Jasarat News:
2025-09-23@14:44:55 GMT

تصادم اور تغیر کا زمانہ

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مئی اور جون ۲۰۲۵ کے دوران عالمی منظرنامہ شدید کشیدگی، معاشی غیر یقینی، ماحولیاتی بگاڑ اور سماجی اُبال سے عبارت رہا۔ خاص طور پر ایران اور اسرائیل کے مابین بڑھتے ہوئے تصادم نے دنیا کو ایک نئی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ اسرائیل نے ایران پر حملے میں پہل کی اور شدید حملہ کرکے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جواب میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر بلسٹک میزائل اور ڈرون حملے کیے، اسرائیل نے ایران کے میزائل اور جوہری تنصیبات اور جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا۔ ایران کی جانب سے ہائپرسونک میزائل رکھنے کی اطلات پر بین الاقوامی ماہرین نے شکوک ظاہر کیے، تاہم یہ اطلاع بھی جنگی نفسیات کی ایک مثال بن کر سامنے آئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی ’’بے شرط ہتھیار بندی اور جوہری پروگرام سے دستبرداری‘‘ کا مطالبہ کیا، مشرقِ وسطیٰ میں پہلے ہی امریکی بحری افواج اور میزائل بیڑے تعینات ہیں۔ یہ تمام تر خطرناک صورتحال نہ صرف فوجی تصادم بلکہ سائبر جنگ کی بھی پیش گوئی کر رہی ہے، کیونکہ امریکی سائبر ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایرانی سائبر حملوں کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ یہ بحران محض ایک علاقائی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، روس، چین اور ناٹو جیسے عالمی پلیئرز کے لیے تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ جہاں ایک طرف G7 نے اسرائیل کی خودمختاری کی حمایت کا اعلان کیا، وہیں دوسری طرف اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اسرائیلی کارروائیوں کو ممکنہ جنگی جرائم کے دائرے میں پرکھنا شروع کر دیا۔ اس سفارتی تقسیم سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی سیاست کس قدر مخمصے میں مبتلا ہے۔
اس کشیدگی کا شدید اثر عالمی معیشت پر بھی پڑا ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق تیل کی طلب اور رسد کے درمیان شدید عدم توازن نے مارکیٹ کو غیر مستحکم کر دیا۔ عالمی سطح پر افراط زر کی لہر، شرحِ سود کی پالیسیوں میں تعطل، اور تجارتی بے یقینی نے عالمی معیشت کو نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکا میں فیڈرل ریزرو نے شرحِ سود میں تبدیلی نہ کرنے کا اعلان کیا، جبکہ مستقبل قریب میں ممکنہ کمی کے اشارے دیے جا رہے ہیں۔ برطانیہ، چین، جاپان اور یورپی مرکزی بینکوں میں بھی افراط زر اور معاشی نمو کے مابین توازن کی جدوجہد جاری ہے۔ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد تجارتی پالیسیوں کی غیر یقینی صورتحال نے عالمی تجارتی نظام میں مزید بے چینی پیدا کی ہے۔ تجارتی پابندیاں، سیاسی دھمکیاں اور اتحادیوں میں اعتماد کی کمی نے معاشی عدم استحکام کو مزید تقویت دی ہے۔
ادھر ماحولیاتی تبدیلی کی ہولناکی بھی روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ انسانی سرگرمیوں سے پیدا شدہ گرین ہاؤس گیسز نے قدرتی ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کرڈ پول کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۳ تا ۲۰۲۵ کے گلوبل کبلیکچر ایونٹ نے دنیا بھر کے ۸۴ فی صد مرجانی ریفز کو سفید کر دیا، جس سے سمندری حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ جنگلات کی آگ، شدید گرمی، خشک سالی اور طوفانی بارشوں جیسے مظاہر ماحولیاتی تبدیلی کی ناقابل تردید علامات بن چکے ہیں۔ اس بگڑتے ماحولیاتی منظرنامے کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کچھ اقدامات بھی سامنے آئے ہیں، جیسے ’’ہائی سیز ٹریٹی‘‘ جسے اب تک ۴۹ ممالک نے منظور کیا ہے۔ یہ معاہدہ سمندری حیات، ماحول اور قدرتی ذخائر کے تحفظ کے لیے اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے، مگر زمینی سطح پر اس کے عملی اثرات اب تک محدود دکھائی دیتے ہیں۔
