فلسطینی صدر محمود عباس نے العربیہ اور الحدث چینلز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کا مقصد فلسطین کو مکمل طور پر تباہ کرنا ہے۔ ان کے مطابق غزہ میں کم از کم دو لاکھ افراد یا تو ہلاک ہوچکے ہیں یا زخمی، لیکن عالمی برادری محض مذمت تک محدود ہے۔

عباس نے کہا کہ فلسطینی برسوں سے بین الاقوامی فیصلوں کے غیر مؤثر ہونے کے عادی ہیں۔ ہمارے پاس فلسطین کے حق میں اقوام متحدہ کی ایک ہزار قراردادیں موجود ہیں لیکن کوئی بھی نافذ نہیں ہوئی۔ ان کے مطابق غزہ میں صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ جو لوگ بمباری سے نہیں مر رہے وہ بھوک سے دم توڑ رہے ہیں، اور بھوک سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد شہدا سے بھی زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو فلسطینی عوام کے مکمل صفایا کے درپے ہیں۔ نیتن یاھو اپنی سیاسی بقا کے لیے جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں تاکہ اسرائیل میں ان کے خلاف مقدمات نہ کھل سکیں۔

عرب ممالک کا کردار اور بے دخلی کے خدشات

صدر عباس نے اعتراف کیا کہ اردن اور مصر نے فلسطینی عوام کی بے دخلی روکنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اس وقت سفارتی محاذ پر سرگرم ہے تاکہ جنگ کو روکا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم غزہ کے انتظام سنبھالنے کے لیے تیار ہیں اور ہمارے پاس اس کے لیے تمام وسائل موجود ہیں۔ اگر عرب یا بین الاقوامی ادارے ہمارے ساتھ شراکت داری کریں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

فلسطینی ریاست اور اوسلو معاہدہ

محمود عباس نے کہا کہ نیتن یاھو ایک آزاد فلسطینی ریاست کے سخت مخالف ہیں، حالانکہ فلسطینی قیادت نے 1988 میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ ان کے مطابق اب تک 149 ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں اور کئی مزید ممالک ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اقوام متحدہ سے مکمل رکنیت کے لیے درخواست دے گی۔

مباشر من #قناة_العربية | #ساعة_حوار.

. مقابلة خاصة مع الرئيس الفلسطيني محمود عباس https://t.co/gxwPPaXtt1

— العربية (@AlArabiya) September 1, 2025


انہوں نے زور دیا کہ اوسلو معاہدہ کسی بھی طرح فلسطینی رعایت نہیں تھا بلکہ اس کے ذریعے 18 لاکھ فلسطینیوں کو وطن واپسی کا موقع ملا۔ نیتن یاھو اس معاہدے کو ختم یا معطل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن یہ ایک دو طرفہ معاہدہ ہے اور اسے یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔

حماس کے ساتھ تعلقات

عباس نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی جنگ نہیں چاہتی اور اس کی حکمت عملی پرامن عوامی مزاحمت پر مبنی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ حماس کے ساتھ کئی بار مذاکرات کر چکے ہیں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ان کے مطابق حماس کو فلسطینی قیادت اور اس کی قانونی ذمہ داریوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ فلسطینی ایک ریاست اور ایک قوم ہیں، اس لیے ایک ہی ہتھیار اور ایک ہی قانون ہونا چاہیے۔

لبنان میں فلسطینی کیمپ اور ہتھیار

لبنان میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں کے حوالے سے محمود عباس نے کہا کہ ان کی سکیورٹی صورتحال پر بات پچھلے 15 سال سے جاری ہے۔ 1969 میں ان ہتھیاروں کا ایک مقصد تھا جو اب ختم ہو چکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لبنانی صدر جوزف عون کے ساتھ اس بات پر متفق ہیں کہ فلسطینی کیمپوں کے ہتھیار واپس لیے جائیں اور یہ اختیار ریاست لبنان کے پاس ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی ہتھیار لبنان کے پاس امانت کے طور پر رہیں گے اور ہم لبنان کی خودمختاری اور سکیورٹی میں کسی رکاوٹ نہیں بنیں گے۔

سعودی عرب کا موقف

محمود عباس نے کہا کہ سعودی عرب اپنے تمام پرانے مؤقف پر قائم ہے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے معاملے میں کسی مفاد کو ترجیح نہیں دے گا۔ ان کے مطابق سعودی قیادت نے ہمیشہ فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے اور آئندہ بھی یہ تعاون جاری رہے گا۔

Post Views: 6

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست عباس نے کہا کہ ان کے مطابق کہ فلسطینی انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

یورپی ملک لکسمبرگ کا فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان

یورپی ملک لکسمبرگ نے اعلان کیا ہے کہ وہ 23 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دیگر ممالک کے ساتھ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرے گا۔

غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس اعلان کا اطلاق عالمی سطح پر دو ریاستی حل کی حمایت میں ایک قدم کے طور پر کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: حماس کے بغیر فلسطین کا 2 ریاستی حل، اقوام متحدہ میں قرارداد منظور

لکسمبرگ کے وزیراعظم لُک فریڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ غزہ میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، قحط اور نسل کشی کی صورتحال شدت اختیار کر گئی ہے۔

ان کے مطابق موجودہ حالات میں یورپی ممالک کے پاس فلسطین اور اسرائیل کے درمیان پائیدار امن قائم کرنے کے لیے دو ریاستی حل کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر دو ریاستی حل کے فروغ کے لیے سرگرمیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور اسی سلسلے میں لکسمبرگ بھی دیگر یورپی ممالک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک میں شامل ہوگا۔

قبل ازیں فرانس، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، بیلجیئم اور مالٹا نے بھی فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ پرتگال کی حکومت اس اقدام پر غور کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی آئندہ جنرل اسمبلی میں مزید 17 ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطین امن کانفرنس: آزاد فلسطینی ریاست تسلیم کرنے، اسرائیلی جارحیت فوری رکوانے کا مطالبہ

دوسری جانب اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی انتہا پسند حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اگر اقوام متحدہ میں فلسطین کو تسلیم کر لیا گیا تو وہ مغربی کنارے کے بیشتر علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے پر غور کرے گی۔

یاد رہے کہ موجودہ وقت میں اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 147 نے فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews تسلیم کرنے کا اعلان فلسطینی ریاست لکسمبرگ وی نیوز یورپی ملک

متعلقہ مضامین

  • ہم بیت المقدس پر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، رجب طیب اردگان
  • اسرائیل ختم ہو جائیگا، شیخ نعیم قاسم
  • جاپان فی الحال فلسطینی ریاست کوتسلیم نہیں کریگا: جاپانی اخبار کا دعویٰ
  • سعودی عرب کا لکسمبرگ کے ریاستِ فلسطین تسلیم کرنے کے اعلان کا خیرمقدم
  • جاپان فی الحال فلسطینی ریاست تسلیم نہیں کریگا، جاپانی اخبار کا دعویٰ
  • یورپی ملک لکسمبرگ کا فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان
  •  اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا: نائب وزیراعظم
  • لکسمبرگ کا فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
  • بے حیائی پر مبنی پروگرامات کی تشہیر قابل مذمت ، ان کا مقصد ن نوجوان نسل کو گمراہ کرنا ہے‘ جاوید قصوری
  • بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا گھٹیا حرکت، اسرائیل کا محاسبہ ناگزیر ہوگیا ہے، محمود عباس