ایم سرورصدیقی
پاکستانی سیاست میں گذشتہ کچھ عرصے سے پروان چڑھنے والا غیر شائستہ اور غیر مہذب وڈیو لیکس کلچرسیاسی و صحافتی حلقوں کیلئے ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے ۔انسانی تہذیب و اخلاق ہی کسی معاشرے کی پہچان ہوا کرتا ہے ۔انسان کی زبان و قلم سے نکلے ہوئے الفاظ ہماری تعلیم و تربیت کے عکاس ہوا کرتے ہیں۔جدید دور میں سوشل میڈیا کی صورت میں فیس بک ،واٹس ایپاور ٹوئیٹر وغیرہ کی جو سہولیات عوام و خواص کو حاصل ہیں ،اس کا سہارا لے کر ہم وہ وہ کارنامے سرانجام دے رہے ہیں کہ جن پر داد و تحسین کی بجائے لعنت بھیجنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔ ناخواندہ افراد سے تو گلہ ہی کیا ،اعلی تعلیم یافتہ خواتین و حضرات بھی تہذ یب و اخلاق سے بے نیاز ہو کر وجہ الفساد کا حصہ بن چکے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بیشتر افراد کی کوئی شناخت موجود نہیں اور یہ ناہنجار لوگ تسلسل کے ساتھ اپنے دل کا غبار نکالنے میں لگے ہیں۔کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے ،اسی اصول پر مخالفین کو ننگا کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے ۔وڈیو لیکس طرز کا ایک نیا کلچر پروان چڑھ رہا ہے ، اس بارے کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ٹیکنالوجی میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے آڈیو اور وڈیوز کو ایڈٹ کرنے کیلئے ایسے ایسے سافٹ وئیر مارکیٹ میں آ چکے ہیںکہ انسان جو چاہے بنا کر وائرل کر دے ۔ فرئزاک لیبارٹری ٹیسٹ سے وڈیوز کے حقیقی یا جعلی ہونے کی تصدیق ممکن ہو چکی ہے ،تاہم کسی بھی مسئلے کو اس عمل سے متنازعہ بنانا آسان ہو گیا ہے ۔ماضی پر نظردہرائیں تو عدالتیں کسی قسم کی آڈیو یا وڈیو ز کو بطور ثبوت تسلیم ہی نہیں کیا کرتی تھیں جبکہ اس دور میں کسی قسم کی جعل سازی ایک مشکل بلکہ بہت ہی مہنگا اور محنت طلب کام ہوا کرتا تھا ،جبکہ موجودہ دور میں یہ سبھی تبدیلیاںبہت ہی کم وقت میں آسانی سے کی جا سکتی ہیں۔سوشل میڈیا فیس بک، ٹک ٹاک اور یو ٹیوب چینلز پر دن رات ایسی ایسی وڈیوز چلائی جا رہی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر جہاں انسان ذہنی اذیت میں مبتلا ہو رہے ہیں ،وہاں دنیا پھر میں پاکستانی قوم کا تشخص بری طرح مجروح ہو رہا ہے۔
یوں تو بہت سے سانحات کے وقوع پذیر ہونے کی وڈیوز بھی پوسٹ کی جارہی ہیں لیکن اگر ان اذیت ناک وڈیوز کا جائزہ لیا جائے تو ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی وڈیوزتو بنا کرہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بریکنگ نیوزعوام تک پہنچاکرگویا کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے ۔جبکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔دیکھا جائے تو کسی ایسے ظلم کی وڈیوز بنانے سے زیادہ مظلوم مرد و خواتین یا بچوں کی مدد کرنا زیادہ اہم ہے ۔بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ملی فریضہ بھی ہے کہ ہم مظلوم کی مدد کریں ، جلتی ،سسکتی انسانیت کو بچائیں۔۔لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم میں انسانیت مر چکی ہے ،ہم مخالفین کو ذلیل و رسوا کرنے کیلئے وڈیوز کی نامناسب ایڈیٹنگ کرکے انسانی تذلیل میں حد سے گذر چکے ہیں اور سبھی اخلاقی اقدار کو بھلا بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر کوئی ناہنجار شخص فائرنگ یا کسی پر ذلت آمیز تشدد کی ویڈیو بناکر غریب کا حشر نشر کردیتے ہیں اب تو آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کے ذریعے ہماری عسکری و سیاسی قیادت اور سیاستدانوں کی انتہائی ناگفتہ ویڈیو ز بھی منظر ِ عام پر آتی رہتی ہے کہ الحفیظ و الامان،ابھی حال ہی میں حادثے میں زخمی ہونے والے شخص کو طبی امداد کے ہسپتال پہچانے کے بجائے اس کی ویڈیو بناک وائرل کرنے کا رحجان زور پکڑگیاہے جو انتہائی خوفناک طرز ِ عمل ہے، کبھی کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ ایسا کرنا گناہ ہے کہ کسی کی مدد کرنے کی بجائے سوشل میڈیا پر اس کی ایسی تیسی پھیردی جائے ،کبھی معصوم بچی کو رسی سے پھندہ لگاتے ہوئے ایک وڈیو وائرل ہوجاتی ہے اور کبھی انتہائی متنازع امور پر ویڈیو فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلئے نظروں سے گزرتی ہے جس سے اتحاد بین المسلمین پارہ پارہ کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے ،اسی طرح کسی شہر میں بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ آ جانے کی وجہ سے دو بندوں کو آگ لگ گئی ، یہ وڈیو بھی بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ وائرل کر دی گئی ،جس میں لوگوں کو پاس سے بھی گذرتے دکھایا گیا ہے لیکن وڈیو بنانے والے نے بھی انہیں بچانے کی کوشش نہ کی ، چند برس پہلے آب پارہ اسلام آباد میں ایک تاجر نے سرعام خود سوزی کر لی تھی۔ اس وقت عوام کا ایک جم غفیر اس مظلوم کی خود سوزی کا نظارہ کرنے کیلئے موجود تھا لیکن کسی ایک بھی فرد نے حتی کہ پولیس سمیت کسی سیکورٹی اہلکار نے بھی اسے بچانے کی زحمت ہی گوارا نہ کی ،المیہ یہ ہے کہ ایک قومی اخبار کے فوٹو گرافر نے جہاں اس مظلوم کی خود سوزی کے دوران مختلف مراحل کی عکس بندی کی ، اور اس میں سے تین فوٹو اپنے اخبار میں شائع کئے وہاں ایک اور اخبار کو بھی یہ فوٹو عطیہ کر دئیے گئے ۔یہ تصاویر موصوف کے نام سے اخبار مذکورہ میں چھپیں ، بعد ازاں جب کیس عدالت میں چلا توفوٹو گرافر کو بھی بطور گواہ طلب کر لیا گیا۔جبکہ ان دنوں سوشل میڈیا پروائرل کی جانے والی وڈیوز کے بارے میں حکومتی ادارے مکمل خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ،اندھیر نگری چوپٹ راج والی صورتحال بن چکی ہے ۔