اسلام آباد: قومی اسمبلی نے مالی سال26-2025 کے لیے 17 ہزار 573 ارب کا وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا۔
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے زیر صدارت اجلاس میں فنانس بل 2025 کی شق وار منظوری کا عمل ہوا۔
قومی اسمبلی اجلاس کے آغاز پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے فنانس بل منظور کرنے کی تحاریک پیش کی۔
فنانس بل منظور کرنے کی تحریک کثرت رائے سے منظور کر لی گئی جس کے بعد فنانس بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع کر دیا گیا۔
اجلاس کے دوران فنانس بل کی منظوری ملتوی کرنے اور عوامی رائے کیلئے بھجوانے سے متعلق اپوزیشن کی ترمیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئی۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مالی بل 2025 قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں زیر غور لانے کی تحریک پیش کی جب کہ اپوزیشن کی جانب سے اس تحریک کی مخالفت کی گئی۔
فنانس بل میں ارکان کی جانب سے ترامیم پیش کی گئیں، مبین عارف نے کہا کہ بل پر عوام کی رائے لی جائے، جتنی دیر تک عوام کی رائے نہیں آجاتی اتنی دیر تک بل کو موخر کیا جائے۔
عالیہ کامران نے کہا کہ اصل سٹیک ہولڈرز عوام ہیں، ٹیکس عوام نے ادا کرنا ہے، عوام کے ساتھ مشاورت ہونی چاہئے، عالیہ کامران اور مبین عارف کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کردی گئیں۔
سیلز ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کی گرفتاری سے متعلق ترامیم منظور
فنانس بل کی شق وار منظوری کے دوران سیلز ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کی گرفتاری سے متعلق سخت ترامیم منظور کر لی گئیں۔
فنانس بل کے مطابق سیلز ٹیکس فراڈ میں گرفتاری ٹیکس کی رقم میں فوجری اور گڑبڑ شامل ہوگی، مال کی دپلائی کئے بغیر ٹیکس انوائس جاری کرنے پر ٹیکس فراڈ کے تحت گرفتاری ہوگی، سیلز ٹیکس میں ٹمپرنگ کرنا بھی سیلز ٹیکس فراڈ کے زمرے میں شامل ہوگا، ٹیکس انوائس میں فراڈ کو بھی سیلز ٹیکس فراڈ تصور کیا جائے گا۔
فنانس بل کے مطابق ٹیکس کے شواہد مٹانا بھی سیلز ٹیکس فراڈ کے زمرے میں شامل ہوگا، ٹیکس گوشوارے میں جان بوجھ کر غلط معلومات دینا بھی ٹیکس فراڈ تصور ہوگا، ٹیکس فراڈ میں ملوث کمپنی کے متعلقہ افسر کو تین نوٹس بھیجنا ہوں گے۔

فنانس بل 26-2025 میں ترمیم کے مطابق سیلز ٹیکس فراڈ کی انکوائری خفیہ نہیں ہوگی، سیلز ٹیکس فراڈ میں ملوث اگر انکوائری میں شامل ہوگیا تو گرفتار نہیں ہوگا، سیلز ٹیکس فراڈ کرنے والا بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش کرے تو گرفتار ہوگا، سیلز ٹیکس میں فراڈ کے شواہد ضائع کرنے کی کوشش کی گئی تو گرفتاری ہوگی، سیلز ٹیکس فراڈ میں ملوث فرار ہونے کی کوشش کرے تو گرفتاری ہوسکتی ہے۔
فنانس بل کے مطابق سیلز ٹیکس فراڈ 5 کروڑ یا اس سے زائد ہوا تو گرفتاری ہوگی، گرفتاری کیلئے ممبر آپریشنز، ممبر لیگل پر مشتمل کمیٹی کی اجازت چاہیے ہوگی، سیلز ٹیکس میں فراڈ افراد کو 24 گھنٹے میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔

اس کے علاوہ فنانس بل 2025 کی شق نمبر 3 منظور کر لی گئی، پٹرولیم مصنوعات پر 2.

