اسلام ٹائمز: امامؒ نے اسرائیل کو ایک "صیہونی سرطان" قرار دیا تھا، ایک ایسا مہلک ناسور جسے اگر امتِ مسلمہ اتحاد و بصیرت کیساتھ کام لیتی تو جڑ سے اکھاڑا جا سکتا تھا۔ امامؒ کی دعوت پر لبیک کہنے کے بجائے، تعصبات، فرقہ واریت، تنگ نظری اور سیاسی مفادات نے ملتِ اسلامیہ کو بے حسی اور بے عملی کی کھائی میں دھکیل دیا۔ یگانگت کی جگہ افتراق نے لے لی، اخوت کی جگہ عداوت نے اور دشمن اس خلا سے فائدہ اٹھا کر آج گریٹر اسرائیل کے خواب دیکھ رہا ہے۔ تحریر :علامہ سید جواد نقوی

امامِ خمینیؒ، وہ مردِ خدا، روحِ بیدار، جنہوں نے نہ صرف امتِ مسلمہ بلکہ تمام انسانیت کو شعور، بیداری اور بصیرت عطا کی، آج ان کی آوازِ حق کی گونج پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے سنائی دے رہی ہے۔ دورِ حاضر میں دنیائے اسلام بے شمار بحرانوں، داخلی خلفشار اور بیرونی یلغاروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ مگر ان بحرانوں سے نجات کا راستہ، وہ عظیم پیشوا ہمیں پہلے ہی دکھا چکے ہیں، ایک ایسا راستہ جو آزمودہ بھی ہے اور نجات بخش بھی اور یہی راستہ قرآن کا راستہ ہے، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا راستہ ہے اور انبیاءِ کرام علیہم السلام کی سنت اور ان کے عظیم انقلابی ہدف کا تسلسل ہے۔ امام خمینیؒ نے بالخصوص حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ کی حیاتِ طیبہ کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا، ان کی اطاعت، اقتداء اور تاسی کو اپنی انقلابی زندگی کا محور قرار دیا اور آج انہی ایامِ حج میں، جب دنیا بھر کے مومنین و مومنات سرزمینِ حرم میں اسوۂ ابراہیمی کو زندہ کرنے کیلئے مجتمع ہیں، امامِ راحل کی دعوت کی بازگشت فضاؤں میں گونج رہی ہے۔

ان کا پیغام گویا ہر حاجی کے دل سے مخاطب ہے کہ حج فقط رسم نہیں، بلکہ ایک  عظیم انقلابی عمل ہے۔ امامؒ نے پوری قوت کیساتھ کوشش کی کہ مرسوم، روایتی اور کاروباری حج کو اس کی اصل، یعنی حجِ ابراہیمی کی روح کے ساتھ زندہ کیا جائے۔ لیکن افسوس! وہی طاقتیں جو حرمِ امن پر قابض ہیں اور وہ عناصر جو امتِ مسلمہ کی گردن پر سوار ہیں، انہوں نے اس شعور کو دبانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ انہوں نے حج کو کاروبار بنا دیا، وحدت کے بجائے تفرقے کا ذریعہ، بیداری کے بجائے بے حسی کا مظہر بنا دیا۔ آج جب ہم گرد و پیش کا جائزہ لیتے ہیں، تو محسوس ہوتا ہے کہ امام راحلؒ کے دور کے مقابلے میں بحران کہیں زیادہ شدید، پیچیدہ اور مہلک ہوچکے ہیں۔ اس دور میں امامؒ نے اسرائیل کو ایک "صیہونی سرطان" قرار دیا تھا، ایک ایسا مہلک ناسور جسے اگر امتِ مسلمہ اتحاد و بصیرت کیساتھ کام لیتی تو جڑ سے اکھاڑا جا سکتا تھا۔

