اسلام آباد (نیوز ڈیسک)مالی سال 2023-24 کی سالانہ آڈٹ رپورٹ، جس میں تین لاکھ 75؍ ہزار ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا تھا، ایک نئے تنازع کا باعث بن گئی ہے۔ قومی اسمبلی نے یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بجائے آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کو واپس بھیج دی۔ ذرائع کے مطابق، اسپیکر قومی اسمبلی نے سخت ناراضی ظاہر کی کہ رپورٹس وزارت پارلیمانی امور کے ذریعے بھیجے بغیر براہِ راست قومی اسمبلی سیکریٹریٹ پہنچا دی گئیں تاکہ ایوان میں پیش ہوں، حالانکہ عرصہ دراز سے یہی طریقہ کار لازمی سمجھا جاتا ہے۔ نتیجتاً، رپورٹ کی کاپیاں واپس اے جی پی کو بھیج دی گئیں۔ اطلاعات کے مطابق اے جی پی نے جواب میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو خط لکھا کہ آئین کے مطابق یہ ایوان کی ذمہ داری ہے کہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے پہلے ہی عوام کیلئے جاری کر دی گئیں۔ یہ آڈٹ رپورٹ پہلے ہی شدید تنازع کا شکار ہے کیونکہ اس میں بے ضابطگیوں کا حجم تین لاکھ 75؍ ہزار ارب روپے بتایا گیا ہے۔ یہ رقم وفاقی بجٹ 2023-24 (14.

5 ٹریلین روپے) سے 27؍ گنا زیادہ اور پاکستان کی مجموعی جی ڈی پی (تقریباً 110 ٹریلین روپے) سے ساڑھے تین گنا زیادہ ہے۔ رپورٹ کی ساکھ پر کئی سوال اٹھائے جا چکے ہیں۔ سابق آڈیٹر جنرل جاوید جہانگیر نے دی نیوز سے گفتگو میں اس رقم کو ’’غیر معمولی‘‘ قرار دیتے ہوئے نظرثانی کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ضروری ہے کہ ان غیر معمولی اعدادوشمار کی دوبارہ جانچ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اُن کے دور میں آڈٹ رپورٹس کبھی پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے قبل عوام کیلئے جاری نہیں کی گئیں۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ مالی سال 2023-24ء کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے قبل اے جی پی کی ویب سائٹ پر کیوں شائع کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق، بے ضابطگیوں میں 284.17 ٹریلین روپے کی خریداری، 85.6 ٹریلین روپے کے تاخیر یا خراب سول ورک، 2.5 ٹریلین روپے کے بقایاجات، اور 1.2 ٹریلین روپے کا گردشی قرض شامل ہیں۔ ماہرین مالیات ان اعداد سے ششدر رہ گئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ اعداد و شمار جمع کرنے (کمپائلیشن) کے عمل کی غلطی ہو سکتی ہے یا پھر مالیاتی نگرانی کے نظام کی ساکھ شدید طور پر کسی بحران کا شکار ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ قومی اسمبلی اس رپورٹ کو موجودہ صورت میں ایوان میں پیش کرنے سے انکاری ہے جبکہ اے جی پی اپنی آئینی ذمہ داری پر بضد ہے۔ یوں مالی سال 2024-25ء کی آڈٹ رپورٹ کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اعدادوشمار واضح ہونے اور رپورٹ کی ساکھ بحال ہونے تک پاکستان کے مالی احتسابی عمل پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔ یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ اے جی پی نے رپورٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کیے بغیر عوام کیلئے جاری کیوں کیا۔ جب اے جی پی کے ترجمان سے رپورٹ واپس بھیجے جانے پر سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ادارے نے مقررہ طریقہ کار پر عمل کیا۔ ترجمان کے مطابق، وزارت پارلیمانی امور کو خط لکھ کر قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکریٹریٹس کو بھی رپورٹ کی کاپیاں بھجوائی گئیں جو وہاں وصول بھی کی گئیں۔ جہاں تک غیر معمولی اعدادوشمار کے ایگزیکٹو سمری میں شامل ہونے کا تعلق ہے، ترجمان نے واضح کیا کہ گزشتہ سال بھی وفاقی حکومت اور اس کے اداروں کی تمام رپورٹس کو یکجا کر کے ایک مشترکہ رپورٹ مرتب کرکے ویب سائٹ پر شائع کی گئی تھی تاکہ عام عوام اور محققین کیلئے تلاش میں آسانی ہو۔ رواں سال فرق صرف یہ رکھا گیا کہ مختلف نوعیت کی آڈٹ رپورٹس کے عنوان کے ساتھ بے ضابطگیوں کی مجموعی رقم بھی شامل کر دی گئی۔ ترجمان نے اگرچہ تسلیم کیا کہ رپورٹس پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے عوام کیلئے شائع کی گئیں، لیکن دی نیوز کو دیے گئے اپنے تحریری جواب میں اس بات کا کوئی جواب نہ دیا کہ ایسا کیوں کیا گیا۔
انصار عباسی

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش قومی اسمبلی بے ضابطگیوں ٹریلین روپے عوام کیلئے ا ڈٹ رپورٹ کہ رپورٹ رپورٹ کی کے مطابق اے جی پی کی گئی

