فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا کا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
اوٹاوا: فرانس اور برطانیہ کے بعد اب کینیڈا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔
کینیڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیرِ اعظم مارک کارنی مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر کابینہ کا ورچوئل اجلاس بلائیں گے جس میں فلسطین کی ممکنہ ریاستی حیثیت پر غور کیا جائے گا۔
رپورٹس کے مطابق ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا، تاہم برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر سے مارک کارنی کی حالیہ گفتگو کے بعد اس حوالے سے سنجیدگی بڑھی ہے۔
کینیڈا کی وزیرِ خارجہ انیتا آنند نے پیر کے روز دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کا حق خود ارادیت اور اسرائیل کی سلامتی دونوں کو یقینی بنانے والا حل عالمی سطح پر مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔
فرانس اور برطانیہ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گے۔
اسرائیل نے برطانیہ کے فیصلے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام ’حماس کے لیے انعام‘ کے مترادف ہے۔
فی الحال اقوامِ متحدہ کے 193 میں سے 149 ممالک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں، اور یہ تعداد اسرائیل کے غزہ میں جاری حملوں کے بعد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے بعد
پڑھیں:
نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو پھانسی دینے کے بل کی حمایت کردی
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک ایسے متنازع بل کی حمایت کردی ہے جس کے ذریعے فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کی اجازت دی جائے گی۔ یہ انکشاف اسرائیل کے کوآرڈینیٹر برائے یرغمال اور لاپتا افراد گال ہیرش نے پیر کے روز کیا۔
یہ بل کنیسٹ میں بدھ کو پہلی مرتبہ پیش کیا جائے گا اور اسے انتہائی دائیں بازو کی جماعت یہودی پاور نے جمع کرایا ہے، جس کی قیادت قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنگ بندی کی خلاف ورزی: نیتن یاہو کے حکم کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ پر دوبارہ بمباری شروع کردی
مجوزہ قانون کے متن میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو نسل پرستی، نفرت یا ریاست اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کسی اسرائیلی شہری کی موت کا سبب بنے، اسے سزائے موت دی جائے گی۔ اسرائیلی پارلیمان میں کسی بھی بل کو قانون بننے کے لیے تین مراحل کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
گال ہیرش نے بتایا کہ وہ ماضی میں اس قانون کے مخالف تھے کیونکہ اس سے غزہ میں موجود زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا تھا، لیکن اب انہوں نے اپنی مخالفت واپس لے لی ہے۔
کنیسٹ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے بھی بل کو پیش کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ بن گویر پہلے بھی متعدد بار فلسطینی قیدیوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
اکتوبر میں حماس نے ایک جنگ بندی معاہدے کے تحت 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا۔ دوسری جانب اسرائیلی اور فلسطینی انسانی حقوق تنظیموں کے مطابق اس وقت 10 ہزار سے زائد فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، اور انہیں بھوک، تشدد اور طبی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔ متعدد قیدی دوران حراست ہلاک ہوچکے ہیں۔
حقوقِ انسانی گروہوں کا کہنا ہے کہ ایتامار بن گویر کے دور میں قیدیوں کے حالات مزید خراب ہوئے ہیں، ملاقاتوں پر پابندی، کھانے میں کمی اور غسل کے محدود اوقات جیسے اقدامات معمول بن چکے ہیں۔
یہ بل اگر منظور ہوجاتا ہے تو یہ اسرائیل کے عدالتی اور انسانی حقوق کے نظام میں ایک بڑی تبدیلی تصور کی جائے گی، جبکہ عالمی سطح پر اس کی شدید مخالفت متوقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسرائیلی وزیراعظم پھانسی غزہ فلسطینی قیدی قانون سازی