عالمی سیاسی اور معاشی بحران کے ساتھ ساتھ عالمی ادارے عوامی صحت، صفائی اور ثقافتی بیداری کی کوششوں میں بھی سرگرم ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کا مقصد کورونا کے بعد صحت کے نظام کو از سر نو استوار کرنا رہا ہے۔ فضائی آلودگی کے خلاف کانفرنسوں اور ویب نارز کے ذریعے دنیا بھر میں بیداری پھیلانے کی کوشش جاری ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ ہر سال تقریباً ۷ ملین افراد قبل از وقت اموات کا شکار ہو رہے ہیں۔ ادھر سماجی سطح پر انسانی حقوق اور عوامی تحریکیں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی قوت کس قدر فیصلہ کن ہو چکی ہے۔ فلسطینی عوام کے حق میں ’’گلوبل مارچ ٹو غزہ‘‘ کے تحت ہزاروں افراد نے مصر کے راستے انسانی امداد کی راہ داری کھولنے کا مطالبہ کیا، جو نہ صرف انسان دوستی بلکہ عالمی ضمیر کی بیداری کی علامت بھی ہے۔ صحت کے شعبے میں تشویشناک امر یہ ہے کہ نوجوانوں میں کولوریکل کینسر کی شرح بڑھ رہی ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں غربت، ناقص غذائی نظام، اور صحت کی سہولتیں کی عدم دستیابی شامل ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف صحت عامہ کے لیے ایک وارننگ ہے بلکہ معاشرتی اور اقتصادی ڈھانچے کی ناکامی کا آئینہ بھی ہے۔
مستقبل کے امکانات کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو واضح ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی علاقائی توازن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اگر امریکا یا ناٹو کی براہ راست مداخلت ہوئی تو مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں سفارتی حکمت ِ عملی کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہی ہیں، تاہم یہ تنازع اب بھی کسی پائیدار حل سے محروم ہے۔
عالمی معیشت کو سیاسی غیر یقینی، تجارتی پابندیوں، تیل کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ اور افراط زر کے دباؤ نے غیر متوازن کر دیا ہے۔ ایسے میں مرکزی بینکوں کی مالیاتی پالیسیوں، عالمی تجارتی تعاون، اور بین الاقوامی اداروں کی ہم آہنگی ہی استحکام کا راستہ فراہم کر سکتی ہے۔ ماحولیاتی چیلنج دنیا کے لیے سب سے بڑی آزمائش بنتے جا رہے ہیں۔ فضائی آلودگی، سمندری بگاڑ، اور موسمیاتی تباہی سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر حقیقی، منظم اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے، بصورتِ دیگر انسانی بقا ہی داؤ پر لگ سکتی ہے۔ سماجی تحریکوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ آج کا شہری، خاص طور پر نوجوان نسل، ناانصافی اور کرپشن کے خلاف خاموش نہیں رہتی۔ وہ سوشل میڈیا، احتجاج، اور بین الاقوامی مہمات کے ذریعے اپنی آواز بلند کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جو حکومتوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ مجموعی طور پر عالمی حالاتِ حاضرہ کا تجزیہ بتاتا ہے کہ دنیا اس وقت ایک گہرے عبوری دور سے گزر رہی ہے، جہاں ایک طرف جنگ، سیاسی کشیدگی، ماحولیاتی تباہی اور صحت کے خطرات ہیں، تو دوسری طرف عوامی شعور، ثقافتی بیداری، اور عالمی تعاون کی امید بھی زندہ ہے۔ اگر دنیا مشترکہ حکمت ِ عملی، اخلاقی جرأت اور اجتماعی وژن کے ساتھ آگے بڑھے تو یہ بحران مواقع میں بھی بدل سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر، یہ الجھاؤ مزید پیچیدگیوں کو جنم دے گا اور انسانی تاریخ ایک بار پھر انتشار، تباہی اور بے یقینی کا شکار ہو جائے گی۔ ہمیں اس نازک نیلے سیارے کے تحفظ کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کو ہرصورت میں یقینی بنانا ہوگا لیکن افسوس صد افسوس ہم اس نعمت کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہر گزرتے وقت کے ساتھ روز بروز ہلاکت سے قریب سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی کے لیے کر دیا رہی ہے

