غزہ معاہدہ، آج صرف جنگ کا نہیں دہشت گردی و انتہا پسندی کا بھی خاتمہ ہوا، ٹرمپ کا اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
غزہ معاہدہ، آج صرف جنگ کا نہیں دہشت گردی و انتہا پسندی کا بھی خاتمہ ہوا، ٹرمپ کا اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب WhatsAppFacebookTwitter 0 13 October, 2025 سب نیوز
تل ابیب (آئی پی ایس )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ اسرائیل معاہدے پر کہا ہے کہ آج صرف جنگ کا نہیں، دہشت گردی و انتہا پسندی کا بھی خاتمہ ہوا، آج مشرقِ وسطی کے نئے دورِ امن کا آغاز ہے، عرب و اسلامی ممالک امن کے شراکت دار ہیں۔
اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ پر معاہدہ مشرق وسطی کے ایک نئے تاریخی دور کا آغاز ہے، آج 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں اور 26 کی بقایا جات کو دو سال بعد اسرائیل کے حوالے کیا گیا، یہ اسرائیل اور دنیا کے لیے ایک شاندار کامیابی ہے کہ اتنے سارے ممالک امن کے شراکت دار بن کر ایک ساتھ کام کر رہے ہیں، آنے والی نسلیں اس لمحے کو یاد رکھیں گی جب سب کچھ بدلنا شروع ہوا۔انہوں نے کہا کہ عرب ممالک اور مسلمان ممالک کا خصوصی طور پر شکر گزار ہوں، ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ امن محض ایک خواب نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے جسے ہم تعمیر کر سکتے ہیں۔تقریر کے دوران اسرائیلی اپوزیشن کے ایک رکن نے امریکی صدر کے خلاف احتجاج کیا تاہم سیکیورٹی نے اسے باہر نکال دیا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ آج صرف جنگ کا نہیں، دہشت گردی و انتہا پسندی کا بھی خاتمہ ہوا ہے، آج مشرقِ وسطی کے نئے دورِ امن کا آغاز ہے، عرب و اسلامی ممالک امن کے شراکت دار ہیں، عرب و اسلامی ممالک نے حماس پر دبا ڈال کر اہم کردار ادا کیا، مشرقِ وسطی جلد ایک شاندار اور خوشحال خطہ بننے جا رہا ہے، آج بندوقیں خاموش اور مستقبل روشن نظر آ رہا ہے، ہماری امریکی انتظامیہ نے آٹھ ماہ میں آٹھ جنگیں رکوائیں، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو امریکی تاریخ کے بہترین امریکی وزیر خارجہ بنیں گے۔
امریکی صدر نے کہا کہ سات اکتوبر کو کبھی نہیں بھولیں گے اور کبھی دوبارہ نہیں ہونے دیں گے، امریکا ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے، دو سال کا تکلیف دہ عرصہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے ختم ہو گیا، میدان جنگ میں حاصل کردہ فتوحات کو پورے مشرق وسطی کے لیے امن اور خوشحالی میں بدلا جائے گا، ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ امن محض ایک خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جسے ہم تعمیر کر سکتے ہیں، مجھے جنگیں پسند نہیں اور میں انہیں ختم کرنے میں کامیاب رہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایران کی جوہری تنصیبات پر کامیابی سے حملہ کیا، امریکی فوج کا آپریشن انتہائی جدید لڑاکا طیاروں اور ماہر امریکی فوجیوں پر مشتمل تھا، ایران کے خلاف اسرائیل کے ساتھ مشترکہ کارروائی شاندار رہی، ایران میں ایٹمی تنصیبات کا خاتمہ کر دیا گیا، ایران کے لیے دوستی اور تعاون کے دروازے کھلے ہیں، ایران دو ماہ میں ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے قریب تھا، ہم نے اہم ایرانی جوہری تنصیبات پر 13 بم گرائے، ہم نے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا۔انہوں نے کہا کہ عراق سے متعلق کہا گیا کہ داعش کو شکست دینے کے لیے چار سے پانچ سال چاہئیں لیکن حقیقت میں امریکی جنرل نے عراق میں چار ہفتوں میں داعش کو شکست دی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروطن عزیز میں مذہب کے نام پر جتھے بنانا اور عوام کو یرغمال بنانا توہین مذہب ہے، خواجہ آصف وطن عزیز میں مذہب کے نام پر جتھے بنانا اور عوام کو یرغمال بنانا توہین مذہب ہے، خواجہ آصف غزہ امن منصوبہ مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن کی جانب اہم قدم ہے: وزیراعظم چین، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بہتری میں مثبت کردار ادا کرتے رہنے کو تیار ہے،چینی وزارتِ خارجہ چین کی جانب سے ریئر ارتھ میٹلز سے متعلق اشیاء پر برآمدی کنٹرول کے حالیہ اقدامات کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں، چینی وزارت... ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، “اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے”، عباس عراقچی میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں، نو منتخب وزیر اعلیٰ کے پی