5 فیصد کاربن لیوی عائد کرنے کی منظوری بھی دی گئی، اپوزیشن کی تمام ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں۔

کسٹمز ایکٹ 1969 میں ترامیم منظور

قومی اسمبلی میں فنانس بل 2025 کی شق 4 پر بحث اور رائے شماری کے دوران حکومت نے کسٹمز ایکٹ 1969 میں مجوزہ ترامیم کثرت رائے سے منظور کروا لیں۔

وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ ترامیم کے حق میں 201 ووٹ آئے، جبکہ اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود انہیں مسترد نہ کیا جا سکا۔

سپیکر قومی اسمبلی نے ترامیم پر ووٹنگ کیلئے ایوان سے رائے طلب کی، حکومتی اراکین نے زور دار آواز میں ترامیم کے حق میں ووٹ دیا جبکہ اپوزیشن کی جانب سے مخالفت کی گئی، اپوزیشن نے فوری طور پر ووٹوں کی گنتی کا مطالبہ کیا۔

 

گنتی کے بعد واضح ہوا کہ ترامیم کے حق میں 201 ووٹ حکومت کو ملے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے 57 ووٹ ڈالے گئے، اس طرح کسٹمز ایکٹ 1969 میں مجوزہ حکومتی ترامیم کو بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا اور شق 4 پر اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ تمام ترامیم کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔

بل کے مطابق پاکستان کے اندر اور باہر سمگلنگ کی روک تھام کیلئے کارگو ٹریکنگ سسٹم کی تنصیب کی جائے گی، کارگو ٹریکنگ سسٹم سامان کی درآمد برآمد ٹرانزٹ اور ترسیل کی الیکٹرانک نگرانی کرے گا، ڈیجیٹل دستاویزات کے لئے ای بلٹی سسٹم متعارف کرایا جائے گا۔

بل کے مطابق سامان کی درآمد برآمد یا ترسیل میں مصروف ٹرانسپورٹ گاڑیاں ای بلٹی سے منسلک ہوں گی۔

ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں و مراعات ایکٹ سے متعلق ترمیم بھی پیش

ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں و مراعات ایکٹ سے متعلق ترمیم بھی ایوان میں پیش کی گئی، فنانس بل 2025 میں 4اے اور 4بی کے نام سے نئی ترامیم شامل ہیں۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی ترمیم کی حمایت کی گئی، جس کے مطابق وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت اراکین کے برابر تنخواہ لیں گے، تنخواہوں اور مراعات ایکٹ 1975 میں ترمیم کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔

قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے نئے مالی سال 26-2025 کے فنانس بل کی منظوری دی تھی۔

پٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی عائد

فنانس بل2025 شق نمبر 3 منظور کرلی گئی، پٹرولیم مصنوعات پر 2 روپے 50 پیسے فیصد کاربن لیوی عائد کرنے کی منظوری دی گئی، اپوزیشن کی تمام ترامیم کثرت رائے سے مسترد کردی گئیں۔

سولر پینل پر سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی

ایوان نے سولر پینل پر سیلز ٹیکس کی شرح 10 فیصد کرنے کی بھی منظوری دے دی، اس کے علاوہ فنانس بل 2025 شق 6 اور 7 بھی کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔

تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس سے متعلق انکم ٹیکس آرڈیننس منظور

فنانس بل 2025میں شامل انکم ٹیکس آرڈیننس2001میں ترمیم منظور جب کہ اپوزیشن کے تمام ترامیم کثرت رائے سے مسترد کرلی گئی۔

فنانس بل کے مطابق 6 لاکھ تک تنخواہ دار ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا جب کہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ تک تنخواہ لینے والے افراد پر ایک فیصد ٹیکس ادا کریں گے، دوسرے سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر ایک فیصد انکم ٹیکس 6 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا۔

بل کے مطابق 12 لاکھ سے 22 لاکھ تک سالانہ تنخواہ لینے والے 6 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس اور 11 فیصد ٹیکس دینگے۔

تیسرے سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر11 فیصد انکم ٹیکس کا اطلاق 12 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہوگا، 22 لاکھ سے 32 لاکھ تک سالانہ تنخواہ پر 1 لاکھ 16 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 23 فیصد انکم ٹیکس ہو گا۔

چوتھے سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر 23 فیصد انکم ٹیکس کا اطلاق 22 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا، 32 لاکھ سے 41 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر 3 لاکھ 46 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 30 فیصد انکم ٹیکس ہوگا۔

پانچویں سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر 30 فیصد انکم ٹیکس کا اطلاق 32 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا۔

بل کے مطابق 41 لاکھ سے اوپر سالانہ تنخواہ لینے والوں کو 6 لاکھ 16 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 35 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا، چھٹے سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر 35 فیصد انکم ٹیکس کا اطلاق 41 لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا، سالانہ ایک کروڑ سے زیادہ پنشن پر انکم ٹیکس عائد ہوگا۔

