افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ روس، چین اور قطر جاسکتے ہیں لیکن پاکستان اور بھارت نہیں، وجہ امریکی ناراضی؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان قائم وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے اپنا دورۂ بھارت منسوخ کردیا، جس کی وجہ اُن پر عائد سفری پابندیاں ہیں۔
یہ سفری پابندیاں اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 1988 کے تحت طالبان اور القاعدہ رہنماؤں کے خلاف جون 2011 میں نافذ کی گئیں تھیں۔
طالبان اور القاعدہ رہنماؤں پر نہ صرف سفری بلکہ اثاثہ جات اور اسلحہ سے متعلق پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں۔
مزید پڑھیں: دہشتگردی کے مقابلے کے لیے بیرونی ہاتھوں سے ہوشیار رہیں گے، پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان اتفاق
بھارتی میڈیا نے الزام عائد کیا کہ بھارت نے امیر خان متقّی کے دورہ بھارت کے لیے سفری استثنٰی کی درخواست سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی جو مذکورہ بالا پابندیوں کی نگرانی کرتی ہے، میں دائر کی تھی جو منظور نہیں ہوئی کیونکہ کمیٹی کی سربراہی پاکستان کے پاس ہے۔
نتیجتاً مجوزہ دورہ فی الحال منسوخ کر دیا گیا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق دورے کے لیے نئی تاریخوں کا اعلان دونوں ملکوں کی مشاورت سے کیا جائے گا۔
کیا افغان وزیرِ خارجہ کا دورۂ پاکستان بھی سفری پابندیوں کی وجہ سے منسوخ ہوا تھا؟مزید پڑھیں: کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟
افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا دورۂ پاکستان 4 اگست کو طے تھا جسے منسوخ کیا گیا۔ پاکستان دفترِخارجہ کا کہنا تھا کہ دورے کے حوالے سے کچھ مسائل تھے جن کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مختلف ذرائع سے یہ کہا گیا کہ اُس دورے کی منسوخی کی پیچھے مبینہ طور پر امریکی ناراضی تھی جس کی وجہ سے امیر خان متقّی کو سفری استثنٰی حاصل نہیں ہوا۔
امیر خان متقی کے دورۂ بھارت سے امریکی ناراضی کا کیا تعلق ہے؟مزید پڑھیں: زلمے خلیل زاد کا دورہ، افغانستان اور امریکا تعلقات میں بہتری کا اشارہ، اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
گزشتہ ماہ امریکا کی جانب سے بھارت پر 50 فیصد ٹیرفس عائد کئے گئے جس سے بھارت کی مشکلات میں اِضافہ ہوا۔ دوسری طرف امریکا اور افغانستان کے تعلقات فی الوقت ایک مشکل مرحلے سے گُزر رہے ہیں جن میں مبیّنہ طور پر بڑی رُکاوٹ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے ہے۔
گزشتہ اور موجودہ امریکی حکومت، افغان طالبان حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے مذاکرات کرتی چلی آئی ہے۔
مجوزہ ڈیل کی رُو سے امریکی انتظامیہ گوانتانامہ بے میں قید محمد رحیم الافغانی کو طالبان حکومت کے حوالے کرے گی، بدلے میں طالبان کو 3 امریکی ریان کاربِٹ، جارج گلیزمین اور محمود حبیبی کو امریکا کے حوالے کرنا پڑے گا۔
مزید پڑھیں: پاک افغان ارلی ہارویسٹ پروگرام: بلوچستان کے زمیندار اس کو معیشت کے لیے خطرہ کیوں قرار دے رہے ہیں؟
مذاکرات اِس بات پر تعطّل کا شکار ہیں کہ افغاں طالبان کا کہنا ہے کہ محمود حبیبی اُن کے تحویل میں نہیں۔ جس وجہ سے امریکا اور طالبان کے درمیان تلخی ہے۔ امیر خان متقی پر سے سفری پابندیوں کے ہٹائے نہ جانے کا ایک ممکنہ سبب امریکی ناراضی بھی ہوسکتی ہے۔
بھارت اور افغانستان کے تعلقات15 اگست 2021 سے قبل اشرف غنی کی افغان حکومت اور بھارت کے درمیان تمام شعبوں میں بہت اچھے تعلقات تھے اور توقع تھی کہ طالبان حکومت کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی شاید وہ نوعیت نہ ہو، لیکن طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھی بھارت نے نئی حکومت کے ساتھ تعلقات اچھے رکھے۔