پڑھیں:

استعمار اور ایٹم بم کی تاریخ

اسلام ٹائمز: امریکہ کے بعد اگر دنیا میں کسی ملک نے سب سے زیادہ مظالم ڈھائے ہیں تو وہ اسرائیل ہے۔ غزہ میں بچوں، عورتوں، اسپتالوں، خیمہ بستیوں اور حتیٰ کہ میڈیا سینٹرز تک کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل چھ عرب ممالک کے ساتھ جنگ کرچکا ہے اور اب فلسطین، لبنان، شام اور حال ہی میں ایران میں مختلف تنصیبات پر حملے کر چکا ہے۔ ان حملوں میں جیلوں، تعلیمی اداروں، گھریلو مقامات، حتیٰ کہ ہسپتال اور خیمہ بستیاں بھی محفوظ نہیں رہے۔ اگر دنیا اسرائیل اور امریکہ کی اس جارحیت پر خاموش رہی تو یہ دونوں ممالک دنیا میں کسی ملک کو پُرامن نہیں رہنے دیں گے۔ تحریر: محمد بشیر دولتی 

دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ یورپی ممالک نے دنیا کے بڑے حصے کو خون میں نہلا دیا تھا۔ شہر کے شہر کھنڈر بن چکے تھے۔ ساحلوں سے لے کر شہروں کے قلب تک لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ ہر طرف آگ اور خون کا بازار گرم تھا، لیکن اس تباہی کے باوجود انسانیت کے دشمن مطمئن نہ تھے۔ لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن چکے تھے، مگر جنگی جنون رکھنے والے افراد پلک جھپکنے میں لاکھوں اور انسانوں کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے۔ اسی مقصد کے تحت امریکہ اور جرمنی دونوں ایٹم بم بنانے کی دوڑ میں شامل ہو چکے تھے۔ دونوں جانب جان لیا گیا تھا کہ جو فریق یہ ہلاکت خیز ہتھیار پہلے بنائے گا اور استعمال کرے گا، وہی اس جنگ کا فاتح ٹھرے گا۔

ہٹلر کی نگاہوں میں جرمنی کے یہودی دشمن تصور کیے جاتے تھے۔ اسی سوچ کے تحت اُس نے ان کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار کیں۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں  ۳ جون ۱۹۳۳ء کو ۲۶ ممتاز جرمن سائنسدانوں میں سے ۱۴ نے ملک چھوڑ دیا۔ ان میں البرٹ آئن اسٹائن بھی شامل تھے، جنہوں نے بعد ازاں امریکہ میں ایٹمی تحقیق کے سلسلے کو آگے بڑھایا اور ایٹم بم کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی ٹیم میں میکس بورن، جیمز فرانک، ماریا گوپرٹ مایر اور دیگر اہم سائنسدان شامل تھے۔ یوں دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ کو کامیاب بنانے اور عالمی طاقت بنانے میں ان سائنسدانوں، خصوصاً یہودی سائنسدانوں  کا اہم کردار رہا۔ جرمنی سے ہجرت کرنے والے بعض یہودی سائنسدان برطانیہ اور بعض فرانس چلے گئے۔ یہودی سائنسدانوں کی اس خدمات  اور اتحاد   کا اثر ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔

دوسری جنگِ عظیم کے اختتام کے قریب، ۱۶ جولائی ۱۹۴۵ء کو امریکہ نے نیو میکسیکو میں فزکس کے ممتاز سائنسدان رابرٹ اوپن ہائیمر کی سربراہی میں ایٹم بم کا پہلا تجربہ کیا۔ ایٹم بم کی ایجاد کے بعد، ۶ اگست ۱۹۴۵ء کو صبح ۸ بج کر ۱۵ منٹ پر امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا، جس سے لاکھوں جاپانی شہری لقمہ اجل بنے اور پورا شہر تباہ ہوگیا۔ تین دن بعد، ۹ اگست کو ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا گیا، جس نے مزید لاکھوں جانیں لیں اور شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے اب تک تیس کے قریب ملکوں پر حملے کیے ہیں۔ لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا، اور آج خود کو "عالمی امن کا علمبردار" قرار دیتا ہے جبکہ امن عالم کو انہیں سے سب سے ذیادہ خطرہ رہا ہے اور رہے گا۔

امریکہ کے بعد اگر دنیا میں کسی ملک نے سب سے زیادہ مظالم ڈھائے ہیں تو وہ اسرائیل ہے۔ غزہ میں بچوں، عورتوں، اسپتالوں، خیمہ بستیوں اور حتیٰ کہ میڈیا سینٹرز تک کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل چھ عرب ممالک کے ساتھ جنگ کرچکا ہے اور اب فلسطین، لبنان، شام اور حال ہی میں ایران میں مختلف تنصیبات پر حملے کر چکا ہے۔ ان حملوں میں جیلوں، تعلیمی اداروں، گھریلو مقامات، حتیٰ کہ ہسپتال اور خیمہ بستیاں بھی محفوظ نہیں رہے۔ اگر دنیا اسرائیل اور امریکہ کی اس جارحیت پر خاموش رہی تو یہ دونوں ممالک دنیا میں کسی ملک کو پُرامن نہیں رہنے دیں گے۔ وقت ہے کہ عالمی برادری جاگے، اس سے پہلے کہ سب کچھ کچلا جائے۔ امریکہ و اسرائیل عالمی قوانین کی سب سے ذیادہ خلاف ورزی کرنے والے لاپرواہ  ممالک ہیں۔

دونوں ممالک خود کئی ایٹم بم بنا رکھے ہیں اور ایٹم بم سمیت انتہائی کیمیائی اور مہلک ہتھیار استعمال کر کے ہیں۔ دونوں ممالک کو ایران کا پرامن ایٹمی پروگرام اور حق قبول نہیں ہے۔ آج سے سات سال قبل جوہری ہتھیاروں کے بارے میں یہ رپورٹ عام تھی جس کے مطابق دنیا میں ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کی تعداد ۹ ہے، جن کے پاس مجموعی طور پر ہزاروں ایٹم بم ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق: امریکہ اور روس کے پاس سب سے زیادہ ایٹم بم ہیں، جن کی تعداد بالترتیب تقریباً ۳۳۰ سے زائد ہے۔ چین کے پاس تقریباً ۲۸۰، برطانیہ کے پاس ۲۲۵ کے قریب، پاکستان کے پاس ۱۵۰ کے لگ بھگ، بھارت کے پاس ۱۴۰ کے قریب، شمالی کوریا کے پاس ۳۰ سے ۴۰، اسرائیل کے پاس بھی تقریباً ۴۰ سے ۹۰ ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔

پاکستان، ایران اور دیگر ۳۵ ممالک انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے رکن ہیں، جو عالمی قوانین کے مطابق اپنی جوہری پالیسیز کو پُرامن انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسرائیل نہ صرف IAEA کا رکن نہیں ہے، بلکہ اُس پر کوئی عالمی دباؤ بھی نہیں کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیار ظاہر کرے یا پُرامن رویہ اختیار کرے۔ اُسے کھلی چھوٹ ہے کہ چاہے غزہ پر حملہ کرے یا شام و لبنان اور یمن پر، کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ دوسری طرف ایران، جو IAEA کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، اُس پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں ۱۲ جون کو امریکہ نے IAEA میں ایک قرارداد پیش کی، جس میں ایران کے جوہری پروگرام کو "دنیا کے لیے خطرہ" قرار دیا گیا۔ روس، چین اور برکینا فاسو نے اس قرار داد کے خلاف ووٹ دیا۔ پاکستان پر بھی ایران کے خلاف ووٹ دینے کے لیے شدید دباؤ تھا، تاہم پاکستان نے حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے رائے شماری میں شرکت نہ کرنے کو مناسب سمجھا۔

