ریکوڈک منصوبہ: 6بین الاقوامی اداروں سے مالی معاہدہ طے پاگیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:۔ پاکستان کا بلوچستان کے تاریخی ریکوڈک منصوبے کےلئے 6بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ ساڑھے 3ارب ڈالرز کا فنانسنگ معاہدہ طے پا گیاہے۔
ذرائع کے مطابق ریکوڈک منصوبے کے لیے جن 6بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدہ طے پایا ہے ان میں یو ایس ایگزم بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، انٹرنیشنل فنانشل انسٹی ٹیوشنز، انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن اور یورپین بینک شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ ادارے آئندہ 45سے 90دنوں میں شرائط پوری کرنے کے بعد فنانسنگ کا عمل شروع کریں گے اور معاہدے کے تحت ڈونرز کو 4سے پانچ سال کا گریس پیریڈ جبکہ قرض کی واپسی 12سال میں مکمل کرنا ہوگی۔
معاہدے کے تحت فنانسنگ پر شرح سود سنگل ڈیجٹ میں رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق اگر شرائط پر عمل درآمد تیزی سے مکمل ہوا تو دو ماہ کے اندر پہلی قسط بھی جاری ہو سکتی ہے، فنانسنگ معاہدے میں بیرک گولڈ، حکومت بلوچستان، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل بطور شراکت دار شامل ہیں۔
حکام نے بتایا کہ بیرک گولڈ کا 55فیصد ایکویٹی مارجن، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کا 27.
ریکوڈک منصوبے سے پاکستان کو 53ارب ڈالرز کی آمدنی متوقع ہے، جن میں سے 11ارب ڈالر بلوچستان کےلئے فسکل ریونیو، 6ارب ڈالر صوبائی حصہ، 9ارب ڈالر بلوچستان منرل ریسورسز لمیٹڈ کی ایکویٹی، 11ارب ڈالرز وفاقی حکومت کے لیے فسکل ریونیو اور 15ارب ڈالر پی ایم پی ایل کے ایکویٹی انفلوز شامل ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بھیڑیوں کا معاہدہ امن وبقا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251005-03-6
باباالف
بیس نکاتی غزہ امن معاہدے کا پہلا مسودہ ہو یا نیتن یاہو، وٹکوف اور جیرڈ کوشنر کا ترمیم شدہ مسودہ، صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو غزہ امن منصوبے کے نام پر خطے کی جس نئے ڈھب سے منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد یہاں صرف بھیڑیوں کا راج ہوگا۔ یہ علاقہ محض ایک وجود کی ملکیت ہوگا۔ یہودی وجود کی۔ ناپاک اسرائیلی یہودی وجود کے نزدیک ہمسایہ اقوام کی زندہ رہنے کی ایک ہی ضمانت ہے۔ غلامی۔ ان کے سیاسی اظہار میں امن، امن کی گردان کے پیچھے ایک ہی معنی چھپے ہوئے ہیں۔ غلامی۔ جب مذاکرات کی میز پر اصل فریق حماس موجود نہ ہو، مسجد اقصیٰ کے کنٹرول کا ذکر نہ ہو، ہاتھ بندھے ہوں، دھمکیاں کھلی ہوں، تب اس میز پر امن کے منصوبے نہیں غلامی کی دستاویز ہی لکھی جاسکتی ہے۔
امن منصوبے میں تجویز کیا گیا ہے کہ حماس اپنے ہتھیارڈال دے، غیر مسلح ہو جائے۔ غزہ کے مستقبل میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے بجائے یہ حماس ہوگی جسے غزہ خالی کرنا ہوگا۔ ایسا کیسے ممکن ہے؟ حماس اور فلسطینی ناپاک وجود کی مزاحمت ترک کردیں، جہاد سے کنارہ کش ہوجائیں؟ ایسا کیسے ممکن ہے؟ جو قوم مزاحمت ترک کردیتی ہے وہ اپنی سانسیں دشمن کے پاس گروی رکھوا دیتی ہے۔ جو امن آزادی نہ دے، اپنی مرضی نہ دے، عزت نہ دے، فیصلوں کا اختیار نہ دے، اپنی زمین پر اپنا قبضہ اور دسترس نہ دے۔ وہ امن نہیں غلامی ہے۔ جارح طاقتوں کے لکھے ہوئے نکات مظلوموں کی تقدیر نہیں بدلتے۔ مظلوموں کے مقدر تب بدلتے ہیں جب اپنی تقدیر لکھنے کے لیے قلم اور کاغذ بھی ان کا ہو، لکھے گئے نکات بھی ان کے تجویز کردہ ہوں۔
