ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ نفسیاتی اثرات رکھنے والی دوا لائسرجک ایسڈ ڈائی ایتھائیل امائیڈ (LSD) کی ممکنہ طور پر بے چینی (anxiety) کی علامات کو 3ماہ تک کم کر سکتی ہے۔

یہ ابتدائی مطالعہ، جو جمعرات کو جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (JAMA) میں شائع ہوا، میں پایا گیا کہ MM120 کی ایک خوراک ہی عمومی بے چینی کی خرابی (Generalized Anxiety Disorder) کے مریضوں میں علامات کو نمایاں طور پر کم کر دیتی ہے۔

یہ تحقیق نیویارک کی بائیوٹیک کمپنی MindMed نے 198 بالغ مریضوں پر کی، جنہیں GAD کی تشخیص ہوئی تھی۔
مطالعہ کے مرکزی محقق ڈین کارلن نے کہا:

یہ پہلا جدید کلینیکل ٹرائل ہے جس میں LSD یا کسی بھی نفسیاتی دوا کو خاص طور پر جنرلائزڈ انزائٹی ڈس آرڈر کے علاج کے لیے آزمایا گیا۔

دوا استعمال کرنے سے کیا نتائج حاصل ہوئے؟

LSD کی ایک خوراک لینے والے تقریباً دو تہائی مریضوں میں 12 ہفتے بعد بھی علامات میں بہتری رہی، جب کہ پلیسبو (جعلی دوا) لینے والوں میں یہ شرح صرف 31% تھی۔

علامات سے مکمل نجات کی شرح LSD گروپ میں 48% رہی، جب کہ پلیسبو میں یہ صرف 20% تھی۔

پس منظر

عام طور پر GAD کے علاج کے لیے اینٹی ڈپریسنٹ ادویات جیسے سیلیکٹو سیروٹونن ری اپ ٹیک انہیبیٹرز (SSRIs) استعمال کی جاتی ہیں، لیکن یہ تقریباً آدھے مریضوں پر اثر نہیں کرتیں اور بعض اوقات جذبات کو دبانے جیسی منفی اثرات رکھتی ہیں۔ مزید یہ کہ یہ صرف روزانہ کھانے سے ہی اثر دکھاتی ہیں۔

اس کے برعکس، LSD دماغ میں خوشگوار اثر ڈالنے والے سیروٹونن کو بڑھاتا ہے، جس سے موڈ بہتر ہوتا ہے۔

ممکنہ خطرات

LSD لینے والے 90% مریضوں نے 100 ملی گرام خوراک کے بعد ہیلوسینیشنز (وہم یا غیر حقیقی مناظر) کی شکایت کی۔

دیگر ضمنی اثرات میں سر درد اور متلی شامل ہیں۔

ماہرین کی رائے

یونیورسٹی آف شکاگو کی پروفیسر ہیریئٹ ڈی وِٹ نے کہا:

’ یہ ایک متاثر کن مطالعہ ہے۔ محققین کلینیکل ٹرائل ڈیزائن میں ماہر ہیں اور نتائج واقعی چونکانے والے ہیں۔‘

اگلا قدم

MindMed نے امریکا اور یورپ میں مزید کلینیکل ٹرائلز شروع کیے ہیں اور اگر نتائج مثبت رہے تو کمپنی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) سے اس دوا کو بطور انزائٹی ٹریٹمنٹ منظور کرانے کی کوشش کرے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اینگزائٹی صحت نفسیاتی امراض.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اینگزائٹی نفسیاتی امراض

پڑھیں:

سروائیکل کینسر ویکسین تولیدی صحت کے لیے کتنی محفوظ ہے؟

پاکستان بھر میں سروائیکل کینسر کے خلاف پہلی قومی ایچ پی وی (ہیومن پیپیلوما وائرس) ویکسین مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ مہم 15 سے 27 ستمبر تک پنجاب، سندھ، اسلام آباد اور آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) میں چلائی جائے گی، جس کا مقصد 9 سے 14 سال کی لڑکیوں کو اس موذی مرض سے بچانا ہے۔ اس مہم کے تحت قریباً 13 ملین لڑکیوں کو مفت ویکسین دی جائے گی، جو سروائیکل کینسر کے 90 فیصد کیسز کو روکنے میں مؤثر ہے۔

واضح رہے کہ سروائیکل کینسر پاکستانی خواتین کو ہونے والا تیسرا بڑا کینسر ہے جبکہ 15 سے 44 برس کی خواتین میں تیزی سے ہونے والا یہ سرطان دوسرے نمبر پر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سروائیکل کینسر سے بچاؤ کی ویکسینیشن مہم 15 ستمبر سے شروع ہوگی

پاکستان میں جہاں ایک جانب ویکسین جیسے مثبت قدم کی شروعات کی گئ ہے، تو دوسری جانب سوشل میڈیا اور کچھ لوگوں کے درمیان یہ افواہ گردش کررہی ہے کہ ایچ پی وی ویکسین کا مقصد لڑکیوں کو مستقبل میں ماں بننے سے روکنا ہے۔

