375 ٹریلین کی متنازع آڈٹ رپورٹ، اسپیکر قومی اسمبلی نے اے جی پی کو واپس بھیج دی
اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)مالی سال 2023-24 کی سالانہ آڈٹ رپورٹ، جس میں تین لاکھ 75؍ ہزار ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا تھا، ایک نئے تنازع کا باعث بن گئی ہے۔ قومی اسمبلی نے یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بجائے آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کو واپس بھیج دی۔ ذرائع کے مطابق، اسپیکر قومی اسمبلی نے سخت ناراضی ظاہر کی کہ رپورٹس وزارت پارلیمانی امور کے ذریعے بھیجے بغیر براہِ راست قومی اسمبلی سیکریٹریٹ پہنچا دی گئیں تاکہ ایوان میں پیش ہوں، حالانکہ عرصہ دراز سے یہی طریقہ کار لازمی سمجھا جاتا ہے۔ نتیجتاً، رپورٹ کی کاپیاں واپس اے جی پی کو بھیج دی گئیں۔ اطلاعات کے مطابق اے جی پی نے جواب میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو خط لکھا کہ آئین کے مطابق یہ ایوان کی ذمہ داری ہے کہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے پہلے ہی عوام کیلئے جاری کر دی گئیں۔ یہ آڈٹ رپورٹ پہلے ہی شدید تنازع کا شکار ہے کیونکہ اس میں بے ضابطگیوں کا حجم تین لاکھ 75؍ ہزار ارب روپے بتایا گیا ہے۔ یہ رقم وفاقی بجٹ 2023-24 (14.
انصار عباسی Post Views: 4
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش قومی اسمبلی بے ضابطگیوں ٹریلین روپے عوام کیلئے ا ڈٹ رپورٹ کہ رپورٹ رپورٹ کی کے مطابق اے جی پی کی گئی
پڑھیں:
375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
حکومت نے آڈیٹر جنرل کی حالیہ رپورٹ میں مبینہ 375 ٹریلین روپے (تین لاکھ 75 ہزار ارب روپے) کی بے ضابطگیوں کے انکشاف کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے جس کا مقصد حکومت کو بدنام کرنا اور پورے نظام کو مشکوک بنانا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق یہ معاملہ محض ’’ٹائپنگ کی غلطی‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’جان بوجھ کر کیا گیا اقدام‘‘ ہے جس کے پیچھے اصل نیت حکومت کو ہدف بنانا تھا۔
اگرچہ آڈیٹر جنرل آفس نے کئی ہفتوں تک رپورٹ کا دفاع کرنے کے بعد گزشتہ ہفتے تسلیم کیا کہ اس میں ’‘ٹائپنگ کی غلطیاں‘‘ (ٹائپوز) موجود تھیں، لیکن سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ مبالغہ آرائی حادثاتی نہیں تھی۔
سرکاری حلقوں کا الزام ہے کہ یہ سب ایک اعلیٰ افسر کی منصوبہ بندی تھی جو ایک مخصوص سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھتا ہے اور اس نے حکومت کو اسکینڈل کا شکار کرنے کے لیے یہ راستہ اختیار کیا۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اس افسر کو اپنا موجودہ عہدہ ایک طاقتور سابق انٹیلی جنس سربراہ کی آشیرباد سے ملا تھا۔ حکومت کو جمع کرائی گئی ایک انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق مذکورہ افسر نے سروس کے دوران سیاسی وابستگی رکھی اور مبینہ طور پر پارٹی سے جڑے افسروں کو آڈٹ کے اہم عہدوں پر تعینات کیا۔
ایک موقع پر اس افسر پر الزام لگا کہ اس نے حساس آڈٹ کا دائرہ کار مقررہ مدت سے آگے بڑھا دیا تاکہ اپوزیشن رہنماؤں کے لیے سیاسی گنجائش پیدا کی جا سکے جب کہ بیک وقت حکومت اور عسکری قیادت کے حصوں کو ہدف بنایا گیا۔ گزشتہ برسوں کے دوران ہم خیال افسران کو خاص طور پر صوبائی حکومتوں، وفاقی محکموں اور ہائی پروفائل منصوبوں کے آڈٹ پر مامور کیا گیا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ تقرریاں اس نیت سے کی گئیں کہ ایسی آڈٹ پیراز اور رپورٹس تیار ہوں جو حکومت کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کی جا سکیں۔
مالی حکام نے آڈیٹر جنرل آفس کے بعض اندرونی فیصلوں پر بھی اعتراض کیا، مثلاً اپنے افسروں کے لیے خصوصی الاؤنسز کی منظوری جو فنانس ڈویژن کی ہدایات کے برعکس تھا تاہم بعد میں وزارتِ خزانہ نے یہ فیصلہ واپس لے کر اضافی رقم کی وصولی کا حکم دیا۔
رپورٹ کے مطابق حالیہ انٹیلی جنس جائزوں میں یہ خدشات ظاہر کیے گئے کہ اس افسر نے سابقہ اور موجودہ حکومتوں کے حساس آڈٹ ریکارڈ جمع کر رکھے ہیں، جن سے سیاسی لحاظ سے کسی بھی موزوں وقت پر لیک کر کے اپوزیشن بیانیے کو تقویت دی جا سکتی ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ ’’ٹائپنگ کی غلطی‘‘ (ٹائپوز) عام بات ہیں، لیکن 375 ٹریلین روپے کا اسکینڈل صرف غفلت نہیں بلکہ بدنام کرنے کی ایک منظم کوشش تھی۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ریاستی اداروں کے اندر سے ایسی چالیں براہ راست استحکام اور حکمرانی کے لیے خطرہ ہیں۔
انصار عباسی
Post Views: 8