data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مئی اور جون ۲۰۲۵ کے دوران عالمی منظرنامہ شدید کشیدگی، معاشی غیر یقینی، ماحولیاتی بگاڑ اور سماجی اُبال سے عبارت رہا۔ خاص طور پر ایران اور اسرائیل کے مابین بڑھتے ہوئے تصادم نے دنیا کو ایک نئی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ اسرائیل نے ایران پر حملے میں پہل کی اور شدید حملہ کرکے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جواب میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر بلسٹک میزائل اور ڈرون حملے کیے، اسرائیل نے ایران کے میزائل اور جوہری تنصیبات اور جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا۔ ایران کی جانب سے ہائپرسونک میزائل رکھنے کی اطلات پر بین الاقوامی ماہرین نے شکوک ظاہر کیے، تاہم یہ اطلاع بھی جنگی نفسیات کی ایک مثال بن کر سامنے آئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی ’’بے شرط ہتھیار بندی اور جوہری پروگرام سے دستبرداری‘‘ کا مطالبہ کیا، مشرقِ وسطیٰ میں پہلے ہی امریکی بحری افواج اور میزائل بیڑے تعینات ہیں۔ یہ تمام تر خطرناک صورتحال نہ صرف فوجی تصادم بلکہ سائبر جنگ کی بھی پیش گوئی کر رہی ہے، کیونکہ امریکی سائبر ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایرانی سائبر حملوں کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ یہ بحران محض ایک علاقائی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، روس، چین اور ناٹو جیسے عالمی پلیئرز کے لیے تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ جہاں ایک طرف G7 نے اسرائیل کی خودمختاری کی حمایت کا اعلان کیا، وہیں دوسری طرف اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اسرائیلی کارروائیوں کو ممکنہ جنگی جرائم کے دائرے میں پرکھنا شروع کر دیا۔ اس سفارتی تقسیم سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی سیاست کس قدر مخمصے میں مبتلا ہے۔
اس کشیدگی کا شدید اثر عالمی معیشت پر بھی پڑا ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق تیل کی طلب اور رسد کے درمیان شدید عدم توازن نے مارکیٹ کو غیر مستحکم کر دیا۔ عالمی سطح پر افراط زر کی لہر، شرحِ سود کی پالیسیوں میں تعطل، اور تجارتی بے یقینی نے عالمی معیشت کو نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکا میں فیڈرل ریزرو نے شرحِ سود میں تبدیلی نہ کرنے کا اعلان کیا، جبکہ مستقبل قریب میں ممکنہ کمی کے اشارے دیے جا رہے ہیں۔ برطانیہ، چین، جاپان اور یورپی مرکزی بینکوں میں بھی افراط زر اور معاشی نمو کے مابین توازن کی جدوجہد جاری ہے۔ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد تجارتی پالیسیوں کی غیر یقینی صورتحال نے عالمی تجارتی نظام میں مزید بے چینی پیدا کی ہے۔ تجارتی پابندیاں، سیاسی دھمکیاں اور اتحادیوں میں اعتماد کی کمی نے معاشی عدم استحکام کو مزید تقویت دی ہے۔
ادھر ماحولیاتی تبدیلی کی ہولناکی بھی روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ انسانی سرگرمیوں سے پیدا شدہ گرین ہاؤس گیسز نے قدرتی ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کرڈ پول کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۳ تا ۲۰۲۵ کے گلوبل کبلیکچر ایونٹ نے دنیا بھر کے ۸۴ فی صد مرجانی ریفز کو سفید کر دیا، جس سے سمندری حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ جنگلات کی آگ، شدید گرمی، خشک سالی اور طوفانی بارشوں جیسے مظاہر ماحولیاتی تبدیلی کی ناقابل تردید علامات بن چکے ہیں۔ اس بگڑتے ماحولیاتی منظرنامے کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کچھ اقدامات بھی سامنے آئے ہیں، جیسے ’’ہائی سیز ٹریٹی‘‘ جسے اب تک ۴۹ ممالک نے منظور کیا ہے۔ یہ معاہدہ سمندری حیات، ماحول اور قدرتی ذخائر کے تحفظ کے لیے اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے، مگر زمینی سطح پر اس کے عملی اثرات اب تک محدود دکھائی دیتے ہیں۔
