پاکستان میں پولیو کا نیا کیس رپورٹ، مجموعی تعداد 24 ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT
جنوبی خیبرپختونخوا میں ایک نیا کیس سامنے آنے کے بعد پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو ایک اور دھچکا لگا ہے، کیونکہ اس حالیہ کیس کے بعد رواں برس کے دوران ملک بھر میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 24 ہوگئی ہے۔
اسلام آباد میں واقع نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی ریجنل ریفرنس لیبارٹری نے پیر کو ضلع ٹانک کی یونین کونسل پنگ اے سے تعلق رکھنے والی 20 ماہ کی بچی میں پولیو وائرس کی تشخیص کی تصدیق کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا میں انسدادِ پولیو مہم کا آغاز، 57 لاکھ سے زائد بچوں کو قطرے پلانے کا ہدف
متاثرہ بچی کا تعلق بیتنی قبیلے سے ہے اور وہ تحصیل جنڈولہ میں رہائش پذیر ہے، جو کہ سیکیورٹی کے لحاظ سے نہایت حساس علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔
محکمہ صحت کے مطابق بچی کی کوئی سفری تاریخ موجود نہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وائرس اب بھی مقامی سطح پر گردش کر رہا ہے، تاہم وائرس کے جینیاتی تجزیے کی رپورٹ ابھی باقی ہے۔
یہ کیس رواں سال جنوبی خیبرپختونخوا سے رپورٹ ہونے والا 14واں کیس ہے، صوبائی اعداد و شمار کے مطابق اب تک 2025 میں 16 کیس خیبرپختونخوا، 6 سندھ، جبکہ پنجاب اور گلگت بلتستان سے ایک ایک کیس سامنے آیا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان انسداد پولیو پروگرام اور یوفون 4G کااسٹریٹجک شراکت داری کا اعلان
نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر کے حکام نے اس پیشرفت کو تشویشناک مگر متوقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹانک، شمالی و جنوبی وزیرستان اور دیگر قریبی قبائلی اضلاع میں بچوں تک رسائی میں رکاوٹیں پولیو کے مکمل خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ واحد 2 ممالک ہیں جہاں معذور کردینے والا پولیووائرس اب بھی موجود ہے، عالمی ادارہ صحت اور یونیسف کی معاونت سے ملک بھر میں مہمات جاری ہیں لیکن دور دراز یا شورش زدہ علاقوں میں لاکھوں بچے اب بھی حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام اباد افغانستان پاکستان پولیووائرس خیبرپختونخوا ریجنل ریفرنس لیبارٹری ضلع ٹانک عالمی ادارہ صحت نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام اباد افغانستان پاکستان خیبرپختونخوا ریجنل ریفرنس لیبارٹری ضلع ٹانک عالمی ادارہ صحت نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میں پولیو
پڑھیں:
ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب ہوگیا
اسلام آباد:ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے جس کے سبب مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے زائد ہوگیا۔
حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے ذمہ قرضوں سے متعلق وزارت خزانہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تین سال میں پاکستان کے ذمہ قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد پر آنے کا تخمینہ ہے، مالی سال 2026ء سے 2028ء کی درمیانی مدت میں قرض پائیدار رہنے کی توقع ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوگیا، گزشتہ ایک سال کے دوران قرضے میں 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ اضافہ ہوا، سال 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، گزشتہ سال مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
وزارت خزانہ نے قرضوں سے متعلق خطرات اور چیلنجز کی بھی نشاندہی کردی ہے۔ وزارت خزانہ حکام کے مطابق رپورٹ میں معاشی سست روی کو قرضوں کی پائیداری کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے، ایکسچینج ریٹ اور سود کی شرح میں تبدیلی قرض کا بوجھ بڑھا سکتی ہے، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلی قرض کے خطرات میں اضافہ کر سکتے ہیں، فلوٹنگ ریٹ قرض کی بڑی مقدار سے شرح سود کا خطرہ بلند رہے گا، پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضوں کا 67.7 فیصد ملکی قرض ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ 80 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیا گیا، شرح سود کا خطرہ برقرار ہے، مختصر مدت کے قرضوں کی شرح 24 فیصد، ری فنانسنگ کا خطرہ برقرار ہے، بیرونی قرضے مجموعی قرض کا 32.3 فیصد ہیں، زیادہ تررعایتی قرضہ دوطرفہ و کثیرالجہتی ذرائع سے حاصل ہوا، فلوٹنگ بیرونی قرض 41 فیصد ہےاس سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے اور زرمبادلہ ذخائر کم ہونے کا امکان خطرناک ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالیاتی نظم و ضبط اور معاشی استحکام سے قرض کا دباؤ کم ہوگا، برآمدات اور آئی ٹی سیکٹر کے فروغ سے زرمبادلہ استحکام کا ہدف ہے، قرض اجرا میں شفافیت اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا، پائیدار ترقی، ٹیکنالوجی اورمسابقت سے قرض کے مؤثرانتظام کی سمت پیشرفت ہوئی، آمدن میں کمی یا اخراجات بڑھنے سے پرائمری بیلنس متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ہنگامی مالی ذمہ داریوں کے اثرات بھی سامنے آسکتے ہیں، گزشتہ سال معاشی شرح نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد ہوگئی، اگلے تین سال میں شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصد تک جانے کا تخمینہ ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق مہنگائی 23.4 فیصد سے گھٹ کر 4.5 فیصد پر آگئی، سال 2028ء تک مہنگائی کی شرح 6.5 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے، پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی آئی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام اور بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ کم ہوا، وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں 6.2 فیصد تک محدود رہا، وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا، درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد سرپلس برقرار رہنے کی توقع ہے آمدن میں اضافہ، اخراجات میں کفایت، سود ادائیگیوں میں کمی سے بہتری آئی ہے۔