فولاد دمشق: علم، فن، اور تہذیب کا لافانی آہنی استعارہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
تاریخ انسانی کے صفحات پر کچھ نام اور اشیاء ایسی ثبت ہوچکی ہیں جو نہ صرف اپنی مادی ساخت میں منفرد ہیں بلکہ ان کے ساتھ جُڑی ثقافت، تہذیب، حوصلہ اور قربانی کی داستانیں انہیں دائمی علامت بنا دیتی ہیں۔ ’’فولادِ دمشق‘‘ انہی علامتوں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ یہ بظاہر ایک دھات ہے، ایک ہتھیار کا مادّہ، لیکن درحقیقت یہ اس پوری تہذیب، علم، جفاکشی، اور فنی عروج کا استعارہ ہے جو دمشق جیسے قدیم شہر سے وابستہ رہی ہے۔
آج جب کہ دنیا ایک بار پھر ظلم، استبداد اور تہذیبی کشمکش کے بھنور میں ہے، ’’فولادِدمشق‘‘ نہ صرف ایک تاریخی استعارہ بلکہ ایک فکری و اخلاقی تمثیل بن چکا ہے، جس پر گفتگو تاریخ، سائنس، جنگ، اور امن کی ملی جلی داستانوں کو زندہ کر دیتی ہے۔
دمشق کا تہذیبی اور سائنسی پس منظر
دمشق صرف ایک شہر نہیں، بلکہ انسانی تمدن کا وہ مرکز ہے جہاں تہذیب نے آنکھ کھولی، علم نے سانس لی، اور صنعت و فن نے جلا پائی۔ اس شہر کی تاریخ کم از کم چار ہزار سال پر محیط ہے، اور اس کا ذکر ہمیں قدیم رومی، یونانی، اسلامی، اور عیسائی متون میں مسلسل ملتا ہے۔ دمشق، جو آج شام کا دارالحکومت ہے، قرون وسطیٰ میں اسلامی خلافتِ بنی اُمیہ کا مرکز رہا، اور یہاں نہ صرف علومِ دینیہ بلکہ فلکیات، طب، کیمیا، اور دھات سازی کو بھی غیرمعمولی فروغ حاصل ہوا۔
فولاد دمشق: ایک فنی معجزہ
’’فولادِدمشق‘‘ یا Damascus steel ایک خاص قسم کا فولاد ہے جو اپنی طاقت، لچک، اور تلوارسازی میں بے مثال حیثیت رکھتا تھا۔ تاریخی طور پر یہ فولاد ہندوستان کے ’’وُٹز اسٹیل‘‘ ( Steel Wootz) سے تیار کیا جاتا تھا، جسے دمشق کے کاری گر مخصوص ترکیب سے تیار کرتے تھے۔ اس فولاد سے بنی ہوئی تلواریں اپنی کاٹ، مضبوطی اور حُسنِ نقش و نگار کے سبب دنیا بھر میں مشہور ہوئیں۔ ان میں لہراتے ہوئے دھاروں کی خاص پہچان ہوتی تھی جو آج بھی دھات کے جمالیاتی اسرار کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
اس فولاد سے بنی تلوار کو صرف ایک جنگی ہتھیار ہی نہیں بلکہ فن و تہذیب کی ایک اعلیٰ ترین شکل سمجھا جاتا تھا۔ صلیبی جنگوں کے دوران یورپی افواج نے جب اسلامی لشکروں کی تلواروں کی کاری گری دیکھی تو وہ حیران رہ گئیں کہ یہ دھاریں نہ صرف بکتر توڑ دیتی ہیں بلکہ برسوں اپنی تیزی برقرار رکھتی ہیں۔
فولادِدمشق کی تیاری: ایک گم شدہ سائنس
دمشق کے لوہار، دھات کے ماہرین اور کیمیا داں ایسی حکمتِ عملی کے تحت یہ فولاد تیار کرتے تھے جسے صدیوں تک ایک راز رکھا گیا۔ بعض ماہرین کے مطابق اس فولاد میں کاربن کی مقدار خاص تناسب سے شامل کی جاتی تھی، اور اسے خاص درجۂ حرارت پر آہستہ آہستہ ٹھنڈا کیا جاتا تھا، جس سے یہ فولاد نہایت سخت، مگر لچک دار بن جاتا تھا۔