چیئرمین نیب کی ایک خاتون سے گفتگو کی وڈیو چلی تو کچھ عرصے بعد خاموشی اختیار کر لی گئی ،ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ6 جولائی 2019 کو مریم نواز نے پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو جاری کی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں بلیک میل کرکے اور دبا ڈال کر نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا دینے پر مجبور کیا گیا، وگرنہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا اس حوالے سے انہوں نے ایک پریس کانفرنس بھی کر ڈالی جس میں انہوں نے دعوی کیاکہ ان کے پاس بے شمار وڈیوز ہیں ،اگر وہ سب جاری کر دیں تو ایک بھونچال آ سکتا ہے ۔ اس ویڈیو سے یہ تاثر ملتا تھا کہ عدلیہ آزادی سے کام نہیں کرتی اور بلیک میل ہوتی ہے ایسی وڈیوز حقیقی ہیں یا جعلی۔۔اس کا فیصلہ تو ذمہ داران نے کرنا ہے ۔۔لیکن لوگوںکا خیال ہے دوسروں کی پگڑی اچھالنے والی زیادہ تر ویڈیو جعلی ہوتی ہیں ویسے آج کل شوبز سے وابستہ اداکاروں اور ڈرامہ ایکٹریس کی غیر اخلاقی ویڈیو لیک ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ لوگوںکا خیال ہے یہ لوگ خودسستی شہرت کے حصول کے لئے ایسا کرتے ہیں یا ان کے مخالفین جیلس ہوکر کرتے ہیں یہ تو ایک الگ معاملہ ہوسکتاہے لیکن ہماری عسکری و سیاسی قیادت اور سیاستدانوں کی انتہائی ناگفتہ ویڈیو ز لیکس ایک حساس گھمبیر مسئلہ ہے ۔ سوشل میڈیا پر ہماری تمام ہی سیاسی جماعتوں کے عہدیدران یا کارکنان اپنی اپنی جماعتوں کے حق میں جو کمپین چلا رہے ہیں وہ پرموشن کررہے ہیں وہ ان کا حق ہے ۔یہ کسی طور بھی قابل تعریف اقدام نہیں۔اپنی اس سیاست کے ذریعے ہم آنے والی نسلوں کوکیا سکھا رہے ہیں۔اس پر ہم سب کو غور کرنا ہوگا۔یہ سوچ و فکر ہماری آئندہ نسلوں کی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہے ۔اخلاقی اقدار کا جنازہ ہم اپنے ہی ہاتھوں نکال رہے ہیں۔جو کام دشمن اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے کرتا ہے وہی کام ہم اپنے ہاتھوں سرانجام دے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی صورت میں جو سہولیات ہمیں یہود ونصاری ٰنے فراہم کی ہیں ،انہیں ہم نے اپنی بربادی کے ہتھیار بنا لئے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم وڈیو لیکس طرزکی سیاست کو لگام دیں ، اپنے دھندے کوچلانے کیلئے معاشرتی اعلی اقدار کا جنازہ نہ نکالیں۔اسلام نے تو دوسروں کا پردہ رکھنے کا حکم دیا ہے جبکہ ہم تو معاشرے کا ہر ننگ دنیا کو دکھا کر پاکستان اور پاکستانی عوام کے وقار کو مجروح کرنے کے درپے ہیں۔اس سے قبل کے حالات ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں حکومت کوجہاں کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کرنا چاہئے وہاں ہمیں اپنے کردار و عمل پر دھیان دیناہوگا۔ورنہ ایسا نہ ہوکہ ،اب پچھتائے کیا ہوت ،جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر کرنے کیلئے ہے کہ ہم چکے ہیں کرنے کی کی وڈیو رہے ہیں ہیں کہ
پڑھیں:
بابر کو غصہ نہ دلائیں
کراچی:دنیا میں ہر باپ ہی اپنی اولاد سے بے تحاشا محبت کرتا ہے، اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہت بڑا آدمی بنے اور اس کیلیے سخت محنت بھی کرتا ہے، البتہ بڑی کامیابی صرف چند فیصد کے حصے میں ہی آتی ہے۔
