پاکستان نے امریکا کو ڈاک بھیجنا بند کر دیا، بڑی وجہ سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT
راولپنڈی: امریکا کی جانب سے ڈاک پر نئی ٹیکس اور ڈیوٹی پالیسی کے نفاذ کے بعد پاکستان سمیت دنیا کے 25 سے زائد ممالک نے امریکا کو ڈاک بھیجنے کا سلسلہ عارضی طور پر معطل کر دیا ہے۔
پاکستان پوسٹ حکام کے مطابق امریکا نے 25 جولائی کو ایگزیکٹو آرڈر نمبر 14324 کے تحت ڈیوٹی فری سہولت ختم کر دی تھی، جس کے بعد اب امریکا کو بھیجے جانے والے ہر قسم کے ڈاک پر ڈیوٹی اور ٹیکس عائد ہوگا۔ اس اقدام کے باعث خدشہ ہے کہ بھیجی گئی ڈاک واپس لوٹا دی جائے، لہٰذا پاکستان پوسٹ نے امریکا کے لیے بُک میل کی ترسیل روک دی ہے۔
امریکا کے اس فیصلے سے عالمی سطح پر ڈاک کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ چین، برطانیہ، جاپان، آسٹریا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، بھارت، جرمنی، فرانس، روس اور سنگاپور سمیت متعدد بڑے ممالک نے بھی ڈاک کی ترسیل روک دی ہے کیونکہ ایئر لائنز نے بھی اس صورتحال میں ڈاک پہنچانے سے معذوری ظاہر کی ہے۔
متاثرہ ممالک نے اس معاملے کو اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیورسل پوسٹل یونین (UPU) کے ذریعے امریکا کے ساتھ اُٹھایا ہے اور تنازع کے حل کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
لاہور جنرل اسپتال میں خواتین کی لاشوں کا مرد عملے سے پوسٹ مارٹم کرانے کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: جنرل اسپتال لاہور میں خواتین کی میتوں کا پوسٹ مارٹم مرد عملے سے کرائے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے، جو انسانی حقوق اور طبی ضوابط کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق جنرل اسپتال کے مردہ خانے میں خواتین کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم لیڈی ڈاکٹر کی غیر موجودگی میں مرد عملہ انجام دے رہا ہے۔
اس حوالے سے ایک فوٹیج بھی وائرل ہوئی ہے جس میں خاتون کی لاش کا پوسٹ مارٹم مرد اہلکار کرتے دکھائی دے رہے ہیں، جبکہ کسی خاتون ڈاکٹر یا میڈیکل آفیسر کی موجودگی نہیں دیکھی گئی۔
طبی ماہرین کے مطابق قانونی و اخلاقی اصولوں کے تحت خواتین کی میتوں کا پوسٹ مارٹم صرف لیڈی ڈاکٹر یا لیڈی میڈیکل آفیسر کی موجودگی میں کیا جانا چاہیے، تاہم اسپتال انتظامیہ نے مبینہ طور پر اس اصول کو نظرانداز کرتے ہوئے کارروائی جاری رکھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لیڈی ڈاکٹر کی عدم دستیابی کے باوجود اسپتال انتظامیہ نے پوسٹ مارٹم مکمل کرایا، جس پر انسانی حقوق کے حلقوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