بی آر کو ڈیجیٹائزیشن میں تیزی لانے کی ہدایت
  • اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ایف بی آر اصلاحات پر جائزہ اجلاس، محصولات میں 42 فیصد تاریخی اضافہ
  • فنانس ایکٹ 2025 ء نافذ‘312 ارب کے نئے ٹیکس لگ گئے
  • 312 ارب روپے کے نئے ٹزکس اور سخت اقدامات:نئے مالی سال میں اور کیا بدلے گا؟
  • عوام پر بھاری ٹیکسوں کے بوجھ کے باوجود ٹیکس ہدف حاصل نہ ہوا
  • ایف بی آر مالی سال 25-2024 کا نظر ثانی ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام
  • جون میں مہنگائی کی شرح 3سے 4فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے، وزارت خزانہ