یہ طریقۂ کار وقت کے ساتھ کھو گیا۔ سولہویں صدی کے بعد جیسے جیسے سلطنتیں ٹوٹتی گئیں، دمشق پر حملے ہوتے گئے، ویسا ویسا فولاد سازی کا یہ فن بھی مٹتا چلا گیا۔ آج سائنسدان اس تکنیک کو جدید تجزیاتی آلات کے ذریعے دوبارہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر اب بھی اصل فولادِدمشن جیسی خوبی حاصل نہیں کر سکے۔
فولاد دمشق: ایک تہذیبی تمثیل
فولاد دمشق صرف ایک دھات یا ہتھیار نہیں رہا، بلکہ یہ مسلم دنیا کی اُس علمی، فنی، اور ثقافتی بالادستی کی نشانی بن گیا ہے جس کا عروج اموی اور عباسی ادوار میں دیکھنے کو ملا۔ یہ فولاد اس دور کی علامت ہے جب اسلامی تہذیب نے یورپ کو علم، اخلاق اور صنعت کے چشمے عطا کیے۔ جب تلوار کا وار صرف دشمن پر ہی نہیں بلکہ جہالت، ظلم اور انارکی پر بھی ہوتا تھا۔
یہ فولاد ابنِ رشد، الفارابی، ابن الہیثم، اور ابن سینا جیسے علمی مجاہدوں کا ہم عصر رہا، اور اس نے اُس دور کی روحانی اور مادی طاقت کو مجسم کر کے پیش کیا۔ دمشق کی یہ دھات صرف جنگ میں نہیں بلکہ فن میں بھی ممتاز تھی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی یورپی عجائب گھروں میں دمشق فولاد سے بنی اشیاء محفوظ کی جاتی ہیں۔
جدید دور میں ’’فولاد دمشق‘‘ کی معنویت
اگرچہ اب ایک تاریخی اصطلاح بن چکی ہے، مگر اس کی معنویات آج بھی زندہ ہیں۔ جدید شام، جو گذشتہ دہائی سے خانہ جنگی، بیرونی مداخلت، اور انسانی بحرانوں کا شکار ہے، ایک بار پھر ’’فولادِدمشق‘‘ کی علامتی طاقت کا متقاضی ہے۔ آج کی دنیا میں جب تہذیبی جنگیں، میڈیا پروپیگنڈا، نسل پرستی اور اسلاموفوبیا جیسے عناصر فروغ پا رہے ہیں، مسلمان دنیا کو اسی ’’فولادی‘‘ عزم و حوصلے کی ضرورت ہے جو دمشق کی پہچان رہا ہے۔
آج کا دمشق بم باری، قتل و غارت، اور ملبے کا شہر بن چکا ہے۔ جہاں کبھی علم کے مینار تھے، آج وہ کھنڈرات میں بدل چکے ہیں۔ مگر کیا فولاد واقعی مٹ سکتا ہے؟ فولاد، جو آگ میں تپ کر اور ضربیں کھا کر نکھرتا ہے، وہ قومیں جنہوں نے فولاد دمشق جیسے کارنامے سر انجام دیے، کیا وہ آج مٹی میں دفن ہو سکتی ہیں؟
علمی اور سائنسی امکانات
حالیہ دور میں کئی میٹریل سائنس داں اس فولاد کی ساخت اور خواص کو ازسرنو دریافت کرنے میں مصروف ہیں۔ جدید الیکٹران مائکروسکوپی، نینو ٹیکنالوجی، اور تھرموڈائنامکس کے تجربات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ فولاد دمشق میں کاربن نینوٹیوبز اور کاربائیڈز کی منظم تہیں موجود ہوتی تھیں جو اسے نہایت سخت بناتی تھیں۔ اس کی تیاری میں استعمال ہونے والا لوہا بھارت کے جنوبی علاقوں سے برآمد ہوتا تھا، جو کہ پرانی عالمی تجارت کی وسعت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