سالانہ ایک کروڑ سے زیادہ پنشن وصولی پر پانچ فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی، سالانہ ایک کروڑ تک پنشن وصول کرنے والوں کو ٹیکس استثنیٰ ہوگا۔

 

حکومت نے ہمارے تمام مطالبات مانے اس لیے بجٹ کو سپورٹ کر رہے ہیں: بلاول بھٹو

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت نے ہمارے تمام مطالبات مانے اس لیے بجٹ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بی آئی ایس پی میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، ہم خوشی کے ساتھ اس بجٹ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ہر بجٹ میں بی آئی ایس پی پروگرام میں کمی کی کوشش کی، جب سے وزیراعظم شہباز شریف آئے ہر بجٹ میں بی آئی ایس پی میں اضافہ ہوا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ تنخواہ داروں کیلئے ٹیکس میں کمی کی گئی، ہمارے کہنے پر حکومت سولر ٹیکس میں 50 فیصد کمی لائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے اعتراض کے بعد ایف بی آر قوانین میں تبدیلی لائی گئی، ہم وزیراعظم شہبازشریف اور وزیر خزانہ کے شکرگزار ہیں، ہماری بات مانی گئی اس لیے بجٹ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

Post Views: 5

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: لاکھ سے زائد رقم پر عائد ہو گا سلیب میں تنخواہ دار طبقے پر کثرت رائے سے منظور کر لی فیصد انکم ٹیکس کا اطلاق بجٹ کو سپورٹ کر رہے ہیں فنانس بل کے مطابق منظور کر لی گئی سالانہ تنخواہ کہ اپوزیشن کی فکسڈ ٹیکس اور قومی اسمبلی فنانس بل کی بلاول بھٹو کی جانب سے کی منظوری فیصد ٹیکس نے کہا کہ ٹیکس میں لاکھ تک فراڈ کے کرنے کی کی کوشش پیش کی کی گئی

پڑھیں:

سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی مشترکہ قائمہ کمیٹی کا اجلاس شروع، 27ویں آئینی ترمیم زیر بحث

سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی مشترکہ قائمہ کمیٹی کا اجلاس شروع ہوگیا ہے۔

کمیٹی کا اجلاس ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا جس میں اپوزیشن جماعتوں نے بطور احتجاج شرکت نہیں کی۔

اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کی شقوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے، اس کے ساتھ اتحادی جماعتوں کی طرف سے مجوزہ شقوں کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اپوزیشن اتحاد نے27ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا

کمیٹی کے سربراہ فاروق ایچ نائیک نے اجلاس سے قبل کہا کہ امید ہے کہ آج شام 5 بجے سے قبل ڈرافٹ پر بحث مکمل کریں گے اور متفقہ ڈرافٹ سامنے لے آئیں گے۔

اپوزیشن اتحاد نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف بھرپور ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ اعلان اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور علامہ  ناصر عباس نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔

علامہ  ناصر عباس نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر ایک خطرناک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں جمہوری اداروں کو مفلوج اور آئین کی روح کو مسخ کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم: چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ، وفاقی آئینی عدالت اور تاحیات رینک کے انتظامات

27 ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ نکات سامنے آگئے ہیں، جن کے مطابق آرمی چیف کو نیا عہدہ ’چیف آف ڈیفنس فورسز‘ تفویض کیا جائے گا جبکہ فیلڈ مارشل، مارشل آف ائیر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کا رینک حاصل کرنے والا افسر تاحیات یونیفارم میں رہے گا۔

چیف آف ڈیفنس فورسز اور فوجی رینک

مجوزہ ترمیم کے مطابق آرمی چیف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے، اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا۔ فیلڈ مارشل، مارشل آف ائیر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کے عہدے اور مراعات بھی تاحیات برقرار رہیں گی۔

یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں پیش کردی گئی، قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے حوالے

میڈیا رپورٹ کے مطابق ان افسران کو صدر کی طرح عدالتی استثنیٰ حاصل ہوگا اور کمانڈ مدت مکمل ہونے کے بعد وفاقی حکومت انہیں ریاست کے مفاد میں کوئی ذمہ داری سونپ سکتی ہے۔

