Islam Times:
2025-06-24@21:16:36 GMT

شکست دشمن کا مقدر، اسلامی جمہوریہ ایران کو فتح مبارک

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

شکست دشمن کا مقدر، اسلامی جمہوریہ ایران کو فتح مبارک

اسلام ٹائمز: اس فتح پر شہید تہرانی مقدم سمیت ان گمنام ہیروز کو ضرور یاد کیا جانا چاہیئے، جنہوں نے میزائل ٹیکنالوجی کا آغاز کرنے اور یہاں تک پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان سائنسدانوں کو ضرور یاد کرنا چاہیئے، جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی اور اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے عظیم کارنامے سرانجام دیئے۔ رہبر معظم دام عزہ کی قیادت میں بہترین فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آج ایران سرخرو اور سربلند ہے۔ خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہوچکا ہے، نئی حقیقتیں سامنے آچکی ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، جس نے اہل ایمان کی نصرت فرمائی اور اپنے لشکروں کو کامیابیوں سے نوازا۔ اللہ ان شہدائے اسلام کی قربانیوں کو قبول فرمائے، جو اس اسرائیلی جارحیت میں شہید ہوئے۔ ان کا پاکیزہ لہو انقلاب کی جڑیں مضبوط کر گیا۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

جنگ کا آغاز ہوا اور بڑا دردناک آغاز تھا۔ تقریباً ساری اعلیٰ فوجی قیادت کو شہید کر دیا گیا۔ حملے اس قدر کامیاب تھے کہ اہل ایمان مضطرب ہوئے اور شیطان کے پیروکار خوشیاں منا رہے تھے۔ ایک نہیں ایک سو ایک طعنے دینے والے خود ساختہ تجزیہ نگار سامنے آچکے تھے۔ تہران کی فضا میں اسرائیلی  طیاروں کی گھن گرج تھی۔ بین الاقوامی میڈیا حسب سابق اسرائیل کی جارحیت کی بجائے اس کی کامیابیوں کے گن گا رہا تھا۔ اس وقت ہم نے قرآن مجید کی یہ آیت شریفہ لکھی تھی: "وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ" (آل عمران ۵۴ ) "ان لوگوں نے (عیسیٰ کے قتل کی) تدابیر سوچیں اور اللہ نے (بھی جوابی) تدبیر فرمائی اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔" ہمیں اللہ کی تدبیر پر یقین تھا۔ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی ادارے امریکہ کی لونڈی بنے ہوئے تھے۔ اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں بعض کے دل ایران اور غالب اکثریت کی طاقت اسرائیل کے ساتھ تھی۔ زبانی جمع خرچ اس میں بھی مذمت کی بجائے اکثر نے تشویش کا لفظ استعمال کیا تھا۔

چند گھنٹوں کے وقفے کے بعد اللہ کے لشکر میدان میں تھے۔ رہبر معظم کا فرمان آگیا کہ ہم تسلیم نہیں ہوں گے۔ جنگ کا ہر گزرتا دن اسرائیل کو برباد کر رہا تھا۔ اہل ایمان کے دل سکون پا رہے تھے۔ امت جو ایک مدت سے غزہ کے درد کو محسوس کر رہی تھی، اب سکون پا رہی تھی۔ ظالموں کو تکلیف محسوس کروا کر انہیں بتایا جا رہا تھا کہ گھر گر جانے اور گھر کے کسی ممبر کے چلے جانے کا دکھ کیا ہوتا ہے۔؟ یہ بات تقریباً طے ہوچکی تھی کہ ایران لمبی جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستان میں بھی کچھ فکری احمق رجیم چینج کی باتیں کر رہے تھے اور کچھ شاہ ایران کے بھگوڑے بیٹے کو تخت تہران پر بٹھا بھی چکے تھے۔