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: آج صرف جنگ کا نہیں
پڑھیں:
دہشت گردی: ابہام کا خاتمہ ضروری ہے
پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جمعے کو اہم پریس کانفرنس سے خطاب کیا اورصحافیوں کے سوالات کے جوابات دیے ہیں ۔اپنے خطاب اور صحافیوں کے سوالات میں انھوں نے پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج کے حوالے سے انتہائی اہم اور فیصلہ کن باتیں کی ہیں۔
انھوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے جسے مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی۔
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی نے جہاں غیر ملکی عناصراور سرمایہ کار فرما ہے وہاں داخلی طور پر بھی ایسے طبقے موجود ہیں جو انتہائی چالاکی اور عیاری کے ساتھ دہشت گردوںکی پشت پناہی بھی کرتے ہیں اور انھیں گلوریفائی بھی کراتے ہیں‘اس حوالے سے بڑی عیاری کے ساتھ ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے ذریعے چوں کہ چنانچہ اور اگر مگر کے ذریعے دہشت گردوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے جب کہ اپنے ملک اور اس کے سیکیورٹی اداروں کو معطون کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں دائیں بازوکی سیاسی جماعتوں خصوصاً مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے حوالے سے ہمیشہ مبہم اور غیر واضح موقف اختیار کیا اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے یہ کوئی بہت بڑا یا سنگین مسئلہ نہیں ہے۔
آج بھی مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل سیاسی گروہ ‘مذہبی طبقے ‘نام نہاد دانشور اسی راہ پر گامزن ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا بیانیہ فروغ پاتا رہا ہے۔ داخلی طور پر دہشت گردوں کی فنانشل لائف لائن کو بھی برقرار رکھنے میں مخصوص مائنڈ سیٹ جو سیاست میں داخل ہوا ‘نے اہم رول ادا کیا ہے۔
دہشت گردوں کے سرپرستوں اور ہینڈلرز نے غیر قانونی دولت اکٹھی کرنے کے لیے مجرمانہ سرگرمیوں کو سپورٹ کیا۔ یوں پاکستان کا انتظامی ڈھانچے اور سیاست میں کرپشن کا وائرس داخل ہوا جس نے پورے ملک کے نظام کو بوسیدہ کر دیا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل نہ ہونا بھی شامل ہے۔
2014 میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد سیاسی و عسکری لیڈر شپ نے ایک مشترکہ نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا لیکن آج تک اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا بلکہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے۔انھوں نے سوال اٹھایا کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہی ہے؟اگر دہشت گردوں سے مذاکرات ہی کرنا ہوتے ہیں تو پھر جنگیں کبھی نہ ہوتیں۔
دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت کے بیانیے کا جہاں تک تعلق ہے تو اس بیانیے کو بھی کئی دہائیوں سے مسلسل پھیلایا جا رہا ہے۔ آج بھی اس بیانیے کی وکالت کی جاتی ہے۔ لیکن حقائق کو دیکھا جائے تو یہ بیانیہ اپنی اہمیت برسوں پہلے کھو چکا ہے۔
پاکستان میں جو گروہ دہشت گردی کر رہا ہے اور دہشت گردوں کے ہینڈلرز کا مائنڈ سیٹ مذاکرات والا ہے ہی نہیں ‘یہ انتہائی مکارانہ اور دغا بازی پر مبنی ایک حکمت عملی ہے جس کا مقصد ایک آرگنائزڈ اسٹیٹ اور اس کی آرگنائزڈ مشینری کو مذاکرات میں الجھا کر رکھنا ہے تاکہ دہشت گردوں کو سانس لینے کا موقع ملتا رہے۔
یہ حکمت عملی کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔اس معاملے میں افغانستان کے طالبان نے بھیعیارانہ سفارتکاری کر کے ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنزکوبچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج دہشت گردوں کے سارے گروہ افغانستان کی سرزمین میں آزادانہ طور پر نقل و حرکت کر رہے ہیں اور افغانستان میں اپنے کاروبار کر رہے ہیں۔
بڑی ہی چالاکی کے ساتھ یہ تاثر گہرا کیا گیا جیسے ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان کے شہری ہیںحالانکہ اس حوالے سے بھی کئی شکوک و شبہات موجود ہیں۔ٹی ٹی پی کے پلیٹ فارم سے لڑنے والے سارے لوگ افغانستان کے باشندے ہیں جو جعلی شناختی کارڈ حاصل کر کے پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں رہتے رہے ہیں۔
ان کا پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب معاملات بہت واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے اقتدار پر قابض طالبان اور نام نہاد پاکستانی طالبان کے چہرے سے نقاب اتر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود وہ مخصوص گروہ بھی بے نقاب ہو رہا ہے جو ریاست پاکستان اور اس کے عوام کے اجتماعی مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔
