امت مسلمہ ایسا جسم جس میں صرف ایران کو درد تھا
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا اور یورپ کے تعلقات بھی عجیب ہیں۔ امریکا اگر مریخ پر ہے تو یورپ زہرہ پر۔ بحر اوقیانوس انہیں جدا تو کرتا ہے مگر ان کے اختلافات اور بحثیں اس میں غرق نہیں ہوتیں۔ دونوں کا بندھن پرانی شادی کی طرح ہے، جھگڑے بہت مگر جدائی نا ممکن۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے مارشل پلان کے ذریعے یورپ کی معیشت کو دوبارہ کھڑا کیا۔ اس پر امریکا اگر یورپ پر احسان جتاتے ہوئے کہتا ہے ’’ہم نے تمہیں دوبارہ جینا سکھایا‘‘ تو فوری جواب ملتا ہے ’’تم نے ہمیں چیک دیے ہم نے تمہیں تہذیب‘‘۔ یورپ کی سلامتی ناٹو اتحاد کی وجہ سے امریکا کی فوجی قوت کے سائے تلے ہے مگر اس کے باوجود شکایتیں ہیں کہ ہردم جاری وساری۔
کہا جاتا ہے کہ یورپ میں سب کچھ منع ہے جب تک اجازت نہ ہو جب کہ امریکا میں سب کچھ جائز ہے جب تک منع نہ ہو۔ جس وقت یورپی دوپہر کو شراب پی رہے ہوتے ہیں امریکا جمہوریت پر لیکچر دے رہا ہوتا ہے۔ یورپ خواب دیکھتا ہے امریکا وہ خواب بیچتا ہے۔ یورپ اور امریکا کا رشتہ اس پرانے مگر مہنگے اور خاندانی صوفے کی طرح ہے جو غیرآرام دہ ہے مگر اسے چھوڑا یا بدلا نہیں جاسکتا۔
یورپ اور امریکا کے تعلقات نیم گرم چائے کی ایسی پیالی کی مانند تھے جس سے تعلقات اور جذبات کی بھاپ اٹھتی رہتی تھی، دونوں چائے کا کپ تھامے رہتے تھے مگر ان تعلقات کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی دوسری مرتبہ آمد ایسی تھی جیسے کوئی زور سے گھونسا مار کر چائے کی میز ہی پلٹ دے۔ برسوں سے امریکا اور یورپ مہذب اختلافات کے باوجود مضبوط بندھنوں میں بندھے ہوئے تھے۔ ناٹو کے اجلاسوں میں باہم تنقید تو ہوتی تھی مگر مسکراتے ہوئے مگر صدر ٹرمپ نے ان اجلاسوں کو کاروباری بہی کھاتوں میں بدل دیا۔ کون کتنا کھاتا ہے اور کتنا خرچ کررہا ہے اور بدلے میں کیا دے رہا ہے۔ پہلی بار یورپ کو احساس ہوا کہ ان کا کسی دوست سے نہیں تاجر سے واسطہ ہے۔
یو کرین کے معاملے میں یورپ اور صدر ٹرمپ کے تعلق ایسے تھے جیسے کوئی زخمی ہو اور دوست اس کا مذاق اُڑا رہا ہو۔ پیوٹن سے صدر ٹرمپ کے نرم اور دوستانہ رویہ نے یورپ کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ صدر ٹرمپ نے کھل کر کہہ دیا یورپ کی سلامتی امریکا کی ذمے داری نہیں۔ روس کے سائبر حملوں پر جب یورپی ممالک میں بے چینی پھیلی تو ٹرمپ انتظامیہ کا ردعمل بہت دھیما اور تاخیر سے تھا۔ صدر ٹرمپ پیوٹن کی تعریف کرتے رہتے تھے ’’پیوٹن ایک مضبوط رہنما ہے۔ میں اسے پسند کرتا ہوں‘‘۔ جرمنی اور فرانس کو یقین ہو گیا کہ امریکا اب ان کا قابل اعتماد اتحادی نہیں رہا۔ فرانسیسی صدر میکرون نے اس موقع پر تاریخی جملہ کہا تھا ’’ناٹو دماغی موت کے دور سے گزر رہا ہے‘‘۔
