Express News:
2025-06-27@01:51:02 GMT

طاقت کے زعم میں امن؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

امریکی صدر ٹرمپ نے نیدر لینڈزکے شہر دی ہیگ میں نیٹو اجلاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران یورینیم افزودگی کا پروگرام دوبارہ شروع کرے گا، تو اسے فوجی کارروائی سے روکیں گے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان سیز فائر بالکل ٹھیک جا رہا ہے، میرے کہنے پر اسرائیلی طیارے ایران کی فضاؤں سے واپس آئے ہیں، غزہ کے معاملے پر بھی بڑی پیش رفت ہو رہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہیروشیما کی مثال دینا نہیں چاہتا، ناگاساکی کی بھی نہیں لیکن بنیادی طور پر امریکی حملہ ہی وہی چیز تھی جس نے ایران اسرائیل جنگ کا خاتمہ کیا۔

 دی ہیگ میں ہونے والے نیٹو اجلاس کے دوسرے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جو خیالات سامنے آئے، ان کے تناظر میں اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ آیا وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان مستقل بنیادوں پر امن قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے یا نہیں؟ تو اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ یہ عمل انتہائی پیچیدہ، کثیر الجہتی اور طویل المدتی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے، جو محض عسکری کارروائیوں یا دھمکیوں سے ممکن نہیں ہو سکتا۔ ٹرمپ کی حکمت عملی عمومی طور پر فوری نتائج، طاقت کے مظاہرے اور سیاسی فائدے پر مبنی ہوتی ہے، جب کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال تاریخی، مذہبی، سیاسی اور علاقائی تناؤ کا مرکب ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے نیٹو اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران دعویٰ کیا کہ ان کے دباؤ اور امریکی فضائی طاقت کے مظاہرے کے نتیجے میں ایران کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا اور اسرائیل نے فوری حملے سے گریز کیا۔ انھوں نے اسے اپنی قیادت کی کامیابی قرار دیا۔ بظاہر یہ ایک وقتی کامیابی ضرور ہو سکتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایران اب اپنی جوہری پالیسی سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے گا یا اسرائیل اپنی فوجی جارحیت سے باز آ جائے گا۔

ایران کی سیاسی قیادت خاص طور پر سخت گیر حلقے اس دباؤ کو ایک ’’ غیر ملکی جارحیت‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسے داخلی سطح پر اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں، جس کا نتیجہ مزید مزاحمت اور خود انحصاری کی طرف لے جاتا ہے۔ایران اور اسرائیل کے درمیان مستقل بنیادوں پر امن قائم کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دونوں ممالک کے مابین براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار نہ ہو اور اس میں تیسرے فریق کے طور پر کوئی غیر جانبدار اور قابلِ اعتماد قوت ثالثی کا کردار ادا نہ کرے۔

ٹرمپ انتظامیہ کا اسرائیل کی کھلی حمایت کا رجحان، جیسا کہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، فلسطینیوں کی نظر میں امریکی کردار کو مکمل طور پر متنازعہ بنا چکا ہے۔ لہٰذا ایران جیسے ملک کے لیے امریکا کی ثالثی کبھی قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس پس منظر میں یہ قیاس کہ ٹرمپ ایران اور اسرائیل کے درمیان امن قائم کر سکیں گے، نہایت خوش فہمی پر مبنی ہو گا۔

دوسری طرف اگر اسرائیل کی پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو اسرائیلی حکومت کی پالیسی ہمیشہ سے دفاعی کے ساتھ ساتھ جارحانہ نوعیت کی رہی ہے۔ اس کے عسکری ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں نہ صرف ہمسایہ ممالک پر نظر رکھتی ہیں بلکہ اندرون فلسطین بھی مظالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں غزہ پر مسلسل بمباری، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور فلسطینی شہریوں کی ہلاکتیں اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ یہ کہنا کہ اسرائیل کی غنڈہ گردی کسی امریکی صدر کی ایک تقریر یا دباؤ سے رک جائے گی، حقیقت سے فرار کے مترادف ہے۔ اسرائیلی پالیسی اس وقت تبدیل ہوگی جب اسے بین الاقوامی سطح پر سخت سیاسی، سفارتی اور معاشی دباؤ کا سامنا ہو اور جب اس کی داخلی سیاست میں امن کا بیانیہ فوقیت حاصل کرے۔

فلسطین پر جاری مظالم کی تاریخ طویل اور المناک ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، بین الاقوامی قوانین اور عالمی رائے عامہ سب فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین کے بیشتر علاقوں پر قبضہ جما رکھا ہے، یہودی آباد کاری کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے اور غزہ ایک قید خانے میں تبدیل ہو چکا ہے۔

جب تک فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور جب تک اسرائیل پر بین الاقوامی سطح پر سخت دباؤ نہیں ڈالا جاتا، اس وقت تک فلسطینی عوام کے لیے کسی بھی قسم کے امن کی امید رکھنا محض فریب ہوگا۔ ٹرمپ کی پالیسی، جو مکمل طور پر اسرائیل نواز رہی ہے، اس مسئلے کے حل میں مزید رکاوٹ بن چکی ہے۔

اب اگر یوکرین اور روس کی جنگ کی بات کی جائے، تو یہ جنگ بھی محض دو ممالک کے درمیان نہیں بلکہ ایک عالمی کشمکش کی علامت ہے، جس میں امریکا، نیٹو، یورپی یونین اور دیگر علاقائی طاقتیں براہ راست یا بالواسطہ ملوث ہیں۔ ٹرمپ نے کئی مواقعے پر دعویٰ کیا کہ وہ اگر دوبارہ صدر بنے تو 24 گھنٹوں میں اس جنگ کو روک سکتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ بظاہر ایک انتخابی نعرہ ہے جس میں زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔

یوکرین اپنی سرزمین پر روسی قبضے کے خلاف برسر پیکار ہے اور اسے نیٹو اور امریکا کی بھرپور مدد حاصل ہے۔ روس اپنی علاقائی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے۔ ایسے میں کسی ایک شخصیت کا دعویٰ کہ وہ اس پوری جنگ کو چند گھنٹوں میں ختم کر دے گا، محض سادہ لوحی ہے۔

ٹرمپ کی سابقہ خارجہ پالیسی کو دیکھا جائے تو وہ نیٹو پر مالی دباؤ ڈالنے، اتحادیوں سے رقم وصول کرنے اور امریکا کی عسکری قوت کو سودے بازی کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ انھوں نے کبھی بھی اصولی، اخلاقی یا بین الاقوامی قانون پر مبنی پالیسی پر زور نہیں دیا۔ ایسے میں ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ یوکرین جنگ جیسے پیچیدہ اور سنگین تنازعے کو سفارتی طور پر ختم کروا لیں گے، زمینی حقائق کے برعکس ہے۔

 یہ بھی ایک قابل غور بات ہے کہ نیٹو اجلاس میں دیگر ممالک کے رہنماؤں کی موجودگی کے باوجود ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنی ’’امریکا اول‘‘ پالیسی کا اظہار کیا۔ ان کا سارا زور اس بات پر رہا کہ امریکا نیٹو کا سب سے بڑا مالی معاون ہے اور دیگر ممالک کو مزید مالی بوجھ اٹھانا چاہیے۔ اس سوچ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ترجیح مشترکہ عالمی فلاح یا امن نہیں بلکہ امریکا کے معاشی مفادات ہیں۔ ایسی سوچ کے ساتھ وہ عالمی ثالث کے طور پرکس طرح موثر کردار ادا کر سکتے ہیں، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔

دنیا کو اس وقت ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو طاقت اور سودے بازی کے بجائے انصاف، قانون اور انسانی حقوق کو اولیت دیں۔ فلسطین ہو یا یوکرین، ایران ہو یا اسرائیل، تمام تنازعات کا دیرپا حل اسی وقت ممکن ہے جب عالمی طاقتیں طاقت کے توازن کی بجائے حق و انصاف کے اصولوں پر عمل کریں۔ صدر ٹرمپ کی موجودہ پالیسی اور بیانات سے ایسا کوئی عندیہ نہیں ملتا کہ وہ اس راہ پر گامزن ہیں۔

اگرچہ انھوں نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی وقتی صورت حال پیدا کی، لیکن اس کو مستقل امن کہنا ایک مبالغہ ہوگا۔ امن کی راہ مذاکرات، اعتماد سازی، باہمی احترام اور انسانی حقوق کی بنیاد پر ہی نکل سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری ایک مربوط، غیر جانبدار اور دیرپا حکمت عملی اختیار کرے تاکہ دنیا کے ان سلگتے ہوئے مسائل کا مستقل حل نکل سکے۔امریکا کو بطور سپر پاور ایک ذمے دار کردار ادا کرنا چاہیے، نہ کہ صرف طاقت کا مظاہرہ اور سیاسی نعرہ بازی۔ فلسطینی عوام کو ان کے حقوق دلوانے، ایران کو عالمی برادری کے ساتھ جوڑنے، اسرائیل کو قانون کا پابند بنانے، اور یوکرین جنگ کو روکنے کے لیے جامع اور سنجیدہ سفارت کاری درکار ہے۔