یعنی ’’فولادِدمشق‘‘ صرف ایک ہتھیار نہیں، بلکہ یہ اس پوری تہذیبی و علمی زنجیر کا مظہر تھا جو ایشیا، عرب اور یورپ کو جوڑتی تھی۔
فولاد دمشق بطور استعارہ
آج کے سیاسی اور تہذیبی حالات میں ’’فولادِدمشق‘‘ ایک نیا مفہوم اختیار کر چکا ہے۔ یہ اب محض فولاد کی ایک قسم نہیں بلکہ ایک تہذیبی استقامت، اخلاقی جرأت، اور علمی وراثت کی علامت ہے۔ جیسے دمشق خود ایک تاریخی مرکز کے طور پر زمانے کے طوفانوں میں ڈٹا رہا، ویسے ہی آج کی مسلم دنیا کو بھی اسی فولاد کی سی صلابت، حکمت اور بصیرت کی ضرورت ہے۔
یہ فولاد ہمیں یاد دلاتا ہے کہ علم اور فن کی بنیاد پر ہی تہذیبیں اٹھتی اور باقی رہتی ہیں۔ صرف عسکری قوت یا وقتی جوش سے نہیں بلکہ حکمت، تحقیق، فن، اور عزمِ مسلسل سے ایک قوم فولاد بنتی ہے، وہ فولاد جو ٹوٹتا نہیں، جھکتا نہیں، اور دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کہتا ہے: ’’میں دمشق کا فولاد ہوں۔‘‘
فولاد دمشق، ماضی، حال اور مستقبل
’’فولادِدمشق‘‘ کا مطالعہ محض ایک تاریخی یا فنی تجسس نہیں، بلکہ یہ ایک فکری اور تہذیبی شعور کی بیداری ہے۔ یہ ہمیں ہمارے علمی ورثے، صنعتی مہارت، اور تہذیبی وقار کی یاد دلاتا ہے۔ آج جب امت مسلمہ ایک بار پھر اپنی شناخت، طاقت، اور وقار کے بحران سے گزر رہی ہے، ایسے میں ’’فولادِدمشق‘‘ ایک بیدار کن استعارہ ہے کہ ہمیں پھر سے اپنی تاریخ، علم، اور فن سے جڑنا ہوگا۔
اگر دمشق کی گلیوں میں پھر سے علم کے قافلے چل نکلیں، اگر ہمارے نوجوان اپنے ہاتھوں میں تلوار کی جگہ قلم، تحقیق، اور اختراع کا ہنر تھام لیں، تو فولادِ دمشق ایک بار پھر زندہ ہو سکتا ہے۔ وہ فولاد جو جنگیں جیتنے کے ساتھ ساتھ دل بھی جیتا کرتا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایک بار پھر فولاد دمشق اور تہذیبی ایک تاریخی نہیں بلکہ اور تہذیب ہیں بلکہ جاتا تھا اس فولاد کی علامت صرف ایک دمشق کی اور اس
پڑھیں:
جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
بچھڑے آبائی شہرمیں قدم رکھتے ہی یادوں کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں، مگر آج اس شہر میں قدم رکھا، تو یوں لگا، جیسے یہ کوئی اور ہی شہر ہو۔ پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا، کسی دریا کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بعض محلوں میں کشتیوں کے ذریعہ شہریوں کو کھانے پینے کا سامان پہنچایا جا رہا تھا۔
