دہشت گرد اسرائیل کو سخت جواب دیں گے(سپریم لیڈر خامنہ ای)
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
(ایران کا اسرائیل پر رحم نہ کرنے کا عہد)
ایران کبھی سرنڈر نہیں کرے گا اور نہ ہی صیہونی ریاست پر رحم کیا جائے گا( ایکس پر پیغامات) آپریشن وعدہ صادق سوم کی دسویں لہر کا آغاز ، اسرائیل پر مزید میزائل داغ دیے
اسرائیل میں خطرے کے سائرن بج اٹھے،اسرائیلی حکومت کی شہریوں کو بنکرز میں جانے کی ہدایت، اسرائیل کی فضائوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا،ایرانی پاسداران انقلاب
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کے خلاف جنگ کا اعلانیہ آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ صہیونی دہشت گرد ریاست پر رحم کا وقت ختم ہوچکااور سخت جواب دینا ناگزیر ہے۔ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، آیت اللہ خامنہ ای نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس(سابق ٹوئٹر) پر دو اہم پیغامات میں کہاجنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔صہیونی ریاست پر رحم نہیں کیا جائے گا۔ایک پوسٹ میں ایک شخص کی تصویر بھی شامل تھی جو تلوار لیے قلعے کے دروازے میں داخل ہو رہا ہے، جسے بعض مبصرین نے خیبر کے قلعے کی فتح سے تعبیر کیا ہے، جو اس بیان کو مذہبی اور تاریخی شدت دے رہا ہے۔دوسری جانب ایران نے آپریشن وعدہ صادق سوم کی دسویں لہر کا آغاز کرتے ہوئے اسرائیل پر مزید میزائل داغ دیے جس سے پورے اسرائیل میں خطرے کے سائرن بج اٹھے، ایران کی پاسدارانِ انقلاب (IRGC) نے اسرائیل کے خلاف تازہ حملوں کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے "مقبوضہ علاقوں کی فضاؤں پر مکمل کنٹرول” حاصل کر لیا ہے اور اسرائیلی دفاعی نظام ایرانی حملوں کے آگے بے بس ہو چکا ہے۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے ایک اور میزائل حملہ کیا گیا ہے، جو گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کیے گئے کئی حملوں میں تازہ ترین ہے۔ اس حملے کے بعد پورے اسرائیل، بشمول تل ابیب، میں خطرے کے سائرن بج اٹھے۔اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی میزائلوں کی تازہ ترین بارش نے ملک بھر میں فضائی حملے کی وارننگز کو فعال کر دیا ہے جس سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایران نے 20 میزائل داغے ہیں جبکہ شہریوں کو بنکرز میں جانے کی ہدایت کی گئی۔ایرانی خبر رساں ایجنسیوں میں شائع ہونے والے ایک بیان میں پاسدارانِ انقلاب نے کہا کہ ان کے طاقتور اور متحرک "فتح میزائلوں” نے اسرائیلی میزائل دفاعی نظام کو چیرتے ہوئے اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنایا جو ایران کی قوت اور برتری کا واضح پیغام ہے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم مقبوضہ علاقوں کی فضاؤں پر مکمل کنٹرول حاصل کرچکے ہیں اور وہاں کے رہائشی ایرانی حملوں کے سامنے مکمل طور پر غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای تنہا پڑتے جا رہے ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جون 2025ء) چھیاسی سالہ، آیت اللہ علی خامنہ ای ایران کو اس کے سب سے خطرناک سیاسی اور دفاعی حالات میں کشتی کو پار لگانے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، باوجودیکہ وہ خود اسرائیل کے اہم اہداف میں سے ایک ہیں۔ ان کے کئی اعلیٰ فوجی اور انٹیلیجنس مشیر یا تو ہلاک ہوچکے ہیں یا لاپتہ ہیں، جس نے فیصلہ سازی کے بنیادی مرکز کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ایسے اقدامات کے خدشات کو جنم دیا ہے جو ممکنہ طور پر ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
حماس کے ساتھ جو کیا وہ ایران مت بھولے، اسرائیل کا انتباہ
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق، جس میں خامنہ ای کے انتہائی قریبی حلقے سے وابستہ پانچ افراد کا حوالہ دیا گیا ہے، پاسداران انقلاب کے سینیئر اہلکاروں کے ہلاک ہو جانے سے، جن پر سپریم لیڈر سب سے زیادہ بھروسہ کرتے تھے، نے ایک اہم اسٹریٹجک خلاء پیدا کر دیا ہے۔
(جاری ہے)
اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے پیر کو اے بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ علی خامنہ ای کو ختم کرنے سے جنگ میں اضافہ نہیں ہو گا بلکہ یہ’’ختم‘‘ ہو جائے گی۔