امریکہ، مغربی طاقتوں اور بعض مسلم ممالک کے دباؤ کے باوجود پاکستان کا مؤقف اس موقع پر نہایت متوازن، حقیقت پسندانہ اور باوقار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں سرکاری و عوامی سطح پر پاکستان کے اس موقف کو سراہا جا رہا ہے اور شکریہ ادا کیا جا رہا ہے۔ ۱۲ جون کو امریکی قرار داد کے بعد، اسرائیل نے رات کی تاریکی میں ایران پر ایک بڑا حملہ کیا۔ داخلی و خارجی حملوں کا سامنا کرنے کے باوجود، ایران نے نہ صرف دفاع کیا بلکہ پوری طاقت سے جواب دینا بھی شروع کر دیا۔ دنیا اس وقت حیران ہے کہ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی، بالخصوص بیلسٹک میزائل، ہائپرسونک میزائلز اور کروز میزائلز کس طرح امریکی، برطانوی، اردنی اور فرانسیسی دفاعی نظام کو ناکارہ بنا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیل کا مشہور دفاعی نظام آئرن ڈوم بھی کئی مرتبہ مکمل ناکام ہوا، اور ایران نے تل ابیب اور حیفا جیسے شہروں میں اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔

یہ دنیا میں پہلا موقع ہے کہ بعض دعووں کے مطابق متعدد F-35 جیسے جدید جنگی طیارے مار گرائے گئے ہیں البتہ اس کی ابھی تک باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی۔ امریکی و اسرائیلی ڈرونز کو گرانا ایرانی دفاعی نظام کے لیے اب معمول بن چکا ہے۔ اب تو ڈرون حملا کرنا اور دشمن کا ڈرون گرانا یمنیوں کا معمول بن چکا ہے۔ ان تمام صورت حال میں، امریکہ جو خود کو عالمی امن کا محافظ کہتا ہے، اس جنگ میں براہِ راست شامل ہوچکا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی اس تنازع کا مرکزی فریق ہے۔ یہ دونوں ممالک، اپنے اقدامات کی بنیاد پر، عالمی سطح پر امن کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ دنیا کو چاہیئے کہ مل کر ان ظالم ملکوں کو لگام دیں اور عملی میدان میں ایران کا ساتھ دیں تاکہ دنیا ایک پرامن جگہ بن سکے اور یہاں سب برابری کی بنیاد پر بین الاقوامی اصولوں کے مطابق جی سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے بڑا خطرہ قرار
  • پاکستان کا دولت مشترکہ وزرائے خارجہ اجلاس میں امن، ماحولیاتی تعاون، نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور ڈیجیٹل تعاون پر زور
  • یوسف رضا گیلانی سے آسٹریلوی ہائی کمشنر نیل ہاکنز کی ملاقات، تجارت، تعلیم، دفاع اور ماحولیاتی تعاون کو مزید فروغ دینے پر زور
  • پیپلزپارٹی نے طویل حکومت کے باوجود سندھ اور کراچی کو زمانہ قدیم کی حالت میں دھکیل دیا
  • پیپلزپارٹی نے کراچی کو زمانہ قدیم کا علاقہ بنادیاہے: عظمیٰ بخاری
  • استعمار اور ایٹم بم کی تاریخ
  • پیپلز پارٹی نے سندھ اور کراچی کو زمانہ قدیم کا علاقہ بنا دیا ہے، عظمی بخاری
  • پیپلز پارٹی نے سندھ اور کراچی کو زمانہ قدیم کا علاقہ بنادیا، عظمی بخاری
  • ایران میں سزائے موت کی منتظر شریفہ محمدی کا کیس؟
  • پابندیوں پر ردعمل: ایران کا عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی سے تعاون ختم کرنے کا فیصلہ