کیا چینی ٹیکنالوجی آئن اسٹائن کے دماغ کے راز افشا کر پائے گی؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
دنیا کے عظیم سائنسدان اور تھیوریٹیکل فزسسٹ البرٹ آئن اسٹائن کا دماغ 1955 میں ان کی وفات کے بعد محفوظ کرلیا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے بارے میں کئی طرح کی افواہیں اور سائنسی تجسس جنم لیتا رہا ہے۔ اب ایک بار پھر یہ سوال سر اُٹھا رہا ہے کہ کیا جدید سائنس اس پراسرار دماغ کی گتھیاں سلجھا سکے گی؟
چینی سائنسدانوں نے حال ہی میں ایک ایسی انقلابی ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے جو پرانے حیاتیاتی نمونوں کے مطالعے میں مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ اس طریقۂ کار کو استعمال کرتے ہوئے ماہرین نے ایسے کینسر کے خلیوں کا تجزیہ کیا جو تقریباً ایک دہائی تک غیر موزوں حالات میں محفوظ تھے، اور حیران کن طور پر اس سے قیمتی معلومات حاصل کی جا سکیں۔
اگرچہ ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پرانے نمونوں میں کیمیائی نقصانات اور ٹوٹ پھوٹ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، لیکن چینی محققین کی تیار کردہ جدید RNA میپنگ ٹیکنالوجی Stereo-seq V2 نے امکانات کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کی بدولت یہ امید کی جا رہی ہے کہ شاید ایک دن آئن اسٹائن کے دماغ پر بھی تحقیق ممکن ہو اور ذہانت کی خلیاتی بنیادوں کا سراغ لگایا جا سکے۔
بی جی آئی-ریسرچ سے وابستہ محقق اور مقالے کے شریک مصنف لی یانگ کا کہنا ہے کہ اگر آئن اسٹائن کے دماغ کا تجزیہ کرنے کا موقع ملا تو وہ اس سے ضرور استفادہ کریں گے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ ایک کٹھن مرحلہ ہوگا کیونکہ اُس دور کی حفاظتی تکنیک زیادہ جدید نہیں تھیں اور اس سے نمونوں میں نقصان کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
یاد رہے کہ آئن اسٹائن کے دماغ کو وفات کے بعد 240 حصوں میں تقسیم کر کے خوردبینی سلائیڈز پر محفوظ کیا گیا تھا۔ ماضی میں ایسے پرانے نمونوں کا مطالعہ مشکل ثابت ہوا ہے، کیونکہ وقت کے ساتھ ان کی جینیاتی ساخت کمزور پڑ جاتی ہے۔
اس نئی تحقیق سے یہ بھی امید بندھی ہے کہ کمزور جینیاتی ساخت والے پرانے کینسر نمونوں کے تجزیے سے کینسر کے مراکز، مدافعتی ردعمل، خلیوں کی موت اور ٹیومر کی ذیلی اقسام کی نشاندہی بھی ممکن ہو سکے گی۔ یوں سائنس نہ صرف بیماریوں کے علاج میں نئے راستے تلاش کر سکتی ہے بلکہ انسانی ذہانت جیسے سربستہ راز بھی کھولنے کے قریب پہنچ سکتی ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: آئن اسٹائن کے دماغ
پڑھیں:
چین میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے کمالات: بزرگوں کی خدمت گار، نابیناؤں کی ’آنکھ‘، اور بہت کچھ!
چین میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ترقی اور اختراع کی رفتار تیز ہوتی جا رہی ہے جہاں لاکھوں نئے ماہرین، طلبہ اور شوقیہ ڈویلپرز اس انقلابی ٹیکنالوجی کا حصہ بن رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چین مصنوعی ذہانت کے میدان میں امریکا کو پچھاڑنے کے لیے کوشاں
مشرقی چین کے صوبے آنہوئی کے دارالحکومت ہفی میں منعقدہ 8ویں ورلڈ وائس ایکسپو میں ایک خوش گفتار روبوٹ ’شیاؤلی‘ نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔
یہ روبوٹ بزرگ شہریوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جو بلڈ پریشر چیک کرنے، گرنے کی صورت میں خودکار اطلاع دینے اور دوا لینے کی یاد دہانی کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بیجنگ کی سی لنک ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ نے یہ روبوٹ تیار کیا ہے جو اس وقت ملک کے درجنوں نرسنگ ہومز میں آزمائشی طور پر کام کر رہا ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ مزید اپ گریڈ کے بعد ’شیاؤلی‘ کو عام گھروں میں بھی متعارف کرایا جائے گا۔
ٹیکنیکل ڈائریکٹر سی لنک ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ ہونگ زے کے مطابق چین کے مضبوط ڈویلپر ایکو سسٹم اور کھلے پلیٹ فارمز کی بدولت اب ہم مختلف صنعتوں کے لیے ذہین ایپلی کیشنز تیزی سے اور کم لاگت میں تیار کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیے: کیا چینی ایپ ڈیپ سیک مصنوعی ذہانت کی دنیا میں انقلاب ہے؟
