Express News:
2025-11-02@22:00:05 GMT

فولاد دمشق: علم، فن، اور تہذیب کا لافانی آہنی استعارہ

اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT

تاریخ انسانی کے صفحات پر کچھ نام اور اشیاء ایسی ثبت ہوچکی ہیں جو نہ صرف اپنی مادی ساخت میں منفرد ہیں بلکہ ان کے ساتھ جُڑی ثقافت، تہذیب، حوصلہ اور قربانی کی داستانیں انہیں دائمی علامت بنا دیتی ہیں۔ ’’فولادِ دمشق‘‘ انہی علامتوں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ یہ بظاہر ایک دھات ہے، ایک ہتھیار کا مادّہ، لیکن درحقیقت یہ اس پوری تہذیب، علم، جفاکشی، اور فنی عروج کا استعارہ ہے جو دمشق جیسے قدیم شہر سے وابستہ رہی ہے۔

آج جب کہ دنیا ایک بار پھر ظلم، استبداد اور تہذیبی کشمکش کے بھنور میں ہے، ’’فولادِدمشق‘‘ نہ صرف ایک تاریخی استعارہ بلکہ ایک فکری و اخلاقی تمثیل بن چکا ہے، جس پر گفتگو تاریخ، سائنس، جنگ، اور امن کی ملی جلی داستانوں کو زندہ کر دیتی ہے۔

دمشق کا تہذیبی اور سائنسی پس منظر

دمشق صرف ایک شہر نہیں، بلکہ انسانی تمدن کا وہ مرکز ہے جہاں تہذیب نے آنکھ کھولی، علم نے سانس لی، اور صنعت و فن نے جلا پائی۔ اس شہر کی تاریخ کم از کم چار ہزار سال پر محیط ہے، اور اس کا ذکر ہمیں قدیم رومی، یونانی، اسلامی، اور عیسائی متون میں مسلسل ملتا ہے۔ دمشق، جو آج شام کا دارالحکومت ہے، قرون وسطیٰ میں اسلامی خلافتِ بنی اُمیہ کا مرکز رہا، اور یہاں نہ صرف علومِ دینیہ بلکہ فلکیات، طب، کیمیا، اور دھات سازی کو بھی غیرمعمولی فروغ حاصل ہوا۔

فولاد دمشق: ایک فنی معجزہ

’’فولادِدمشق‘‘ یا Damascus steel ایک خاص قسم کا فولاد ہے جو اپنی طاقت، لچک، اور تلوارسازی میں بے مثال حیثیت رکھتا تھا۔ تاریخی طور پر یہ فولاد ہندوستان کے ’’وُٹز اسٹیل‘‘ ( Steel Wootz) سے تیار کیا جاتا تھا، جسے دمشق کے کاری گر مخصوص ترکیب سے تیار کرتے تھے۔ اس فولاد سے بنی ہوئی تلواریں اپنی کاٹ، مضبوطی اور حُسنِ نقش و نگار کے سبب دنیا بھر میں مشہور ہوئیں۔ ان میں لہراتے ہوئے دھاروں کی خاص پہچان ہوتی تھی جو آج بھی دھات کے جمالیاتی اسرار کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔

اس فولاد سے بنی تلوار کو صرف ایک جنگی ہتھیار ہی نہیں بلکہ فن و تہذیب کی ایک اعلیٰ ترین شکل سمجھا جاتا تھا۔ صلیبی جنگوں کے دوران یورپی افواج نے جب اسلامی لشکروں کی تلواروں کی کاری گری دیکھی تو وہ حیران رہ گئیں کہ یہ دھاریں نہ صرف بکتر توڑ دیتی ہیں بلکہ برسوں اپنی تیزی برقرار رکھتی ہیں۔

