جنھوں نے گوگل میپس ایجاد کیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
اسٹیفن ما کو دنیا میں سب سے مشہور آن لائن میپنگ پلیٹ فارم ، گوگل میپس منصفہ شہود میں لاتے ہوئے اہم کردار ادا کرنے پر شیخی مارنے کا پورا حق حاصل ہے۔
اس کے بجائے پچھلی دو دہائیوں سے گوگل میپس کے چار شریک بانیوں میں سے ایک، اسٹیفن ما نے اپنے آپ کو گمنامی کے ایک بڑے بلیک ہول میں دفن کر رکھا ہے۔ لیکن کسی شرمندگی یا پشیمانی کی وجہ سے نہیں ، بات یہ ہے کہ وہ اپنے کارنامے ازخود بیان کرنا پسند نہیں کرتا۔
"میں ایک بہت ہی نجی شخص ہوں۔" ما نے ایک حالیہ غیر معمولی انٹرویو میں بتایا "مجھے شہرت اور لائم لائٹ میں آنا غیر آرام دہ لگتا ہے۔"
8 فروری 2005ء کو شروع ہونے کے بعد جلد ہی گوگل میپس دنیا بھر میں عام انسانوں کی روزمرہ زندگیوں میںانقلاب لے آیا۔ اب تو وہ پانی یا بجلی کی طرح ایک ضروری سروس بن چکا۔ماضی میں کسی انجان و اجنبی منزل تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف لگتا تھا، مگر گوگل میپس کی بدولت یہ مرحلہ اب چٹکیوں میں طے ہو جاتا ہے۔ یہ ایک پاکٹ اٹلس، کمپاس، ریستوراں گائیڈ، بس کا ٹائم ٹیبل اور ہمارے تمام جغرافیائی سوالات کے لیے تلاش اور سفارش کا بہترین و کامل انجن ہے۔
گوگل میپس دنیا بھر میں دو ارب سے زیادہ ماہانہ صارفین پر فخر کرنے والا ایک آن لائن جادوگر بن گیا ہے جو دائرہ کار اور پیمانے میں مسلسل توسیع کے راستے پر ہے۔ یہ ان گنت دیگر پلیٹ فارمز کو بھی طاقت دیتا ہے جن میں ائرنب، اوبر، رئیل اسٹیٹ پورٹلز اور فوڈ ڈیلیوری اور ای کامرس پلیٹ فارم شامل ہیں جو گوگل میپس کی لوکیشنل اور نیویگیشنل صلاحیت پر کلی انحصار کرتے ہیں۔
یہ ٹیکنالوجی اب گوگل یعنی الفابٹ(Google/Alphabet ) ٹیکنالوجی کمپلیکس کا ایک اہم ستون ہے،وہ کمپنی جسے دور جدید کے ممتاز مصنف اور فلسفی یوول نوح ہراری نے ہمارے "ناقابل، الگورتھمک اوور لارڈز" میں سے ایک کے طور پر بیان کیا ہے۔
اب گوگل میپس کی بیسو یں سالگرہ کے موقع پرچون سالہ آسٹریلوی سافٹ ویئر انجینئر، اسٹیفن ما کا دل بدل گیا ہے۔ وہ گوگل میپس بنانے کی کہانی ازسرنو لکھنا چاہتا ہے… اور ساتھ ہی دوسروں کو بھی تسلیم کرانا چاہتا ہے جن کے تعاون کو نظر انداز کر دیا گیا ۔
اگرچہ گوگل میپس کے بانیوں میں شامل ہونے کی وجہ سے اسٹیفن ما کو اب بھی سافٹ انجئینرز کی بنیادی کمیونٹی میں بہت زیادہ احترام حاصل ہے ، خاص طور پر آسٹریلیا میں جہاں گوگل میپس پیدا ہوا تھا۔مگر اسٹیفن ما گھریلو نام نہیں بن سکا لیکن وہ اتنا اہم ضرور ہے کہ اس کی تشریف آوری پر کھلے دل و بانہوں سے استقبال کیجیے۔
ما کی کہانی آسٹریلوی ریاست، نیو ساؤتھ ویلز کے شہر کوما (Cooma)سے شروع ہوتی ہے، جہاں اس کا خاندان ایک چینی ریستوراں چلاتا تھا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط تک ڈریگنز گیٹ نامی یہ ریستوراں کوما کی مرکزی سڑک پر ایک جانی پہچانی جگہ تھی۔وہاں کینٹونیز اورآسٹریلیائی پسندیدہ ڈشیں پیش کی جاتی تھیں جن میں چکن چاؤ مین اور میٹھا اور کھٹا گوشت شامل تھا۔