اہل ایران اور بالخصوص اہل تہران نے عزیمت کی بے مثال تاریخ رقم کی۔ دنیا کے گھنڈوں نے کہا کہ تہران چھوڑ دیں مگر اہل تہران پوری قوت کے ساتھ میدان میں موجود رہے۔ ہر طرح کی قربانی دیتے رہے، مگر نظام کے ساتھ کھڑے رہے۔ دشمن کو توقع تھی کہ ایران کی عوام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی، مگر اللہ کی تدبیر کامیاب ہوئی اور لوگ اپنی ریاست کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ حیران کن طور پر ایران میں کوئی ایک مظاہرہ تک نہیں ہوا۔ ایران ٹی وی کی لائیو ٹرانسمیشن میں جس طرح شیر دل ایرانی خاتون نے نیوز روم کو سنبھالا، وہ حیران کن تھا۔ اس سے دنیا کو ایرانی خواتین کی جرات و بہادری کا پتہ چلا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایران کے مرد ہی نہیں، خواتین بھی کردار زینبی کی حامل ہیں۔

جنگ کے آخری حصے میں جب امریکہ نے براہ راست حملہ کر دیا تو دشمن خوش ہوئے کہ اب قصہ پار سمجھو، اب تو امریکہ براہ راست کود پڑا ہے۔ کچھ نام نہاد صلح پسند جو دنیا کی ہر دانش کے اکیلے علمبردار ہونے کے دعویدار ہیں، انہوں نے مولویوں کو گالیاں نکالنے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ وہ علماء کو عقل و شعور سے عاری اور سفارتکاری سے نا آشنا قرار دے رہے تھے۔ کچھ نے یہ تک لکھ دیا کہ اب کہانی ختم ہوگئی۔ کل رات جب اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکی اہداف پر حملے شروع کیے تو انہوں نے کہا یہ تو عرب، امریکہ اور اسرائیل مل کر ایران پر حملے کریں گے۔ مولویوں کو جانے کی جلدی ہے، کچھ خونی لبرلز نے مذہبی حکومت خدا حافظ کی پوسٹیں لگانا شروع کر دیں۔

انہیں بتایا گیا ذرا ٹھنڈا کرکے کھائیں۔ امریکہ نے عقل مندی کی اور جنگ کو نہ بڑھانے کا اعلان کر دیا۔ اسرائیل کو جتنی سزا دی جا چکی ہے، یہی کافی ہے۔ اب اسرائیل کے اندر کا شور ہی نیتن یاہو کو لے ڈوبے گا۔ امریکہ اور اسرائیل بالکل قابل اعتبار نہیں ہیں اور یہ جنگ بندی اگلی جنگ کے شروع ہونے تک کے درمیان کا وقفہ ہے۔ یہ جنگ کون جیتا، یہ بڑا ہی اہم سوال ہے۔؟ پروفیسر تاج محمد بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد میں ہوتے ہیں، بہت ہی دلچسپ لکھتے ہیں، ان کی تحریر پوری صورتحال کی عکاسی کرتے معلوم ہوتی ہے: ایران، اسرائیل+امریکہ حالیہ کشیدگی کو شیعہ سنی اینگل سے دیکھنے سے ایران کو کوئی نقصان اور اسرائیل کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ اس سے آپ کی چھوٹی سوچ اور محدود ویژن آشکار ہو جاتا ہے۔ جنگ میں نفع نقصان کے تخمینے بعد میں لگائے جائیں گے، اس جنگ میں جو ٹارگٹ دونوں طرف رکھے گئے تھے، ان کو سامنے رکھیں تو ایران اس جنگ کا فاتح ہے۔

اسرائیل اور امریکہ نے دو بڑے اہداف رکھے تھے۔ (1) ایران کی جوہری صلاحیت ختم کر دینا (2) ایران میں رجیم چینج۔ اول الذکر ہدف میں مکمل کامیابی نہیں ملی، البتہ اتنا ہوا ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیت حاصل کرنے کا سفر سست ہوگیا ہے اور ثانی الذکر ہدف کے حصول میں ان دونوں طاقتوں کو مکمل ناکامی ملی ہے۔ ایران کا بنیادی ہدف اپنا دفاع اور اسرائیل کو سزا دینا تھا۔ ایران نے، مادی لحاظ سے اسرائیل اور امریکہ دونوں سے کمزور ہونے کے باوجود، بہت موثر انداز میں اسرائیل کو سبق سکھایا ہے۔ غزہ کے جو مناظر ہمیں تکلیف دیتے تھے، تقریباً اس طرح کے مناظر تل ابیب میں دکھا کر ایران نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل ناقابلِ تسخیر نہیں ہے۔ وہ تو آس پاس کے عرب "وھن" کا شکار ہیں، ورنہ القدس اور اس کے مضافات سے عربوں کے کزنز کو نکال باہر کرنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے۔