بابر اعظم کے والد اعظم صدیقی اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو انٹرنیشنل کرکٹر بنانے کیلیے جو تگ و دو کی اس میں کامیاب بھی رہے، کسی انسان کیلیے اس سے بڑی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کا بیٹا بڑی شخصیت بن جائے اور دنیا بھر میں نام کمائے۔
زیادہ تر کرکٹرز کو دیکھیں تو ان کے والدین پڑھائی پر توجہ دینے کی تلقین کرتے رہے، البتہ بڑے بھائیوں نے کھیلنے میں مدد دی، یہاں معاملہ الٹ رہا،بابر کے والد نے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی، میں نے ایسے کرکٹرز بھی دیکھے جو ساتھی کے ہوٹل روم میں آ کر کہتے تھے کہ ’’یار میرا باپ مجھے بہت تنگ کر رہا ہے، اسپیس ہی نہیں دیتا، تیرے پاس فون آئے تو بولنا یہاں نہیں ہوں‘‘ پھر یہی ہوا جب فون آیا تو جھوٹ کہا گیا۔
دوسری جانب بابر جیسے تابعدار بیٹے ہیں جو اب بھی والد سے پوچھے بغیر کوئی بڑا قدم نہیں اٹھاتے، جو کسی کا عروج دیکھے تو زوال آنے پر سب سے زیادہ دکھ اسی کو ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے بابر اعظم کی کارکردگی اب ماضی جیسی نہیں رہی جس کی وجہ سے وہ قومی ٹیم سے باہر ہوچکے،کپتانی پہلے ہی چھن چکی تھی، پی ایس ایل کا سیزن بھی مایوس کن گذرا، کنگ کا لقب پانے والے بابر کو ایسا دن دیکھنا پڑے گا شاید ہی کسی نے یہ سوچا ہوا۔
ظاہر سی بات ہے والد کو اس کا سب سے زیادہ دکھ ہو رہا ہو گا، ابھی انھیں اپنے بیٹے کو سنبھالنا اور سمجھانا چاہیے کہ ہمت نہ ہارو،محنت جاری رکھو، یہ وقت بھی گذر جائے گا، البتہ اعظم صاحب لگتا ہے خود ہی ہمت ہارنے لگے ہیں،کم از کم ان کے سوشل میڈیا پیغامات تو یہی بیان کر رہے ہیں۔
کامران اکمل نے یہ بات کہی کہ ’’بابر اعظم اور محمد رضوان کو وائٹ بال کی جگہ صرف ٹیسٹ میں حصہ لینا چاہیے‘‘ وہ پاکستان کی جانب سے 250 سے زائد انٹرنیشنل میچز کھیل چکے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کا مکمل حق رکھتے ہیں، کئی دیگر سابق کرکٹرز نے بھی بابر اور رضوان کے بارے میں ایسی باتیں کی ہیں۔
آپ جانتے ہوں گے بابر کے والد اکمل برادرز کے چچا ہیں لہذا انھیں بھتیجے کا مشورہ پسند نہ آیا اور لمبی چوڑی پوسٹ کر دی، میڈیا میں چچا بھتیجے کی لفظی جنگ کا خاصا چرچا رہا، اس منفی پبلسٹی کا کوئی فائدہ نہ ہوا البتہ فرسٹریشن ظاہر ہو گئی۔
بدقسمتی سے ہم کسی کو بہت جلد اوپر پہنچاتے ہیں اور زمین پر واپس لانے میں تو بالکل بھی تاخیر نہیں برتتے، بابر نے اپنی بہترین کارکردگی سے دنیا بھر میں نام کمایا، ہرکھلاڑی کے کیریئر میں بْرا وقت آتا ہے لیکن ان کے والد یا بھائی ناقدین سے لڑنے نہیں لگ جاتے، بابر کو کسی کی ٹویٹ، خبر یا سپورٹ ٹیم میں واپس نہیں لا سکتی، اس کے لیے ان کا بیٹ ہی کافی ہے لیکن متنازع بننے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا، ان کی وجہ سے والد بھی ’’منی سیلیبریٹی‘‘ بن چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہزاروں فالوورز ہیں، وہ کوئی سخت بات کریں تو میڈیا خبر بنا کر چلا دیتا ہے، اس شہرت کا فائدہ نہیں نقصان ہی ہوگا، لائم لائٹ میں بابر کو ہی رہنے دیں، بطور والد ان کی پریشانی سب سمجھتے ہیں لیکن وہ خود کچھ نہیں کر سکتے، بابر کو ہی ماضی جیسی پرفارمنس سے دوبارہ اوپر آنا ہے۔