بات کچھ تفصیلی ہوگئی۔ کہنا یہ تھا کہ صدر ٹرمپ اور یورپ کے اختلافات کی شدت دیکھیے لیکن جیسے ہی اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی اختلافات کی خلیج چند گھنٹوں میں ہی پاٹ دی گئی اور یورپی دارالحکومت صدر ٹرمپ کے فیصلوں کی تحسین اور ایران کی مذمت سے گونجنے لگے۔ فرانس اور جرمنی جو امریکا کے خلاف جانے کا کوئی موقع نہیں گنواتے اسی فرانس کے صدر نے کہا ’’اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام خطرناک حدتک آگے بڑھ چکا ہے‘‘۔ اور جرمنی کے فریڈرک میرٹز نے تو یہ کہہ کر حد ہی کردی کہ ’’یہ وہ گندا کام ہے جو ایران ہم سب کے لیے کررہا ہے۔ ہدف وہی رہنا چاہیے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہ بنائے‘‘۔ یورپی قیادت نے ایرانی میزائلی اور جو ہری خطرے کو یورپی براعظم تک پھیلنے والا آتش فشاں قرار دے کر صدر ٹرمپ کی یوں پشت پناہی کی جیسے کبھی کوئی اختلاف ہی نہیں تھا۔ رنجشیں دیکھتے ہی دیکھتے بلند آہنگ اتحادی ترانوں میں تبدیل ہوگئیں۔
اب آئیے عالم اسلام کی طرف۔ باتیں ہی باتیں مگر عمل کا میدان صحرائوں کی طرح سنسان اور خالی۔ اسرائیل اور امریکا کے خلاف ادنیٰ درجے میں بھی کوئی ایسا عملی اقدام نہیں کہ انہیں چیونٹی کاٹنے برابر بھی کوئی تشویش اور تکلیف ہوسکے بلکہ ان میں سے بعض ایران پر حملوں میں اسرائیل کے معاون اور مددگار تھے۔ 26 اکتوبر 2024 کو اسرائیلی F35 نے عراق کے اوپر سے اڑان بھرکر ریہرسل اسٹرائک کیں۔ عراق محض اقوام متحدہ میں احتجاج کرنے تک محدود رہا۔ اسرائیل امریکا اور ایران جنگ کے دوران اسرائیلی ڈرونز اور میزائلز امریکی کنٹرولڈ عراقی فضائی حدود سے فائر ہوکر ایران میں موجود ان اہداف کو نشانہ بناتے رہے جو تقریباً سو کلومیٹر کی دوری پر تھے۔ اردن کی حکومت نے اگرچہ تردید کی ہے لیکن میڈیا پر یہ رپورٹ ہوتا رہا کہ اسرائیلی جہاز اردن کے اوپر سے گزر کر ایران پر حملہ آور ہوئے۔ شام کے بارے میں بھی ایسے ہی دعوے کیے جارہے ہیں۔
ایران پر حملے کے بعد ایک F16 اسرائیلی لڑاکا طیارے کو شامی دیرالزور علاقے میں بوئنگ 707 ٹینکر سے ہوا میں دوبارہ تیل بھرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کی فضائی حدود تکنیکی طور پر اسرائیلی طیاروں کے استعمال میں آئی ہیں۔ قطر، کویت اور امارات میں امریکی بیسز موجود ہیں جہاں سے امریکی اجازت سے اسرائیلی طیاروں نے ری فیو لنگ کی۔ سعودی عرب، عمان اور بحرین نے اگرچہ سرکاری طور پر اپنی فضائی حدود کھولنے سے انکار کیا لیکن ابتدا میں کچھ ایسی خبریں آئیں جن سے یہ اشارے ملے کہ سعودی فضائوں کے کچھ حصے بھی استعمال ہوئے۔ اسلامی ممالک نے کسی نہ کسی درجے میں اسرائیل اور امریکا کی جنگی مدد تو کی لیکن کسی بھی درجے میں ایران کی جنگی مدد نہیں کی۔ اسلامی ممالک نے نہ اسرائیل کا راستہ روکنے کی ہمت کی اور نہ ایران کی مدد کرنے کی۔