پڑھیں:

375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار

حکومت نے آڈیٹر جنرل کی حالیہ رپورٹ میں مبینہ 375 ٹریلین روپے (تین لاکھ 75 ہزار ارب روپے) کی بے ضابطگیوں کے انکشاف کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے جس کا مقصد حکومت کو بدنام کرنا اور پورے نظام کو مشکوک بنانا ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق یہ معاملہ محض ’’ٹائپنگ کی غلطی‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’جان بوجھ کر کیا گیا اقدام‘‘ ہے جس کے پیچھے اصل نیت حکومت کو ہدف بنانا تھا۔

اگرچہ آڈیٹر جنرل آفس نے کئی ہفتوں تک رپورٹ کا دفاع کرنے کے بعد گزشتہ ہفتے تسلیم کیا کہ اس میں ’‘ٹائپنگ کی غلطیاں‘‘ (ٹائپوز) موجود تھیں، لیکن سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ مبالغہ آرائی حادثاتی نہیں تھی۔

سرکاری حلقوں کا الزام ہے کہ یہ سب ایک اعلیٰ افسر کی منصوبہ بندی تھی جو ایک مخصوص سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھتا ہے اور اس نے حکومت کو اسکینڈل کا شکار کرنے کے لیے یہ راستہ اختیار کیا۔

ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اس افسر کو اپنا موجودہ عہدہ ایک طاقتور سابق انٹیلی جنس سربراہ کی آشیرباد سے ملا تھا۔ حکومت کو جمع کرائی گئی ایک انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق مذکورہ افسر نے سروس کے دوران سیاسی وابستگی رکھی اور مبینہ طور پر پارٹی سے جڑے افسروں کو آڈٹ کے اہم عہدوں پر تعینات کیا۔

ایک موقع پر اس افسر پر الزام لگا کہ اس نے حساس آڈٹ کا دائرہ کار مقررہ مدت سے آگے بڑھا دیا تاکہ اپوزیشن رہنماؤں کے لیے سیاسی گنجائش پیدا کی جا سکے جب کہ بیک وقت حکومت اور عسکری قیادت کے حصوں کو ہدف بنایا گیا۔ گزشتہ برسوں کے دوران ہم خیال افسران کو خاص طور پر صوبائی حکومتوں، وفاقی محکموں اور ہائی پروفائل منصوبوں کے آڈٹ پر مامور کیا گیا۔

حکومتی ذرائع کے مطابق یہ تقرریاں اس نیت سے کی گئیں کہ ایسی آڈٹ پیراز اور رپورٹس تیار ہوں جو حکومت کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کی جا سکیں۔

مالی حکام نے آڈیٹر جنرل آفس کے بعض اندرونی فیصلوں پر بھی اعتراض کیا، مثلاً اپنے افسروں کے لیے خصوصی الاؤنسز کی منظوری جو فنانس ڈویژن کی ہدایات کے برعکس تھا تاہم بعد میں وزارتِ خزانہ نے یہ فیصلہ واپس لے کر اضافی رقم کی وصولی کا حکم دیا۔

رپورٹ کے مطابق حالیہ انٹیلی جنس جائزوں میں یہ خدشات ظاہر کیے گئے کہ اس افسر نے سابقہ اور موجودہ حکومتوں کے حساس آڈٹ ریکارڈ جمع کر رکھے ہیں، جن سے سیاسی لحاظ سے کسی بھی موزوں وقت پر لیک کر کے اپوزیشن بیانیے کو تقویت دی جا سکتی ہے۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ ’’ٹائپنگ کی غلطی‘‘ (ٹائپوز) عام بات ہیں، لیکن 375 ٹریلین روپے کا اسکینڈل صرف غفلت نہیں بلکہ بدنام کرنے کی ایک منظم کوشش تھی۔

حکومتی ذرائع کے مطابق ریاستی اداروں کے اندر سے ایسی چالیں براہ راست استحکام اور حکمرانی کے لیے خطرہ ہیں۔

انصار عباسی

Post Views: 8

متعلقہ مضامین

  • سندھ اسمبلی کے سابق اسپیکر کی اچانک طبیعت ناساز ،آئی سی یو میں داخل
  • 375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
  • کسانوں پر زرعی ٹیکس کے نفاذ پر اسپیکر پنجاب اسمبلی برہم
  • کسانوں سے گندم 2200 روپے میں خریدی گئی جو آج 4 ہزار تک چلی گئی ہے
  • پنجاب حکومت کی گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی
  • تاریخ میں پہلی بار 2600 ارب روپے قرض قبل ازوقت واپس کیا گیا، ترجمان وزارت خزانہ
  • سرکاری اداروں کی اجتماعی آڈٹ رپورٹ میں بڑی غلطیوں کا انکشاف
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ: کیا اپوزیشن کے 26 ارکان کی معطلی کا معاملہ حل ہوگیا؟
  • آڈیٹر جنرل کا یو ٹرن، 3.75 کھرب کی بیضابطگیوں کی رپورٹ سے دستبردار
  • اے جی پی کا یو ٹرن، 3.75؍ ٹریلین کی بےضابطگیوں کی رپورٹ سے دستبردار