امامؒ کی دعوت پر لبیک کہنے کے بجائے، تعصبات، فرقہ واریت، تنگ نظری اور سیاسی مفادات نے ملتِ اسلامیہ کو بے حسی اور بے عملی کی کھائی میں دھکیل دیا۔ یگانگت کی جگہ افتراق نے لے لی، اخوت کی جگہ عداوت نے اور دشمن اس خلا سے فائدہ اٹھا کر آج گریٹر اسرائیل کے خواب دیکھ رہا ہے۔ فلسطین کی زمین کو نگلنے کے بعد اب وہ دیگر مسلم سرزمینوں پر بھی حریص نگاہیں جما چکا ہے اور خونخوار عزائم کیساتھ امتِ مسلمہ کی غفلت پر قہقہے لگا رہا ہے۔ اسی طرح ایک اور بحران، جس کا پاکستان کو سامنا ہے، وہ بھی اُن مسائل میں سے ہے جن کے بارے میں امامِ راحلؒ نے نہ صرف پیش گوئی فرمائی تھی بلکہ اس سے نجات کی راہ بھی ملتِ پاکستان کو دکھائی تھی۔ امامؒ کو پاکستانی قوم سے ایک خاص انس، اور دلی محبت تھی۔ انہوں نے پاکستان کے عوام کے نام جو پیغامات تحریری یا تقریری صورت میں صادر فرمائے، ہم نے وقتاً فوقتاً ان کے متون اور عبارات کی روشنی میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ ان پیغامات کی تعداد تقریباً سات کے قریب ہے اور ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں صرف اور صرف ملتِ پاکستان کو مخاطب کیا گیا ہے، نہ ان میں ملتِ ایران کا ذکر ہے اور نہ کسی اور قوم کا۔

ان تمام پیغامات میں سب سے جامع اور بصیرت افروز پیغام وہ ہے، جو امامِ راحلؒ نے شہید عارف حسینیؒ کی شہادت کے موقع پر ملتِ پاکستان اور علمائے کرام کے نام صادر فرمایا۔ یہ پیغام امامؒ کے تمام عمر کے خطابات اور بیانات میں چند کلیدی اور رہنماء پیغامات میں شمار ہوتا ہے، جس میں انہوں نے نہایت بنیادی، فکری اور بیداری پر مبنی نکات واضح فرمائے۔ پاکستان پر حملہ ہوا اور یہ حملہ پاکستان کے ازلی دشمنوں، بالخصوص صیہونی دشمنوں کی جانب سے کیا گیا ہے۔ وہ صیہونیت، جو کبھی فقط یہودی دائرے تک محدود تھی، اب ایک عالمی استعمار کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ آج اس میں مسیحی صیہونیت شامل ہوچکی ہے، ہندو صیہونیت اس کا حصہ بن چکی ہے، عرب صیہونیت اس میں مدغم ہوچکی ہے اور بالخصوص مسلم صیہونیت بھی اس کا فعال بازو بن چکی ہے۔ آپ نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ پاکستان کے اندر، خواہ وہ کراچی ہو یا دیگر شہر، سرکاری و غیر سرکاری شخصیات، سیاسی و غیر سیاسی عناصر، حتیٰ کہ بعض مذہبی حلقوں کی جانب سے بھی صیہونیوں کے حق میں آوازیں بلند ہوئیں وہ بھی ایسے وقت میں جب غزہ میں المیہ برپا ہے اور مظلوم فلسطینی خاک و خون میں تڑپ رہے ہیں۔

اس کے باوجود یہ عناصر ہمدردی کے بجائے دشمن کی وکالت میں مصروف ہیں اور اب بھی اپنی اسی روش پر قائم ہیں۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں جو سکوت اور مجرمانہ خاموشی طاری ہے، وہ درحقیقت صیہونیت کے ظلم و ستم کو جاری رکھنے کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ جس طرح صیہونیت کو امریکی اسلحہ، عرب سرمایہ، یورپی تائید اور عالمی اداروں کی پشت پناہی درکار ہے، اُسی طرح اُسے عالمِ اسلام کی خاموشی بھی ناگزیر ہے۔ بدقسمتی سے، مسلمانوں نے اپنی اس خاموشی سے صیہونیت کو عملی تقویت بخشی ہے۔ امامِ راحلؒ اس سکوت کو توڑنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ملتِ اسلامیہ، بالخصوص حجاج کرام کو خطاب کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ جتنی صدائے احتجاج تمہارے دل، جسم اور زبان میں باقی ہے، اسے ظلم کیخلاف بلند کرو، مظلوم کے حق میں فریاد بلند کرو! لیکن افسوس، وہ فریاد بلند نہ ہوسکی اور آج جب غزہ کی سرزمین خون سے رنگین ہوچکی ہے، تب بھی امتِ مسلمہ کی زبانوں پر خاموشی کی مہر لگی ہوئی ہے۔