ریستوراں نے بڑھتے ہوئے خاندان کو روزی روٹی فراہم کی اور ہر کوئی اسے چلانے میں شامل ہو گیا۔ جب ما اسکول نہیں جاتا تھا، تو ادائیگی، بکنگ اور ٹیک وے آرڈر لینے کے کام انجام دیتا۔ تاہم ما کے نزدیک دیگر تمام معاملات میں اس نے ایک عام بچپن گذارا ۔اس کا زیادہ تر وقت اسکرینوں کے سامنے گزرتا تھا۔
"میں نے بہت ساری دقیانوسی ٹیک بیوقوفانہ چیزیں کیں جیسے ویڈیو گیمز کھیلنا اور ایپل II کمپیوٹر پر پروگرام کرنا سیکھنا۔" وہ یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے۔
1998ء تک ما نے یونیورسٹی سے گریجویشن کر لی۔وہ پھر سڈنی میں ایک کمپنی میں کام کر نے لگا۔جلد اسے سلیکون ویلی کی ایک امریکی کمپیوٹر فرم میں اچھے مشاہرے پر ملازمت مل گئی اور وہ امریکہ چلا گیا۔اس زمانے میں ڈاٹ کام بوم اپنے عروج کی طرف گامزن تھا۔ پھر بلبلہ پھٹ گیا اور 2000ء کی دہائی کے اوائل میں ما نے ٹیک سیکٹر میں ہزاروں دیگر افراد کے ساتھ خود کو بے روزگار پایا۔
سڈنی واپس آنے کے بعد ایک سابق ساتھی آسٹریلوی نول گورڈن نے رابطہ کیا۔اس نے ما کو اپنے اور دو دیگر بے روزگار سافٹ ویئر انجینئر دوستوں، ڈینش بھائیوں جینز اور لارس راسموسن کے ساتھ ایک اسٹارٹ اپ کمپنی میں کام کرنے کی دعوت دی۔ ان کا سب سے بڑا خیال ایک نئی قسم کا نقشہ سازی والا آن لائن پلیٹ فارم بنانا تھا۔
اس وقت آن لائن میپنگ کے شعبے میںغیر متنازع مارکیٹ لیڈر ’’میپ کوئیسٹ ‘‘(MapQuest ) نامی سافٹ وئیر تھا، جسے امریکی انٹرنیٹ دیو،اے او ایل (AOL) نے 1999ء میں ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی حیران کن رقم میں حاصل کیا تھا۔
لیکن میپ کوئیسٹ استعمال میں پیچیدہ تھا اور ڈیجیٹل اور ا ینالاگ دنیا کے درمیانی آدھے راستے پر رہتا تھا۔ ایک راستہ تلاش کرتے صارف کو اپنے ڈیسک ٹاپ یا لیپ ٹاپ کمپیوٹر سے باری باری ہدایات پرنٹ کرنی پڑتی تھیں۔ یہ ایک ڈیجیٹل ڈائناسور تھا، جو قریب آنے والی تباہی سے بالکل بے خبر تھا۔
چاروں دوستوں نے اپنی نئی کمپنی کو ’’وئیر2ٹیکنالوجیز‘‘(Where 2 Technologies ) کا نام دیا۔ پیسا تو تھا نہیں لہذا نول گورڈن کے اپارٹمنٹ میں ایک فالتو بیڈروم کو دفتر بنا لیا گیا۔ یہ اپارٹمنٹ سڈنی کے مضافاتی علاقے، ہنٹرز ہل میں واقع تھا۔ انھوں نے جلد ایک ونڈوز ایپلیکیشن پروگرام بنانا شروع کیا جسے انہوں نے ’’ایکسپیڈیشن‘‘ (Expedition) کا نام دیا تھا۔
2004ء میں اس سافٹ وئیر کا ابتدائی نمونہ یا پروٹوٹائپ تیار ہو گیا۔ اس کا اسکرین شاٹ خاصی حد تک گوگل میپس سے ملتا جلتا اور مانوس شکل و احساس دکھاتا ہے۔ سب سے اوپر اور بیچ میں ایک ایڈریس بار ہے، مرکزی شہر سان فرانسسکو کا ایک نقشہ ہے جس میں انٹراسٹیٹ 80 اوور دی بے برج کے بعد ایک راستہ سرخ لکیر کے طور پر نمایاں ہے۔ دو لوکیشن پن ایک کھمبے پر امریکی طرز کے لیٹر باکس کی شکل میں مخصوص مقامات کو نشان زد کرتے ہیں۔کئی برس بعد پہلی بار اسکرین شاٹ کا معائنہ کرتے ہوئے ما کہتا ہے "میں اس حقیقت پر حیران ہوں کہ یہ گوگل میپس سے کتنا ملتا نظر آتا ہے۔"
