تجارتی ترقی کے اس سفر میں تہران میں تعینات پاکستانی سفیر مدثر ٹیپو کی کوششیں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مدثر ٹیپو نے ایران کیساتھ تجارتی راستے کھولنے اور پاکستانی مصنوعات کی برآمدات بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی تعلقات میں ایک بڑا سنگ میل عبور کر لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق پاک ایران باہمی تجارت 3 ارب ڈالرز سے بڑھ گئی ہے، جو دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون میں بڑی پیشرفت تصور کی جا رہی ہے۔ تجارتی ترقی کے اس سفر میں تہران میں تعینات پاکستانی سفیر مدثر ٹیپو کی کوششیں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مدثر ٹیپو نے ایران کیساتھ تجارتی راستے کھولنے اور پاکستانی مصنوعات کی برآمدات بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ رپورٹس کے مطابق ایران کیلئے پاکستان کی برآمدات 700 ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ خاص طور پر فروزن گوشت کی ایران میں برآمد متعارف کرائی گئی، جو کہ ایک بڑی پیشرفت ہے۔

گزشتہ سال پاکستان نے ایران کو 150 ملین ڈالر مالیت کا فروزن گوشت برآمد کیا، جسے وہاں خوب پذیرائی ملی۔ ایران کو برآمد کی جانیوالی دیگر پاکستانی اشیاء میں کینو، آم، چاول اور دیگر زرعی مصنوعات شامل ہیں، جو ایرانی مارکیٹ میں مقبول ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان ایران سے ایل پی جی  اور بیجو مین درآمد کرتا ہے، جو توانائی اور تعمیراتی شعبے کیلئے اہم ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر یہی رفتار برقرار رہی تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک جا سکتا ہے، جو خطے میں اقتصادی استحکام کا ایک نیا باب رقم کرے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مدثر ٹیپو

پڑھیں:

خام خیالی

اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کے ایک اجلاس میں دھمکی آمیز لہجے میں کہا: "میں ایسا معاہدہ چاہتا ہوں جس کے تحت ایران کی جوہری تنصیبات کی نظارت، مکمل رسائی اور ضرورت پڑنے پر انہدام کا امکان پایا جاتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جس چیز کو بھی چاہیں تباہ کر دیں۔" یہ وہ موقف ہے جسے بلوم برگ سمیت مختلف ذرائع ابلاغ میں مغربی تجزیہ کاروں نے حد سے زیادہ طلب اور حقیقت پسندی سے دور ہو جانے سے تعبیر کیا ہے۔ ان میڈیا ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ ایسے مطالبات تہران کی جانب سے مسترد کر دیے جائیں گے۔ امریکی چینل این پی آر نے بھی اپنی رپورٹ میں ٹرمپ کے عجیب موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "ٹرمپ سمجھتا ہے کہ ایران سے جوہری مذاکرات بھی رئیل اسٹیٹ کاروبار جیسے ہیں۔ وہ ایران سے مذاکرات کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا اور غلطیوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔" تحریر: علی احمدی
 
ان دنوں ایران سے جوہری مذاکرات کے بارے میں جو موقف واشنگٹن کی جانب سے سامنے آ رہا ہے وہ حقیقت سے تناسب رکھنے کی بجائے امریکہ کے جواری صدر کی خام خیالی سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔ ایسے وقت جب امریکی ذرائع ابلاغ عنقریب معاہدہ طے پا جانے کے امکان کا دعوی کر کے ایرانی مذاکراتی ٹیم پر دباو بڑھا رہے ہیں، دونوں ممالک کے حکام کے بیانات اور مغربی ذرائع ابلاغ کے تجزیات سے یوں ظاہر ہوتا ہے جیسے اس حساس ایشو کے بارے میں اتفاق رائے بہت دور ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا پر تازہ ترین بیان میں یہ دعوی کیا ہے کہ معاہدہ بہت قریب ہے۔ البتہ اس نے مطلوبہ معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایسا معاہدہ جس کے تحت امریکی انسپکٹرز جس چیز کو چاہیں ضبط کر لیں اور امریکہ جس مرکز کو چاہے تباہ کر دے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں رائے عامہ کنٹرول کرنے کے مقدمات طے پا رہے ہیں۔
 
مذاکرات کے بارے میں امریکی خواب
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے جمعرات کے روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک بار پھر واشنگٹن کا روایتی موقف دہراتے ہوئے کہا: "ایران مذاکرات کی میز پر ہے اور مذاکرات آگے بڑھے ہیں، ہم ہر نشست میں آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔" امریکی حکام کی جانب سے مذاکرات آگے بڑھنے کی باتیں ایسے وقت کی جا رہی ہیں جب امریکہ اب بھی ممکنہ معاہدے میں مزید مراعات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جیسا کہ وال اسٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ "یورینیم افزودگی کا مکمل تعطل" اور بلوم برگ کی رپورٹ میں حتی "انسپکشن، مکمل رسائی اور ضرورت پڑنے پر جوہری تنصیبات کا انہدام" ایسے ناجائز مطالبات اور توقعات ہیں جن کا خواب امریکی حکمران دیکھ رہے ہیں۔ امریکی صدر نے حال ہی میں اپنی تقریر میں کہا: "میرا خیال ہے کہ ایران کے بارے میں اچھی خبریں ملیں گی، حقیقی اور سنجیدہ پیش رفت ہوئی ہے۔"
 
دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کے ایک اجلاس میں دھمکی آمیز لہجے میں کہا: "میں ایسا معاہدہ چاہتا ہوں جس کے تحت ایران کی جوہری تنصیبات کی نظارت، مکمل رسائی اور ضرورت پڑنے پر انہدام کا امکان پایا جاتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جس چیز کو بھی چاہیں تباہ کر دیں۔" یہ وہ موقف ہے جسے بلوم برگ سمیت مختلف ذرائع ابلاغ میں مغربی تجزیہ کاروں نے حد سے زیادہ طلب اور حقیقت پسندی سے دور ہو جانے سے تعبیر کیا ہے۔ ان میڈیا ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ ایسے مطالبات تہران کی جانب سے مسترد کر دیے جائیں گے۔ امریکی چینل این پی آر نے بھی اپنی رپورٹ میں ٹرمپ کے عجیب موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "ٹرمپ سمجھتا ہے کہ ایران سے جوہری مذاکرات بھی رئیل اسٹیٹ کاروبار جیسے ہیں۔ وہ ایران سے مذاکرات کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا اور غلطیوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔"
 
امریکہ کے ناجائز مطالبات پر ایران کا ردعمل
عنقریب ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدہ طے پانے پر مبنی قیاس آرائیوں کے بارے میں ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا: "مجھے یقین نہیں ہے کہ ہم واقعی ایسی پوزیشن پر ہیں جن کے بارے میں کچھ میڈیا ذرائع اظہار خیال کر رہے ہیں۔ ایران پوری سچائی سے ایسے سفارتی راہ حل کی تلاش میں ہے جو دونوں فریقین کے مفادات یقینی بنا سکے لیکن اس کے لیے ایسے معاہدے کی ضرورت ہے جس میں ایران پر عائد تمام پابندیاں ختم ہو جائیں اور ایران کے جوہری حقوق، جن میں یورینیم افزودگی بھی شامل ہے، اسے مل سکیں۔" انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ "معاہدے کا راستہ مذاکرات کی میز سے گزرتا ہے نہ میڈیا ذرائع سے۔" رہبر معظم انقلاب کے مشیر علی شمخانی نے بھی ٹرمپ کی دھمکیوں پر کہا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کا انہدام وہ خواب ہے جو گذشتہ امریکی صدور بھی دیکھتے رہے ہیں۔
 
بلیم گیم، مستقبل کے لیے امریکی منصوبہ؟
امریکی حکام کی جانب سے بڑے پیمانے پر متضاد موقف سامنے آنے کے بعد سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی معاہدے کی جانب گامزن ہونے کی بجائے ایک ایسا منصوبہ ہے جو بلیم گیم پر مشتمل ہے۔ یعنی اگر تو کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ اسے اپنی سفارتی کامیابی قرار دے گا لیکن اگر مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں اور کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا تو امریکی حکام اس کی تمام تر ذمہ داری ایران پر ڈال دیں گے اور ایران کو قصور وار ٹھہرانے لگیں گے۔ ان کا بہانہ یہ ہو گا کہ ایران نے یورینیم افزودگی کا مکمل خاتمہ یا امریکی انسپکٹرز کو اپنی جوہری تنصیبات تک مکمل رسائی جیسے مطالبات نہ مان کر مذاکرات ناکام بنا دیے ہیں۔ اگرچہ مسقط اور روم میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی پانچ نشستیں منعقد ہوئی ہیں لیکن ان کا نتیجہ خیز ثابت ہونا یقینی نہیں ہے۔
 
بالواسطہ مذاکرات کے انعقاد سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق باہمی گفتگو میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن امریکہ کی جانب سے ناقابل قبول مطالبات اور شرائط ٹھونسنے کی کوشش سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مذاکرات کی بجائے دھمکی آمیز سفارتکاری میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران بارہا اعلان کر چکا ہے کہ معاہدے کا حصول ممکن ہے لیکن ہر قیمت پر نہیں، بلکہ صرف اس صورت میں جب "تمام پابندیاں ختم ہوں گی اور ایران کے جوہری حقوق کا احترام کیا جائے گا"۔ ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی بات کرنا اور تہران کے مطالبات کو یکسر طور پر نظرانداز کر دینا مذاکرات کو ڈیڈ لاک کی جانب لے جائے گا۔ اسی طرح بہت سے ماہرین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو چکا ہے کہ کیا امریکی حکمران میڈیا ذرائع پر دھمکی آمیز بیانات دینا بند کر سکتے ہیں یا ہمیشہ کی طرح منفی رویہ جاری رکھیں گے؟

متعلقہ مضامین

  • وسط ایشیائی ریاستیں، تجارتی تعلقات کی نئی راہیں
  • ایران کا انسانی اسمگلرز کے خلاف کامیاب آپریشن، 10 پاکستانی بازیاب، پاکستان کا اظہار تشکر
  • ایران کیساتھ باہمی تعلقات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، بدر عبدالعاطی
  • فرانس سے تجارتی سامان کی کھیپ ایران سے بذریعہ ٹرین افغانستان پہنچ گئی، طالبان
  • پاک ایران تعلقات، امریکی دباؤ مسترد؟ پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا خصوصی انٹرویو
  • خام خیالی
  • پاک ایران تعلقات میں نئی بلندیاں، باہمی تجارت 3 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی
  • پاکستانی وفد تجارتی مذاکرات کے لیے امریکہ آئے گا، ٹرمپ
  • ٹیرف پر مذاکرات کیلئے پاکستانی حکام آئندہ ہفتے ڈیل کیلئے امریکہ آئیں گے، ٹرمپ