جب تک عالمی طاقتیں اس سمت میں پیش رفت نہیں کرتیں، تب تک مشرق وسطیٰ میں غنڈہ گردی، ظلم اور جنگ کا سلسلہ جاری رہے گا اور ٹرمپ جیسے لیڈروں کے دعوے محض انتخابی نعرے ہی رہیں گے۔ یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ دنیا کے طاقتور رہنما جب تک ذاتی سیاسی مفادات اور وقتی فوائد سے بالاتر ہو کر انسانیت کے مشترکہ مفاد کو اپنا مقصد نہیں بناتے، اس وقت تک نہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو گا، نہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ ختم ہو گی، اور نہ ہی مظلوم فلسطینی عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ دنیا کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ طاقت کے بل پر امن چاہتی ہے یا انصاف اور حق کی بنیاد پر ایک پائیدار دنیا کی تشکیل۔ یہ فیصلہ اب مزید مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایران اور اسرائیل کے درمیان بین الاقوامی فلسطینی عوام نیٹو اجلاس کے طور پر انھوں نے ٹرمپ کی طاقت کے کے لیے

پڑھیں:

ایران کی شاندار فتح اور مستقبل کی پلاننگ

اسلام ٹائمز: ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور ایران کا مستقبل بے حد روشن ہے، خدا آپ دونوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ حیرت ہے دنیا کا جھوٹا ترین شخص دونوں ممالک کو سچائی کے راستے پر چلنے کی تلقین کر رہا ہے۔ اسرائیل وہ ریاست ہے جس کی بنیاد ہی جھوٹ پر رکھی گئی، اس کا سچائی سے کیا سروکار؟ دوسری جانب اسرائیلی عوام میں نتین یاہو اور امریکی عوام میں ٹرمپ کیخلاف نفرت بڑھ رہی تھی اور دونوں کیخلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ اس صورتحال میں دونوں کی بقاء جنگ بندی میں ہی تھی۔ تحریر: تصور حسین شہزاد

امریکہ کے قطر میں قائم ’’العدید اڈے‘‘ پر بھرپور ایرانی حملے کے بعد ٹرمپ کو احساس ہو گیا کہ ایران کے یہ حملے اسی طرح ان کے اڈوں پر جاری رہے تو ’’بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے‘‘ کے مصداق مشرق وسطیٰ میں قائم امریکہ کی مصنوعی عزت خاک میں مل جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ فوری طور پر اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو کو ہار مان لینے کا مشورہ دیدیا گیا۔ العدید اڈے پر حملے بعد صدر ٹرمپ نے ایران کا شکریہ ادا کیا اور کہا "میں ایران کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ اس نے حملے کی پیشگی اطلاع دی، جس کی بدولت کسی کی جان نہیں گئی اور کوئی زخمی نہیں ہوا۔ شاید اب ایران خطے میں امن اور ہم آہنگی کی طرف بڑھ سکے اور میں اسی قسم کی ترغیب اسرائیل کو بھی دوں گا۔ آپ سب کی اس معاملے پر توجہ کا شکریہ۔

ٹرمپ نے دنیا کو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا "دنیا کو مبارک ہو، اب وقت ہے امن کا"۔ ٹرمپ کے اس پیغام سے بظاہر یہی لگتا ہے، کہ امریکہ کا جوابی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں۔ انہوں نے اس پیغام میں اسرائیل کو بھی امن کی ترغیب دی ہے، حالانکہ اس سے پہلے وہ صرف ایران پر ہی دباؤ ڈالتے رہے اور اسرائیل کی کھل کر حمایت کرتے رہے ہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب یہ تنازعہ جلد ہی اپنے اختتام کو پہنچ سکتا ہے۔ ایکس پر جاری پیغام میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’دنیا اور مشرق وسطیٰ اصل فاتح ہیں، دونوں ممالک اپنے مستقبل میں بے پناہ محبت، امن اور خوشحالی دیکھیں گے، ان کے پاس بہت کچھ حاصل کرنے کیلئے ہے، لیکن اگر وہ سچائی کے راستے سے ہٹ گئے تو سب کچھ کھو بھی سکتے ہیں، اسرائیل اور ایران کا مستقبل بے حد روشن ہے، خدا آپ دونوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے‘‘۔

حیرت ہے دنیا کا جھوٹا ترین شخص دونوں ممالک کو سچائی کے راستے پر چلنے کی تلقین کر رہا ہے۔ اسرائیل وہ ریاست ہے جس کی بنیاد ہی جھوٹ پر رکھی گئی، اس کا سچائی سے کیا سروکار؟ دوسری جانب اسرائیلی عوام میں نتین یاہو اور امریکی عوام میں ٹرمپ کیخلاف نفرت بڑھ رہی تھی اور دونوں کیخلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ اس صورتحال میں دونوں کی بقاء جنگ بندی میں ہی تھی۔ جس پر فوری عمل کرتے ہوئے قطری شہزادوں کی مدد لی گئی اور معاملہ سیز فائر تک پہنچ گیا۔ اسرائیل اور امریکہ اپنے کسی مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے، بنیادی طور پر امریکہ و اسرائیل یہاں دو مرکزی اہداف لیکر آئے تھے۔