مزید پڑھیں: 9 مئی کے بعد سے میرا پاسپورٹ بلاک ہے، افغانستان کیسے جاؤں؟ علی امین گنڈاپور
گزشتہ دنوں افغانستان میں آنے والے زلزلے کے بعد بھارت نے جلد ریلیف کا سامان بھجوایا۔ اگرچہ بھارت نے افغان طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، اِس کے باوجود تعلقات کی نوعیت بہت اچھی ہے۔
بھارتی وزیراعظم مودی نے شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس سے واپسی پر افغانستان میں زلزلے سے ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا تو بھارت میں کافی تنقید ہوئی کہ بھارتی پنجاب اور کشمیر میں سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں پر وزیراعظم مودی کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھارت نے جوائنٹ سیکریٹری جی پی سنگھ کی قیادت میں وفد کابل بھیجا جس نے مذاکرات کے بعد انسانی امداد اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے تکنیکی ٹیم کو تعیّنات کیا اور بھارتی سفارتخانہ جزوی طور پر بحال کیا۔
مزید پڑھیں: پاکستانی سفری دستاویزات بنوانے کی کوشش ناکام، 5 افغان شہری گرفتار
گزشتہ برس بھارت نے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو اپ گریڈ بھی کیا۔ امسال مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تنازع پر بھی افغانستان نے پہلگام حملے کی مذمت تو کی لیکن پاکستان پر بھارتی حملے کی مذمت نہیں کی۔
کسی بھی وزیرِ خارجہ کا دورہ انتہائی اہم ہوتا ہے، ہارون رشیدبین الاقوامی صحافتی ادارے انڈیپنڈنٹ اردو سے وابستہ افغان اُمور پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی ہارون رشید نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کو سفری استثنٰی کے نہ مِلنے میں بظاہر امریکی دباؤ اور امریکی ناراضگی نظر آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ دونوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات میں پیشرفت نہیں ہو پا رہی۔ جب کسی مُلک کا وزیرِ خارجہ کسی دوسرے مُلک کا دورہ کرتا ہے تو یہ اعلیٰ سطح دورہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں مقیم افغان باشندوں کی اپنے وطن واپسی کم کیوں؟
ہارون رشید نے کہا کہ دورے سے پہلے دونوں مُلکوں کے درمیان جن معاہدوں اور جن مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہونا ہوتے ہیں وہ فائنل کر دی جاتی ہیں۔
ہارون رشید نے بتایا کہ بھارت اور افغانستان کے درمیان تاریخی نوعیت کے تعلقات ہیں جن میں خشک میوہ جات اور مصالحوں کی تجارت دوسرا بھارت افغانستان سے تعلقات کے ذریعے پاکستان کو تنگ کر سکتا ہے۔
پاکستان کی جانب سے امیر خان متقّی کے دورۂ بھارت کی منسوخی غلط الزام ہے، طاہر خانسینئر صحافی طاہرخان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بھارت سے پہلے پاکستان کا دورہ کرنا تھا لیکن وہ نہیں آسکا کیونکہ دورے سے پہلے سفر کی اجازت لینا پڑتی ہے۔
مزید پڑھیں: بنوں ایف سی لائن حملے میں شامل 5 میں سے 3 خودکش بمبار افغان شہری نکلے
طاہر خان نے کہا کہ عام طور پر وزیرِ خارجہ کے لیے سفری استثنٰی کی مخالفت کم ہی ہوتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ امریکا طالبان سے زیادہ ناراض ہے اس لیے مخالفت ہو رہی ہے۔
متقّی نے بھارت کا دورہ بھی کرنا تھا لیکن جب معلوم ہوا کہ سفری استثنٰی کے معاملے میں وہی ہوگا جو پاکستان کے دورے کے حوالے سے ہوا تو بھارت نے دورہ منسوخ کردیا۔
سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی اس طرح کے استثنٰی کا فیصلہ کرتی ہے وہ فیصلہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی رائے سے کیا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان سلامتی کونسل کا مستقل رُکن نہیں، اس لیے پاکستان کی مرضی سے دورہ منسوخ ہوا بے بنیاد بات ہے۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ گنڈا پور کا افغانستان کے زلزلہ متاثرین کے لیے مزید 1000 خیمے بھیجے کا اعلان