فولادِدمشق کی تیاری: ایک گم شدہ سائنس

دمشق کے لوہار، دھات کے ماہرین اور کیمیا داں ایسی حکمتِ عملی کے تحت یہ فولاد تیار کرتے تھے جسے صدیوں تک ایک راز رکھا گیا۔ بعض ماہرین کے مطابق اس فولاد میں کاربن کی مقدار خاص تناسب سے شامل کی جاتی تھی، اور اسے خاص درجۂ حرارت پر آہستہ آہستہ ٹھنڈا کیا جاتا تھا، جس سے یہ فولاد نہایت سخت، مگر لچک دار بن جاتا تھا۔

یہ طریقۂ کار وقت کے ساتھ کھو گیا۔ سولہویں صدی کے بعد جیسے جیسے سلطنتیں ٹوٹتی گئیں، دمشق پر حملے ہوتے گئے، ویسا ویسا فولاد سازی کا یہ فن بھی مٹتا چلا گیا۔ آج سائنسدان اس تکنیک کو جدید تجزیاتی آلات کے ذریعے دوبارہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر اب بھی اصل فولادِدمشن جیسی خوبی حاصل نہیں کر سکے۔

فولاد دمشق: ایک تہذیبی تمثیل

فولاد دمشق صرف ایک دھات یا ہتھیار نہیں رہا، بلکہ یہ مسلم دنیا کی اُس علمی، فنی، اور ثقافتی بالادستی کی نشانی بن گیا ہے جس کا عروج اموی اور عباسی ادوار میں دیکھنے کو ملا۔ یہ فولاد اس دور کی علامت ہے جب اسلامی تہذیب نے یورپ کو علم، اخلاق اور صنعت کے چشمے عطا کیے۔ جب تلوار کا وار صرف دشمن پر ہی نہیں بلکہ جہالت، ظلم اور انارکی پر بھی ہوتا تھا۔

یہ فولاد ابنِ رشد، الفارابی، ابن الہیثم، اور ابن سینا جیسے علمی مجاہدوں کا ہم عصر رہا، اور اس نے اُس دور کی روحانی اور مادی طاقت کو مجسم کر کے پیش کیا۔ دمشق کی یہ دھات صرف جنگ میں نہیں بلکہ فن میں بھی ممتاز تھی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی یورپی عجائب گھروں میں دمشق فولاد سے بنی اشیاء محفوظ کی جاتی ہیں۔

جدید دور میں ’’فولاد دمشق‘‘ کی معنویت

اگرچہ اب ایک تاریخی اصطلاح بن چکی ہے، مگر اس کی معنویات آج بھی زندہ ہیں۔ جدید شام، جو گذشتہ دہائی سے خانہ جنگی، بیرونی مداخلت، اور انسانی بحرانوں کا شکار ہے، ایک بار پھر ’’فولادِدمشق‘‘ کی علامتی طاقت کا متقاضی ہے۔ آج کی دنیا میں جب تہذیبی جنگیں، میڈیا پروپیگنڈا، نسل پرستی اور اسلاموفوبیا جیسے عناصر فروغ پا رہے ہیں، مسلمان دنیا کو اسی ’’فولادی‘‘ عزم و حوصلے کی ضرورت ہے جو دمشق کی پہچان رہا ہے۔

آج کا دمشق بم باری، قتل و غارت، اور ملبے کا شہر بن چکا ہے۔ جہاں کبھی علم کے مینار تھے، آج وہ کھنڈرات میں بدل چکے ہیں۔ مگر کیا فولاد واقعی مٹ سکتا ہے؟ فولاد، جو آگ میں تپ کر اور ضربیں کھا کر نکھرتا ہے، وہ قومیں جنہوں نے فولاد دمشق جیسے کارنامے سر انجام دیے، کیا وہ آج مٹی میں دفن ہو سکتی ہیں؟