عالمی سیاسی اور معاشی بحران کے ساتھ ساتھ عالمی ادارے عوامی صحت، صفائی اور ثقافتی بیداری کی کوششوں میں بھی سرگرم ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کا مقصد کورونا کے بعد صحت کے نظام کو از سر نو استوار کرنا رہا ہے۔ فضائی آلودگی کے خلاف کانفرنسوں اور ویب نارز کے ذریعے دنیا بھر میں بیداری پھیلانے کی کوشش جاری ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ ہر سال تقریباً ۷ ملین افراد قبل از وقت اموات کا شکار ہو رہے ہیں۔ ادھر سماجی سطح پر انسانی حقوق اور عوامی تحریکیں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی قوت کس قدر فیصلہ کن ہو چکی ہے۔ فلسطینی عوام کے حق میں ’’گلوبل مارچ ٹو غزہ‘‘ کے تحت ہزاروں افراد نے مصر کے راستے انسانی امداد کی راہ داری کھولنے کا مطالبہ کیا، جو نہ صرف انسان دوستی بلکہ عالمی ضمیر کی بیداری کی علامت بھی ہے۔ صحت کے شعبے میں تشویشناک امر یہ ہے کہ نوجوانوں میں کولوریکل کینسر کی شرح بڑھ رہی ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں غربت، ناقص غذائی نظام، اور صحت کی سہولتیں کی عدم دستیابی شامل ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف صحت عامہ کے لیے ایک وارننگ ہے بلکہ معاشرتی اور اقتصادی ڈھانچے کی ناکامی کا آئینہ بھی ہے۔
مستقبل کے امکانات کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو واضح ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی علاقائی توازن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اگر امریکا یا ناٹو کی براہ راست مداخلت ہوئی تو مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں سفارتی حکمت ِ عملی کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہی ہیں، تاہم یہ تنازع اب بھی کسی پائیدار حل سے محروم ہے۔
عالمی معیشت کو سیاسی غیر یقینی، تجارتی پابندیوں، تیل کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ اور افراط زر کے دباؤ نے غیر متوازن کر دیا ہے۔ ایسے میں مرکزی بینکوں کی مالیاتی پالیسیوں، عالمی تجارتی تعاون، اور بین الاقوامی اداروں کی ہم آہنگی ہی استحکام کا راستہ فراہم کر سکتی ہے۔ ماحولیاتی چیلنج دنیا کے لیے سب سے بڑی آزمائش بنتے جا رہے ہیں۔ فضائی آلودگی، سمندری بگاڑ، اور موسمیاتی تباہی سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر حقیقی، منظم اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے، بصورتِ دیگر انسانی بقا ہی داؤ پر لگ سکتی ہے۔ سماجی تحریکوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ آج کا شہری، خاص طور پر نوجوان نسل، ناانصافی اور کرپشن کے خلاف خاموش نہیں رہتی۔ وہ سوشل میڈیا، احتجاج، اور بین الاقوامی مہمات کے ذریعے اپنی آواز بلند کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جو حکومتوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ مجموعی طور پر عالمی حالاتِ حاضرہ کا تجزیہ بتاتا ہے کہ دنیا اس وقت ایک گہرے عبوری دور سے گزر رہی ہے، جہاں ایک طرف جنگ، سیاسی کشیدگی، ماحولیاتی تباہی اور صحت کے خطرات ہیں، تو دوسری طرف عوامی شعور، ثقافتی بیداری، اور عالمی تعاون کی امید بھی زندہ ہے۔ اگر دنیا مشترکہ حکمت ِ عملی، اخلاقی جرأت اور اجتماعی وژن کے ساتھ آگے بڑھے تو یہ بحران مواقع میں بھی بدل سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر، یہ الجھاؤ مزید پیچیدگیوں کو جنم دے گا اور انسانی تاریخ ایک بار پھر انتشار، تباہی اور بے یقینی کا شکار ہو جائے گی۔ ہمیں اس نازک نیلے سیارے کے تحفظ کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کو ہرصورت میں یقینی بنانا ہوگا لیکن افسوس صد افسوس ہم اس نعمت کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہر گزرتے وقت کے ساتھ روز بروز ہلاکت سے قریب سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی کے لیے کر دیا رہی ہے
پڑھیں:
ماحولیاتی بجٹ میں کٹوتی اور گرین ٹیکنالوجی پر ٹیکس: کیا پاکستان ماحول دوست ترقی سے منہ موڑ رہا ہے؟
پاکستان اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کے سنگین اثرات کا سامنا کر رہا ہے، گرمی کی شدید لہر، سیلاب، اور فصلوں کی پیداوار میں کمی جیسے مسائل ملک کی زراعت اور معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ حکومت نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختلف پالیسیاں متعارف کرائی ہیں، لیکن بجٹ میں ماحولیاتی شعبے کے لیے مختص فنڈز میں کمی اور ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافے جیسے اقدامات ان پالیسیوں کی افادیت پر سوالیہ نشان ہیں۔