اس وقت پاکستان جن ہمہ گیر اور مہلک بحرانوں کی لپیٹ میں ہے، ان کا حقیقی اور پائیدار حل وہی ہے، جو امامِ امت، امامِ راحلؒ نے اپنی حکیمانہ بصیرت سے برسوں پہلے امت کے سامنے رکھا تھا۔ امامؒ نے بڑی وضاحت سے فرمایا تھا کہ جو افراد فرعونی مزاج رکھتے ہیں، جن کے باطن میں فرعونیّت کی رگ پھڑک رہی ہو، یا جو خود کو فرعونِ عصر بنانے پر تُلے ہوں، چاہے وہ مودی ہو، ٹرمپ ہو یا نیتن یاہو ان سے مفاہمت و مصالحت کی کوئی صورت کارگر نہیں ہوسکتی۔ یقیناً، سفارتکاری کا دروازہ بند نہیں ہونا چاہیئے اور ہمیں گفتگو کے امکان کو یکسر رد بھی نہیں کرنا چاہیئے، لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ محض مذاکرات سے کبھی کوئی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کمزور فریق نے شیطانی قوتوں کیساتھ میزِ مذاکرات پر بیٹھنے کی سعی کی، نتائج ہمیشہ اُن کے حق میں نہ نکلے۔ فلسطین کے متعلق قراردادیں ہوں، کشمیر کے تنازعات پر معاہدات ہوں یا پاکستان و بھارت کے مابین طے پانیوالے مشترکہ معاہدے حتیٰ کہ پانی کی تقسیم سے متعلق معاہدہ بھی سب استکبار کے بوٹوں تلے روند دیئے گئے۔ لہٰذا نئے مذاکرات سے بھی کسی کرامت کی امید رکھنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔

امامؒ نے قوم کو جو راستہ دکھایا، وہ مزاحمت کا راستہ ہے، وہی راہِ مقاومت جو انبیائے کرام علیہم السلام نے دکھائی، وہی طریقِ ابراہیمی، اور وہی مشنِ حسینی جس پر چل کر انسان ظلم کے بتوں کو پاش پاش کرتا ہے۔ امام حسینؑ کے راستے کو امام راحلؒ نے امت کیلئے نجات کا واحد زینہ قرار دیا۔ امامؒ کو پاکستان سے بےحد امیدیں وابستہ تھیں۔ وہ اس سرزمین کے بارے میں غیر معمولی خوش بینی رکھتے تھے اور اُن کا یہ پختہ یقین تھا کہ ایران کے بعد اگر بیداری کا کوئی قلعہ مضبوطی سے کھڑا ہوسکتا ہے، تو وہ پاکستان ہے۔ یہ اُمید امامؒ کی محض جذباتی وابستگی نہیں، بلکہ فکری و تاریخی شعور پر مبنی تھی۔ امامؒ کی اس امید کا سبب یہ تھا کہ ان کے پیغام کو جس سماج میں سب سے زیادہ فکری ہم آہنگی اور نظریاتی آمادگی میسر تھی، وہ پاکستان ہی تھا۔ امامؒ جانتے تھے کہ یہاں ایسی فکری زمین موجود ہے، جو انقلابی بیج کو نمو دے سکتی ہے۔

جیسا کہ رہبرِمعظم دام ظلہ العالی نے اپنے ایک تاریخی خطاب میں بجا طور پر فرمایا کہ "علامہ اقبالؒ درحقیقت امتِ مسلمہ کیلئے بیداری کے مؤذن ہیں۔" آپ نے فرمایا کہ ایران میں جو انقلابی بیداری کی لہر اٹھی، اس کے پس پردہ علامہ اقبالؒ کی فکر کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔ رہبرِ معظم نے افسوس کیساتھ ایرانی علماء و دانشوروں سے شکوہ کیا کہ انہوں نے علامہ اقبال کے پیغام کو ایران تک پہنچانے میں تاخیر کی، اُنہیں اُن کی حیات میں مدعو نہیں کیا، نہ ان کی فکر کو سنجیدگی سے اپنایا۔ تاہم، باوجود ان کوتاہیوں کے، کچھ باہمت افراد نے علامہ اقبالؒ کے افکار کو جوانانِ عجم تک پہنچایا، اور یہی فکر ایران میں بیداری کی چنگاری بن گئی۔ رہبرِ معظم کی تحلیل کے مطابق، مرحوم ڈاکٹر علی شریعتی نے اقبالؒ کو ایرانی قوم سے متعارف کروایا، ان کا پیغام نشر کیا اور انقلابی نوجوانوں کے دلوں میں اقبالؒ کا الہامی ولولہ بیدار کیا۔ نتیجتاً، علامہ اقبالؒ کی وہ پیش گوئی، جو انہوں نے ایرانی قوم کے بارے میں کی تھی، پوری آب و تاب سے سچ ثابت ہوئی کہ وہ مردِ آفاقی جو تمہاری ذلت آمیز زنجیروں کو توڑ ڈالے گا، آنیوالا ہے اور وہ آئے گا اور ایسا ہی ہوا۔