ایران میں امریکی کارروائی اور جواب میں قطر میں امریکی اڈے پر ایرانی کارروائی کو کچھ لوگ فکس میچ کہتے ہیں۔ میں فکس میچ کے نظریئے کو مانتے ہوئے اس کو بھی ایران کی کامیابی سمجھتا ہوں۔ امریکہ جیسے متکبر شیطان کو فکس میچ پر راضی کرنا اپنی ذات میں ایک کامیابی ہے۔ باقی آپ لوگ شیعہ سنی کھیلتے رہو! حقیقت اور سچ کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ایران اسرائیل جنگ کے دوران پاکستانی معاشرے میں بے مثال یکجہتی دیکھنے کو ملی ہے۔ شیعہ سنی باہم شیر و شکر ہوگئے، سب نے اپنی اپنی بساط کے مطابق ایران کی حمایت میں آواز اٹھائی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست پاکستان ہر مقام پر اپنی عوام کی آواز بنی اور ایران کو بھی محسوس ہوا کہ کوئی ہمارے ساتھ ہے۔ اسی لیے ایرانی پارلیمنٹ میں تشکر تشکر پاکستان کے نعروں کی گونج رہی۔ ہمیں اس اتحاد و وحدت کو قائم رکھنا ہے اور اسے فرقہ پرستی سے بچائے رکھنا ہے۔

فرقہ پرستوں کی دال روٹی امت کو لڑانے میں ہے، اسی لیے وہ کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیتے ہیں۔ اب قطر میں امریکی بیس پر حملے کو لے کر یہ پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں کہ ایک سنی عرب ریاست پر جان بوجھ کر حملہ کیا گیا ہے۔ جناب یہ قطر پر نہیں، امریکی بیس پر حملہ تھا اور ایران نے بین الاقوامی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے قطر کو پہلے آگاہ کر دیا تھا۔ معروف قانون دان پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق نے خوب لکھا ہے: چونکہ جنگ بندی کے آثار نظر آنے لگے ہیں، اس لیے وہ تجزیہ کار جو ابھی کل تک ایران پر اسرائیلی و امریکی جارحیت کے خلاف بول رہے تھے، اب واپس فرقہ وارانہ تعصب کا اظہار کرنے لگے ہیں اور اب آپ کو جا بجا ان کی والز پر ایسے تجزیئے نظر آئیں گے کہ یہ سب ٹوپی ڈراما تھا، فکسڈ میچ تھا، وغیرہ لیکن سچ پوچھیں، تو ان کا مسئلہ فرقہ وارانہ نہیں، بلکہ انھوں نے اپنے فرقے کے ملک کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف کی تجدید کرنی ہے، کیونکہ پیٹ پاپی ہے، اس لیے یہ تجزیئے نہیں، بلکہ اصل میں پرانی تنخواہ پر بحالی کی درخواستیں ہیں۔