یہ دلدوز مناظر آج تک اس شہر کی آنکھوں نے نہیں دیکھے تھے؛ اس وقت بھی نہیں، جب کہتے ہیں کہ دریاے چناب شہر کے ایک بیرونی دروازے کے پاس سے گزرتا تھا۔ یہ دروازہ، جو بعد میں اس مقام پر صاحب مزار شاہدولہ دریائی کے نام سے منسوب ہوا، گجرات شہر کے ان چار بیرونی دروازوں میں سے ایک تھا، جو مغل بادشاہ اکبرکے زمانے میں دریائے چناب کے کنارے بلند ٹیلے پر’اکبری قلعہ‘ کی تعمیر کے بعد اس کے گردا گرد بتدریج بس جانے والی بستی کے داخلی و خارجی راستے تھے، اور رات کو بند کر دیے جاتے تھے۔ تاہم، یہ شہر اس سے دو ہزار سال قبل راجہ پورس کے عہد میں بھی آباد تھا، جس کی راجدھانی دوآبہ چج ( دریاے چناب اور دریاے جہلم کے درمیانی علاقہ، موجودہ ضلع گجرات ) میں قائم تھی، اور عسکری طورپر یہ اس کا اہم ترین شہر تھا۔
یاد رہے کہ سنسکرت اور قدیم ہندی میں گج کے معنی ’ہاتھی‘ اورگجرات کے ’ہاتھی بان‘ کے ہیں۔ راجہ پورس اور اس کی فوج کی وجہ شہرت یہی ہاتھی اور ہاتھی بان تھے، ا ور یہ شہرت اس وقت مقدونیہ ( یونان ) تک پہنچ گئی، جب راجہ پورس نے مقدونیہ کے خلاف ایران کے بادشاہ دارا کو ہاتھی دستے کی کمک فراہم کی تھی۔ ابھی چند سال پہلے تک بھی یہ شہر اپنی سیاسی اہمیت کے لحاظ سےKing's City کہلاتا تھا۔ اس پس منظر میں اندرون اور بیرون ملک ہر جگہ گجرات شہر ڈوبنے کے روح فرسا مناظر ناقابل یقین تھے۔
حیرت انگیز طور پر اکبری قلعہ سے متصل شہر کا مرکزی بازار بھی زیرآب آ چکا تھا۔ شورومز کے بیسمنٹ اسٹور تباہ، جب کہ اونچی عمارتوںکے زیرزمین پارکنگ سینٹر تالاب بن گئے تھے۔ محلوں میں گھروں کے آگے اس طرح جم کے کھڑا ہو گیا تھا کہ شہریوں کا باہر نکلنا ناممکن تھا۔ شہر کے وسط میں مسلم اسکول اور نارمل ایلیمنٹری اسکول، جو سڑک کی سطح سے نیچے ہیں، کے اندونی مناظر دل دہلا دینے والے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب مسلم ہائی اسکول شیشیانوالہ گیٹ کی پرانی عمارت چھن جانے کے بعد نارمل اسکول کی اس عمارت میں منتقل ہوا، تو پہلے پہل ہم انھی کمروں، برآمدوں اور ان کے باہر سبزہ زاروں میں درختوں اور پیڑوں کے نیچے بیٹھ کے پڑھا کرتے تھے، جو آج گہرے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ بڑا کمرہ جو ہیڈماسٹر نیک عالم صاحب کا دفتر ہوتا تھا، اس کے اندر دیوار پر صرف قائداعظم کی تصویر سلامت بچی تھی، نیچے سب کچھ پانی میں گم ہو چکا تھا۔ اسکول کے عقب میں وسیع گراونڈ، جس میں چھٹی کے بعد شام تک بیک وقت درجنوں کرکٹ ٹیمیں کھیل رہی ہوتی تھیں، جوہڑ بن چکی تھی۔