اقبالؒ کی پیش گوئی سو فیصد درست ثابت ہوئی۔ جوانانِ عجم نے اس مردِ آفاقی کو پہچانا، اس کا ساتھ دیا اور تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ یہی بنیاد تھی، جس پر امامِ امتؒ نے پاکستانی قوم سے روشن اُمیدیں وابستہ کیں۔ امام خمینیؒ اس لیے پاکستان سے غیر معمولی حد تک پُرامید تھے کہ یہاں اقبال جیسی عظیم ہستی پہلے ہی تشریف لا چکی تھی۔ اقبال وہ نایاب نعمت ہیں، جنہوں نے نہ صرف برصغیر بلکہ عالمِ اسلام میں ایک منفرد اور مؤثر انداز میں پیغامِ بیداری دیا۔ امام کی یہ امید بالکل بجا تھی کہ جو قوم اقبال جیسے مفکر و رہنماء کی وارث ہو، وہ فکری لحاظ سے جلد ہی انقلاب اور امام کے پیغام کو سمجھنے اور قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مگر افسوس کہ پاکستان کو صرف بیرونی دشمنوں، جیسے مودی یا ہندوستان کا سامنا نہیں، بلکہ وہ اندرونی طور پر بھی شدید بحرانوں اور پیچیدہ مسائل میں گھرا ہوا ہے۔

مذہبی انحرافات، سیاسی آلودگی، قومی خلفشار، فکری جمود اور اجتماعی بے شعوری نے نہ صرف اقبال کے پیغام کو دھندلا دیا، بلکہ امام خمینیؒ کے نورانی پیغام کی ترویج و اشاعت میں بھی دیواریں کھڑی کر دیں۔ وہ پیغام جو اس قوم کی تقدیر بدل سکتا تھا، اسے ویسا فروغ نہیں دیا جا سکا، جیسا دیا جانا چاہیئے تھا۔ بہرکیف، امام خمینیؒ کی پُرامیدی کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ بیداری کے جس آسمانی پیغام کی زمین ہموار کرنی تھی، اس کا پہلا اور عظیم علمبردار یعنی علامہ اقبالؒ پاکستان میں گزر چکا تھا۔ امام کا یہ یقین بے سبب نہ تھا کہ جس قوم نے ایسا سرمایہ اپنے دامن میں سمیٹا ہو، وہ یقینی طور پر اس پیغام کی معنویت کو سمجھے گی اور آج ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ پاکستان جن گھمبیر بحرانوں سے دوچار ہے، اُن کے پسِ پردہ سیاسی، مذہبی اور سماجی سطح پر بے شعوری، غفلت اور داخلی انتشار جیسے عوامل کارفرما ہیں۔

ان تمام بحرانوں سے نجات کا وہی نسخہ ہے، جو امام خمینیؒ نے عملًا پیش کیا، وہی نسخہ جو اقبال کے پیش گوئی کردہ "مردِ آفاقی" نے عملی جامہ پہنایا، وہی مردِ انقلابی جس نے ایران جیسی زنجیروں میں جکڑی قوم کو رہائی دلائی۔ قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ ایران کی زنجیریں، اپنے جغرافیائی، تاریخی، سیاسی اور معاشرتی پس منظر کے اعتبار سے، پاکستان کی زنجیروں سے کہیں زیادہ سخت، گہری اور مضبوط تھیں۔ جب وہ زنجیریں ٹوٹ سکتی ہیں تو پاکستان کی زنجیروں کا ٹوٹنا اس سے کہیں زیادہ ممکن ہے، بشرطیکہ ہم اس مردِ آفاقی کی فکر کو اپنائیں، اس کی رہنمائی کو دل سے تسلیم کریں اور اس کے راستے پر گامزن ہوں۔ یہی مردِ آفاقی، یہی اقبال کا مردِ موعود، نہ صرف پاکستان کی زنجیروں کو توڑ سکتا ہے، بلکہ وہ فلسطین کے گرد حائل زنجیروں کو بھی پارہ پارہ کرسکتا ہے، وہ عرب دنیا کی بےحسی اور غلامی کی زنجیروں کو بھی توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بشرطیکہ اس کی فکر کو اختیار کیا جائے اور اس کے راستے پر عملی طور پر چلا جائے۔