یہ وہ ڈیمو تھا جو انہوں نے مشہور امریکی سرمایہ کار کمپنی، کیپٹل سیکوا (Sequoia Capital ) کو پیش کیا۔یہ وینچر کیپٹل کمپنی 1970ء کی دہائی سے اسٹارٹ اپ کی دنیا میں کچھ بڑے ناموں کو بینک رول کر چکی تھی۔ چاروں نوجوان امید کر رہے تھے کہ وہ امریکی کمپنی سے کچھ سیڈ فنڈنگ یا ابتدائی سرمایہ حاصل کرلیں گے۔ان کی بچتیں گھٹتی جا رہی تھیں اور وہ اپنی جیبوں سے اپنے ادارے کے اخراجات برداشت کر رہے تھے۔
لیکن مارچ2004ء میں’’ میپس یاہو‘‘ (Yahoo Maps )نے ’اسمارٹ ویو ‘کے نام سے ایک نئی خصوصیت کا آغاز کر دیا جس کی مدد سے صارفین ریستورانوں اور تفریحی مقامات کے لیے نقشے پر مبنی تلاشیں کر سکتے تھے۔ آج یہ تمام آن لائن نقشوں پر ایک معیاری خصوصیت ہے۔ اس جدت کے باعث کیپٹل سیکوا نے وئیر2 ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ۔اسے اپنی رقم ڈوب جانے کا خدشہ تھا۔
تاہم امریکی کمپنی نے آسٹریلوی نوجوانوں کا تعارف گوگل سے کرا دیا جو کیپٹل سیکوا کے اسٹار کلائنٹس میں سے ایک تھی۔ اور گوگل میں کسی اعلی افسر نہیں، انہیں اپنا ڈیمو گوگل کے شریک بانیوں میں سے ایک، لیری پیج کے سامنے پیش کرنا پڑا۔
لیری پیج متاثر ہوا لیکن اس کی ڈیسک ٹاپ سافٹ ویئر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ "ہمیں ویب کے سافٹ وئیر پسند ہیں۔" اس نے آسٹریلو ی ٹیم کو بتایا ۔ یعنی گوگل کو صرف اس صورت میں ان کے پروگرام میں دلچسپی تھی جب نقشے کی خصوصیات ویب براؤزر میں کام کرنے لگیں۔
وئیر 2 ٹیکنالوجیز گوگل سے معاہدہ کرنا چاہتی تھی۔اس لیے چاروں نوجوان اپنے سافٹ وئیر کا ایسا ورژن بنانے پر جت گئے جو ویب براوزر میں کام کر سکے۔کامیابی پانے کے لیے انھوں نے ویب ڈویلپمنٹ تکنیکوں کے ایک غیر معروف سیٹ کا استعمال کیا جو ’’اجیکس ‘‘(Ajax) کہلاتا ہے۔یہ دراصل مختلف ویب زبانوں مثلاً جاوا اسکرپٹ ، ایکس ایم ایل وغیرہ کا مجموعہ ہے۔اجیکس کی بدولت ان کے سافٹ وئیر کا ویب ورژن ایجاد ہو گیا ۔یہ سافٹ وئیر پورے صفحے کو تازہ کرنے کی ضرورت کے بغیر خود کو اپ ڈیٹ کر سکتا تھا۔ یعنی پہلے سے بھرا ہوا ویب صفحہ نیا ڈیٹا لینے کے قابل ہو گیا۔
نقشے کی ایک بڑی تصویر لوڈ کرنے کے بجائے ویب صفحہ متعدد چھوٹے نقشے کی ٹائلیں لوڈ کرے گا اور ضرورت کے مطابق انہیں ڈسپلے کرے گا۔ اس نے متحرک، حرکت کا احساس دیا جس کا آپ اب تمام آن لائن میپنگ پلیٹ فارمز پر تجربہ کرتے ہیں۔ نئے سافٹ وئیر کا ڈیمو زبردست رہا۔ گوگل نے نہ صرف وئیر 2ٹیکنالوجیز کی دانشورانہ املاک کو نامعلوم قیمت پر خرید لیا بلکہ اچھے مشاہرے پر انھیں ملازمت بھی دی۔
"گوگل کم قیمت پر اچھی ٹیموں کو حاصل کر لینے میں بہت اچھا تھا کیونکہ اس زمانے میں گوگل کا کوئی مدمقابل نہ تھا۔" ما کہتے ہیں۔