امن منصوبے میں اہل غزہ کے لیے ایک عالمی انتظامیہ کا پیکر تراشا گیا ہے جس کا چارج صدر ٹرمپ اور دنیا کے بدترین جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ،Weapons of mass destruction کے خالق ٹونی بلیئر جیسے جھوٹے اور مسلم تباہی پسند کے پاس ہوگا۔ معاہدے میں اسے ’’عبوری انتظام‘‘ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس عبوری انتظام میں غزہ کے اصل وارث کہاں ہوں گے؟ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کا کیا ہوگا؟ فلسطین کی داخلی خود مختاری کی نمائش کہاں ہوگی؟ جب کسی قوم اور ملک کے لوگوں کے فیصلے جارح کرتے ہوں، تب غلامی عبوری نہیں، مستقل ہوتی ہے۔
معاہدے میں تجویز کردہ غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی جس میں عالمی کفن چور مالک ومختار ہوں گے کبھی امن نہیں آسکتا۔ امن تب آتا ہے جب زمین کے بیٹے زمین کے مالک ہوں، وہ خود اپنی نسلوں کے مستقبل کے فیصلے کریں، اپنی مسجدوں میں اپنے دل کے خطبے پڑھیں، اپنے کھیتوں میں اپنی مرضی کی فصل کاشت کریں۔ اپنے گھر خود تعمیر کریں۔ امن کی تصویر دکھا کر، اگر ’’پہلے ہتھیار ڈال دو‘‘ کا مطالبہ ہو، اور ٹرمپ، نیتن یاہو اور ٹونی بلیئر جیسے ظالموں اور قاتلوں کی طرف سے ہو، تو وہ ہر گز ہرگز امن نہیں ہوسکتا، امن کا فریب ہوسکتا ہے چاہے اس میں کیسے ہی مہربان الفاظ لکھے ہوں، کیسے ہی وعدے کیے گئے ہوں۔
امن منصوبے میں تعمیر نو کے جس منصوبے کا ذکر ہے وہ قبضہ پکا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جو گھر گراتے اور مسمار کرتے ہیں وہ اس کی دوبارہ تعمیر اصل مالکان کو واپسی کے لیے نہیں کرتے۔ خود مالک بننے کے لیے کرتے ہیں۔ تعمیر نو نہیں یہ قبضے کا نیا روپ اور نوآبادیاتی شکل ہے۔ جو گھر تعمیر کیے جائیں گے کیا ضمانت ہے کہ ان میں کس کی رہائش ہوگی، کس کو اندر جانے کی اجازت دی جائے گی، کس کا قبضہ مستقل اور مسلسل ہوگا؟ ظالموں کے ہاتھوں تعمیر نو کبھی اصل مالکان کے لیے نہیں ہوتی اور نہ قابض قوتوں کی واپسی کے لیے ہوتی ہے۔
غزہ کو ساحلی تفریح گاہ بنانے کا عزم ظاہرکرتا ہے کہ دنیا کے تمام ظالم ایک ہی نوع کے ہوتے ہیں مگر یہودی وجود سے کم۔ مظلوموں کے لاشوں پر تعمیر کردہ ریزورٹ، شہیدوں کے خون میں تر بتر ہوٹل اور اجڑی اور تباہ حال بستیوں کے ملبے پر کھڑی کی گئی تفریح گا ہیں، زنا، جوئے اور شراب نوشی کے اڈے۔ ان تعمیرات کو اہل غزہ کی فلاح وبہبود سے کیسے تعبیر کیا جاسکتا ہے جن کی بنیادوں میں سمندر اور اہل غزہ کا خون یکساں طور پر بہہ رہا ہوگا۔ یہ اہل غزہ کی نہیں ان سرمایہ داروں کی جنت ہوگی جن کے لیے منافع ہی سب کچھ ہے خواہ سمندر بیچ کر حاصل کیا جائے یا انسانی لہو بیچ کر۔ امن منصوبہ نہ امن ہے اور نہ ترقی، یہ فلسطینیوں کی قبروں اور ان کے بچوںکی لاشوں پر سامراجی سرمایہ داروں کی باربی کیو پارٹی کا منصوبہ ہے۔