یہ ایسا گروہ اور طبقہ ہے جو ریاست پاکستان کے وسائل کو استعمال کر رہا ہے۔پاکستان میں کاروبار کر کے پیسے کما رہا ہے۔سرکاری عہدے بھی لے رکھے ہیں‘ملک کا انفرااسٹرکچر بھی استعمال کر رہا ہے۔لیکن پاکستان کے عوام کے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے دو ٹوک الفاظ میں خبر دار کیا ہے کہ کسی کو بھی ریاست پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کے اقدام کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہم دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں نہ کریں تو کیا کریں جو لوگ اس کے خلاف بیانیہ بنارہے ہیں دراصل وہ ریاست کے خلاف بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں، اگر کسی کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ قراردیاجاتاہے تو اسٹیبلشمنٹ توریاست کا نام ہے اور کیا کوئی ریاست کے خلاف ہوتو وہ چل سکتاہے؟
بھارت افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کر رہا ہے جب کہ دوحہ معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ا سے اب روکنا ہوگا کیونکہ آخر کب تک اسے برداشت کیاجائے گا۔
امریکا 7.2ارب ڈالر کے ہتھیار افغانستان میں چھوڑ گیا جو دہشت گردوں کے ہاتھ لگے اور یہی اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے اپنی سیاست کو دہشت گردی پر مقدم کر دیا ہے،سیاسی مافیا کے لیے ہزاروں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اہم ہیں ،بنیادی طور پر پولیس کا کام بھی فوج کو کرنا پڑا رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے سی ٹی ڈی کی تعداد ہی 3200 رکھی ہوئی ہے تو پھر نتائج کیسے برآمد ہوں گے۔
اگر اسمگلنگ ہوتی رہے گی تو اس کے ساتھ دہشت گردی اور دھماکا خیز مواد بھی آئے گا، یہاں ہونے والی اسمگلنگ کا الزام بھی فوج پر لگا دیا جاتا ہے۔صوبے کی گورنس سے متعلق کوئی بات نہیں کی جاتی۔
کیا فوج کے جوان اپنے سینوں پر اس لیے گولیاں کھا رہے ہیں کہ ان کی سیاست چلتی رہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا، آج یہ بیانیہ کہاں سے آگیا کہ افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیجنا؟
انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی، جو خارجیوں کی سہولت کاری کرے گا وہ انجام کو پہنچے گا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ سہولت کاروں کے پاس صرف تین چوائس ہیں۔
سہولت کار خود خارجیوں کو ریاست کے حوالے کر دیں۔سہولت کار خارجیوں کے خلاف ریاست کے ساتھ مل کر لڑیں۔اگر ایسا نہیں کرنا تو سہولت کار پاک فوج کے ایکشن کے لیے تیار ہو جائیں۔ جو خارجیوں کی سہولت کاری کرے گا وہ انجام کو پہنچے گا۔
لہٰذا خارجیوں کے ناسور کو انجام تک پہنچانے کے لیے عوام ساتھ دیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ سعودی عرب سمیت دیگر ممالک نے افغانستان کو سمجھانے کی کوشش کی، افغانستان میں ہر دہشت گرد گروہ کی کوئی نہ کوئی شاخ موجود ہے۔
یہاں دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کی گئی اور معاملے کو الجھایا گیا،دہشت گردی کے 70فیصد واقعات کے پی میں ہوئے ہیں، لوگوں کو الجھایا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کا حل آپریشن نہیں ہے۔
پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی قیادت کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ملک کی مین اسٹریم سیاسی قیادت کو دو ٹوک اور واضح الفاظ میں سیاسی موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے ۔لیکن اگر کوئی ہمسایہ حدود سے تجاوز کر جائے تو اس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں سیاست کرنے والوں کو یہ حقیقت مد نظر رکھنی چاہیے کہ ان کے قول و فعل کا تضاد ‘نظریاتی کنفیوژن اور کم علمی ملک کو بہت بھاری پڑ رہی ہے۔
افغانستان سے کسی قسم کا کوئی گلہ یا شکوہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس ملک کی قیادت کی پالیسی اور ذہنیت قیام پاکستان سے لے کر اب تک تبدیل نہیں ہوئی ہے۔اس لیے اس حوالے سے پاکستانی پالیسی میں ابہام نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان کا کاروباری طبقہ ہو ‘مذہبی سیاست کرنے والے ہوں ‘مین اسٹریم سیاستدان ہوں یا اہل علم ہوں ‘ان کی پہچان پاکستان ہے ‘اگر کوئی گروہ ‘طبقہ یا شخص پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کے برعکس کام کرتا ہے تو اس سے ایسا کرنے کی آئین اور قانون اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ملکی سلامتی اور اس کا اقتدار اعلیٰ اس کی اجازت دیتا ہے۔