سوشل میڈیا سے مراد وہ پلیٹ فارمز اور ویب سائٹس ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے سے رابطہ کرنے، معلومات و خیالات کا اشتراک کرنے اور باہمی روابط بنانے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔یہ پلیٹ فارمز عام طور پر آن لائن ہوتے ہیں۔صارفین کو مواد بنانے،شیئر کرنے اور دیگر صارفین کے ساتھ بات چیت کی اجازت دیتے ہیں۔سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز انٹرنیٹ سے جڑے ہوتے ہیں۔جیسے کہ تمام ویب سائٹس اور موبائل ایپلی کیشنز۔اس پلیٹ فارم کے ذریعے لوگ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ معلومات، تصاویر،ویڈیو اور دیگر مواد بھیج سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا نیٹ ورک ورچوئل کیرئیر بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔جہاں لوگ ایک دوسرے سے کسی طرح کی بھی دلچسپی اور نظریات کی بنیاد پر جڑتے ہیں۔صارفین نہ صرف معلومات کا اشتراک کرتے ہیں بلکہ مواد بھی تخلیق کرتے ہیں۔جیسے کہ تبصرے اور کسی بھی پوسٹ یا تخلیق کو لائک کرنا۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا ہر طرح کی معلومات کے پھیلائو کا سب سے بڑا تیز رفتار ذریعہ ہے۔اس کے توسط سے ہر طرح کی خبریں اور معلومات لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی مقبولیت کی وجہ اس کا آسان استعمال اور لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی صلاحیت ہے۔سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فائدے ہیں،وہاں نقصانات بھی ہیں جو اکثر رپورٹ نہیں ہوتے۔جو ہوتے بھی ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔سوشل میڈیا پر دوسروں کی پر آسائش زندگی سے موازنہ،افراد میں بے چینی،ڈپریشن اور احساس محرومی پیدا کرتا ہے۔سوشل میڈیا پر منفی رجحانات کے باعث دماغی صحت پر بھی بہت ہی برے اثرات دیکھے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا سے نیند میں بھی بہت خلل پڑتا ہے۔ سونے سے پہلے سوشل میڈیا پر وقت گزارنا معمول کی نیند کو خراب کر دیتا ہے۔جس سے صحت پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔مجموعی صحت متاثر ہوتی ہے۔سوشل میڈیا غنڈہ گردی اور دوسروں کو ہراساں کرنے کے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔جس کا شکار کوئی بھی ہو سکتا ہے۔سائبر ہراسمنٹ آپ کی پریشانی میں اضافے اور دماغی صحت کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں توازن برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر آپ کے معمولات کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ذہن نشین رکھیں جب بھی آپ کو سائبر ہراسمنٹ کا سامنا ہو،فوری ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے رجوع کریں۔جہاں آپ کی شنوائی ہو گی اور ہراساں کرنے والے فرد یا اشخاص کے خلاف نہ صرف ضابطے کے مطابق ایف آئی آر درج ہو سکے گی بلکہ فوری کارروائی بھی عمل میں لائی جا سکے گی۔