ایک تو ایران کے جوہری پروگرام کا خاتمہ اور دوسرا رجیم چینج۔ ایران کا جوہری پروگرام بھی کامیابی کیساتھ جاری و ساری ہے اور رجیم چینج بھی نہیں ہوا، سید علی خامنہ ای ہنوز سپریم لیڈر ہیں اور اپنی حیات تک سپریم لیڈر ہی رہیں گے، اور شاہ ایران کی اولاد دل کے ارماں آنسووں میں بہانے پر مجبور ہوگئی۔ تیسری اہم بات، ایران نے اسرائیل کا ناقابل تسخیر ہونے کا تصور بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کو جدید ترین ٹیکنالوجی اور دنیا کے جدید ترین اسلحے کے حامل ممالک کی مکمل حمایت حاصل تھی، ایران نے مزاحمت کی علامت بن کر امریکہ کا غرور خاک میں ملا دیا ہے۔

امریکہ نے تو رات کے اندھیرے میں چھپ کر خالی جوہری سائٹس پر حملہ کیا، لیکن ایران نے فوجی اڈے پر حملہ کرنے سے قبل باقاعدہ امریکہ کو آگاہ کرکے ثابت کیا کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ امریکہ افغانستان میں بیس سال تک جنگ لڑتا رہا۔ آخر کار رسوا ہو کر نکل گیا۔ ویتنام بھی امریکی رسوائی کی شاندار مثال کے طور جانا جاتا ہے۔ جبکہ ایرانی قوم اور افواج کہیں زیادہ تربیت یافتہ ہیں اور نظریاتی طور پر بھی شہادت کی آرزو ایرانیوں میں افغانیوں سے زیادہ ہے، تو امریکہ کبھی بھی ایران کو فتح نہیں کر سکتا تھا۔ اب جبکہ جنگ بندی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ جنگ بندی ہوتی ہے تو ایران کو انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دشمن انتہائی چالاک، دھوکے باز، مکار، شاطر، جھوٹا، فریبی اور منافق ہے۔ جنگ بندی ہوتی ہے تو یہ ایران کی تباہی دیکھنے والے دشمنوں کے ارمانوں کا قتل ہوگا، اس لیے ایران کو جنگ بندی کو قبول کر لینا چاہیئے۔

ایران کو فتح مبارک ہو، ایران نے اکیلے مقابلہ کرکے ثابت کر دیا ہے کہ وہ عظیم ملت ہے۔ اسرائیل کے دفاعی نظام کو ناکارہ کرکے ایران چاہتا تو اسے ایک ہفتے میں تباہ و برباد کر سکتا تھا، حالیہ ایرانی حملوں میں اسرائیل نے رو رو کر ٹرمپ کو مدد کیلئے آواز لگائی اور وہ بھی اپنے ناجائز بیٹے کو مار کھاتا دیکھ کر دوڑا دوڑا چلا آیا، لیکن الحمدللہ، ایرانی ثابت قدم رہے اور اسرائیل کیساتھ ساتھ ٹرمپ کو بھی سبق سکھا دیا۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کو برسوں یہ سبق یاد رہے گا۔ لیکن ایران کی قیادت کیلئے یہی کہیں گے کہ امن کا زمانہ جنگ کی تیاری کا زمانہ ہوتا ہے، اس لئے اس مدت سے فائدہ اٹھائیں، مکمل تیاری کریں کیونکہ دشمن کو شکست کا جو زخم ایران نے دیا ہے، یہ زخم انہیں چین نہیں لینے دے گا۔ یہ پلٹ کر وار کر سکتے ہیں۔ اس لئے انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران اسرائیل جنگ کا خاتمہ
  • پاکستان اور ایران نے اپنی طاقت منوائی، خطے میں نیا دفاعی بلاک بنانا چاہیے، حافظ نعیم
  • ایران کی طاقت
  • ایران اسرائیل جنگ میں طاقت کا توازن
  • ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد… دنیا کے امتحان کا نیا دور
  • سُپر طاقت ہے خدا۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ
  • ایران کی شاندار فتح اور مستقبل کی پلاننگ
  • جنگ بندی، مسلط کردہ امن نہیں بلکہ طاقت کے بدلتے توازن کی علامت
  • امریکا اپنی طاقت سے اسرائیل کے ذریعے رجیم تبدیل کرواتا ہے: لطیف کھوسہ