دراصل سوشل میڈیا نے بھی کھلاڑیوں کے مسائل بڑھائے ہیں، بابر کے نام پر بعض لوگوں نے اتنا کمایا کہ آج بیرون ملک جائیدادوں کے مالک ہیں، یوٹیوب چینلز سے بھی رقوم کمائیں، ایک ’’کرکٹر‘‘ سابق بورڈ چیف تو ان کے پیچھے چھپ کر اپنی خامیاں چھپاتے رہے۔
ان سب نے اپنی دکان چمکانے کیلیے بابر کو کرکٹ سے بڑھ کر شخصیت جیسا روپ دیا، کنگ بنا کر پیش کیا، جب تک بیٹ نے ساتھ دیا سب ٹھیک رہا اب کل کے بچے ٹی وی پر کہتے ہیں کہ ’’بابر کی کمی کوئی بھی پوری کر سکتا ہے‘‘۔
وہ بعض لوگوں کی باتوں میں آکر ان تک ہی محدود رہے، حلقہ احباب بڑھانے کی ضرورت نہ سمجھی، بابر تو برانڈ تھے ان کو کیش کر کے وہ لوگ مڈل کلاس سے اپر کلاس بن گئے، بابر اب تنہا ہیں، صرف ان کے والد ہی ساتھ نظر آتے ہیں، بابر نے بیٹ تو بدل لیا اب اردگرد موجود لوگوں کو بھی بدل کر دیکھیں یقینی طور پر فائدہ ہوگا۔
چمچہ گیری کر کے آسمان پر چڑھانے والے لوگوں سے اب دور ہوں،والد صاحب یقینی طور پر مخلص ہیں ان کی مشاورت سے آگے بڑھیں لیکن ساتھ انھیں بھی کہہ دیں کہ سوشل میڈیا سے ناطہ توڑ لیں۔
بابر کی حال ہی میں ایک ویڈیو آئی جس میں وہ پرستاروں سے الجھ رہے ہیں ایسے معاملات سے بھی بچنے کی کوشش کریں،لوگ تنگ کرتے ہیں ایسے میں نظرانداز کرنا ہی بہتر حل ہے،مداح بھی انھیں غصہ نہ دلائیں اور کھیل پر فوکس کرنے دیں، بابر سوشل میڈیا واریئرز سے دور رہیں جو اب انھیں محمد حارث اور سلمان علی آغا جیسے کرکٹرز سے بھی لڑانے کی کوشش کر رہے ہیں، فلاں نے ان فالو کر دیا فلاں نے نام نہ لیا، ان باتوں میں پڑ کر کچھ حاصل نہیں ہوگا، صرف کارکردگی سے ہی ایسا جواب آ سکتا ہے جو سب دیکھیں گے۔
بدقسمتی سے پی ایس ایل میں بابر کو یہ موقع ملا تھا جس سے وہ فائدہ نہ اٹھا سکے، پاکستان کو موجودہ دور میں جو کرکٹرز ملے بلاشبہ بابر اعظم ان میں بہترین ہیں، انھوں نے ملک کیلیے بڑے کارنامے سرانجام دیے اور وہ بدستور ایسا کر سکتے ہیں، مگر اس کے لیے کھیل پر فوکس رکھیں باقی غیرضروری باتوں کو چھوڑ دیں۔
انھیں انا کو بھی پس پشت رکھنا ہوگا، سابق کرکٹرز سے بھی بات کریں تاکہ فارم واپس لانے میں مدد مل سکے،انگلینڈ ہی چلے جاتے جہاں سیزن جاری ہے،اعظم صدیقی صاحب کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ کوئی فلم نہیں جہاں شاہ رخ خان کی طرح ڈائیلاگ بول دیا کہ ’’ بیٹے کو ہاتھ لگانے سے پہلے باپ سے بات کر‘‘ اصل زندگی میں جب بیٹا مشکل میں پڑا تھا تو بیچارے شاہ رخ بھی خوب پریشان ہو گئے تھے، وہ یہ یاد رکھیں کہ اسٹار بابر ہے وہ نہیں۔
لوگوں سے سوشل میڈیا پر بحث نہ کریں، بابر کو مشورے دیں، اب سائیکل نہیں تو مرسیڈیز میں ہی بٹھا کر گراؤنڈ لے جایا کریں جہاں وہ پریکٹس کر کے پہلے والی فارم میں واپس آ سکیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)