غلط اندازے کا خطرہروئٹرز کی رپورٹ میں بیان کردہ ذرائع میں سے ایک، جو اکثر خامنہ ای کے ساتھ ملاقاتوں میں شریک رہے ہیں، نے خبردار کیا کہ صورت حال ایک نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’’دفاعی اور داخلی استحکام کے معاملات پر ایران کے لیے غلط حساب کتاب کا خطرہ انتہائی خطرناک ہے۔
‘‘حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں میں، جس میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران شدت آئی ہے، کئی اعلیٰ کمانڈروں بشمول پاسداران انقلاب کے کمانڈر حسین سلامی، ایران کے میزائل پروگرام کے سربراہ امیر علی حاجی زادہ اور اس کے اعلیٰ انٹیلی جنس سربراہ محمد کاظمی ہلاک ہو گئے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مذکورہ بالا تمام افراد ان 15-20 لوگوں میں شامل ہیں جنہیں خامنہ ای کی بنیادی مشاورتی ٹیم کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
امریکی حملے کی صورت میں ایرانی ردعمل سخت ہو گا، خامنہ ای
سن انیس سو نواسی میں اقتدار میں آنے کے بعد سے، آیت اللہ علی خامنہ ای ایران کی مسلح افواج اور اہم ریاستی تقرریوں پر حتمی کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کی آہنی گرفت کے باوجود، اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ باقاعدگی سے اپنے مشیروں سے مشورہ کرتے ہیں، مسابقتی نقطہ نظر کو سنتے ہیں، اور فیصلہ کرنے سے پہلے تفصیلی معلومات پر اصرار کرتے ہیں۔
رپورٹ میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں ایران پروگرام کے ڈائریکٹر الیکس واٹنکا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’’خامنہ ای کے بارے میں آپ دو باتیں کہہ سکتے ہیں: وہ انتہائی ضدی ہیں لیکن انتہائی محتاط بھی ہیں۔‘‘
ایک کھوکھلا دائرہقتل کا حالیہ سلسلہ ایسے وقت شروع ہوا جب ایران بہت زیادہ دباؤ میں ہے۔ مغربی پابندیوں کے تحت گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے گھر میں بڑھتی ہوئی بدامنی، اور اسرائیل کے ساتھ بڑھتا ہوا تنازع، جس نے ایرانی فوجی اور جوہری اہداف پر اپنے حملوں کو تیز کر دیا ہے۔
ایران سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں: معاہدہ یا پابندیاں، ٹرمپ
خامنہ ای کی اقتدار پر گرفت نے تاریخی طور پر 1999، 2009 اور 2022 میں احتجاج کو کچلنے کے لیے پاسداران انقلاب اور اس کی بسیج ملیشیا پر انحصار کیا ہے۔ تجزیہ کار خبردار کرتے ہیں کہ معاشی پریشانی بدامنی کو مزید سنگین بناسکتی ہے۔
اگرچہ فوجی ہلاکتوں نے شہ سرخیوں میں جگہ پائی ہے، سیاسی اور سفارتی مشیر اب بھی کام کرنے والی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
خامنہ ای کے بااعتماد ساتھیوں میں خارجہ پالیسی کے تجربہ کار علی اکبر ولایتی، کمال خرازی، پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر علی لاریجانی اور انٹیلی جنس کے ہیوی ویٹ علی اصغر حجازی شامل ہیں۔پھر بھی، اہم فوجی شخصیات کی عدم موجودگی اور اسرائیلی حکومت کی کھلی دھمکیاں ایران کے سب سے اہم میدان، یعنی اس کی علاقائی فوجی حکمت عملی اور داخلی سلامتی میں ایک خطرناک صورت حال کی نشاندہی کرتی ہیں۔
خامنہ ای کے بیٹے مجتبیٰ کا عروجاقتدار کی اس تبدیلی کے سائے میں خامنہ ای کے بیٹے، مجتبیٰ خامنہ ای سامنے آئے ہیں، جن کے کردار میں پچھلی دو دہائیوں کے دوران نمایاں طور پر وسعت آئی ہے۔
ایک درمیانے درجے کے عالم، مجتبیٰ پردے کے پیچھے متعدد دھڑوں، خاص طور پر پاسداران انقلاب کے ساتھ ایک طاقتور رابطہ کار بن گئے ہیں، کو ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ایران سے باہر بھی خامنہ ای کو نقصان ہوا ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ جو ان کے قریبی ساتھی تھے ستمبر میں اسرائیلی حملے میں مارے گئے۔ دسمبر میں، ایران کے ’’محور مزاحمت‘‘ کے ایک اور اہم رکن شام کے بشار الاسد، کو باغیوں نے معزول کر دیا تھا۔
جیسا کہ خامنہ ای اپنی حکمرانی کے شاید سب سے زیادہ خطرناک مرحلے کا سامنا کر رہے ہیں، اس بار، ان بہت سے ہمدردوں کے نہ ہونے سے جن پر وہ کبھی انحصار کرتے تھے اور اسرائیل کی طرف سے ایران کے ’’محور مزاحمت‘‘ پر حملے کی وجہ سے وہ مزید تنہا ہو گئے ہیں۔
لبنان کے مسلح گروپ حزب اللہ، یمن کے حوثی باغی اور فلسطین کی حماس عسکری تنظیم کے ساتھ ساتھ ایران کے دیگر پراکسی اور ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کو ’’محور مزاحمت‘‘ کہا جاتا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین