بلوچستان ہائیکورٹ میں کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم قائم، شہریوں کو گھر بیٹھے شکایات درج کرانے کی سہولت
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ روزی خان بڑیچ کی خصوصی ہدایت پر بلوچستان ہائیکورٹ میں جدید کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم قائم کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے رجسٹرار ہائیکورٹ کی جانب سے باضابطہ اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا۔
مزید پڑھیں: بلوچستان ہائیکورٹ کے حکم پرصوبے میں موبائل، انٹرنیٹ سروس کی بحالی شروع
اعلامیہ کے مطابق شہری اب اپنی ہر قسم کی شکایات اس نئے سسٹم میں درج کرا سکیں گے، جہاں موصولہ شکایات کا فوری اور مؤثر ازالہ کیا جائے گا۔ اس اقدام سے عوام کو شفاف اور بروقت انصاف کی فراہمی میں خاطر خواہ سہولت میسر آئے گی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان ہائیکورٹ میں موبائل انٹرنیٹ کی بندش پر سماعت، سیکریٹری داخلہ اور پی ٹی اے کے افسران طلب
مزید بتایا گیا ہے کہ کمپلینٹ سیل کے ذریعے شہری نہ صرف ذاتی طور پر بلکہ گھر بیٹھے آن لائن بھی اپنی شکایات درج کرا سکتے ہیں، جس سے نظام انصاف میں جدیدیت اور عوامی رسائی میں اضافہ ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان ہائیکورٹ روزی خان بڑیچ کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان ہائیکورٹ روزی خان بڑیچ کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم بلوچستان ہائیکورٹ
پڑھیں:
ریاست کو شہریوں کی جان بچانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہو گا: لاہور ہائیکورٹ
لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواستگزار کو فوری طور پر پولیس پروٹیکشن دینے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو اسے پولیس پروٹیکشن اس کا حق ہے۔ 10صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں شہریوں کی جان کا تخفظ مشروط نہیں بلکہ اسے ہر قیمت پر بچانا ہے۔ قرآن پاک میں بھی ہے کہ جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ ریاست کو اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہوگا۔ درخواست گزار کے مطابق وہ قتل کے متعدد کیسز میں بطور گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کا سٹار گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق مقدمے میں نامزد ایک ملزم کا پولیس مقابلہ ہو گیا، مقتول کی فیملی اسے دھمکیاں دے رہی ہے۔ آئی جی پنجاب نے رپورٹ جمع کرائی کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے درخواستگزار کو دو پرائیوٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی، ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کی تحت پولیس پروٹیکشن کی 16مختلف کیٹگریز بنائی گئی ہیں، جن میں وزیر اعظم، چیف جسٹس، چیف جسٹس ہائیکورٹ، بیوروکریٹس سمیت دیگر شامل ہیں، پالیسی کے پیرا چار میں معروف شخصیات کو پولیس پروٹیکشن دینے کا ذکر ہے۔ آئی جی پولیس مستند رپورٹ پر 30 روز تک پولیس پروٹیکشن دے سکتا ہے، غیر ملکیوں اور اہم شخصیات کو سکیورٹی دینے کیلئے پنجاب سپشل پروٹیکشنز یونٹ ایکٹ 2016 لایا گیا۔ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، آرٹیکل 4 کے تحت ہر پولیس افسر پر شہریوں کے تحفظ کی قانونی ذمہ داری عائد ہے، اضافی پولیس کی تعیناتی صوبائی پولیس افسر کی منظوری سے مشروط ہوگی۔ درخواست گزار کاروباری ہونے کے ناطے سنگین دھمکیوں کے پیش نظر پولیس تحفظ کا حق رکھتا تھا، ایف آئی آرز میں گواہ ہونے کے باعث اسے پنجاب وِٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت بھی تحفظ دیا جا سکتا تھا، پنجاب کے تمام قوانین اور پالیسیز شہری کے تحفظ کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ درخواست گزار کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب ہے۔ پولیس کسی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے۔ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے، حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