گوگل نے آسٹریلوی نوجوانوں کا تخلیق کردہ سافٹ وئیر کتنی قیمت میں خریدا؟ یہ امر اب تک نامعلوم ہے لیکن گوگل کی 2004 ء کی سالانہ رپورٹ میں اس کے اشارے موجود ہیں۔ اس نے انکشاف کیا کہ چھ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کی مدد سے چار چھوٹی کمپنیاں خرید کر گوگل میں شامل کی گئیں جن میں وئیر 2 ٹیکنالوجیز بھی ایک تھی۔مذید براں ان کے مالکان کو مستقبل کے بونس دئیے گئے اور گوگل کمپنی کے حصص بھی۔
تب سے گوگل کی ہولڈنگ کمپنی، الفابیٹ کے حصص میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کمپنی 2004 میں شروع ہوئی تو اس کے ایک شیئر کی قیمت تقریباً 2 امریکی ڈالر تھی۔ اب وہ تقریباً 200 ڈالر کے قریب پہنچ چکی۔
7 جون 2004ء کو چاروں آسٹریلوی نوجوان بطور گوگل ملازمین کمپنی کے سڈنی آفس میں کام کرنے لگے ۔تب دفتر میں صرف چھ سیلز لوگ موجود تھے۔ آٹھ ماہ بعد گوگل میپس نے اپنا آغاز کر دیس۔
میلبورن یونیورسٹی میں میڈیا اور کمیونیکیشن کے پروفیسر سکاٹ میک کوائر کہتے ہیں "یہ ایک بہترین پروڈکٹ ہے اور انہوں نے جو کچھ کیا ، وہ بہت کامیابی کے ساتھ کیا۔لیکن گوگل میپس ڈیٹا نکالنے کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ یہ مقام کی معلومات حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ لہذا یہ ان لوگوں اور کمپنیوں کے لیے بہت قیمتی ڈیٹا ہے جو آپ کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔"
اسٹیفن ما کا کہنا ہے کہ جب وہ نقشوں پر کام کر رہے تھے تو کمرشلائزیشن اور ڈیٹا مائننگ ان کے ریڈار پر نہیں تھی۔2006ء میں اس نے گوگل کو خیرباد کہا اور دوسرے پروجیکٹس پر کام کرنے لگا۔اس کے بعد ہی درج بالا معاملات سامنے آئے۔"مجھے نہیں لگتا کہ ہم اس وقت ان کے بارے میں بہت زیادہ سوچ رہے تھے۔" وہ کہتا ہے۔
ما اتفاق کرتا ہے کہ صارف کی خصوصاً نجی معلومات خفیہ رہنی چاہیں۔ کہتا ہے ’’ کمپنیوں کو ایماندار اور شفاف رکھنے کا کام جزوی طور پر صارف کے ہاتھ میں ہے اور جزوی طور پر حکومتوں کی ذمے داری ہے۔سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کا منظرنامہ اتنی تیزی سے بدل جاتا ہے کہ مروجہ ریگولیٹری میکانزم کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہے۔"
فرد کی نجی معلومات افشا ہونے کا خوف محض ایک معاملہ ہے، دیگر سرخ جھنڈے بھی جنم لے چکے۔ مثال کے طور پر سیٹلائٹ نیویگیشن پر ضرورت سے زیادہ انحصارکے باعث انسانی دماغی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ سائنسی مطالعات سے پتا چلا ہے کہ جو ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے گوگل میپس جیسے معاونین پر زیادہ انحصار کریں، ان میں ہیپوکیمپس سکڑ سکتا ہے ، دماغ کا وہ حصہ جو مقامی میموری(spatial memory) سے متعلق ہے۔ ہیپوکیمپس کے سکڑنے سے عقل بھی کم ہو سکتی ہے۔
ما تسلیم کرتا ہے کہ بہت سی نئی ٹیکنالوجیز کے استعمال میں ممکنہ خطرات ہیں لیکن اس کا خیال ہے کہ ہمیں فکر مند ہونے سے زیادہ ان کے بارے میں آگاہ ہونا چاہیے۔ "میں سمجھتا ہوں کہ بحیثیت انسان ہم بہت ہم آہنگ پذیر ہیں۔ لیکن کیا ہم نئی ٹیکنالوجیز کو اس طرح ڈھال رہے ہیں کہ وہ ممکنہ نقصان نہ پہنچا سکیں؟ یہ مجھے نہیں معلوم۔"
