نیپال میں عبوری وزیراعظم کی حلف برداری کے بعد عام انتخابات مارچ میں کرانے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
نیپال کے صدر رام چندر پوڈیل نے پارلیمنٹ تحلیل کرتے ہوئے 5 مارچ 2026 کو عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ہفتے تک جاری رہنے والی پرتشدد جھڑپوں کے بعد کیا گیا۔
صدر کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایوانِ نمائندگان کو تحلیل کر دیا گیا ہے اور نئے انتخابات کی تاریخ مقرر کر دی گئی ہے۔
اسی دوران صدر پوڈیل نے سابق چیف جسٹس سوشیلا کارکی کو ملک کی پہلی خاتون عبوری وزیراعظم مقرر کر دیا۔ ان کی تقرری 2 روزہ مذاکرات کے بعد عمل میں آئی جن میں صدر، آرمی چیف اشوک راج سگڈیل اور احتجاجی رہنماؤں نے شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیے: نیپال کی پہلی خاتون وزیراعظم کا حلف، نوجوانوں کی بغاوت کے بعد سیاسی نقشہ بدل گیا
یہ ملک گیر احتجاج اُس وقت بھڑکا جب حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کی، تاہم وزیراعظم کے پی شرما اولی کے استعفے کے بعد ہی صورتحال قدرے پرسکون ہوئی۔ نیپال پولیس کے مطابق حالیہ جھڑپوں میں اب تک 51 افراد ہلاک اور 1700 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
بھارت نے بھی نیپال کی تازہ سیاسی پیش رفت پر ردعمل دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ اقدامات امن و استحکام کو فروغ دیں گے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سوشیلا کارکی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نیپالی عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے پرعزم ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احتجاج بغاوت نیپال.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
تنزانیہ میں صدارتی انتخابات کے خلاف پُرتشدد مظاہرے، ہلاکتیں 700 تک پہنچ گئیں
تنزانیہ میں متنازع صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے شدت اختیار کر گئے، جن میں ہلاکتوں کی تعداد 700 سے تجاوز کر گئی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور امن و امان مکمل طور پر بگڑ چکا ہے۔
اپوزیشن جماعت کے ترجمان کے مطابق صرف دارالسلام میں 350 اور موانزا میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ترجمان نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار پارٹی کارکنوں نے اسپتالوں اور طبی مراکز سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر مرتب کیے ہیں۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مصدقہ معلومات کے مطابق کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے، تاہم اصل تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
بڑھتی ہوئی بدامنی کے باعث ملک بھر میں فوج تعینات کردی گئی ہے، جب کہ انٹرنیٹ سروس بند اور کرفیو نافذ ہے۔ کئی شہروں میں احتجاج تشدد میں بدل گیا، مشتعل مظاہرین نے دارالسلام ایئرپورٹ پر دھاوا بول دیا، بسوں، پیٹرول پمپس اور پولیس اسٹیشنز کو آگ لگا دی اور متعدد پولنگ مراکز تباہ کر دیے۔
بحران کی جڑ حالیہ صدارتی انتخابات ہیں جن میں صدر سامیہ سُلوحو حسن نے 96.99 فیصد ووٹ حاصل کیے، جب کہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں کو انتخابی دوڑ سے قبل ہی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں نے نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات “جمہوریت پر کھلا حملہ” اور “عوامی مینڈیٹ کی توہین” ہیں۔
تنزانیہ میں اس وقت نہ صرف سیاسی بلکہ انسانی حقوق کا بحران بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے، اور عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