اس فتح پر شہید تہرانی مقدم سمیت ان گمنام ہیروز کو ضرور یاد کیا جانا چاہیئے، جنہوں نے میزائل ٹیکنالوجی کا آغاز کرنے اور یہاں تک پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان سائنسدانوں کو ضرور یاد کرنا چاہیئے، جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے عظیم کارنامے سرانجام دیئے۔ رہبر معظم دام عزہ کی قیادت میں بہترین فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آج ایران سرخرو اور سربلند ہے۔ خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہوچکا ہے، نئی حقیقتیں سامنے آچکی ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، جس نے اہل ایمان کی نصرت فرمائی اور اپنے لشکروں کو کامیابیوں سے نوازا۔ اللہ ان شہدائے اسلام کی قربانیوں کو قبول فرمائے، جو اس اسرائیلی جارحیت میں شہید ہوئے۔ ان کا پاکیزہ لہو انقلاب کی جڑیں مضبوط کر گیا، ان شاء اللہ۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران اور اسرائیل کو ضرور یاد اسرائیل کو اہل ایمان جنہوں نے کہ ایران ایران کی ایران نے کے ساتھ رہے تھے ہے کہ ا اور اس کر دیا

پڑھیں:

ایران اسرائیل جنگ بندی، کیا نیتن یاہو کو شکست کا سامنا کرنا پڑا؟

اسرائیل نے چند روز قبل ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا تختہ الٹنے اور ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنانے کے لیے مختلف حملے کیے، ان حملوں کے جواب میں ایران نے بھی اسرائیل پر میزائل داغے۔ کچھ روز تک جاری رہنے والی جنگ میں امریکا بھی کود پڑا اور ایران کی جوہری صلاحیت ختم کرنے کا دعویٰ کیا۔ ایران نے اس حملے کے جواب میں قطر میں امریکی ایئر بیس کو نشانہ بنایا تاہم اب دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوگیا ہے۔

وی نیوز نے دفاعی تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا اسرائیل نے اس جنگ کے لیے جو اہداف رکھے تھے وہ حاصل ہوئے یا اسرائیل کو شکست ہوئی؟

یہ بھی پڑھیں ایران اسرائیل جنگ بندی سے پاکستان کی معیشت کو کیسے فائدہ پہنچے گا؟

دفاعی تجزیہ کار مسعود اختر نے کہاکہ اس جنگ میں سب سے بڑی کامیابی ایران کو حاصل ہوئی ہے، کیوں کہ اس نے ایسے وقت میں یہ جنگ جیتی جب پوری دنیا اس کے خلاف تھی، اسرائیل کے ساتھ امریکا، یورپ اور کچھ حد تک عرب ممالک بھی تھے۔

انہوں نے کہاکہ ایران کی کوئی نام والی ایئر فورس تو نہیں تھی لیکن انہوں نے بڑی تعداد میں میزائل بنا رکھے تھے جن کی مدد سے اسرائیل کو نشانہ بنایا۔ ابھی بھی ایران کے پاس 2 سے 3 ہزار ایسے میزائل موجود تھے جن سے وہ اسرائیل اور کچھ عرب ممالک کو مکمل طور پر تباہ کر سکتا تھا لیکن میرے خیال میں ایران اور اسرائیل دونوں نے جنگ بندی کا اعلان کرکے عقلمندی کا مظاہرہ کیا۔ اسرائیل کو جو زیادہ نقصان ہو رہا تھا اس لیے ضروری تھا کہ جنگ بندی ہو۔

مسعود اختر نے کہاکہ مستقبل میں میرا خیال ہے کہ ایران کے لیے اب ایٹم بم بنانا تو بہت مشکل ہو جائے گا البتہ وہ اپنے جوہری پروگرام پر کام جاری رکھے گا، اس جنگ میں ایران نے ثابت کردیا ہے کہ وہ بے شک اکیلا ہو لیکن وہ ہار نہیں مانے گا اور کسی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا۔

انہوں نے کہاکہ ایران اسرائیل جنگ سے دنیا کو ایک سبق ملتا ہے کہ اگر کوئی ملک سمجھتا ہے کہ وہ بہت طاقتور ہے اور وہ کسی بھی ملک پر حملہ کر سکتا ہے تو اسرائیل کی مثال سب کے سامنے ہے، اس وقت دنیا میں بہت سی ایسی چھپی طاقتیں ہیں جو کہ بہت طاقتور ہیں، اس جنگ کے بعد ایران ایک بڑا فاتح بن کے سامنے آیا ہے۔