جیسا کہ بتایا گیا، اسٹیفن ما شور شرابے اور شہرت سے دور رہنے والا انسان ہے۔ تھوڑا سا غیر روایتی اور جلد نہ گھلنے ملنے والا لیکن اسے اس کردار پر فخر ہے جو اس نے گوگل میپس کو تخلیق کرنے میں ادا کیا۔
"انعام پانے اور محسوس کرنے کے کئی طریقے ہیں۔" وہ کہتا ہے یہ مالیاتی ہو سکتا ہے، یہ پہچان ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ جانتے ہوئے کہ بہت سارے لوگ ایسی چیز استعمال کر رہے ہیں جس کی ایجاد میں ،میں نے مدد کی، یہ شاید اس کا سب سے زیادہ اطمینان بخش حصہ ہے۔"
اس لحاظ سے کہ گوگل میپس بنانے کا کریڈٹ کس کو ملنا چاہیے، ما کا کہنا ہے کہ وئیر2ٹیکنالوجیز کے پیچھے چار لوگ تھے تاہم گوگل میپس کی تخلیق کا سہرا اس لیے جینز اور لارس راسموسن کے سر بندھتا ہے کہ انھوں نے ہی پہلے پہل اسے بنانے کا خیال پیش کیا۔
لیکن کچھ اور لوگ بھی ہیں جن کی شراکت کو نظر انداز کر دیا گیا ۔ما نے خاص طور پر بریٹ ٹیلر، جیمز نورس، اینڈریو کرمسے اور سیٹھ لافورج کا حوالہ دیا جن کے نام اصل گوگل میپس کے پیٹنٹ میں شامل تھے۔ ما کہتا ہے ’’میرے خیال میں سبھی لوگوں کا تذکرہ کرنا اہم ہے کیونکہ اکثر یہ خیال ہوتا ہے ، ایک یا دو لوگ زیادہ تر کام کے ذمے دار ہوتے ہیں، جب کہ تقریباً ہمیشہ یہ ایک ٹیم ہوتی ہے۔"
گوگل میپس کے شریک بانی، نول گورڈن ما کو ایک "راک اسٹار سافٹ ویئر انجینئر" کے طور پر بیان کرتے ہیں جو کوئی چوں چرا کیے بغیر خوبصورت کوڈ لکھ سکتا ہے۔’’اسٹیفن ما ان لوگوں میں سے ایک ہے جو سیدھے اس نکتے پر پہنچ جاتا ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے، واقعی میں۔ وہ صرف اپنے طور کا نابغہ روزگار ہے۔"
ان دنوںما ’’ہیلتھ ریگی ‘‘(Reggie Health )نامی کمپنی میں بطور پارٹنر کام کر رہا ہے۔ یہ کمپنی صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کو انتظامی کاموں میں مدد دینے کی خاطر مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتی ہے جیسے اپوائنٹمنٹس لینا اور دینا، مریضوں کو منظم کرنا اور یاد دہانیاں بھیجنے کی ضرورت انجام دینا۔
چودہ سال قبل گوگل چھوڑنے کے بعد سے مانے صرف اسٹارٹ اپس یا نئی کمپنیوں میں کام کیا ہے۔ اس وقت تک کوئی بھی کمپنی کامیاب نہیں ہوئی لیکن وہ نہ مایوس ہیں اور نہ پژمردہ۔ دراصل وہ ایسا شخص ہے جو ڈالر کمانے یا شہرت پانے نہیں مسائل سے نمٹنے اور حل تلاش کرنے سے لطف و سنسنی حاصل کرتا ہے۔
مسافر دوست ایپ
گوگل میپس ایک ویب میپنگ پلیٹ فارم اور گوگل کی طرف سے پیش کردہ صارف ایپلیکیشن ہے۔ یہ سیٹلائٹ کی تصویر کشی، فضائی فوٹو گرافی، سڑک کے نقشے، سڑکوں کے 360 درجے انٹرایکٹو پینورامک نظارے (اسٹریٹ ویو)، ریئل ٹائم ٹریفک کے حالات اور پیدل، کار، موٹر سائیکل، ہوائی (بی ٹا میں) اور عوامی نقل و حمل کے ذریعے سفر کرنے کے لیے روٹ پلاننگ پیش کرتا ہے۔
