برطانوی ارکان پارلیمنٹ کا فلسطینی ریاست کو فوری تسلیم کرنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن :برطانیہ کی لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے تقریباً 60 ارکانِ پارلیمنٹ نے حکومتِ برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرے اور غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق یہ مطالبہ ایک خط کے ذریعے کیا گیا جو وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کو ارسال کیا گیا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق یہ خط “لیبر فرینڈز آف فلسطین اینڈ دی مڈل ایسٹ” نامی گروپ کی جانب سے ترتیب دیا گیا تھا اور اس پر پارٹی کے اعتدال پسند اور بائیں بازو کے دونوں دھڑوں سے تعلق رکھنے والے 59 ارکانِ پارلیمنٹ نے دستخط کیے ہیں، خط میں اسرائیل کی جانب سے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں تباہ شدہ علاقوں میں خیموں پر مشتمل ایک نام نہاد “انسانی ہمدردی کی بستی” بسانے کے منصوبے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، جسے ارکانِ پارلیمنٹ نے جبری نقل مکانی اور فلسطینیوں کی موجودگی مٹانے کی سازش قرار دیا۔
خط میں کہا گیا کہ ہم یہ خط فوری اور شدید تشویش کے ساتھ لکھ رہے ہیں، اسرائیلی وزیر دفاع کے اُس بیان پر جس میں انہوں نے رفح میں تمام فلسطینی شہریوں کو ایک کیمپ میں منتقل کرنے کا منصوبہ پیش کیا، ہم اسے جبری منتقلی اور نسلی صفائی کا عمل سمجھتے ہیں۔
ارکانِ پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا کہ برطانیہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی (UNRWA) کی مالی معاونت بحال کرے، یرغمالیوں کی رہائی کی حمایت کرے اور مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں میں تیار کی جانے والی مصنوعات پر تجارتی پابندی عائد کرے۔
اراکین نے خط میں یہ بھی واضح کیا کہ فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم نہ کرنا، برطانیہ کی خود اپنی دو ریاستی حل کی پالیسی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، اگر ہم فلسطین کو ریاست تسلیم نہیں کرتے تو ہم اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ موجودہ صورتحال جاری رہ سکتی ہے، جس کے نتیجے میں فلسطینی سرزمین کا انضمام اور اس کی شناخت کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے۔
واضح رہےکہ غزہ میں جاری جنگ اپنے دسویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے، جس دوران ہزاروں فلسطینی شہید، لاکھوں بے گھر، اور بنیادی انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، فائر بندی کی تمام کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیاں غزہ میں جاری صورتحال کو بدترین انسانی بحران قرار دے چکی ہیں۔
خیال رہےکہ برطانیہ کی نئی لیبر حکومت نے تاحال فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے متعلق اپنی پالیسی میں باضابطہ تبدیلی نہیں کی، پارٹی کے اندر بڑھتے ہوئے دباؤ اور عوامی مطالبات کے پیشِ نظر مستقبل میں پالیسی شفٹ کے امکانات کو رد نہیں کیا جا رہا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پارلیمنٹ نے
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر تشدد کی فوٹیج لیک کرنے پر اسرائیلی چیف ملٹری پراسیکیوٹر برطرف
فلسطینی قیدی پر وحشیانہ تشدد کی ویڈیو فوٹیج کے منظر عام پر لانے کے جرم میں غاصب اسرائیلی آرمی چیف نے قابض صیہونی فوج کی چیف ملٹری پراسیکیوٹر کو برطرف کر دیا ہے اسلام ٹائمز۔ غاصب اسرائیلی رژیم کے سرکاری میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ فلسطینی قیدی پر انسانیت سوز تشدد سے متعلق اسرائیلی جیل کی ویڈیو کے منظر عام پر آ جانے کے تقریبا 1 سال بعد، اس ویڈیو کو لیک کرنے کے الزام میں اسرائیلی چیف ملٹری پراسیکیوٹر کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ اس بارے صیہونی چینل 14 کا کہنا ہے ایک فلسطینی قیدی پر ظلم و ستم کی تصاویر کا "میڈیا پر آ جانا"؛ صیہونی چیف ملٹری پراسیکیوٹر یافت تومر یروشلمی (Yafat Tomer Yerushalmi) کی برطرفی کا باعث بنا ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ ویڈیو اگست 2024 میں، مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں واقع "سدی تیمان" (Sdi Teman) نامی اسرائیلی جیل کے کیمروں سے ریکارڈ کی گئی تھی کہ جسے بعد ازاں اسرائیلی چینل 12 سے نشر بھی کیا گیا۔ - اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی ایک اسرائیلی فوجی ہتھکڑیوں میں جکڑے فلسطینی قیدیوں کہ جن کی آنکھوں پر پٹی بھی باندھی گئی تھی، میں سے ایک کا انتخاب کرتے ہوئے اسے ہال کے ایک کونے میں لے جاتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی و غیر انسانی تشدد کے مناظر کو کیمرے کی آنکھ سے اوجھل رکھنے کے لئے باقی اسرائیلی فوجی اپنی ڈھالوں سے دیوار بنا لیتے ہیں۔
اس وقوعے کے بعد فلسطینی قیدی کی حالت انتہائی تشویشناک بتائی گئی تھی جسے اندرونی طور پر خونریزی تھی اور اس کی بڑی آنت پھٹ چکی تھی، مقعد میں گہرے زخم آئے تھے، پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا تھا اور پسلیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آ جانے سے اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف عالمی سطح پر غم و غصے کی شدید لہر نے جنم لیا تھا جس کے بعد سے دائیں بازو کے متعدد انتہاء پسند حکومتی جماعتوں نے اس ویڈیو کو لیک کرنے والے شخص کے خلاف وسیع تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