حالیہ بجٹ میں ماحولیاتی شعبے کے لیے مختص فنڈز میں 24 فیصد کی کمی کی گئی ہے، جو کہ ماحولیاتی تحفظ کے ضمن میں تشویش کا باعث ہے، یہ کمی اس وقت کی گئی ہے جب ملک ہیٹ ویوز اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کا سامنا کر رہا ہے، جو زراعت اور عوامی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے بجٹ 26-2025 میں موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے مختص فنڈز 3.5 ارب روپے سے 2.7 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبے میں رواں مالی سال کے دوران 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جو نہ صرف معیشت کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ خوراک، کسانوں کی آمدن اور دیہی معیشت کے لیے بھی تشویشناک اشارہ ہے۔
ماہرین کی جانب سے یہ کمی بنیادی طور پر فصلوں کی پیداوار میں کمی، موسمیاتی تبدیلیوں، پانی کی قلت، کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں اضافے، اور حکومتی عدم توجہی کا نتیجہ قرار دی جا رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر زرعی شعبے کو فوری سہارا نہ دیا گیا تو پاکستان کی خوراک میں خود کفالت مزید متاثر ہوگی۔
تونسہ سے تعلق رکھنے والے کاشتکار حافظ محمد حسین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس مرتبہ اپنی 40 ایکڑ اراضی پر گندم کاشت نہیں کی کیونکہ گندم کی قیمت میں کمی کی وجہ سے کسانوں کو گزشتہ ایک برس میں شدید مالی نقصان ہوا ہے۔
حافظ محمد حسین کے مطابق گندم کی کاشت کے لیے درکار تمام لوازمات انتہائی مہنگے ہو چکے ہیں، جس میں کھاد، بیج، اسپرے، ڈیزل، ٹریکٹر وغیرہ شامل ہے۔ ’کسان اپنی فصل پر جو پیسہ خرچ کرتا ہے، حکومت نے کسان کو اس کا پورا معاوضہ نہیں دیا، اور اب کی بار گندم کی قیمت میں مزید کمی کرتے ہوئے اسے معاشی طور پر تباہ کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ رواں برس کسانوں نے بہت کم گندم کاشت کی، یہی وجہ ہے کہ اس بار گندم کی پیداوار کا ہدف 65 فیصد سے بھی کم رہا ہے۔
’محکمہ زراعت اور محکمہ آبپاشی گندم کاشت کرنے میں بہت زیادہ ناکام ہوا ہے، کسان کو اب نہ صرف ان پر بلکہ حکومت پر بھی اعتماد نہیں رہا کہ وہ گندم، چنا،گنا یا کپاس کاشت کریں تو انہیں فائدہ ہوگا۔‘
حافظ محمد حسین کے مطابق انہی وجوہات کی بنا پر کسان کاشتکاری کے بجائے اب جانوروں کی پرورش یا پھر سبزیوں کی کاشت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں، کیونکہ چاول، گنا، چنا کاشت کر نے کا ان کو فائدہ نہیں ہے کیونکہ انہیں ان اجناس کی مناسب قیمت ہی نہیں ملتی۔
پاکستان کی زراعت ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہی ہے، 2024 میں گرمی کی لہروں اور غیر متوقع بارشوں نے فصلوں کی پیداوار کو متاثر کیا، جس سے کسانوں کو مالی نقصان اٹھانا پڑا، ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے حکومت کو زراعت کے شعبے میں مؤثر پالیسیاں متعارف کرانا ہوں گی۔
ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد کے ماہر زراعت ڈاکٹر محمد اشفاق نے اس حوالے سے بتایا کہ زراعت کے شعبے میں 13 فیصد کمی صرف موسمیاتی، مہنگائی یا تکنیکی وجوہات کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ درحقیقت پالیسی کی ناکامی کی ایک علامت ہے۔
’گندم جیسی اسٹریٹیجک فصل میں تقریباً 9 فیصد کمی اس وقت ایک سنگین مسئلہ بن گئی جب کسانوں کو نہ صرف ان کی فصل کی مناسب قیمت نہیں ملی، بلکہ سرکاری خریداری کا عمل بھی متنازع ہو گیا۔‘
ڈاکٹر محمد اشفاق کا کہنا تھا کہ اس سال کسان گندم لے کر گوداموں کے باہر لائنوں میں کھڑے رہے، لیکن یا تو باربرداری کے بہانے سے انہیں روکا گیا یا پھر درآمد شدہ گندم کی موجودگی کو جواز بنا کر ان کی فصل نہیں خریدی گئی، یہ صرف ناانصافی نہیں، بلکہ کسانوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والا عمل ہے۔
’جب کسان کو اس کی محنت کا صلہ نہ ملے، تو وہ آئندہ سال گندم اگانے سے گریز کرے گا، نتیجتاً، ہم غذائی تحفظ کے ایک نئے بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو زرعی شعبہ محض بجٹ یا سروے اور تحقیقی رپورٹوں تک محدود رہ جائے گا۔‘