گوگل میپس کا سیٹلائٹ ویو "ٹاپ ڈاون" یا برڈز آئی ویو ہے۔ شہروں کی زیادہ تر ہائی ریزولوشن تصویریں 800 سے 1,500 فٹ (240 سے 460 میٹر) کی بلندی پر اڑنے والے ہوائی جہاز سے لی گئی ہوائی فوٹوگرافی ہیں، جب کہ زیادہ تر دیگر تصاویر سیٹلائٹ سے لی گئی ہیں۔ 2011 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دستیاب سیٹلائٹ کی زیادہ تر تصاویر تین سال سے زیادہ پرانی نہیں ہیں اور اسے مستقل بنیادوں پر اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ گوگل میپس نے پہلے مرکٹر پروجیکشن کی ایک قسم کا استعمال کیا تھا، اور اس وجہ سے کھمبوں کے ارد گرد کے علاقوں کو درست طریقے سے نہیں دکھا سکتا تھا۔ اگست 2018 ء میں گوگل میپس کے ڈیسک ٹاپ ورژن کو 3 ڈی گلوب دکھانے کے لیے اپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ ترتیبات میں 2 ڈی نقشے پر واپس جانا اب بھی ممکن ہے۔
موبائل آلات کے لیے گوگل میپس پہلی بار 2006 ء میں جاری کیا گیا تھا۔ تازہ ترین ورژنز میں جی پی ایس نیویگیشن کے ساتھ ساتھ پارکنگ میں معاونت کی مخصوص خصوصیات شامل ہیں۔ 2013 ء تک یہ دنیا کی سب سے مقبول سمارٹ فون ایپ کے طور پر پایا گیا، جس میں 54 فیصد سے زیادہ عالمی اسمارٹ فون مالکان اسے استعمال کرتے ہیں۔ 2017 ء میں ایپ کے اینڈرائیڈ پر دو بلین صارفین کی اطلاع دی گئی تھی، اس کے ساتھ ساتھ یوٹیوب، کروم، جی میل، سرچ، اور گوگل پلے سمیت متعدد دیگر گوگل سروسز بھی تھیں۔
گوگل میپس ایک روٹ پلانر فراہم کرتا ہے، جو صارفین کو ڈرائیونگ، پبلک ٹرانسپورٹ، پیدل چلنا، یا بائیک چلانے کے ذریعے دستیاب سمتیں تلاش کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ گوگل نے GTFS (جنرل ٹرانزٹ فیڈ اسپیسیفیکیشن) کو اپنانے کے لیے 800 سے زیادہ پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کنندگان کے ساتھ عالمی سطح پر شراکت داری کی ہے، جس سے ڈیٹا تیسرے فریق کو دستیاب ہے۔ اکتوبر 2019 ء کے اپ ڈیٹ کی بدولت ایپ صارفین کے ٹرانزٹ روٹ کی نشاندہی کر سکتی ہے۔
انکوگنیٹو موڈ، آنکھوں کے بغیر چلنے کی نیویگیشن خصوصیات پہلے جاری کی گئی تھیں۔ جولائی 2020 ء کی ایک اپ ڈیٹ نے بائیک شیئر کے راستے فراہم کیے ہیں۔ فروری 2024 ء میں، گوگل میپس نے اپنی اینڈرائیڈ اور iOS ایپس کے لیے قابل توجہ ڈائریکشنز کو رول آؤٹ کرنا شروع کیا۔ یہ خصوصیت صارفین کو اپنے آلے کی لاک اسکرین سے اپنے سفر کو ٹریک کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سافٹ وئیر کا میں سے ایک میں کام کر پلیٹ فارم اسٹیفن ما ا سٹریلوی سافٹ ویئر کے طور پر زیادہ تر اور گوگل کرتے ہیں کام کرنے سے زیادہ ا ن لائن کرنے کی کرتا ہے کے ساتھ جاتا ہے کہتا ہے رہے تھے میں ایک یہ ایک کر رہے کے بعد کی ایک ہو گیا اپ ڈیٹ کے لیے اپنے ا
پڑھیں:
ہم قدم ہوتی خواتین
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مئی 2025ء) شعر و شاعری کی زبان میں انھی سے تصویر کائنات میں رنگ بھر دیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہمیں ان کے حقوق اور ان کے لیے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جد و جہد کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک اپنے ہاں کی خواتین کے حقوق اور ان کے لیے مختلف بیمار رویوں سے نجات کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان اس منفی فہرست میں کافی نمایاں نظر آتا ہے۔ یہاں خواتین کو غیر تعلیم یافتہ رکھنے اور انھیں کم تر سمجھنے کی سوچ پوری طرح ختم نہیں کی جاسکی، کوئی بھی ملک اپنی خواتین کو نظر انداز کر کے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا، سو ہمارے ہاں بھی مختلف سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں خواتین کے حقوق اور ان کے لیے مساوات کے حوالے سے جد و جہد کرتی رہی ہیں اور اس کے دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن کافی مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔(جاری ہے)
پاکستان میں مجموعی طور پر شرح خواندگی 62.8 فی صد ہے۔ صنفی اعتبار سے دیکھیے تو مردوں میں یہ شرح 73.4 فی صد اور خواتین میں صرف 51.9 فی صد ہے۔ گویا یہ تعداد نصف ہے۔ کسی بھی سماج میں ایک لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا ایک پورے خاندان کے تعلیم یافتہ ہونے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کا پاؤ حصہ گزارنے کے بعد بھی ہمارے ڈھائی سے تین کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔
ان میں بھی بیش تر تعداد لڑکیوں کی ہے، کیوں کہ فی زمانہ آج بھی لڑکیوں پر تعلیم یا اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہیں۔ ہمارے ہاں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اب بھی شہری اور دیہی ہر دو جگہوں پر مختلف طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ شہروں میں یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی ایک معقول تعداد دکھائی تو دیتی ہے جو خوش آئند ہے، لیکن اس میں ایک سماجی مسئلہ بھی درپیش ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی شادی کے لیے ہم پلہ لڑکوں کا ملنا مشکل ہو جاتا ہے، نتیجتاً انھیں کم تعلیم یافتہ جیون ساتھی ملتے ہیں، جس کی وجہ سے ذہنی ہم آہنگی نہیں ہو پاتی اور نتیجہ خاندانی تنازعات یا علیحدگی کی صورت میں نکلتا ہے۔ دوسری طرف دیہات میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اب بھی وہی پس ماندہ سوچ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں صنفی مساوات پیدا نہیں ہو پاتی، اس لیے دیہی علاقوں میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں کام پر جانے والی خواتین کے لیے آج بھی ایک اہم مسئلہ ہراسانی کا ہے، انھیں کہیں آتے جاتے اور آمد و رفت کے دوران میں مختلف مراحل پر خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آئے روز خواتین کے ساتھ نا زیبا سلوک اور زیادتیوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے کام کی جگہ پر خواتین کے تحفظ کے حوالے سے 2010 کا 'خواتین پر کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف تحفظ کا قانون' موجود ہے جو انھیں ایسی کسی بھی صورت حال سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔صوبہ پنجاب میں "پنجاب ویمنز ٹول فری ہیلپ لائن 1043" اور "ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن" کی "سائبر ہراسانی ہیلپ لائن'' بھی اس حوالے سے متاثرہ خواتین کو مدد فراہم کر رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ "امپاور آرگنائزیشن پاکستان" اور "یو ایس ایڈ" جیسی تنظیمیں بھی تعلیمی میدان میں خواتین کو وظائف فراہم کر رہی ہیں تا کہ ان کی تعلیمی میدان میں حائل رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔خواتین کی سفری سہولتوں کو بہ تر بنانے کے لیے سندھ میں ان کے لیے مخصوص 'پنک بسیں‘ چلائی گئی ہیں جو مکمل طور پر خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔
یہی نہیں بائیک چلانے اور سیکھنے کی خواہش مند لڑکیوں اور خواتین کے لیے 'مفت پنک اسکوٹی‘ فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایسے ہی خواتین کی سفری خود مختاری کے لیے لاہور میں "ویمن آن وہیلز" پروگرام خواتین کو موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دیتا ہے، تا کہ وہ نقل و حمل میں خود مختار ہو سکیں۔پاکستان میں خواتین کے حوالے سے صورت حال اگرچہ آئیڈیل نہیں ہے، لیکن ویمن بینک سے لے کر خواتین پولیس اسٹیشن تک بہت سی سہولتیں ہیں، جو کہ سرکاری اور نجی طور پر خواتین کے لیے فراہم کی جا رہی ہیں۔
مختلف سرکاری محکموں میں بھی خواتین کے لیے مخصوص اسامیوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پاکستانی پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی کا تناسب تقریباً 22 فی صد بنتا ہے۔ جو عالمی اوسط 26 فی صد سے کم ہے۔ اس کے مقابلے میں، نیپال میں یہ تناسب 33.09 فی صد ہے، جب کہ بھارت میں یہ 15 فی صد ہے۔ بات اگر ہندوستان کی ہے، تو ہمارے ہاں کی خواتین کی مجموعی سماجی صورت حال ان کے ہاں سے بہ تر ہے، جب کہ ہندوستان میں ہراسانی، زیادتی اور قتل کیے جانے تک کے اعداد و شمار دہلا دینے والے ہیں۔اس لحاظ سے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ تیسری دنیا کے ایک پس ماندہ ماحول سے نبرد آزما ہونے کے باوجود پاکستان خواتین کی صحت، تعلیم اور ان کے لیے مواقع کے اعتبار سے اپنی صورت حال کو بہ تر کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے متوازن انداز میں روایتی اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے خواتین کو مردوں کے شانہ بہ شانہ کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں، تا کہ خواتین کے حقوق کی راہ میں حائل ہونے والے حلقوں کو تنقید کرنے یا رکاوٹیں ڈالنے کا موقع نہ ملے۔
اگر خواتین کے حوالے سے معاشرے کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہو جائے تو خواتین کی بہ تری کی بہت سی راہیں خود بہ خود ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