طاہر خان نے کہا کہ امیر خان متقّی نے روس، چین، قطر اور ترکیہ کے دورے کیے اُس وقت یہ رُکاوٹ حائل نہیں ہوئی۔
اُنہوں نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی نوعیت ٹھیک نہیں، اُس کی بنیادی وجہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی ہے۔ دفترِ خارجہ بیان جاری کرتا ہے کہ افغان سرزمین پر دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں اور ان سے پاکستان میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔
پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ افغانستان ٹی ٹی پی کو روکے، یوں جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات خراب ہوتے ہیں بھارت وہاں پر اپنی جگہ اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتا رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان وزیر خارجہ امریکی ناراضی؟ امیر خان متقی روس، چین قطر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان وزیر خارجہ امریکی ناراضی روس چین اور افغانستان کے طالبان حکومت کے امریکی ناراضی سلامتی کونسل کے حوالے سے مزید پڑھیں ہارون رشید افغان وزیر کے درمیان کے تعلقات کہ افغان بھارت نے کا دورہ نہیں ہو کے ساتھ کے لیے کے بعد کہا کہ
پڑھیں:
امریکی وزیر خارجہ اسرائیلی دورے سے واپسی پر عجلت میں دوحہ پہنچ گئے؛ اہم پیغام پہنچایا
اسرائیل کے دورے سے واپسی پر امریکی وزیر خارجہ اچانک دوحہ پہنچ گئے جہاں انھوں نے قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور وزیراعظم محمد بن عبد الرحمان الثانی سے ملاقاتیں کیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ دورہ بہت عجلت میں ترتیب دیا گیا۔ ایک گھنٹے سے کچھ کم وقت کے لیے جاری رہنے والی اس ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے قطر کی سلامتی اور خود مختاری کے لیے بھرپور حمایت کا وعدہ کیا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ مارکو روبیو نے امریکا اور قطر کے درمیان مضبوط دو طرفہ تعلقات کی تصدیق کی اور غزہ میں جنگ کے خاتمے اور تمام یرغمالیوں کو وطن واپس لانے کی کوششوں پر قطر کا شکریہ ادا کیا۔
مارکو روبیو نے اس سے قبل خود یہ کہا تھا کہ دوحہ میں حماس رہنماؤں پر اسرائیلی حملے کے باوجود امریکا اور قطر جلد دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے کام کریں گے۔
وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ قطر سے ثالث کا کردار ادا کرتے رہنے کی اپیل کریں گے جیسا وہ ماضی میں کرتے آئے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگر دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جو مذاکرات کے ذریعے جنگ کو ختم کرنے میں مدد کر سکتا ہے تو وہ صرف قطر ہے۔
مارکو روبیو کے اس دورے نے قطر کو اس بات کا یقین دلانے کی بھی کوشش ہے کہ اسرائیلی حملوں نے اس کے کلیدی اتحادی کی طرف سے خلیجی امارات کے ساتھ سکیورٹی کے وعدوں کو نقصان پہنچایا۔
خیال رہے کہ صحافیوں سے گفتگو میں قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ ان کا ملک امریکی حمایت کو سراہتا ہے لیکن یقیناً اس حملے نے ہمارے اور امریکا کے درمیان دفاعی معاہدوں کی ضرورت کو مزید تیز کر دیا۔
یاد رہے کہ ایک ہفتے قبل اسرائیل نے دوحہ میں حماس کی اعلیٰ قیادت کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ غزہ جنگ بندی معاہدے کی امریکی تجویز پر مشاورت کر رہے تھے۔
اسرائیلی حملے میں حماس کی قیادت محفوظ رہی البتہ الخلیل الحیا کے بیٹے سمیت 6 افراد شہید ہوگئے تھے۔