چین کا اے آئی انڈسٹری 900 ارب یوآن سے تجاوز کر گئیچائنا اکیڈمی آف انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشنز ٹیکنالوجی کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2024 میں چین کی مصنوعی ذہانت کی صنعت کا حجم 900 ارب یوآن (127 ارب امریکی ڈالر) سے زیادہ ہو گیا تھا جو اس حجم میں ہرسال 24 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
یہ ترقی بڑی حد تک ملک بھر میں تیزی سے پھیلتی اور متنوع ہوتی ڈویلپر کمیونٹی کی مرہون منت ہے۔
چین کے معروف اے آئی پلیٹ فارم آئی فلائی ٹیک اوپن پلیٹ فارم کے مطابق اکتوبر 2024 تک 95 لاکھ سے زائد ڈویلپر ٹیمیں اس پلیٹ فارم پر رجسٹر ہو چکی ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 23 فیصد زیادہ ہے۔
ان ٹیموں نے مجموعی طور پر 36 لاکھ سے زائد اے آئی ایپلی کیشنز تخلیق کی ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا ہم خبروں کے حوالے سے مصنوعی ذہانت پر اعتبار کرسکتے ہیں؟
آئی فلائی ٹیک کے چیئرمین لیو چنگ فینگ کے بقول پہلے 20 لاکھ ڈویلپرز تک پہنچنے میں ہمیں 11 سال لگے لیکن اب ہر سال تقریباً اتنی ہی نئی ٹیمیں شامل ہو رہی ہیں اور لاکھوں نوجوان ڈویلپرز اے آئی کو روزمرہ زندگی کے ہر پہلو میں ضم کر رہے ہیں۔
نئی نسل، خواتین اور غیر تکنیکی ماہرین کی بڑھتی شمولیتایک وقت میں یہ شعبہ چند ماہرین تک محدود تھا مگر اب اس میں طلبہ، ہوبی رکھنے والے عام شہریوں اور غیر تکنیکی پس منظر سے آنے والے افراد کی بڑی تعداد شامل ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: مصنوعی ذہانت کی دنیا میں چین امریکا کو پیچھے چھوڑنے کے قریب پہنچ گیا
خواتین ڈویلپرز اور نان پروگرامرز کی شمولیت میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
زیہو اور علی بابا کے اوپن ماڈل کمیونٹی ماڈل اسکوپ کے ایک وائٹ پیپر کے مطابق چین کے اے آئی ورکرز میں 28 سے 32 سال عمر کے افراد کا حصہ 28 فیصد ہے جبکہ 23 سے 27 سال کے افراد 20 فیصد ہیں جو اس شعبے کی نوجوان توانائی کو ظاہر کرتا ہے۔
طلبہ اور اساتذہ سے لے کر بصارت سے محروم ڈویلپرز تکگوانگ ڈونگ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے گریجویٹ طالب علم سو شیانگ بیاو نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک اے آئی ٹول تیار کیا ہے جو ویڈیو گیمز کے سب ٹائٹلز کو ریئل ٹائم میں ترجمہ کرتا ہے اور کھلاڑی کی انگریزی مہارت کے مطابق ذاتی نوعیت کا لرننگ مواد تیار کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اوپن سورس کمیونٹیز کے ذریعے اپنی مہارت بڑھاتا ہوں جہاں مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔
صوبہ آنہوئی میں 40 سے زائد یونیورسٹیوں میں 500 سے زیادہ اے آئی پروگرامز متعارف کرائے جا چکے ہیں جبکہ بیجنگ کی 38 یونیورسٹیوں میں بھی عمومی اے آئی کورسز شروع کیے گئے ہیں۔
’ٹیکنالوجی برائے بھلائی‘: بصارت سے محروم افراد کی ’آنکھیں‘بصارت سے محروم ڈویلپر کاؤ جن نے 2018 میں اے آئی پر مبنی اسکرین ریڈنگ سافٹ ویئر تیار کیا جو موبائل اور کمپیوٹر کے مواد کو آواز کے ذریعے بیان کرتا ہے۔
ان کے مطابق ہمارا سافٹ ویئر 4 لاکھ سے زائد بصارت سے محروم صارفین کو سہولت فراہم کر رہا ہے اور اب وہ تصویر کھینچتے ہیں تو فون اس کا تجزیہ کر کے خود بیان کرتا ہے کہ اس میں کیا ہے۔
کاؤ جن کی کمپنی میں اب 40 سے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں سے 70 فیصد خود بصارت سے محروم ہیں۔
مزید پڑھیں: چین کی عوامی مصنوعی ذہانت خواص کو چیلنج کر رہی ہے
انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت نے ہمیں ایک نئی آنکھ عطا کی ہے اور یہ ہمیں معاشرے میں شامل ہونے، نئے امکانات تک پہنچنے اور ’ٹیکنالوجی برائے بھلائی‘ کے خواب کو سچ کرنے میں مدد دے رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرٹیفیشل انٹیلیجنس اے آئی اے آئی آئیز چین چین میں مصنوعی ذہانت کی بڑھتی صنعت مصنوعی ذہانت