لوگوں سے مودی مودی کے نعرے لگوانا خارجہ پالیسی نہیں ہے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
کانگریس صدر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ایچ-1بی ویزا پر 100000 ڈالر سالانہ فیس عائد کی ہے، جسکا سب سے زیادہ اثر ہندوستانی آئی ٹی پیشہ وروں پر ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے نے وزیراعظم نریندر مودی کو ایک بار پھر ہدف تنقید بنایا ہے۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ موجودہ تعلقات کو لے کر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ مودی حکومت کی خارجہ پالیسی سے ہندوستانیوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ملکارجن کھڑگے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس یہ رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وزیراعظم کو یوم پیدائش پر ملے ریٹرن گفٹ نے ہندوستانیوں کو کافی مایوس کیا ہے۔ کانگریس صدر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ایچ-1بی ویزا پر 100000 ڈالر سالانہ فیس عائد کی ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر ہندوستانی آئی ٹی پیشہ وروں پر ہوا ہے، تقریباً 70 فیصد ایچ-1بی ویزا ہولڈر ہندوستانی ہیں، اس کے علاوہ 50 فیصد ٹیرف پہلے ہی عائد کیا جا چکا ہے، صرف 10 فیصد شعبوں میں ہندوستان کو 2.
ملکارجن کھڑگے کے مطابق ہندوستانی آؤٹ سورسنگ کمپنیوں کو نشانہ بنانے والے "ایچ آئی آر ای" ایکٹ کو بھی نافذ کیا گیا ہے، دوسری جانب ایران کے چابہار بندرگاہ پر دی گئی چھوٹ ہٹا لی گئی ہے، جس کے سبب ہندوستان کے اسٹریٹجک مفادات متاثر ہوں گے۔ ساتھ ہی یورپی یونین سے بھی ہندوستانی اشیاء پر 100 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ملکارجن کھڑگے نے یہ بھی کہا کہ ٹرمپ نے کئی بار دعویٰ کیا ہے کہ ان کی مداخلت کے باعث ہی ہندوستان-پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہوئی۔ انہوں نے اسے ہندوستان کی شبیہ کے لئے نقصاندہ قرار دیا۔ کانگریس صدر نے کہا کہ ہندوستانی قومی مفاد کو ہمیشہ ترجیح دی جانی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کی خارجہ پالیسی صرف اور صرف دکھاوا ہے۔ گلے ملنے، کھوکھلے نعرے اور پروگرام میں "مودی مودی" کے نعرے لگوا لینا خارجہ پالیسی نہیں ہے۔ کھڑگے کے مطابق خارجہ پالیسی کا مقصد ہندوستان کے مفادات کا تحفظ اور متوازن طریقے سے دوستی کو فروغ دینا ہونا چاہیے۔ ورنہ ہندوستان کی طویل مدتی وقار کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ملکارجن کھڑگے خارجہ پالیسی انہوں نے
پڑھیں:
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں "کلچرل کنیکٹس اور ڈپلومیٹک ڈائیلاگ" پر ورکشاپ منعقد
پروفیسر مظہر آصف نے صدارتی گفتگو میں کہا کہ ہندوستان زمانہ قدیم سے تہذیبی تکثیریت کا مرکز رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے 150ویں یوم تاسیس کے حصے کے طور پر انصاری آڈیٹوریم میں ایک انتہائی اہم پینل مباحثہ منعقد کیا۔ اس مباحثے کا عنوان "کلچرل کنیکٹ، ڈپلومیٹک ڈائیلاگ: دی انڈین وے ان دی ٹوینٹی فرسٹ سنچری" تھا۔ اس پینل میں ممتاز ماہرین نے حصہ لیا۔ پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی نے افتتاحی گفتگو کرتے ہوئے اس پر زور دیا کہ سفارت کبھی بھی اقتدار کی فیتہ شاہی گلیاروں سے نہیں نمودار ہوئی ہے بلکہ مختلف ادوار میں اخلاقیات، تہذیب اور مذہب کی بنیادوں میں پیوست فلسفیانہ تخیل سے برآمد ہوئی ہے۔ انہوں نے پُروثوق انداز میں کہا کہ آج کے منتشر زمانے میں امن کے لئے کلیدی بات سافٹ پاور، ڈائیلاگ اور جذبہ ہمدردی میں پنہاں ہے۔ فیض قدوائی نے جامعہ کی وراثت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ ایک فکر، ہندوستان کی روح کا جیتا جاگتا ترجمان ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ تعلیم صرف ذہن و دماغ کو تیز کرنے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیئے کہ اسے دلوں کو بھی منور و مستحکم کرنا چاہیئے۔ انہوں نے ہمت و جرأت، اعتقاد اور یقین کو بنیادی اقدار کے طور پر نشان زد کیا۔
سفیر ویریندر گپتا نے دنیا کے الگ الگ خطوں اور علاقوں سے خیالات و افکار کے لین دین اور انضمام کی ہندوستان کی ثروت مند تاریخ و تہذیب پر روشنی ڈالی اور کہا کہ کس طرح ہندوستانی پکوان، آرٹ، سینیما اور اقدار نے مختلف بر اعظموں میں رابطوں کو فروغ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی تہذیبی بناوٹ ویدوں سے ملی اور افغانستان، فارس، منگولیا وغیرہ سکے مختلف ان کو شامل کیا گیا ہے جس سے فعال مشترکہ وراثت کی ایجاد ہوئی۔ اجلاس کا اختتام کرتے ہوئے وی سری نواس، آئی اے ایس نے جامعہ کو ایک سو پانچ سال مکمل کرنے اور ہندوستان کی ایک اہم ترین ترقی پسند ادارے ہونے پر مبارک باد دی۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا میں پیوست اعلی اصولوں اور جذبے کو مثالی طور پر پورا کیا ہے کیونکہ یونیورسٹی بدستور نئی نسل کے طلبہ کی زندگیوں کو منور کررہی ہے۔
پروفیسر مظہر آصف نے صدارتی گفتگو میں کہا کہ ہندوستان زمانہ قدیم سے تہذیبی تکثیریت کا مرکز رہا ہے۔ آپ کسی بھی مذہب، ذیلی علاقہ و خطہ یا لسانی برادری کا نام لیں اور آپ اسے ہندوستان میں پائیں گے جو ایک ساتھ نشو و نما پارہی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستانی تہذیب و روایت جدید ایجادات نہیں ہیں بلکہ صدیوں پرانی وراثتیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پچاس سے زائد تہذیبیں جو ہندوستانی تہذیب کی ہم عصر تھیں وہ معدوم ہوگئی ہیں۔ ہندوستان ابھی بھی ترقی کررہا ہے کیوں کہ اس کی تہذیبی اخلاقیات اور اس کی تکثیری و رنگارنگی وراثت کی قوت اور مصالحت کی گہرائی اور طاقت ہے۔