غزہ امن منصوبے پر مسلم سربراہان نے پہلے تالیاں بجائیں اور اب اپنی عوام کے خوف سے وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ منصوبہ مسلمانوں کے خلاف یہودو نصاریٰ کا مشترکہ شکنجہ ہے لیکن ان مسلم حکمرانوں کے پاس کوئی ایسا تصور نہیں جو امت مسلمہ کے ساتھ مشترک ہو۔ بیس نکاتی منصوبہ ان حکمرانوں کے لیے آرام دہ حل ہوسکتا ہے جن کی زبانیں گنگ ہیں اور ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، امت کو ان سے کوئی امید نہیں ہے۔ امت اپنا مستقبل ان کے ہاتھ میں نہیں حماس جیسے مجاہدین کے حوصلوں میں دیکھتی ہے۔
مجاہدین جانتے ہیں کہ اگر وہ منصوبوں کے اس فریب اور الفاظ کے الجھائو میں آگئے تو یہ ناقابل معافی کفر ہوگا جس کا نتیجہ مستقل پسپائی اور ذلت کے سوا کچھ نہیں۔ وہ کل بھی میدان جنگ میں کھڑے تھے، آج بھی کھڑے ہیں اور مستقبل میں بھی کھڑے ہوں گے۔ جہاد اور اللہ کی راہ میں جان دینا ایسا ہی نشہ اور لذت ہے۔ ان کے بچے کل فخر سے کہہ سکیں گے کہ ہم ان کی اولادیں ہیں جنہوں نے اپنی زمین کا سودا کرنے کے بجائے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں، جہاد کے پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دیا، اس جہاد کے پرچم کو جو آزادی کے دروازوں پر نصب ہوتا ہے۔
امن۔۔ ٹرمپ جیسے یہود نواز، عیش کوش اور نیتن یاہو جیسے دہشت گردوں کے منصوبوں سے نہیں آسکتا۔ تباہی وبربادی لانے والے بیس نکات سے بھی جن کی سیری نہیں ہوتی اور اہل غزہ کے لیے اس منصوبے کو مزید مہلک اور جان لیوا بنانے کے لیے وہ اس میں خاموشی سے ترامیم کردیتے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو جیسے بدمعاش ہی ایسا منصوبہ ترتیب دے سکتے تھے جس میں تمام پابندیاں، جبر اور استیصال اہل غزہ اور حماس کے لیے ہو اور یہودی ناپاک وجود کے غزہ سے انخلا کی کوئی تاریخ نہ دی گئی ہو۔
امن کبھی بھیک کی طرح مانگ کر، سر جھکا کر، ظالموں کے امن منصوبے کی تائید کرکے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ امن جہاد کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے، ظالم کے جبڑوں سے چھینا جاتا ہے۔ جہاد، اتحاد اور خون سے ہی امن کی کھیتیاں سینچی جاتی ہیں تب بیس نکات ہوں یا سو نکات، سب کاغذوں پر لکھے رہ جاتے ہیں اور جذبہ جہاد سے لبریز آزادی کی جدوجہد نئی تاریخ رقم کرتی ہے۔ جہاں ظلم ہو، مظلوموں کا خون بہایا جارہا ہو، بستیاں برباد کی جارہی ہوں وہاں غلامی کے معاہدے نہیں چلتے، جہاد چلتا ہے، وقتی کامیابی اور ناکامی سے ماورا، مسلسل اور مستقل جہاد۔ امن آزادی کی قیمت پر بھی حاصل نہیں کیا جاتا۔ دشمن کے سامنے جھکنا سانس لینے کا ایک وقفہ تو ہوسکتا ہے پائیدار امن کی ضمانت نہیں ہوسکتا۔ امن جنگ کا خاتمے اور اس کے رکنے سے نہیں آتا۔ حقیقی امن تب ہی آتا ہے جب لوگ اپنی تقدیر کے خود مالک ہوں، اپنی زمین پر خود فیصلے کرنے کا اختیار رکھتے ہوں، اپنی شناخت اپنی مرضی سے طے کرتے ہوں۔ کسی معاہدے میں اگر زمین کے اصل وارث شامل نہ ہوں، لوگوں کی آزادی محدود کی جارہی ہو، ان کے حقوق غضب کیے جارہے ہوں، ان کی خودارادی کو پابند کیا جارہا ہو اور جارح قوتیں ان پر مسلط اور قابض ہوں تو وہ امن ایک دھوکا ہے، ایک پردہ اور ظلم کی نرم شکل اور تماشا۔