علامہ اقبال نے میٹرک کا امتحان اسی اسکول کے امتحانی ہال میں دیا تھا ،جو اب ’اقبال ہال‘ کہلاتا ہے، وہ بھی غرق ِآب تھا۔ محلہ غریب پورہ، اس میں واقع گورنمنٹ گرلز اسکول، ا ورگردونواح کے محلے بھی آفت زدہ علاقوں کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔ اسٹیڈیم،کچہری، اسپتال، اسکول،کالج، یونیورسٹی، میونسپل کارپوریشن، سرکاری دفاتر، قبرستان، کوئی چیز بھی پانی کی دستبرد سے محفوظ نظر نہ آرہی تھی۔ اس سے بھی کرب ناک احساس یہ تھا کہ اس نازک اور مشکل گھڑی میںگجرات کے نام نہاد ’ ’منتخب نمایندوں‘‘ میں سے کوئی بھی تباہ حال شہر اور اس کے شہریوں کی ڈھارس بندھانے کے لیے موجود نہ تھا، یا عوامی غیظ و غضب کے خوف سے اس کی جرات نہیں کر پا رہا تھا۔
معلوم ہوا، گزشتہ شب پانی شہر میں داخل ہوا، تو اس سے قبل شہر میں طوفانی بارش ضرور ہوئی، مگر یہ تھم چکی تھی، بلکہ دریائے چناب سے پانی کا خطرناک سیلابی ریلا بھی شہر کو گزند پہنچائے بغیرگزر چکا تھا۔ آزادکشمیر سے موسلادھار بارشوں اور ندی نالوں کے بپھرنے کی اطلاعات ضرور آ رہی تھیں، مگر انتظامیہ اور’منتخب نمایندوں‘ کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ خطرے کی بات نہیں، ان نالوں کے آگے حفاظتی بند باندھے جا چکے ہیں۔
یوں اہل شہر ان کے بھروسے پر اطمینان سے سو گئے؛ مگرسوہنی کے شہر کے باسیوں کو کیا خبر تھی کہ اس طرح کے طوفانوں میں وہ کبھی جس کے مضبوط کندھوں کے سہارے دریا کے پار محفوظ اُتر جایا کرتے تھے، وہ پکا گھڑا کب کا کچے گھڑوں سے بدلا جا چکا ہے۔ سو، آدھی رات کے بعد جب شہر میں اچانک سائرن بجنا اور مسجدوں سے اذانیں اور اعلانات ہونا شروع ہوئے، اورشہری بازاروںکی طرف اپنی جمع پونجی بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے، اورگھروں میں ضروری سامان چھتوں اور ممٹیوں پر پھینک رہے تھے، جو اس طوفانی رات میں ’ سوہنی‘ کی تھی، جس کا کچا گھڑا پانی میںگھل رہا تھا،وہ پکار رہی تھی، ’مینوں پار لنگھا دے وے گھڑیا منتاں تیریاں کردی‘۔ مگر،کوئی آہ و فریادکام نہ آئی۔
کچھ ہی دیر میں ’سوہنی‘ ڈوب چکی تھی، اور پانی اس کے شہر پر قابض ہو چکا، اورسانپ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ کہا جاتا ہے، بہت سارے شہری اس وجہ سے بھی اپنا مال اسباب بچانے کے لیے بروقت کاروباری مراکز، دکانوں، بیسمنٹوں اور زیرزمین پارکنگز میں نہ پہنچ سکے کہ آخری وقت پر بھی ان کو خطرے کی حقیقی نوعیت کے بارے میںکچھ بتانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ ستم یہ ہے، جب سارا شہر ڈوب چکا تھا، تب بھی وزیراعلیٰ کو انتظامیہ کی طرف سے یہی بتایا جا رہا تھا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں، صرف شہر کے بیس فی صد حصہ میں کچھ ’اضافی پانی‘ جمع ہو گیا ہے۔
شہر کیوں ڈوبا ؟ اس حوالہ سے متعدد کہانیاں زیر ِگردش ہیں۔ ایک کہانی یہ ہے کہ نالہ بھمبرکے سیلابی پانی کو شہر کی طرف جانے سے روکنے کے لیے جو بند باندھے گئے، رات کو کسی نے ان کو توڑ کر پانی کا رخ شہرکی طرف موڑ دیا، اور ایک نہیں، دومرتبہ یہ وقوعہ ہوا۔ اس پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کس طرح محض چند افراد بغیر کسی موثر پشت پناہی کے پورا شہر ڈبونے کی جرات کر سکتے ہیں۔