سوشل میڈیا کے جہاں منفی اثرات ہیں۔وہاں اس کے فوائد بھی ہیں جن میں سماجی رابطے،معلومات تک رسائی، تعلیم اور کاروبار میں مدد شامل ہے۔سوشل میڈیا لوگوں کو اپنے دوستوں اور خاندان والوں سے جڑے رہنے میں مدد کرتا ہے۔معلومات اور خبروں تک فوری رسائی تک فراہم کرتا ہے۔کاروبار کے لئے مارکیٹنگ اور کسی بھی پروڈکٹ کے فروغ کا موثر ترین ذریعہ ہے۔علاوہ ازیں لوگوں کو نئے دوست بنانے اور مختلف کمیونیٹیز میں شامل ہونے میں بھی مدد کرتا ہے۔یہ کسی بھی موضوع پر تازہ ترین معلومات اور خبروں تک فوری رسائی کا بھی ذریعہ ہے۔ یہ کسی بھی مسئلے پر رائے اور خیالات کے تبادلے کی بھی سہولت دیتا ہے۔ سوشل میڈیا سے نوجوانوں کے لیئے فروغ تعلیم کا بھی کام لیا جا رہا ہے۔یہ طلبا کو ہر نوعیت کی معلومات حاصل کرنے، تحقیق کرنے اور مختلف مضامین کے اہم امور سیکھنے میں بھی مدد کا باعث ہے۔جہاں تک کاروبار کا تعلق ہے سوشل میڈیا کے ذریعے بہترین مارکیٹنگ ہو رہی ہے۔یہ کسی بھی پروڈکٹ کے فروغ کا با آسان،سستا اور موثر ذریعہ ہے۔کسی بھی کاروبار کو ہدف تک پہنچنے،مصنوعات اورخدمات کو فروغ دینے میں بھی بڑا مددگار ہے۔سوشل میڈیا سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے۔لوگ اس پر سیاسی اور سماجی مسائل پر بات چیت کرتے ہیں۔ اس بات چیت کے ذریعے سلوشن ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے اور 80 فی صد لوگوں کو اس میں کامیابی ملتی ہے۔کسی بھی مقصد کے لیئے افراد کو متحد کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔سوشل میڈیا لوگوں کو تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے اور ان صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے لانے میں بھی بہت مددگار ہے۔ یہ پیشہ ورانہ نیٹ ورکنگ کا بھی کارآمد ذریعہ ہے۔دنیا میں اسے انتہائی طاقتور ذریعہ ابلاغ مانا گیا ہے جس سے لوگ ناصرف معلومات تک رسائی حاصل کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے بھی جڑتے ہیں۔کوئی بھی آلہ بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا۔اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ یہی بات سوشل میڈیا پر صادق آتی ہے۔ اس کا استعمال کرتے وقت محتاط رہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم اگر اس کے مثبت پہلوئوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے تو صرف اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔خاص طور پر سوشل میڈیا نے نئی نسل کو اپنے سحر میں گرفتار کیا ہوا ہے۔ضروری ہے کہ نئی نسل کی ذہن سازی کی جائے تاکہ وہ سب سوشل میڈیا کے مثبت پہلوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔یوں تو بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہی ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہم چاہیں تو سوشل میڈیا کے مثبت اور فائدہ مند پہلو اجاگر کر کے اسے ایک اچھی تربیت گاہ میں تبدیل کر سکتے ہیں۔کسی کا قول ہے کمپیوٹر آنے والی نسلوں کو تربیت دے گا اس سے کوئی بھی باشعور انکار نہیں کر سکتا۔سوشل میڈیا کمائی کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ یو ٹیوب پر ذاتی چینلز کے ذریعے لوگ کافی کمائی کر رہے ہیں۔ اسے اپنی آمدن کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ خرید و فروخت کے بہت سارے معاملات و مسائل اس کے ذریعے اب آسان ہو چکے ہیں۔جب سے سمارٹ فونز میں فرنٹ کیمرہ کا آپشن آیا ہے، سیلفی لینے کا رجحان نوجوانوں میں کسی موذی مرض کی طرح پھیل گیا ہے۔موقع بہ موقع تصویریں لی جاتی ہیں،جنہیں مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر پوسٹ کیا جاتا ہے۔ سیلفی لینے کے دوران بہت سے نوجوان خطرات سے دوچار ہوکر موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ لہذا چاہیئے کہ ہم سوشل میڈیا کے استعمال کو ایسا نہ بنائیں کہ جس سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر ہے سوشل میڈیا سوشل میڈیا کے ایک دوسرے سے کرنے اور لوگوں کو کرتے ہیں ذریعہ ہے کے ذریعے میں بھی بھی بہت کرتا ہے کسی بھی کا بھی