واضح رہے کہ کپاس کی پیداوار میں 30.7 فیصد، مکئی کی پیداوار میں 15.4 فیصد ، گنے میں 3.9 فیصد، چاول میں 1.4 فیصد اور گندم کی پیداوار میں 8.9 فیصد کمی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر محمد اشفاق کے مطابق حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں اور بجٹ میں مختص فنڈز میں ہم آہنگی کی کمی ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختص فنڈز میں کمی اور ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافہ سے حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں کی مؤثریت پر سوالیہ نشان ہے۔
’حکومت کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی شعبے کے لیے مختص فنڈز میں اضافہ کرے اور ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی کرے تاکہ عوام کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے ترغیب دی جا سکے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ 26-2025 میں ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز شامل کی گئی تھی۔ اس تجویز کے مطابق ہائبرڈ گاڑیوں پر جو پہلے 8.5 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کے تحت تھیں، ان پر یکساں طور پر 18 فیصد ٹیکس عائد کرتے ہوئے کہا گیا یے کہ اس اقدام کا مقصد پیٹرول، ڈیزل، ہائبرڈ اور الیکٹرک تمام اقسام پر ٹیکس میں یکسانیت برقرار رکھنا ہے۔
موسمیاتی امور کے ماہر محمد عثمان علی نے اس حوالے سے بتایا کہ ہائبرڈ گاڑیوں پر 18 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز موسمیاتی تغیرات سے نمٹنے کی قومی حکمت عملی کے بالکل منافی ہے، پاکستان پہلے ہی دنیا کے اُن 10 ممالک میں شامل ہے جو کلائمٹ چینج سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، چاہے وہ گلیشیئرز کا پگھلنا ہو، شدید گرمی کی لہر ہو یا غیر متوقع بارشیں اور سیلاب۔
’ایسے وقت میں جب دنیا بھر کی حکومتیں ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کو ٹیکس مراعات دے رہی ہیں، پاکستان میں ان پر مزید ٹیکس عائد کرنا نہ صرف ماحولیاتی پالیسی کی ناکامی ہے بلکہ مستقبل کے لیے خطرناک رجحان بھی ہے۔‘
محمد عثمان کے مطابق یہ ہائبرڈ گاڑیاں نہ صرف ایندھن کی بچت کرتی ہیں بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی نمایاں کمی لاتی ہیں، موسمیاتی بحران کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ہمیں ایسی پالیسیاں اپنانی ہوں گی جو صاف توانائی اور پائیدار ذرائع آمد و رفت کی حوصلہ افزائی کریں، نہ کہ اُن پر مالی بوجھ ڈال کر ان کی حوصلہ شکنی کریں۔
’ویسے بجٹ کے بعد حکومت سنجیدہ نظر نہیں آتی، کیونکہ بجٹ میں حکومت نے ہائبرڈ گاڑیوں پر اچھا خاصا ٹیکس لگایا، دوسری جانب کلائمیٹ فنڈز پر کٹوتی کی گئی اور پھر حکومت کہتی ہے کہ وہ ماحولیاتی دوست اقدامات کرنا چاہتی ہے، حکومت کیا کرنا چاہتی ہے، شاید وہ یہ بات خود بھی نہیں جانتی۔‘
سابق وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی، ملک امین اسلم نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بجٹ میں کٹوتیاں نہ صرف تحقیق اور ڈیٹا پر مبنی ترجیحات کو متاثر کریں گی بلکہ ماحولیاتی لچک کے لیے دستیاب فنڈز پر عملدرآمد یعنی ’پروجیکٹائزیشن‘ بھی متاثر ہو گی۔
واضح رہے کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے باعث سالانہ تقریباً 400 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
محمد توحید ماہر شہری منصوبہ بندی و جغرافیہ دان نے بتایا کہ 2025 کے وفاقی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلی کے فنڈز میں 24 فیصد کمی سے پاکستان جیسے ماحولیاتی خطرات سے دوچار ملک کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
’اس کمی کے نتیجے میں ہیٹ ویوز، سیلاب، پانی کی قلت، گرین کور میں کمی اور زرعی بحران جیسے مسائل مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں، خاص طور پر غریب اور پسماندہ طبقات کے لیے۔ شجرکاری، واٹر مینجمنٹ، کلائمیٹ اسمارٹ زراعت اور فلڈ ریزیلینٹ انفراسٹرکچر جیسے اہم منصوبے متاثر ہوں گے۔‘
ماہرین کے مطابق ایسی صورتحال میں پاکستان کے بین الاقوامی وعدے بھی خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں کیونکہ فنڈز کی کمی حکومتی ترجیحات میں ماحولیاتی تحفظ کی تنزلی کا اشارہ دیتی ہے، جو نجی اور غیر سرکاری شعبے کی دلچسپی کو بھی کم کر سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد چاول چنا حافظ محمد حسین کسان گنا گندم ماحولیاتی آلودگی محمد توحید محمد عثمان ہائبرڈ گاڑیاں