سروائیکل کینسر کیا ہے؟ اور یہ کن وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے؟

شفا انٹرنیشنل اسپتال کی گائناکولوجسٹ ڈاکٹر نادیہ خان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ سروائیکل کینسر ایک ایسی بیماری ہے جو عورت کے رحم کے نچلے حصے، جسے سروکس کہتے ہیں، میں ہوتی ہے۔

’سروکس رحم کو اندام نہانی سے جوڑتا ہے۔ یہ کینسر پاکستان جیسے ممالک میں خواتین کی موت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہر سال پاکستان میں لگ بھگ 5,008 خواتین کو یہ کینسر ہوتا ہے، اور ان میں سے 3 ہزار 197 سے زیادہ اس کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس کینسر کی بنیادی وجہ ایچ پی وی (ہیومن پیپیلوما وائرس) ہے، جو جنسی رابطے سے پھیلتا ہے۔ دیگر وجوہات میں سیگریٹ نوشی، کمزور مدافعتی نظام، کم عمری میں جنسی تعلقات یا مانع حمل گولیوں کا طویل استعمال شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین میں اووریز کا کینسر کیوں بڑھ رہا ہے؟

واضح رہے کہ کچھ مطالعات کے مطابق غیر معیاری یا پلاسٹک سے بنے سینیٹری پیڈز کا استعمال بھی سروائیکل کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے، کیونکہ ان میں موجود کیمیکلز یا ناقص مواد طویل عرصے تک جلد کے رابطے میں رہنے سے سروکس کے خلیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر نادیہ کے مطابق ایچ پی وی ویکسین اور باقاعدہ اسکریننگ سے اس بیماری کو روکا جا سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بھی واضح کیا جا چکا ہے کہ یہ ویکسین سروائیکل کینسر سے تحفظ دینے کے لیے بنائی گئی ہے اور اس کا زچگی یا تولیدی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ یہ ویکسین دنیا بھر میں لاکھوں لڑکیوں کو دی جا چکی ہے اور اسے مکمل طور پر محفوظ ثابت کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس مہم کے لیے 49 ہزار سے زیادہ ہیلتھ ورکرز کو تربیت دی گئی ہے، جو لڑکیوں کو ایک ڈوز ویکسین دیں گے۔ یہ ویکسین پاکستان کو دنیا کے 150ویں ملک کی حیثیت دے گی جو ایچ پی وی ویکسین متعارف کرا رہا ہے۔

مہم پبلک اسکولوں، ہیلتھ سینٹرز، کمیونٹی مراکز اور موبائل ٹیموں کے ذریعے چلائی جائے گی۔ والدین کو آگاہی دینے کے لیے وائس میسیجز اور کمیونٹی سیشنز کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ افواہوں اور غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سروائیکل کینسر سے بچاؤ ممکن: ماہرین کا HPV ویکسین کو قومی پروگرام میں شامل کرنے کا مطالبہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ سروائیکل کینسر پاکستان میں خواتین میں کینسر سے ہونے والی اموات کی دوسری بڑی وجہ ہے، جو بریسٹ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ مہم عالمی ادارہ صحت کی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا ہدف 2030 تک 90 فیصد لڑکیوں کی ویکسینیشن، 70 فیصد خواتین کی اسکریننگ اور 90 فیصد مریضوں کا علاج یقینی بنانا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews افواہیں تولیدی صحت خواتین سروائیکل کینسر مفت ویکسین والدین وی نیوز ویکسین

متعلقہ مضامین

  • آشوبِ چشم کی وبا شدت اختیار کر گئی، اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ
  • شوگر کے مریضوں کے لیے مورنگا (سہانجنا) کے 6 حیرت انگیز فوائد
  • کراچی میں آشوب چشم کی وبا پھیل گئی، مریضوں میں اضافہ
  • کیا راول ڈیم کا پانی فلٹریشن کے بعد بھی پینے کے لیے غیر محفوظ ہے؟
  • بلوچستان میں محکمہ خوراک کے پاس گندم کا ذخیرہ ختم
  • محکمہ خوراک کے پاس ذخیرہ ختم، بلوچستان میں گندم کا بحران شدت اختیار کر گیا
  • سیلاب متاثرین میں وبائی امراض تیزی سے پھیلنے لگے
  • اب چشمہ لگانے کی ضرورت نہیں! سائنسدانوں نے نظر کی کمزوری کا نیا علاج دریافت کرلیا
  • کراچی، عباسی شہید اسپتال کے خواتین وارڈ کے افتتاح پر مرد مریضوں کی موجودگی، حقیقت سامنے آگئی
  • سروائیکل کینسر ویکسین تولیدی صحت کے لیے کتنی محفوظ ہے؟