برطانیہ؛ کم سن بچیوں سے اجتماعی زیادتی گینگ کے پاکستانی سرغنہ کو سزا سنادی گئی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
برطانیہ کے ’’گرومِنگ گینگ‘‘ کے عالمی شہرت یافتہ مقدمے میں سرغنہ پاکستانی نژاد 65 سالہ محمد زاہد کو 35 سال قید کی سزا سنادی گئی۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق عدالت میں دونوں لڑکیوں کی شناخت خفیہ رکھی گئی اور انھیں ’’اے‘‘ اور ’’بی‘‘ کے ناموں سے پکارا گیا۔
یہ بچیاں اب 30 کی خواتین ہوچکی ہیں اور 20 سال قبل پیش آنے والے ان ہولناک واقعات پر عدالت پہنچی تھیں۔
گینگ سرغنہ کے ساتھ دیگر شامل جرم چھ ملزمان کو بھی مختلف عرصوں کی قید کی سزائی گئی ہے۔
یہ فیصلہ طویل عرصے تک مقدمہ چلنے کے بعد آج سامنے آیا ہے جس میں 2 نابالغ لڑکیوں کے ساتھ جنسی استحصال، زیادتی اور دیگر سنگین جرائم ثابت ہوئے تھے۔
ان ملزمان پر الزام تھا کہ انھوں نے 2001 سے 2006 کے درمیان روچڈیل، شمال مغربی انگلینڈ میں دو کمسن لڑکیوں کو جنسی غلام کی طرح رکھا اور بار بار زیادتی نشانہ بنایا
دونوں کم سن لڑکیاں معاشی طور پر نہایت کمزور اور ٹوٹ پھوٹ کے شکار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جنھیں ملزمان نے تحائف، پیسہ، خوراک اور وقتاً فوقتاً ٹھکانے فراہم کیے۔
دونوں لڑکیوں کا اعتماد جیتنے کے بعد اس گینگ نے بچیوں کو منشیات، شراب اور دیگر نشہ آور چیزوں کی لت میں لگایا اور اس کے بدلے جنسی زیادتی کرتے رہے۔
ملزمان نے نہ صرف خود متعدد بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا بلکہ انھیں دیگر ٹیکسی ڈرائیورز کے ساتھ بھی روابط رکھنے پر مجبور کیا۔
یہاں تک کہ عدالت میں دونوں لڑکیاں جنسی زیادتی کی درست تعداد تک نہیں بتاسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 5 برسوں میں درجنوں افراد کے ساتھ سیکڑوں پر بار یہ عمل کیا گیا۔
ان بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی فلیٹس، کاروں، خالی گودام اور دیگر تنہائی والے گندے اور بدبو دار مقامات پر بنایا گیا۔
دیگر ملزمان میں 50 سالہ قیصر بشیر کو 29 برس، 67 سالہ مشتاق احمد کو 27 برس، 44 سالہ محمد شہزاد کو 26 برس، 49 سالہ نعیم اکرم کو 26 برس، 41 سالہ نِثار حسین کو 19 برس، 39 سالہ روہیز خان کو 12 برس کی قید سنائی گئی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جنسی زیادتی کے ساتھ
پڑھیں:
برطانیہ میں اسائلم کے نئے قوانین متعارف، پاکستانی پناہ گزینوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
برطانوی حکومت نے ملک کے پناہ گزینی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں متعارف کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ موجودہ اسائلم نظام جو پہلے سے دباؤ کا شکار ہے، اسے مزید سخت اور مؤثر بنایا جا رہا ہے۔
حکومت کے مطابق نئے اصولوں کا مقصد غیر ضروری درخواستوں کو کم کرنا اور نظام میں شفافیت پیدا کرنا ہے۔ نئے اقدامات کے تحت اب پناہ کا درجہ مستقل نہیں رہے گا بلکہ اسے عارضی بنا دیا جائے گا۔ پناہ لینے والے افراد کو ہر ڈھائی سال بعد اپنے اسٹیٹس کی دوبارہ جانچ کرانی ہوگی تاکہ حکومت یہ طے کر سکے کہ انہیں مزید رہنے دیا جائے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری، اب تک کتنے پناہ گزین واپس جا چکے؟
اگر ان کے ملک کے حالات بہتر ہو جائیں اور اسے محفوظ قرار دے دیا جائے، تو ان کا اسٹیٹس ختم کیا جا سکتا ہے اور انہیں اپنے وطن واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ پناہ گزینوں کو مستقل رہائش دینے کے قوانین بھی سخت کیے گئے ہیں۔
پہلے پناہ حاصل کرنے والا شخص 5 سال بعد مستقل رہائش کے لیے درخواست دے سکتا تھا، لیکن نئے منصوبے کے مطابق یہ مدت بڑھا کر 20 سال تک کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس فیصلے سے مستقل طور پر برطانیہ میں بسنے کے خواہشمند پناہ گزینوں کے لیے راستہ پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو جائے گا۔
سرکاری مالی مدد، جیسے مفت رہائش اور ہفتہ وار الاونس، اب خودکار طور پر ہر پناہ گزین کو نہیں ملے گی۔ حکومت صرف ان افراد کو سہولت دے گی جنہیں واقعی ضرورت ثابت ہوگی۔ جن لوگوں کے پاس قیمتی زیورات یا مہنگی اشیا ہوں، ان کا سامان ضبط کر کے انہی پیسوں سے ان کی رہائش یا خوراک کا انتظام کیا جائے گا۔ البتہ جذباتی اہمیت رکھنے والی اشیا، جیسے شادی کی انگوٹھی، بیشتر صورتوں میں ضبط نہیں کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے: اسائلم کیسے لیا جاتا ہے، پاکستانی شہری اس کے سب سے زیادہ خواہاں کیوں؟
حکومت نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اسائیلم کیسز اور اپیلوں کے فیصلے اب تیزی سے کیے جائیں گے۔ ایک نیا نظام متعارف کروایا جائے گا جس کے تحت کمزور اور غیر مضبوط کیسز جلد نمٹا دیے جائیں گے۔ اس اقدام کا مقصد سسٹم میں موجود ہزاروں زیرِ التوا درخواستوں کو جلد نمٹانا ہے۔
ان تبدیلیوں سے بنیادی طور پر وہ لوگ متاثر ہوں گے جو پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں یا جنہوں نے پناہ لے رکھی ہے مگر ابھی مستقل رہائش حاصل نہیں کی۔ دوسری جانب وہ افراد جو اسٹوڈنٹ، ورک یا فیملی ویزا پر برطانیہ میں مقیم ہیں، یا جن کے پاس پہلے سے مستقل رہائش یا برطانوی شہریت ہے، ان پر ان قوانین کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اقدامات عوامی مفاد، ٹیکس دہندگان کے تحفظ اور امیگریشن نظام کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پالیسیوں پر تشویش اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدامات پناہ گزینوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پوپ لیو کی صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں پر تنقید، تارکین وطن سے سلوک کو غیرانسانی قرار دیدیا
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے دو سال قبل برطانیہ میں پناہ حاصل کرنے والے پاکستانی نوجوان محمد علی کا کہنا تھا کہ ئے سخت اسائیلم قوانین یقینا جو شخص اسائیلم لے چکے ہیں یا لینے کا سوچ رہے ہیں، بری طرح متاثر ہوں گے۔
علی کے مطابق، اب ہر 2 سال بعد میرا اسٹیٹس دوبارہ چیک ہوگا، اور اگر حکومت میرے ملک کو محفوظ قرار دے دے تو مجھے واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ اسائیلم بہت سی بنیادوں پر لوگ لیتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک عرصہ گزارنے کے بعد اس ماحول میں ایڈجسٹ ہو جانے، اور یہاں مستقبل کی پلاننگ کرنے کے بعد اب یہ سوچ کر میں بہت پریشان ہوں کیوں کہ میری زندگی، تعلیم اور دوست سب کچھ غیر یقینی کا شکار ہوچکے ہیں، میں یہاں بہت مشکل سے بس گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: اٹلی: کشتی کے ڈوبنے سے کم از کم 26 غیر قانونی تارکین وطن ہلاک، مزید کی تلاش جاری
انہوں نے مزید کہا، مستقل رہائش کے لیے انتظار کی مدت بھی 20 سال ہو گئی ہے، اس کا مطلب ہے کہ میں اپنے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔ سرکاری مدد اور رہائش بھی اب لازمی نہیں، اس سے روزمرہ زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔ 2 سال اتنی مشکل سے گزارے تھے، اب آکر یہاں کی عادت بھی ہو گئی تھی، اب سوچنے لگا تجا کہ 3 سال بعد پی آر بھی مل جائے گی، لیکن بدقسمتی سے اب ایسا نہیںہو سکتا۔ واپس اپنے وطن آکر بھی اب سب کچھ صفر سے شروع کرنا پڑے گا۔
ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ عرصے دراز سے رہنے والے تارکین وطن کو بھی خاصہ متاثر کرے گا اور وہ افراد جو ابھی برطانیہ کے اسائیلم کے حوالے سے سوچ۔رہے ہیں انہیں بالکل بھی نہیں سوچنا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسائلم برطانیہ پناہ گزین تارکین وطن