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ: پاکستان میں سوشل میڈیا پر کیسا ردعمل رہا؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جون 2025ء) سماجی سائنس دانوں کے مطابق سوشل میڈیا صارفین نے ایران میں ''رجیم چینج‘‘ اور مضبوط دفاع کی ضرورت و صلاحیت کو براہ راست پاکستان سے جوڑ کر دیکھا۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے سماجی مورخ علی عثمان قاسمی کہتے ہیں، ”سیاسی بحث کے لیے پہلے ٹویٹر کا استعمال زیادہ تھا، جب سے یہ 'ایکس‘ ہوا اس کے الگورتھم بدل گئے۔
اب ایسی سرگرمیوں کے لیے فیس بک سب سے مناسب پلیٹ فارم ہے جس کی ایک جھلک ایران پر اسرائیل کے حملے کے بعد ہمارے دانشوروں کی بحث میں ملتی ہے۔"ان کے بقول، ”ایک طرف ایسی بحثیں مخصوص بیانیہ تشکیل دیتی ہیں، دوسری طرف مختلف نقطہ نظر جاننے اور معاشرے کے فکری رویوں کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔
(جاری ہے)
"
سوشل میڈیا کا ردعملسماجی دانشور اور مصنف احمد اعجاز ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”اتنے مختلف قسم کے ورژن تھے کہ انہیں مخصوص خانوں میں بانٹنا مشکل کام ہے۔
ہم اپنی تفہیم کے لیے کہہ سکتے کہ ایک طرف ایران کے حامی تھے، دوسری جانب اس کے مخالف۔"وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتاتے ہیں، ”مذہبی رجحان رکھنے والے افراد اور روایتی طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشور امریکہ اور اسرائیل کی بھرپور مذمت کرتے رہے، یہ رجحان غالب رہا، بطور معاشرہ ہمارے جذبات بھی اسی طرح کے ہیں۔ بہت تھوڑے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ اسرائیل اور امریکہ کے ایران پر حملوں کے حمایتی رہے، یہ زیادہ تر وہ ہیں جن کی شناخت لبرل دانشور کی ہے۔
"ڈی ڈبلیو اُردو سے بات کرتے ہوئے معروف مؤرخ اور سیاسی و سماجی کارکن عمار علی جان کہتے ہیں، ”مٹھی بھر لوگوں کو چھوڑ کر ہمارے سوشل میڈیا صارفین اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں چاہے وہ غزہ میں ہو یا ایران میں۔ اس حوالے سے معاشرے میں یا سوشل میڈیا پر کوئی 'تقسیم‘ نہیں۔ اگر ایک دو فیصد لوگ سامراجی طاقتوں اور نوآبادیاتی حکمرانوں کی زبان بول رہے ہیں تو ان کی کوئی اہمیت نہیں، وہ مقامی فکری رجحانات کی عکاسی نہیں کرتے۔
"احمد اعجاز کے بقول، ”زیادہ تر بحث ان سوالوں کے گرد گھومتی رہی کہ کس کی پوزیشن درست اور مضبوط ہے، ایران کس حد تک مزاحمت کرے گا، کس نے کہاں حملہ کیا اور کتنا نقصان ہوا، جنگ کا انجام کیا ہو گا۔"
وہ کہتے ہیں، ”عام سوشل میڈیا صارفین اور مفکرین نے رجیم چینج اور تیسری دنیا کے ممالک کے پاس مضبوط دفاعی نظام اور ایٹم بم کی ضرورت کو براہ راست پاکستان سے جوڑ کر دیکھا۔
" نئے فکری و جذباتی رجحاناتکیا ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی پر پاکستانی عوام اور دانشوروں کا ردعمل ایک تاریخی تسلسل کا حصہ ہے یا یہ کسی نئے فکری رجحان کی نمائندگی کرتا ہے؟