ماہر بین الاقوامی امور احمد حسن العربی نے کہاکہ اسرائیل نے ایران پر جو حملے کیے تھے اس کا نام ’رائزنگ لائن‘ رکھا یعنی اسرائیل کا مقصد تھا کہ انہوں نے ایران میں رجیم چینج کرنا ہے، اسی لیے انہوں نے ایران کے آرمی چیف، نیوکلیئر چیف اور انٹیلیجنس چیف کو شہید کیا تھا۔

انہوں نے کہاکہ ایران نے اسرائیل کا جو دنیا میں ایک تاثر بنا ہے کہ اسرائیل کو کوئی شکست نہیں دے سکتا اسے ٹارگٹ کیا، اب جنگ کے بعد اگر دیکھا جائے تو ایران نے اپنے کچھ اہداف حاصل کیے ہیں البتہ اسرائیل کو اس جنگ میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔

سینیئر تجزیہ کار حامد میر نے کہاکہ ایران اسرائیل حالیہ جنگ میں ایران کو واضح طور پر فتح ہوئی جبکہ اسرائیل نہ تو ایران کا جوہری پروگرام تباہ کر سکا اور نہ ہی ایران میں رجیم چینج کر سکا، ایران کا 400 کلو یورینیئم اس وقت بھی محفوظ ہے۔

انہوں نے کہاکہ جس وقت ایران پر اسرائیل نے حملوں کا آغاز کیا تو اسرائیل کا خیال تھا کہ نہ تو سعودی عرب کچھ کہے گا، اور نہ پاکستان اعتراض کرے گا۔

حامد میر نے کہاکہ اسرائیل نے شروع میں جو حملے کیے اس سے ایران کو بہت نقصان ہوا لیکن جب ایران نے جوابی حملہ کیا اور حیران کن میزائل اسرائیل میں گرے تو او آئی سی بھی حرکت میں آگئی اور پاکستان اور سعودی عرب سمیت دیگر اسلامی ممالک نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی۔

حامد میر نے کہاکہ اسرائیل کا جو ایران میں رجیم چینج کا پروگرام تھا وہ پلان ناکام ہو گیا ہے، رجیم چینج کے لیے اسرائیل کا امیدوار رضا پہلوی تھا اس نے چونکہ کھل کر اسرائیلی حملوں کی سپورٹ کی تھی تو اس وقت اس کو بھی ایران میں عوام سے نفرت مل رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں جنگ بندی کی خلاف ورزی پر اسرائیل اور ایران دونوں سے خوش نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ

انہوں نے کہاکہ اسرائیل کو اس جنگ میں رسوائی حاصل ہوئی ہے، اس وقت ہزاروں اسرائیلی شہری خفیہ راستوں سے فرار ہو چکے ہیں، اسرائیل کی دنیا میں ایک دہشت تھی اور دنیا سمجھتی تھی کہ اسرائیل کی بدمعاشی کو روکنے والا کوئی نہیں ہے تو وہ دہشت اب ختم ہوگئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • ایم ڈبلیو ایم کے وفد کا خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران ملتان کا دورہ، امریکی و اسرائیلی حملے کی مذمت 
  • ایران اسرائیل جنگ بندی، کیا نیتن یاہو کو شکست کا سامنا کرنا پڑا؟
  • ایران پر امریکی حملے کے بعد
  • کوئٹہ، جماعت اسلامی کا ایران سے اظہار یکجہتی
  •  ایران پر اسرائیلی حملہ، اسلامی دنیا کے خلاف گرینڈ پلان کا حصہ؟
  • جماعت اسلامی کے زیراہتمام ایران پر امریکی و اسرائیلی جارحیت کیخلاف احتجاجی مظاہرہ 
  • امریکی جارحیت ،جماعت اسلامی کا آج یوم احتجاج کا اعلان
  • حملہ آور امریکی طیاروں کی پرواز کے مقام کی نشاندہی کر لی گئی، سہاہ پاسداران
  • جماعت اسلامی کا ایران پر امریکی جارحیت کے خلاف کل یوم احتجاج کا اعلان