علمی اور سائنسی امکانات

حالیہ دور میں کئی میٹریل سائنس داں اس فولاد کی ساخت اور خواص کو ازسرنو دریافت کرنے میں مصروف ہیں۔ جدید الیکٹران مائکروسکوپی، نینو ٹیکنالوجی، اور تھرموڈائنامکس کے تجربات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ فولاد دمشق میں کاربن نینوٹیوبز اور کاربائیڈز کی منظم تہیں موجود ہوتی تھیں جو اسے نہایت سخت بناتی تھیں۔ اس کی تیاری میں استعمال ہونے والا لوہا بھارت کے جنوبی علاقوں سے برآمد ہوتا تھا، جو کہ پرانی عالمی تجارت کی وسعت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

یعنی ’’فولادِدمشق‘‘ صرف ایک ہتھیار نہیں، بلکہ یہ اس پوری تہذیبی و علمی زنجیر کا مظہر تھا جو ایشیا، عرب اور یورپ کو جوڑتی تھی۔

فولاد دمشق بطور استعارہ

آج کے سیاسی اور تہذیبی حالات میں ’’فولادِدمشق‘‘ ایک نیا مفہوم اختیار کر چکا ہے۔ یہ اب محض فولاد کی ایک قسم نہیں بلکہ ایک تہذیبی استقامت، اخلاقی جرأت، اور علمی وراثت کی علامت ہے۔ جیسے دمشق خود ایک تاریخی مرکز کے طور پر زمانے کے طوفانوں میں ڈٹا رہا، ویسے ہی آج کی مسلم دنیا کو بھی اسی فولاد کی سی صلابت، حکمت اور بصیرت کی ضرورت ہے۔

یہ فولاد ہمیں یاد دلاتا ہے کہ علم اور فن کی بنیاد پر ہی تہذیبیں اٹھتی اور باقی رہتی ہیں۔ صرف عسکری قوت یا وقتی جوش سے نہیں بلکہ حکمت، تحقیق، فن، اور عزمِ مسلسل سے ایک قوم فولاد بنتی ہے، وہ فولاد جو ٹوٹتا نہیں، جھکتا نہیں، اور دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کہتا ہے: ’’میں دمشق کا فولاد ہوں۔‘‘

فولاد دمشق، ماضی، حال اور مستقبل

’’فولادِدمشق‘‘ کا مطالعہ محض ایک تاریخی یا فنی تجسس نہیں، بلکہ یہ ایک فکری اور تہذیبی شعور کی بیداری ہے۔ یہ ہمیں ہمارے علمی ورثے، صنعتی مہارت، اور تہذیبی وقار کی یاد دلاتا ہے۔ آج جب امت مسلمہ ایک بار پھر اپنی شناخت، طاقت، اور وقار کے بحران سے گزر رہی ہے، ایسے میں ’’فولادِدمشق‘‘ ایک بیدار کن استعارہ ہے کہ ہمیں پھر سے اپنی تاریخ، علم، اور فن سے جڑنا ہوگا۔

اگر دمشق کی گلیوں میں پھر سے علم کے قافلے چل نکلیں، اگر ہمارے نوجوان اپنے ہاتھوں میں تلوار کی جگہ قلم، تحقیق، اور اختراع کا ہنر تھام لیں، تو فولادِ دمشق ایک بار پھر زندہ ہو سکتا ہے۔ وہ فولاد جو جنگیں جیتنے کے ساتھ ساتھ دل بھی جیتا کرتا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایک بار پھر فولاد دمشق اور تہذیبی ایک تاریخی نہیں بلکہ اور تہذیب ہیں بلکہ جاتا تھا اس فولاد کی علامت صرف ایک دمشق کی اور اس

پڑھیں:

تجدید وتجدّْد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

 

3

مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔

متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔

مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔

تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)

آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔

الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر

مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔

غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  • دنیا کی پہلی مصنوعی ذہانت والی نیوز اینکر متعارف، ویڈیو وائرل
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کے نام کا اعلان اسلام آباد سے نہیں بلکہ کشمیر سے ہوگا، بلاول بھٹو