علی عثمان قاسمی کے مطابق، ”جہاں تک دانشوروں کے ردعمل کا تعلق ہے، اس میں کچھ نئے فکری رجحانات تلاش کیے جا سکتے ہیں، سرد جنگ کے دوران سیاسی اسلام اور امریکہ اتحادی تھے اور ان حکومتوں اور نظریات کے خلاف صف آرا تھے جنہیں ہم بائیں بازو کے یا سوشلسٹ خیالات رکھنے والے کہتے ہیں۔
بعد میں امریکہ کی ترجیحات کی تبدیلی کے ساتھ سرد جنگ کا اتحاد بھی ٹوٹ گیا۔ یہ دلچسپ اور قابلِ فہم ہے کہ آج ہمارا مذہبی طبقہ اور بائیں بازو والے اسرائیلی جارحیت کے معاملے میں ایک جیسا موقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔"ان کے بقول ایک بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ، ”ایراناسرائیل یا اسرائیل فلسطین جنگ کے معاملے میں ہمارا اسلام پسند طبقہ اور بائیں بازو والے پوزیشن ایک لے رہے ہیں لیکن دونوں کی نظریاتی اساس اور وجوہات بالکل مختلف بلکہ متضاد ہیں۔
"احمد اعجاز کہتے ہیں، ”ہمارے ملک میں فرقہ واریت کی ایک تاریخ ہے۔ ایک بڑا طبقہ جو ایران کی شیعہ شناخت کے بارے میں تعصب کے جذبات رکھتا آیا ہے، اس نے حالیہ جنگ کے دوران کھل کر ایران کی حمایت کی۔ عام سوشل میڈیا صارفین نے جس شدت سے ایران کے حق میں جذبات کا اظہار کیا، وہ اس سے پہلے شاید ہی کبھی دیکھنے میں آیا ہو۔"
مختلف فکری رجحانات معاشرے کے بارے میں کیا ظاہر کرتے ہیں؟ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے مصنفہ اور لبرل شناخت سے جڑی کارکن ڈاکٹر فاخرہ نورین کہتی ہیں، ”سوشل میڈیا پر ہمیں مختلف لوگوں کے خیالات ایک ساتھ جاننے کا موقع ملا، یہ غیر روایتی انداز میں ایک مکالمہ تھا۔
"ان کے بقول، ”سوشل میڈیا پر بحث کا میدان زیادہ تر فیس بک رہی۔ فیس بک پر لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ کسی نے پوسٹ لگائی تو جواب میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والے کئی لوگ اپنی اپنی وال پر سرگرم ہو گئے۔ یہ عام روٹین میں بھی چلتا رہتا ہے لیکن کئی روز تک ایک مخصوص موضوع پر اس طرح مکالمہ ہوتے دیکھنا اچھا لگا، اس کا مطلب ہے ہم اب بھی مکالمہ کر سکتے ہیں۔
"عمار علی جان کہتے ہیں، ”ایران اسرائیل یا اسرائیل فلسطین جنگ کا ایک بنیادی پہلو شناخت کا سوال ہے۔ استعمار نے پوری دنیا میں مخصوص بیانیہ تشکیل دینے اور مرضی کے ظالم اور مظلوم تخلیق کرنے کی کوشش کی۔ فلم، میڈیا، سوشل میڈیا ہر طرح سے پروپیگنڈہ کیا۔ ہمارے ردعمل سے پتہ چلتا ہے کہ استعمار اتنے وسائل کے باوجود اپنے اہداف میں ناکام رہا، وہ مختلف معاشروں کو نہیں قائل کر سکا کہ وہ ٹھیک کر رہا ہے۔
"علی عثمان قاسمی کے مطابق، "سوشل میڈیا پر جس شدت سے یہ بحث چلتی رہی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل بین الاقوامی سیاست کے معاملات میں غیر معمولی دلچسپی رکھتی ہے۔ یہ الگ بات کہ ان کے پاس معلومات کتنی وسیع اور فکری بنیاد کس قدر پختہ ہے، ان کا متحرک ہونا اور اظہارِ رائے میں حصہ لینا ایک خوش آئند رجحان ہے۔"
فاخرہ نورین ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتی ہیں، ”ہماری ڈیجیٹل دنیا میں تنقیدی سوچ کا شدید فقدان ہے۔ لوگ اکثر مستند معلومات کو رد کر کے وہ باتیں قبول کر لیتے ہیں جو ان کے جذبات کی تسکین کرتی ہیں، چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہوں۔ پورے دنیا میں یہ ہو رہا ہے اور ہمارے ہاں بھی ہوا۔"
ادارت: کشور مصطفیٰ