اسرائیلی فوج کا غزہ کے النصر اسپتال پر مہلک حملہ، 5 صحافیوں سمیت 20 افراد شہید
اشاعت کی تاریخ: 25th, August 2025 GMT
غزہ ایک بار پھر قیامت خیز لمحے سے گزرا، جب اسرائیلی فوج نے النصر اسپتال کو نشانہ بناتے ہوئے دو الگ الگ حملے کیے، جن میں ڈیوٹی پر موجود 5 صحافیوں سمیت کم از کم 20 افراد شہید ہو گئے۔
عرب میڈیا کے مطابق یہ حملہ پیر کے روز اس وقت ہوا جب اسپتال میں مریضوں کے ساتھ ساتھ صحافی بھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ اسپتال جیسے حساس مقام پر یہ حملہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
شہید ہونے والے صحافیوں میں کون شامل ہیں؟
شہید صحافیوں کی شناخت درج ذیل کی گئی ہے
حسام المصری – رائٹرز نیوز ایجنسی کے کیمرا مین
مریم ابو دقہ – امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس اور برطانوی اخبار دی انڈیپینڈنٹ کی نمائندہ
ابو طحٰہ – امریکی ٹی وی نیٹ ورک این بی سی کے رپورٹر
محمد سلامہ – الجزیرہ کے فوٹو جرنلسٹ
احمد ابو عزیز – قدس نیوز نیٹ ورک سے وابستہ صحافی
ان صحافیوں نے جنگ زدہ علاقے میں حقائق کو دنیا کے سامنے لانے کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
اسپتال پر حملے پر خاموشی، عالمی برادری کی آزمائش
رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج اور وزیراعظم آفس کی جانب سے اس حملے پر تاحال کوئی باضابطہ ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ اس خاموشی نے بین الاقوامی سطح پر مزید سوالات کو جنم دے دیا ہے کہ کیا صحافیوں اور شہریوں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں؟
صحافیوں کی شہادتوں کی مجموعی تعداد 245 ہو گئی
عرب میڈیا کے مطابق اس واقعے کے بعد غزہ میں اسرائیلی بمباری کے دوران شہید ہونے والے صحافیوں کی مجموعی تعداد اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک 245 تک جا پہنچی ہے — جو کہ جدید تاریخ میں میڈیا ورکرز پر بدترین حملوں میں سے ایک شمار کیا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
موساد قطر میں اسرائیلی حملے کی مخالف اور فیصلے سے ناراض تھی، رپورٹ میں انکشاف
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی زمینی کارروائی انجام دینے سے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے انکار کر دیا۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق موساد کا مؤقف تھا کہ ایسی کارروائی سے نہ صرف یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی مذاکرات متاثر ہوں گے بلکہ قطر کے ساتھ تعلقات کو بھی نقصان پہنچے گا جو اس وقت اہم ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔
زمینی آپریشن نہ ہونے کے بعد اسرائیل نے فضائی حملے کا راستہ اختیار کیا۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیلی دفاعی اداروں کی اکثریت نے اس حملے کی مخالفت کی تھی اور تجویز دی تھی کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جاری مذاکرات مکمل کیے جائیں۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیلی حملہ خطے کے لیے اہم موڑ، جواب کا حق محفوظ رکھتے ہیں، قطری وزیراعظم کا دوٹوک اعلان
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیع، آئی ڈی ایف کے چیف آف اسٹاف ایال زمیر اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر زاچی ہانگبی نے اس آپریشن کی مخالفت کی جبکہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو، وزیر دفاع اسرائیل کاتز اور دیگر وزرا نے اس کی حمایت کی۔
اسرائیلی اعلان کے مطابق حملہ فضائیہ اور شِن بیت کی مشترکہ کارروائی تھی، جس کی نگرانی شِن بیت کے کمانڈ سینٹر سے کی گئی۔ عام طور پر موساد غیر ملکی کارروائیوں کی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن اس بار ایجنسی نے قطر میں زمینی آپریشن کرنے سے انکار کر دیا۔
واشنگٹن پوسٹ نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ موساد قطر کو ایک اہم ثالث سمجھتا ہے اسی لیے اس مرحلے پر قیادت کے خاتمے کے بجائے موقع کی مناسبت دیکھنا زیادہ بہتر ہے۔ ایک اسرائیلی اہلکار نے کہا، ہم ان تک ایک، 2 یا 4 سال بعد بھی پہنچ سکتے ہیں، موساد دنیا کے کسی بھی کونے میں کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ابھی اس کی ضرورت نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھیے: عالمی برادری دہرا معیار ترک کرکے اسرائیل کو اس کے جرائم پر سزا دے، قطری وزیراعظم
واضح رہے کہ فلسطینی تنظیم حماس نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے دوحہ میں کیا گیا فضائی حملہ اس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے میں ناکام رہا۔ تنظیم کے مطابق قائم مقام رہنما خلیل الحیہ سمیت سینیئر قیادت محفوظ رہی، تاہم حملے میں ان کے کئی رشتہ دار، قریبی ساتھی اور ایک قطری اہلکار جان سے گئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیلی حملہ دوحہ قطر موساد