تقرری کا عمل

آرمی چیف، نیول چیف اور ائیر چیف کی تقرری صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر کریں گے۔ وزیراعظم چیف آف ڈیفنس فورسز کی تجویز پر پاک آرمی سے کمانڈر نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کا تقرر کرے گا۔ اگر کوئی جج یا فوجی اعلیٰ افسر تقرری قبول نہ کرے تو انہیں ریٹائر تصور کیا جائے گا۔

وفاقی آئینی عدالت کا قیام

ترمیم کے مطابق ملک میں وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، جس میں ہر صوبے سے برابر نمائندگی ہوگی۔ صدر آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور ججز کا تقرر کرے گا۔

آئینی عدالت کے فیصلے پاکستان کی تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے علاوہ کوئی عدالت آئینی عدالت کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔

عدالتی اختیارات اور از خود نوٹس

سپریم کورٹ سے متعلق آرٹیکل 184 اور از خود نوٹس کی شق ختم کر دی گئی ہے۔ آئینی عدالت کے جج 68 سال کی عمر تک عہدے پر رہیں گے اور چیف جسٹس کی مدت 3 سال ہوگی۔ صدر آئینی عدالت کے کسی جج کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کر سکتا ہے۔

صدر اور گورنر کا استثنیٰ

مجوزہ ترمیم کے مطابق صدر کے خلاف عمر بھر کے لیے فوجداری کارروائی نہیں ہوسکے گی۔ گورنر کے خلاف بھی ان کے عہدے کی مدت کے دوران کوئی فوجداری کارروائی نہیں ہوگی اور کوئی عدالت انہیں گرفتار یا جیل بھیجنے کا حکم نہیں دے سکتی۔

یہ مجوزہ آئینی ترمیم ملک کے دفاعی ڈھانچے اور عدالتی نظام میں اہم تبدیلیاں لانے کے لیے تیار کی گئی ہے، جس میں فوجی عہدوں کے حقوق، عدالتوں کی حدود اور اعلیٰ حکومتی عہدہ داروں کے استثنیٰ کو واضح کیا گیا ہے۔

چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ کس کو تفویض کیا جائیگا؟ 

ممکنہ 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے آ گیا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ سے آئینی اختیارات واپس لے کر ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کے سپرد کیے جائیں گے۔ یہ عدالت آئین کی تشریح اور آئینی تنازعات کے فیصلے کرے گی، جبکہ سپریم کورٹ صرف اپیلوں اور عمومی مقدمات کی عدالت کے طور پر کام کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں پیش کردی گئی، قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے حوالے

میڈیا رپورٹس کے مطابق ترمیم میں آئین کے آرٹیکلز 42، 63 اے، اور 175 تا 191 میں تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 184 کے خاتمے کے بعد سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس کا اختیار بھی ختم ہو جائے گا۔

سپریم کورٹ کی جگہ نئی وفاقی آئینی عدالت

مجوزہ مسودے کے تحت ’وفاقی آئینی عدالت‘ میں ایک چیف جسٹس اور چاروں صوبوں سے برابر نمائندگی ہو گی۔ عدالت کے چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت تین سال مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ اس ترمیم کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات محدود ہو جائیں گے۔

آئینی عدالت کے فیصلے ملک بھر کی تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے، جبکہ سپریم کورٹ صرف عمومی نوعیت کے مقدمات سن سکے گی۔

فوجی ڈھانچے میں تبدیلی، آرمی چیف کو نیا عہدہ

27ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں فوجی قیادت کے ڈھانچے میں اہم تبدیلی تجویز کی گئی ہے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر کے آرمی چیف کو “چیف آف ڈیفنس فورسز” کا اضافی عہدہ دینے کی سفارش کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:27ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں پیش کردی گئی، قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے حوالے

اسی کے ساتھ فیلڈ مارشل اور دیگر اعلیٰ فوجی عہدوں کو تاحیات درجہ دینے کی تجویز بھی شامل ہے۔

ججوں کی تقرری کا نیا طریقہ کار

مجوزہ ترمیم کے مطابق ججوں کی تقرری میں وزیراعظم اور صدر کو مرکزی کردار حاصل ہوگا۔ جوڈیشل کمیشن میں وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دونوں شامل ہوں گے، جبکہ پارلیمنٹ کو آئینی عدالت کے ججوں کی تعداد طے کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔

سیاسی ردعمل اور ماہرین کی رائے

قانونی ماہرین نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات میں بڑا تغیر قرار دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ترمیم کے مسودے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام طاقت کے توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔

سیاسی حلقوں میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور آرمی چیف کو نیا کردار دینے کے فیصلے پر بحث تیز ہو گئی ہے۔

مجوزہ ترمیم کے دیگر اہم نکات

وفاقی آئینی عدالت قائم کرنے کے لیے مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کے نکات سامنے آگئے ہیں۔ ترمیم کے مطابق ملک میں وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی اور ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کو فوجداری مقدمات میں استثنیٰ دینے کی ترمیم قائمہ کمیٹی میں پیش، 27ویں آئینی ترمیم پر تفصیلی جائزہ

مجوزہ آئینی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی جج ٹرانسفر قبول کرنے سے انکار کرے گا تو اسے ریٹائر تصور کیا جائے گا۔ صدر کے خلاف عمر بھر کے لیے کوئی فوجداری کارروائی نہیں ہو سکے گی اور گورنر کے خلاف بھی صرف مدت عہدہ کے دوران کارروائی ممکن ہوگی۔ کسی عدالت کو صدر یا گورنر کی گرفتاری یا جیل بھیجنے کا اختیار نہیں ہوگا۔

وفاقی آئینی عدالت میں ہر صوبے سے برابر ججز ہوں گے، جبکہ چیف جسٹس آئینی عدالت اور ججز کا تقرر صدر کریں گے۔ عدالت کو اپنے کسی فیصلے پر نظرثانی کا اختیار حاصل ہوگا اور صدر قانون سے متعلق کسی معاملے پر رائے کے لیے وفاقی آئینی عدالت کو بھیج سکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ کس کو تفویض کیا جائیگا؟ 27ویں آئینی ترمیم کامسودہ سامنے آگیا

ترمیم میں سپریم کورٹ کو قانون سے متعلق معاملہ بھیجنے کی شق ختم کر دی گئی ہے اور از خود نوٹس سے متعلق شق 184 بھی حذف کر دی گئی ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کے ججز 68 سال کی عمر تک خدمات انجام دیں گے جبکہ آئینی عدالت کا چیف جسٹس 3 سالہ مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہوگا۔ صدر کسی جج کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کر سکیں گے۔

وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ میں تقرری قبول نہ کرنے والے ہائی کورٹ کے ججز کو بھی ریٹائر تصور کیا جائے گا۔ صدر سپریم کورٹ کے ججز میں سے وزیراعظم کی ایڈوائس پر وفاقی آئینی عدالت کا پہلا چیف جسٹس مقرر کریں گے اور ججز کا تعین چیف جسٹس فیڈرل آئینی کورٹ سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں پیش کردی گئی، قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے حوالے

27 ویں آئینی ترمیم کابینہ سے منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش کی گئی اور پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں زیر غور ہے۔ قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس کل (بروز اتوار) دن 11 بجے دوبارہ ہوگا۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • سینیٹ نے 27ویں آئینی ترمیم کی 59شقوں کی کثرت رائے سے منظوری دیدی، اپوزیشن کا شور شرابہ
  • سینیٹ و قومی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹی میں آرٹیکل 243 میں ترامیم کی منظوری
  • سینیٹ وقومی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹیوں کا اجلاس ،مسلح افواج کے سربراہوں کے تقرر سے متعلق مجوزہ ترمیم منظور
  • سینیٹ و قومی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹی نے آرٹیکل 243 میں ترامیم کی منظوری دے دی
  • 27ویں ترمیم سےمتعلق سینیٹ، قومی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹیوں کا اجلاس، آئینی عدالت کےقیام پرمشاورت مکمل
  • سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی مشترکہ قائمہ کمیٹی کا اجلاس شروع، 27ویں آئینی ترمیم زیر بحث
  • حکومت پہلی ’قومی صنعتی پالیسی‘ کے اجرا کیلئے آئی ایم ایف کی منظوری کی منتظر
  • پنجاب میں صوبائی محکموں اورکمپنیوں کو ’’فنڈز کی خودمختاری‘‘ختم
  • 27 ویں ترمیم کیلئے اتفاق رائے چاہتے، صوبائی خود مختاری ختم نہیں کرینگے: احسن اقبال
  • دلہا کے ساتھ فراڈ، 8 لاکھ خرچ کرکے برات لے کر پہنچا تو دلہن کہیں اور بیاہی گئی تھی