جیسا کہ امام خمینیؒ نے واضح طور پر فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے عزت و وقار کا واحد راستہ مزاحمت، پائیداری اور استقامت کا راستہ ہے۔ پاکستان نے حالیہ دنوں میں معمولی سی استقامت دکھا کر یہ ثابت کر دیا کہ نجات کی راہ مذاکرات یا مفاہمت میں نہیں، بلکہ استقامت و مقاومت میں ہے اور یہی پیغام فلسطین و غزہ کیلئے بھی راہِ نجات ہے۔ یہی امام کا پیغام آج دنیا بھر کیلئے ہے۔ یہی فکر پاکستان کی نجات کا ذریعہ ہے، بلکہ ہر مظلوم سرزمین کی نجات کا راستہ ہے۔ جس ملت کے پاس ایک طرف اقبال جیسی روشن ضمیر اور صاحبِ بصیرت شخصیت ہو اور دوسری طرف امام خمینیؒ جیسا نورانی رہبر میسر ہو، اسے نہ ذلت قبول کرنی چاہیئے، نہ اُسے اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اقبالؒ نے عزت کا راستہ دکھایا، امام نے عزت کا راستہ اپنایا، جب دونوں رہنماؤں کا پیغام ہمارے سامنے ہے اور جب ہم ان دونوں انمول فکری سرمایہ جات کے وارث ہیں، تو ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عزت عطا فرمائے گا اور امتِ مسلمہ ان شاء اللہ وہ آزادی ضرور حاصل کرے گی، جس کی نوید ان عظیم رہنماؤں نے دی تھی۔

جس طرح ایرانی قوم نے اقبالؒ کے پیغام کو اپنانے میں کوئی تردد نہ کیا، کوئی عار نہ سمجھی، بلکہ اس پر فخر کیا، وہ ہمارے لیے ایک آئینہ ہے۔ ایران کے رہبرِ معظم، وہ بلند مرتبہ ہستی جنہیں آج دنیا حکمت و قیادت کی اعلیٰ مثال کے طور پر جانتی ہے، وہ فرماتے ہیں "میں اقبال پر فخر کرتا ہوں اور خود کو اقبال کا مرید سمجھتا ہوں۔" جب ایک رہبرِ جہانِ اسلام، ایسا مردِ خدا، اقبال جیسی ہستی کے دامنِ فکر سے وابستہ ہو کر فخر محسوس کرے تو افسوس صد افسوس! پاکستان میں بعض کوتاہ بین، کم نظر اور غفلت زدہ افراد بالخصوص چند نادان مولوی امام خمینیؒ جیسے آفتابِ بصیرت کی فکر اپنانے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ امام خمینیؒ ہرگز عار نہیں، بلکہ اصل عار تم ہو! تمہاری تنگ نظری، تمہاری بے شعوری، تمہاری فکری غلامی اور تمہاری خود ساختہ برتری کا زعم تمہارے لیے عار ہے اور اے صاحبانِ عزم و بصیرت! آپ وہ خوش بخت ہیں، جنہوں نے امام خمینیؒ کی فکر کو پاکستان اور عالمِ اسلام میں متعارف کروانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔

یاد رکھیں، کسی عظیم فکر کی ترویج سال میں محض ایک برسی یا ایک نشست سے نہیں ہوا کرتی، بلکہ یہ تو وہ مشعلِ ہدایت ہے، جسے صبح و شام ایک کرکے، دل سوزی و مسلسل جدوجہد سے، ملت کے دل و دماغ میں روشن کرنا پڑتا ہے اور آج یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ یقین جانیئے اس فکر کی برکت سے پاکستان کی حفاظت ہوگی، فلسطین، کشمیر، اقصیٰ اور غزہ ان شاء اللہ آزاد ہوں گے۔ تمام مزاحمین و مقاومین، جیسے حماس اور دیگر مجاہدین، اللہ کے حکم سے صہیونیت کو شکست دیں گے، خواہ وہ عرب ہو، عبرانی ہو، مسیحی ہو یا ہندو و مسلم پوشیدہ صہیونیت۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اندرونی و بیرونی دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے، ملتِ پاکستان کو بیداری و شعور عطا فرمائے، امتِ اسلامیہ کو شعور و وحدت دے اور خاص طور پر اللہ تعالیٰ مظلوم کشمیر، فلسطین، غزہ اور یمن کی مدد فرمائے، ان پر ڈھائے گئے ظلم و ستم سے نجات دے اور ظالموں کو نیست و نابود کرے۔ جیسا کہ امام خمینیؒ نے فرمایا تھا: "اسرائیل باید از بین برود۔" ان شاء اللہ یہ وعدہ مسلمانوں اور مجاہدین کے ہاتھوں عملی ہوگا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کہ امام خمینی علامہ اقبال کا راستہ ہے کے پیغام کو کی زنجیروں کہیں زیادہ پاکستان کی زنجیروں کو پاکستان کو کی فکر کو مسلمہ کی پیش گوئی کا پیغام قرار دیا کے بجائے انہوں نے نجات کا سے نجات اور یہ اور آج تھا کہ کی جگہ اور ان ہے اور

پڑھیں:

غزہ جنگ بندی قرارداد ویٹو ہونے سے بہت خطرناک پیغام جائے گا: پاکستان

نیویارک (نیوز ڈیسک) پاکستان نے کہا کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کی قرارداد کے ویٹو ہونے سے بہت خطرناک پیغام جائے گا۔

سلامتی کونسل اجلاس میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زمین پر غزہ کا حال جہنم سے زیادہ برا ہے، غزہ میں 54ہزارسے زائد فلسطینی شہید ہوچکے، یہ انسانی ایشو نہیں انسانیت کی تباہی ہے، غزہ کے حالات بدسے بدتر ہو رہے ہیں۔

عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ اسرائیل مسلسل عالمی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے، اسرائیل فلسطینیوں کو ان کی ہی زمین سے بے دخل کرنے کے درپے ہے، پاکستان فلسطینی عوام کی بھر پور حمایت جاری رکھے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں خوراک کی فراہمی کیلئے پاکستان ہمیشہ آواز اٹھاتا رہے گا، سکیورٹی کونسل کی جانب سے جنگ بندی میں ناکامی تاریخ میں یاد رکھی جائے گی۔

واضح رہے کہ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں مستقل جنگ بندی اور امداد کی بلارکاوٹ فراہمی کی قرارداد ویٹو کر دی ہے۔

سلامتی کونسل کے 15 میں سے 14 ارکان نے غزہ جنگ بندی مطالبے کےحق میں ووٹ دیا، قرارداد کےحق میں ووٹ دینے والوں میں پاکستان بھی شامل تھا۔

عاصم افتخار نے کہا کہ پاکستان کوغزہ جنگ بندی کی قرارداد ویٹو ہونے پر افسوس ہے، جنگ بندی کی قرارداد مسترد ہونا عالمی انسانی قوانین کی خلاف ورزی ہے، غزہ میں مستقل جنگ بندی اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد، ایم ڈبلیو ایم کے وفد کی علامہ سید زاہد حسین کاظمی سے ملاقات، بھائی کی وفات پر اظہار افسوس 
  • امام خمینی نے اپنی حکمت و بصیرت اور کمال دانشمندی سے اسلام مخالف قوتوں کو زیر کیا، علامہ قاضی نادر حسین علوی
  • ریل رابطہ خوش آئند مگر انسانیت پر مبنی اقدام اصل راستہ ہے، میرواعظ کشمیر
  • پاکستان سے جنگ میں بھارت کے گرنے والے طیاروں کے پائلٹ کہاں گئے؟ انکشاف سامنے آگیا
  • عالمِ اسلام امام خمینیؒ کے بتائے ہوئے راستے کا پہلے سے زیادہ محتاج ہے، علامہ جواد نقوی
  • غزہ جنگ بندی قرارداد ویٹو ہونے سے بہت خطرناک پیغام جائے گا: پاکستان
  • پاک بھارت جنگ کے دوران پروپیگنڈا، علیمہ خان اور آفتاب اقبال سمیت 4 افراد طلب
  • آفتاب اقبال ہندوستانی اور آپریشن سندور
  • امام خمینی ؒ ۔۔۔۔۔ احیاء گر اسلام، عدیم المثال شخصیت