جنگ کے دوران پورا یورپ اسرائیل کی ہر طرح کی جنگی اور فوجی اور مالی مدد کر رہا تھا ہر طرح کی خفیہ معلومات اسے مہیا کر رہا تھا حتیٰ کہ مغرب کے تشکیل کردہ نام نہاد عالمی ادارے جیسے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی جو ایران کے جوہری مراکز نطنز، فردو، اراک اور اصفہان کی مسلسل انسپکشن کررہی تھی اس نے سنٹری فیوجز کی تعداد، ریسرچ ریکٹرز کے محل وقوع اور یورینیم کی افزودگی کے بارے میں خفیہ رپورٹس اور تکنیکی معلومات مکمل طور پر اسرائیل اور امریکا کو فراہم کیں جو حملوں کے اہداف کی تیاری میں بہت مددگار ثابت ہوئیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے بھی کوئی موثر قرار داد اسرائیل کے خلاف منظور نہ کی۔ ایف اے ٹی ایف نے ایران کا مسلسل گھیرائو کیے رکھا تاکہ وہ معاشی طور پر کمزور سے کمزور تر ہوسکے۔ بین الاقوامی اداروں کا کردار یہ رہا کہ وہ ایران میں موجود ایک سوئی کو بھی مانیٹر کررہے تھے اور اسرائیل کو گائیڈ کررہے تھے۔
کسی بھی اسلامی ملک نے ایران کو کسی بھی قسم کے ہتھیار دیے، نہ فضائی معاونت، نہ خفیہ معلومات اور نہ ہی کوئی فوجی حمایت۔ او آئی سی حسب معمول صرف بیٹھنے بٹھانے، باتیں کرنے اور اختتامیہ جاری کرنے تک مشغول رہی۔ پاکستان نے ایران کے حق میں کچھ فعالیت دکھائی۔ کہا جارہا ہے کہ فیلڈ مارشل منیر نے صدر ٹرمپ سے ملاقات میں ایران کے حوالے سے ان کی ذہن سازی اور رہنمائی کی جو بہت موثر رہی اس خاموش کارروائی کے علاوہ اگر اس میں کچھ حقیقت ہے، کسی اسلامی ملک کا ایران کے حق میں دوران جنگ کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلیجی ممالک ایران کو اپنے لیے علاقائی خطر ہ سمجھتے ہیں اور اسرائیل کو غیراعلانیہ اتحادی۔ اس دوران امت مسلمہ ایک ایسا جسم تھی جس میں صرف ایران کو درد ہورہا تھا اور کوئی اس درد کی دوا کرنے پر تیار نہیں تھا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل اور امریکا امریکا کی اور یورپ ایران کے بھی کوئی نے ایران ایران کو کے خلاف رہا ہے
پڑھیں:
امریکا کا ایران پر حملوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت جائز قرار دینے کا دعویٰ
امریکا نے ایران پر حالیہ فوجی کارروائیوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت جائز قرار دیتے ہوئے اپنا مؤقف واضح کردیا ہے۔
سلامتی کونسل کو بھیجے گئے ایک خط میں امریکی حکومت نے ایران کے خلاف کارروائی کو ’اجتماعی دفاع‘ کا نام دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیت کو ختم کرنا ان کا بنیادی ہدف تھا۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر ڈروتھی شیا نے تحریر کردہ اس خط میں دلیل دی گئی کہ ’’ایران کے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے اور ممکنہ استعمال کے خطرے کو روکنا ناگزیر تھا‘‘۔ خط میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ امریکا اب بھی ایران کے ساتھ کسی معاہدے کے لیے پرعزم ہے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متنبہ کیا کہ اگر مستقبل میں انٹیلی جنس رپورٹس میں ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے تشویشناک حقائق سامنے آئے تو وہ دوبارہ حملے کے امکان سے انکار نہیں کریں گے۔ ٹرمپ نے کہا، ’’اگر ایران نے یورینیم کی اس سطح تک افزودگی کی جو ہمارے لیے قابل قبول نہیں، تو ہم بمباری کے آپشن پر غور کریں گے‘‘۔