ایک کہانی یہ ہے کہ مون سون میں آزادکشمیر کی طرف سے آنے والے بارشی پانی کی راہ میں ناجائز تجاوزات کے باعث اس کے دریا کی طرف قدرتی بہاو کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ جب اس پانی کو نکاس کے لیے قدرتی راستہ نہیں ملا، تو اس نے شہر کا رخ کر لیا۔ ایک کہانی یہ ہے کہ شہر چونکہ حکومت مخالف تحریک انصاف اور چوہدری پرویزالٰہی کا سپورٹر ہے۔
اس لیے حکومت اور اس کے مقامی اتحادیوں کو شہرکی کوئی پروا نہ تھی کہ جب شہر نے انھیں ووٹ ہی نہیں دیا، تو ان کی بلا سے شہر ڈوبے یا ترے۔ ماضی میں اس طرح کی صورتحال میں جو لوگ شہر کے ’ناقص سیوریج سسٹم‘کو مورد الزام ٹھیرا کے بری الذمہ ہو جاتے تھے، آج ان کی مشکل یہ ہے کہ اپنی وزیراعلیٰ کے ہمراہ اسی گروپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں۔ تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویزالٰہی اور سلمان اکرم راجہ چند روز پہلے متاثرین کی دلجوئی کے لیے آئے اور جو انکشاف کیا ، وہ بھی ان دنوں شہر میں زبان زد خاص وعام ہے۔ ان کا کہنا تھا، انھوں نے جیل چوک سے بولے پل تک بارشی پانی کی نکاسی کے لیے جو پائب لائن بچھائی تھی، اسے شاہ حسین اور چاہ ترنگ نالوں پرکنکریٹ کی سڑکیں بنا کر غیر موثر کر دیا گیا، بلکہ ان کی مخالفت میں نکاسی آب کے ان کے دوسرے منصوبے بھی روک دیے گئے۔
یہ حقیقت ہے، اگر دریاے چناب کے پانی کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے چوہدری پرویزالٰہی نے اپنے پہلے دور میں بند نہ بنوائے ہوتے، اور دریا ے چناب کا پانی بھی شہر میں داخل ہو جاتا، تو جو خوفناک حالات پیدا ہوتے، ان کے تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔
بہرحال یہ تو شاید کبھی معلوم نہ ہو سکے کہ شہر محض کسی کی غفلت یا نااہلی سے ڈوبا، یا انتہائی درجہ کی سفاکی کا شکار ہوا، مگر یہ واضح ہے کہ اس تباہی و بربادی کا ازالہ کرنا اب آسان نہیں، بلکہ سیاسی طور پر بھی یہ شہر اب عرصہ تک اس خوداعتمادی سے محروم رہے گا، جو گزشتہ دو عشروں میں سیاسی، تجارتی اور تعلیمی میدانوں میں شہر کی مسلسل پیش رفت سے اس کے اندر پیدا ہو چکی تھی۔ جن لوگوں نے یہ شہر ڈوبتے اور اس کے کئی روز بعد تک اسے بے یارومدگاراور خانماں برباد دیکھا ہے، وہ یہ اندوہ گیں مناظرکبھی فراموش نہیں کر سکیں گے، بلکہ حیرت اور افسوس کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی سنایا کریں گے، بقول حافظؔ
شب ِ تاریک و بیم ِ موج و گردابی چنین ہائل
کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحلہا